شاعروں کی شاعری کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں لیکن غیر شاعروں کی شاعری کا علم کم لوگوں کو ہے۔ کئی سال پہلے ہمیں ایک ایسی شعری نشست کی صدارت کا موقع ملا جو ایف ایم ریڈیو کے شاعروں کے لیے برپا کی گئی تھی۔ ہمارے لیے ایف ایم ریڈیو کے شاعروں کا تصور حیران کن اور سنسنی خیز تھا۔ ہماری مشکل صرف یہ نہیں تھی کہ ہمیں ایف ایم ریڈیو کے لیے شاعری کرنے والے نوجوانوں کی شاعری سننی تھی بلکہ ہماری مشکل یہ بھی تھی کہ ہمیں ان کی شاعری پر رائے بھی دینی تھی۔ نشست میں دس بارہ نوجوانوں نے اپنی تخلیقات پیش کیں۔ ہمارے اندیشے کے عین مطابق ان میں سے اکثر لوگ شاعر نہیں تھے۔ یعنی انہیں یہ گمان لاحق تھا کہ وہ شاعر ہیں مگر ان کی تخلیقات شاعری کے معیار کے مطابق نہ تھیں۔ صرف ایک لڑکی نے ایک اچھی غزل سنائی اور ایک لڑکے نے ایک ایسی غزل پیش کی جس کے تین چار شعر بحر اور وزن میں تھے۔ نشست ختم ہوئی تو ہماری مشکل شروع ہوگئی۔ کسی شاعر سے یہ کہنا کہ تم شاعر نہیں ہو دنیا کا مشکل ترین کام ہے اور اس وقت ہمارے سامنے ایک دو نہیں دس بارہ شاعر بیٹھے تھے۔ ہم نے ان سے عرض کیا کہ ایک ایسے زمانے میں جب لوگ گلوکار، اداکار اور کھلاڑی بننا چاہتے ہیں آپ لوگ شعر وادب کی طرف متوجہ ہیں۔ یہ آپ کے مہذب اور علم دوست ہونے کی دلیل ہے اور اس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔ مگر شاعری ایک فن ہے اور اس کے بعض تقاضے ایسے ہیں جنہیں پورا کیے بغیر کوئی شخص شاعر نہیں کہلاسکتا۔ آپ لوگوں کو چونکہ شاعری کا بے پناہ شوق ہے اس لیے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر آپ لوگ ایک دو سال محنت کریں تو اچھے شاعر بن سکتے ہیں مگر فی الحال آپ کی تخلیقات میں شاعری ذرا کم کم ہے۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ شاعری کے مطالعے کی طرف آئیں اور اچھے شاعروں کے تین، چار سو شعر یاد کرلیں، اس سے بحر اور وزن کا ایک شعور آپ کے اندر ازخود پیدا ہوجائے گا۔ البتہ اس شعور کے پیدا ہونے تک آپ فارغ نہ بیٹھیں۔ آپ کہانی لکھیں، مضمون تحریر کریں۔ کالم نگاری کی طرف آئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری کے مقابلے پر نثر لکھنا آسان ہے۔ تاہم جب آپ سمجھیں کہ اب آپ نے غزل اور نظم کے بنیادی تکنیکی امور کو سمجھ لیا ہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر شاعری شروع کردیں۔ ہماری قوم کو ’’اچھے شاعروں‘‘ کی سخت ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے ایف ایم ریڈیو کے شاعروں نے ہماری معروضات کو توجہ سے سنا اور ہمارے مشوروں پر عمل کا وعدہ کیا۔
نشست تو ختم ہوگئی مگر ہم کئی دن تک اس سوال پر غور کرتے رہے کہ آخر ان نوجوانوں کو یہ خوش فہمی کیوں لاحق ہوئی کہ وہ شاعر ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب صدیوں پرانا ہے۔ نوجوانی میں محبت کا تجربہ عام ہوتا ہے اور محبت کے محسوس کرنے اور اسے زبان دینے کے لیے شاعری سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہوتا چنانچہ نوجوان فطری طور پر شاعری کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ شاعری پڑھتے یا سنتے ہیں تو انہیں رفتہ رفتہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاعر اور ان کے تجربے میں کوئی خاص فرق نہیں۔ حالانکہ شاعر ایک ایسا محبت کرنے والا ہے جو محبت کے اظہار پر قادر ہوتا ہے اور عاشق ایک ایسا شاعر ہوتا ہے جو اپنے تجربے کو اظہار کے سانچے میں ڈھالنے پر قادر نہیں ہوتا۔ لیکن نوجوان اس اہم فرق سے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ تجربے کے اشتراک سے دھوکا کھا جاتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ بھی شاعروں کی طرح شاعر ہوگئے ہیں۔ یہ تقریباً ایک عالمگیر حقیقت ہے مگر ہماری تہذیب میں چونکہ شاعری کا چرچا زیادہ ہے اس لیے ہمارے یہاں یہ مسئلہ زیادہ بڑے پیمانے پر موجود ہے۔
