مسلم دنیا میں مغرب زدگان کا ایک طبقہ ایسا ہے کہ جو مغرب کی تعریف کرنے کے لیے حقیقی مغرب کو نظر انداز کرتا ہے اور ایک خود ساختہ یا تصوراتی مغرب ایجاد کرکے دکھاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی مغرب کی تعریف ممکن ہی نہیں۔ حقیقی مغرب شیطان ہے اور شیطان کی تعریف شیطان ہی کرسکتا ہے مسلمان نہیں کرسکتا۔ سوال یہ ہے کہ خود ساختہ یا تصوراتی مغرب سے ہماری مراد کیا ہے؟ اس کی ایک بہت اچھی مثال جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم کے کالم کا ایک اقتباس ہے۔ خورشید ندیم ’’مکمل تصویر‘‘ کے عنوان کے تحت اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔
’’کینیڈا میں دو واقعات ایک ساتھ رونما ہوئے۔ مکمل تصویر دیکھنے کے لیے دونوں کا ایک ساتھ تذکرہ ضروری ہے۔
ایک واقعہ تو وہ ہے جس میں ایک پاکستانی اور مسلمان خاندان ایک انتہا پسند یہودی کی دہشت گردی کا نشانہ بنا۔ یہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کے اس مرض کا اظہار ہے جسے اسلاموفوبیا کہتے ہیں۔ دوسرا واقعہ کینیڈا کے سماج کا اس حادثے پر ردِ عمل ہے۔ حکومت اور پورا سماج، بلا استثنا، مظلوم مسلمان خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے اس حادثے کو دہشت گردی کہا اور اس معاملے میں کسی مداہنت کا اظہار نہیں کیا۔ دہشت گرد کو تنہا کر دیا گیا۔ سماجی اعتبار سے، وہ اب لاوارث ہے۔
ان دونوں واقعات کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں تو کینیڈا کے معاشرے کی ایک پوری تصویر ابھرتی ہے۔ میں اگر لفظوں میں بیان کروں تو وہ کچھ اس طر ح ہو گی: ’’کینیڈا میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو اسلاموفوبیا کے مریض ہیں اور ان کی وجہ سے مسلمان عدمِ تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں تاہم کینیڈا کا معاشرہ بحیثیت مجموعی ایسے عناصر سے اظہارِ برات کر رہا ہے اور مذہبی امتیاز کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اگر اس بیانیے میں ’’کینیڈا‘‘ کو ’’مغرب‘‘ سے بدل دیا جائے تو بھی یہ مقدمہ اپنی جگہ باقی رہتا ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 12 جون 2021ء)
مغرب کوئی قصہ کہانی نہیں ہے جس کے ایک سے زیادہ ’’ورژن‘‘ موجود ہوں۔ مغرب ایک تاریخی حقیقت ہے۔ مغرب کیا ہے اور کیا نہیں ہے اس کا ریکارڈ تاریخ کے صفحات پر موجود ہے۔ خورشید ندیم نے اپنے کالم میں کہیں تاریخی ریکارڈ کا حوالہ نہیں دیا۔ انہوں نے تاریخی حوالوں کے بغیر ہی مغرب کی مکمل تصویر بناڈالی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایک مغرب وہ ہے جو اسلامو فوبیا میں مبتلا ہے اور دوسرا مغرب وہ ہے جو اسلامو فوبیا کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔ خورشید ندیم کے نزدیک یہی مغرب کی مکمل تصویر ہے۔ حالاں کہ مغرب کی مکمل تصویر کچھ اور ہی ہے۔ کیا ہے آئیے دیکھتے ہیں۔