نوجوانی کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس عمر میں جذبات و احساسات کی فراوانی ہوتی ہے شاعری ایک اعتبار سے جذبات و احساسات کا بیان ہے چنانچہ نوجوان شاعری سے جتنا متاثر ہوتے ہیں کسی اور عمر کے لوگ شاعری سے اتنا اثر قبول نہیں کرتے۔ لیکن اہم بات صرف شاعری سے متاثر ہونا نہیں ہے اہم بات یہ ہے کہ جذبات واحساسات کی فراوانی شاعری کو نوجوانوں کے لیے آئنہ بنا دیتی ہے اس آئنے میں نوجوان اپنا عکس دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آئنہ اور وہ ایک ہیں۔
نوجوانی میں محبت کا تجربہ اور جذبات واحساسات کی فراوانی سے ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ نوجوانوں کو بعض الفاظ انتہائی شاعرا نہ محسوس ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً عشق، محبت، دل، لب ورخسار، ہوا، بادل، پھول، برسات، دریا، سمندر، چاند، یادیں، وصال، فراق، تبسم، آہیں وغیرہ۔ چنانچہ نوجوان سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ان الفاظ کے ذریعہ زبان کا ایک سانچہ بنا لیں تو وہ بھی شاعر بن جائیں گے۔ اس خیال کے تحت کوئی غزل لکھنے لگتا ہے کوئی نظم کہنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی نظم خارجی سانچے میں سو فیصد نشر لکھنے پر مائل ہوجاتا ہے اورسمجھتا ہے کہ وہ شاعری کر رہا ہے۔ ایف ایم ریڈیو کے شاعروں کی شاعری میں یہ بات تقریباً مشترک تھی کہ ان تمام نے شاعرانہ سمجھے جانے والے الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا ہوا تھا۔
ایک زمانہ تھا کہ نوجوان شاعری پڑھ یا سن کر موسیقی کی طرف مائل ہوتے تھے اس لیے کہ شاعری میں موسیقی خلقی طور پر موجود ہوتی ہے لیکن ہمارے زمانے کا مسئلہ یہ ہے کہ اب موسیقی کا سیلاب آگیا ہے اور نوجوان موسیقی کے سیلاب میں غرق ہونے کی وجہ سے شاعری کی طرف مائل ہوتے ہیں یہاں تک کہ موسیقی کا گہرا اثر انہیں اس خوش فہمی میں مبتلا کردیتا ہے کہ ان کے اندر ایک شاعر چھپا ہوا ہے جسے سامنے آنا چاہیے۔ چونکہ معاشرے میں شاعری کے معیار کا شعور موجود نہیں اس لیے اخبارات و رسائل میں غیر شاعرانہ شاعری کے نمونے تواتر سے دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایف ایم ریڈیو چونکہ ’’عوامیت‘‘ میں اخبارات اور رسائل سے بھی آگے چلے گئے ہیں چنانچہ ان سے غیر شاعرانہ شاعری زیادہ تو اتر کے ساتھ نشر ہوتی رہتی ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہمارے معاشرے میں شعر وادب کے مطالعہ کا رحجان عام تھا اور کچھ نہیں تو شاعری کا ادارہ نوجوانوں میں شاعری کا اچھا ذوق پیدا کر دیتا تھا۔ چنانچہ اس زمانے میں کم از کم تکنیکی اعتبار سے ’’غیر شاعرانہ شاعری‘‘ کا تجربہ موجود نہ تھا لیکن مطالعہ کے رحجان میں کمی اور مشاعرے کے ادارے کے زوال نے شاعری کے شعور کو کمیاب بنا دیا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ہمارے نوجوان شاعری کے تاثر کو شاعری نہ سمجھتے۔ اس کے باوجود معاشرے میں ایسے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں موجودگی ایک تہذیبی واقعہ اور شاعرانہ بات ہے جو کھلاڑی اور اداکار بننے کے بجائے شاعر بننا چاہتے ہیں۔