جدید مغرب کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ ’’عیسائی مغرب‘‘ ہے اور دوسرا حصہ ’’سیکولر اور لبرل مغرب‘‘ ہے۔ عیسائی مغرب کی ایک ہزار سال سے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں یہ رائے ہے کہ اسلام معاذ اللہ ایک جھوٹا مذہب ہے اور رسول اکرمؐ معاذ اللہ ایک جھوٹے نبی ہیں۔ پوپ اربن دوم نے 1095 میں کی جانی والی تقریر میں یہی کہا۔ اس سے ملتی جلتی بات 2009ء میں ایک اور پوپ یعنی پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے دہرائی۔ انہوں نے چودھویں صدی کے بازنطینی بادشاہ مینوئل دوم کے فقرے کا ورد کیا۔ مینوئل دوم نے کہا تھا کہ اسلام کیا نیا لایا ہے اور یہ کہ رسول اکرمؐ نے معاذ اللہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا۔ عیسائی مغرب جب یہ کہتا ہے کہ اسلام کیا نیا لایا ہے تو وہ دراصل عیسائی دنیا کے اس الزام کو دہراتا ہے کہ اسلام کے پاس نیا کچھ بھی نہیں ہے۔ رسول اللہ نے کچھ یہودیت سے لے لیا اور کچھ عیسائیت سے لے لیا اور ان کو ملا کر معاذ اللہ اسلام گھڑ لیا۔ یہ عیسائی مغرب کے دو اہم ترین تاریخی حوالے ہیں۔ ان حوالوں کی اہمیت یہ ہے کہ عیسائیت بحیثیت ایک مذہب کے آج بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کو معاذ اللہ جھوٹا مذہب اور جھوٹا نبی سمجھتی ہے۔ اس نے کبھی سرکاری طور پر اس بات کا اعلان نہیں کیا کہ وہ اب اسلام اور پیغمبر اسلام کو سچا مذہب اور سچا نبی ماننے لگی ہے۔ یہ ہے اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں عیسائی مغرب کی حقیقی تصویر۔ مغرب کے اس تصور اسلام اور تصور محمدؐ سے وہ صلیبی جنگیں پیدا ہوئیں جو دو سو سال جاری رہیں کہ ان صلیبی جنگوں کا اعلان شدہ مقصد اسلام اور مسلمانوں کو فنا کردینا تھا۔ پوپ اربن دوم نے اپنی تقریر میں یہی کہا تھا۔ آخر مغرب کی مکمل تصویر بنانے والے خورشید ندیم کو مغرب کی تصویر کا یہ حصہ کیوں یاد نہیں۔
مغرب کی تصویر کا ایک بڑا حصہ یہ ہے کہ جدید مغرب اصل میں سیکولر مغرب ہے۔ وہ خدا کا منکر ہے۔ رسالت کے ادارے کا منکر ہے۔ وحی کا منکر ہے۔ آخرت کا منکر ہے۔ دوزخ و جنت کے وجود کا منکر ہے۔ فرشتوں کے وجود کا منکر ہے۔ معروضی اخلاق یا Objective Morality کا منکر ہے۔ اس مغرب کے لیے کوئی بھی مذہب بالخصوص اسلام قابل قبول ہی نہیں۔ اس مغرب نے مذہب کو ریاست اور سیاست سے اپنے ہاں بھی بے دخل کردیا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ مسلم دنیا کی ریاست اور سیاست میں بھی اسلام کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ چناں چہ یہ مغرب مسلم دنیا میں سیکولر اور لبرل قیادتوں اور سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کرتا ہے اور اسلامی قیادت اور اسلامی جماعتوں کے خلاف سازش کرتا ہے۔ یہ مغرب الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی انتخابی کامیابی کو سبوتاژ کردیتا ہے۔ یہ مغرب ترکی میں نجم الدین اربکان کی حکومت کو ایک سال اسے زیادہ نہیں چلنے دیتا۔ یہ مغرب حماس کی جمہوری اور انتخابی کامیابی کو کامیابی تسلیم نہیں کرتا۔ یہ مغرب صدر مرسی کی حکومت کو فوج کے ذریعے منہدم کرادیتا ہے اور اسے فوجی بغاوت کا نام تک نہیں دیتا کہ کہیں جنرل سیسی کے مصر پر اقتصادی پابندیاں نہ لگانی پڑجائیں۔ یہ مغرب نوآبادیاتی دور ایجاد کرتا ہے، کم و بیش تمام مسلم ممالک پر قبضہ کرتا ہے۔ ان کے وسائل لوٹتا ہے، ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی تصنیف ’’دی انارکی‘‘ میں لکھا ہے کہ انگریزوں کی آمریت سے پہلے مغل ہندوستان عالمی GDP یا عالمی پیداوار کا 25 فی صد پیدا کرتا تھا۔ لیکن جب انگریز برصغیر کو چھوڑ کر گئے تو برصغیر عالمی پیداوار کا صرف ساڑھے 4 فی صد پیدا کررہا تھا۔ بھارت کی ممتاز محقق اُتسا پٹنائک کی تحقیق کے مطابق انگریز صرف برصغیر سے 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے۔ سیکولر مغرب وہ مغرب ہے جس نے عہد جدید میں گوانتا ناموبے اور ابوغرائب جیل کے عقوبت خانے ایجاد کیے۔ سیکولر مغرب وہ مغرب ہے جس نے افغانستان اور عراق کے خلاف جارحیت ’’ایجاد‘‘ کیں اور 19 سال میں 14 لاکھ مسلمانوں کو مار ڈالا۔ سیکولر مغرب وہ مغرب ہے جس نے صدام حسین کے عراق پر اقتصادی پابندیاں لگائیں جس سے دوائوں اور غذا کی قلت ہوگئی اور اس قلت سے 5 لاکھ بچوں سمیت 10 لاکھ لوگ مارے گئے۔ امریکا کی وزیر خارجہ سے بی بی سی نے پوچھا کہ ان ہلاکتوں کے بارے میں آپ کیا کہتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا یہ ہلاکت ہمارے لیے قابل قبول ہیں اور ان میں ہم ’’Worth‘‘ محسوس کرتے ہیں۔ آخر خورشید ندیم کو جدید اور سیکولر مغرب کی مکمل تصویر بناتے ہوئے مغرب کی تصویر کا اتنا بڑا حصہ کیوں یاد نہیں آتا؟۔
جدید مغرب کے امام امریکا نے کسی ٹھوس جواز اور شہادت کے بغیر افغانستان پر حملہ کیا تو اسے ’’کروسیڈ‘‘ یا صلیبی جنگ قرار دیا۔ اس پر اعتراض ہوا تو کہہ دیا گیا کہ صدر بش کی زبان پھسل گئی۔ سگمنڈ فرائیڈ نے زبان پھسلنے پر ایک پورا مضمون لکھ مارا ہے اور اس مضمون میں اس نے ثابت کیا ہے کہ زبان پھسلتی ہے تو اس کے نفسیاتی اور جذبات محرکات ہوتے ہیں۔ لیکن صدر بش کے بعد اٹلی کے وزیراعظم سلویو برلسکونی نے اسلام اور مسلمانوں پر اس سے بھی بڑا حملہ کیا۔ انہوں نے فرمایا مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ مسلم دنیا نیند میں چلنے والوں کی دنیا ہے۔ چناں چہ کسی نے اس بیان کا نوٹس تک نہیں لیا۔ اس کے بعد مغرب سے اسلام پر ایک اور بڑا حملہ ہوا۔ جارج بش کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عیسائیت اور اسلام کے خدا کا موازنہ کرکے عیسائیت کے خدا کو برتر ثابت کردیا۔ انہوں نے فرمایا عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے کیوں کہ اسلام کا خدا اپنی برتری کے اظہار سے مسلمانوں سے شہادت کی سورت میں قربانی طلب کرتا ہے جب کہ عیسائیت کے خدا نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنے بیٹے یعنی سیدنا عیسیٰؑ کی قربانی دے دی۔ اس واقعے کے چند روز بعد بی بی سی ورلڈ سے یورپ میں ناٹو کی فورسز کے سابق کمانڈر جنرل کلارک کا انٹرویو نشر ہوا۔ انہوں نے صاف کہا کہ ہم نائن الیون کے بعد اسلام کو Define کرنے نکلے ہیں۔ یعنی دہشت گردی کے خلاف امریکا کی نام نہاد جنگ دراصل اسلام کو Define کرنے کی جنگ تھی۔ خورشید ندیم مغرب کی مکمل تصویر بناتے ہیں تو وہ مغرب کے مذکورہ بالا جرائم کو کیوں بھول جاتے ہیں؟۔
مغرب کا ایک اہم حصہ مستشرقین ہیں، ایڈورڈ سعید نے اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’اورینٹل ازم‘‘ میں لکھا ہے کہ مغرب 7 ویں صدی سے اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کو مسخ کررہا ہے۔
سعید نے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمان ’’توحید پرست‘‘ ہیں مگر مغرب کے اہل علم مسلمانوں کو ’’Pagan‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی ایسے لوگ جو ایک سے زیادہ خدائوں کو مانتے ہیں۔ ایڈورڈ سعید نے لکھا ہے کہ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کی مسخ تصویر ہی کو نوآبادیاتی دور کی بنیاد بنایا۔ ایڈورڈ سعید کے بقول مغرب نے مسلمانوں کو روحانیت پرست کے بجائے ’’جسم پرست‘‘ باور کرایا۔ مغرب کے اہل علم نے مسلمانوں کو ’’جنس زدہ‘‘ ثابت کیا۔ حرم چند مسلم بادشاہوں کا معاملہ تھا مگر مغرب نے تاثر دیا کہ ہر مسلمان کے گھر میں ایک حرم ہوتا ہے۔ ایڈورڈ سعید کے بقول مغرب نے عربوں میں دو عیب تلاش کیے۔ ایک یہ کہ وہ مسلمان ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ عرب ہیں۔ ایڈورڈ سعید پس منظر کے اعتبار سے عیسائی تھا مگر اس کی کتاب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جرائم کے تذکروں سے بھری ہوئی ہے۔ کانٹ عہدِ جدید میں مغرب کا سب سے بڑا فلسفی ہے۔ ایک مضمون میں اس نے رسول اکرمؐ کو معاذ اللہ پاگل قرار دیا ہے۔ مغرب کے ایک اور مشہور فلسفی لائبینز نے 1697 میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ خدا ترکوں کے خلاف جرمنوں کو معجزے کیوں عطا کرتا ہے وہ فرانسیسیوں کو اپنے معجزوں سے نقصان کیوں نہیں پہنچاتا۔ اس سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے لائبینز نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترک ’’احمق‘‘ ہوتے ہیں اور فرانسیسی ذہین ہوتے ہیں اور خدا ذہین اقوام کو پسند کرتا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ خورشید ندیم مغرب کی مکمل تصویر بناتے ہیں تو وہ مذکورہ بالا حقائق کو کیوں فراموش کررہے ہیں؟
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو 86 فی صد امریکی اس حملے کے حق میں تھے۔ امریکا نے عراق پر حملہ کیا تو 60 فی صد سے زیادہ امریکی عراق پر امریکی حملے کی حمایت کررہے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کے عوام کی اکثریت مسلمانوں کے بارے میں کس طرح سوچتی رہی ہے۔ البتہ مغرب کے عوام کا ایک چھوٹا یا قصہ اسلام اور مسلمانوں پر حملے کی مذمت کرتا ہے۔ لیکن تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ایسے لوگوں کا مغرب کی پالیسی سازی پر رتی برابر بھی اثر نہیں ہے۔ مغرب کی پالیسی جو لوگ بناتے ہیں وہ اسلام دشمن ہیں۔ انہیں مسلمانوں سے نفرت ہے۔