وزیراعظم عمران خان نے امریکی ٹی وی کے پروگرام ایگزی روس آن ایچ بی او کو انٹرویو دیتے ہوئے کئی اہم موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اپنی اصل میں دفاعی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کا پڑوسی آپ سے سات گنا بڑا ہو تو آپ پریشان تو ہوں گے انہوں نے کہا کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہیں مگر ہم نے جب سے ایٹم بم بنایا ہے بھارت کے ساتھ ہماری کوئی جنگ نہیں ہوئی انہوں نے کہا کہ اگر مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد دونوں ہمسائے مہذب ملکوں کی طرح رہنے لگیں گے۔ عمران خان کی اس گفتگو کا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان بھارت تعلقات صرف مسئلہ کشمیر کی وجہ سے خراب ہیں مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا لیکن یہ ایک بہت سطحی اور سرسری خیال ہے۔ پاک بھارت تعلقات دو ملکوں کے تعلقات نہیں ہیں یہ دو مذاہب دو تہذیبوں دو تاریخوں اور دو قوموں کے تعلقات ہیں چنانچہ جب مسئلہ کشمیر پیدا نہیں ہوا تھا تب بھی دونوں قوموں کے تعلقات خراب تھے خراب نہ ہوتے تو برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان کے قیام کا مطالبہ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ 1930ء کی دہائی میں نہ مسئلہ کشمیر موجود تھا، نہ قیام پاکستان کا مطالبہ موجود تھا مگر کانگریس کے رہنما موہن داس کرم چند گاندھی اردو اور فارسی کو پس منظر میں دھکیل رہے تھے اور ہندی کو آگے بڑھا رہے تھے اس لیے کہ ان کا خیال یہ تھا کہ اردو اور فارسی مسلمانوں کی زبانیں ہیں جبکہ ہندی ہندوئوں کی زبان ہے اس عرصے میں انتہا پسند ہندو شدھی کی تحریک برپا کیے ہوئے تھے جس کے تحت مسلمانوں کو جبراً ہندو بنایا جارہا تھا یہاں تک کہ مولانا محمد علی جوہر نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے گاندھی کو مخاطب کیا اور کہا کہ ہندو شدھی کی تحریک کے تحت مسلمانوں کو جبراً ہندو بنارہے ہیں مگر آپ ایسے ہندوئوں کے خلاف نہ کچھ کہتے ہیں نہ کچھ کرتے ہیں۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو مسئلہ کشمیر کہیں موجود نہ تھا۔ البتہ دو مذاہب، دو تہذیبیں، دو تاریخیں اور دو اقوام ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں چنانچہ مسئلہ کشمیر حل ہو بھی جائے تو بھی پاکستان کو ایٹم بموں کی ضرورت رہے گی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں کا بہت کچھ بھارت مرکز یا india centric ہے پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کے خوف سے پاکستان کو امریکا کی باج گزار ریاست بنایا۔ بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا تو پاکستان کے حکمرانوں کو ایٹم بم بنانے کا خیال آیا۔ بھارت نے میزائل بنائے تو ہم نے میزائل پروگرام شروع کیا۔ عمران خان نے کہہ دیا کہ اگر مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن انہوں نے اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد بھی اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوگا۔ اس کی دو وجوہ ہیں ایک یہ کہ بھارت کا دفاع پاکستان مرکز یا pakistan centric نہیں ہے بلکہ چین مرکز یا china centric ہے بھارت کا خواب چین کے مقابلے کی طاقت بن کر ابھرنا ہے امریکا اور یورپ بھی اس سلسلے میں بھارت کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں ظاہر ہے کہ بھارت چین کے مقابلے کی طاقت ایٹمی ہتھیاروں کے بغیر تو نہیں بن سکتا۔ چنانچہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد بھی اپنے ایٹمی ہتھیار تلف نہیں کرے گا اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت ایک بڑی عالمی طاقت بننا چاہتا ہے۔ اس کا خواب ہے کہ وہ چھٹی عالمی طاقت بن کر ابھرے ایسا ہوگا یا نہیں یہ تو ابھی دیکھنا باقی ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر بھارت چھٹی عالمی طاقت بننا چاہتا ہے تو اس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا ہونا ناگزیر ہے اس لیے کہ تمام پانچ بڑی طاقتیں یعنی امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس ایٹمی طاقتیں ہیں چنانچہ بھارت چھٹی بڑی طاقت بنے گا تو وہ اپنے ایٹمی دفاع کے لیے امریکا، روس یا برطانیہ کا محتاج تو نہیں بننا چاہے گا مطلب یہ کہ بھارت چھٹی بڑی طاقت بنا تو ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ بنے گا بھارت ایٹمی طاقت رہے گا تو پاکستان کیسے ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار ہوجائے گا کیا مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد بھارت پاکستان پر اتنا مہربان ہوجائے گا کہ اسے ایٹمی بلیک میل کا نشانہ نہیں بنائے گا ایسا سوچنا بھی حماقت ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بھارت پاکستان کا واحد دشمن نہیں ہے امریکا پاکستان کا دشمن ہے اور وہ ایٹمی صلاحیت کا حامل ہے، برطانیہ اور فرانس اسلاموفوبیا میں مبتلا ہیں اور وہ بھی کسی وقت پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اسرائیل پاکستان کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے اور وہ کئی بار بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر حملے کی کوشش کرچکا ہے چنانچہ مستقبل میں پاکستان کو اسرائیل سے بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تب بھی پاکستان کو ایٹمی پروگرام، ایٹمی ہتھیاروں اور دور مار میزائلوں کی ضرورت رہے گی ورنہ وہ کسی بھی ایٹمی ملک کی ایٹمی بلیک میلنگ کا شکار ہوسکتا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان عالم اسلام کا اہم ترین ملک اور اسلامی دنیا کا قائد ہے اور ایک بڑی طاقت بننا اس کا مقدر ہے چنانچہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت پوری امت مسلمہ کی صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کو مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق نہیں کیا جاسکتا اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے عمران خان کا تجزیہ بہت سرسری اور سطی ہے یہ تجزیہ اس قابل ہے کہ اسے جلد از جلد تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جائے۔
عمران خان نے اپنے انٹرویو میں افغانستان اور طالبان کے حوالے سے بھی گفتگو کی ہے انہوں نے کہا کہ وہ افغانستان سے امریکا کے انخلا پر خوش ہیں کیونکہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن ہی نہیں تھا انہوں نے کہا کہ افغانستان کے سیاسی حل سے مراد ایک ایسی حکومت ہے جس میں طالبان اور دوسرے فریق شامل ہوں یہ ایک طرح کی قومی حکومت ہو میرے نزدیک مسئلے کا واحد حل یہی ہے عمران خان نے کہا کہ اگر طالبان افغانستان میں مکمل فتح کے لیے سرگرم ہوئے تو بہت خون خرابہ ہوگا عمران خان کا یہ تجزیہ بھی سرسری اور سطی ہے۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد جب افغانستان پر جارحیت مسلط کی تو انہوں نے طالبان کو کسی قومی حکومت کا حصہ بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ 19 سال تک طالبان کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے کے لیے کام کرتے رہے۔ امریکا طالبان کو ہرا نہیں سکا تو وہ ان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوا طاقت کے کھیل میں یہی ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ اب جبکہ طالبان نے امریکا کو شکست فاش دے دی ہے اور وہ پورے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں تو اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ جیسے امریکی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر نام نہاد قومی حکومت کیوں بنائیں۔ عمران خان کا دل اتنا ہی بڑا ہے تو وہ پاکستان میں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر قومی حکومت بنائیں لیکن عمران خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری تو کرپٹ ہیں ان کے ساتھ کیونکر بیٹھا جاسکتا ہے کرپشن واقعتا بڑی گھنائونی چیز ہے مگر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ امریکی ایجنٹ ہیں امریکی ایجنٹ ہونا کرپٹ ہونے سے بھی ہزار گنا بدتر بات ہے تو پھر عمران خان طالبان کو امریکی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینے کا درس کیوں کررہے ہیں۔ عمران خان نے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر قومی حکومت قائم کرلی ہوتی اور پھر طالبان کو قومی حکومت کا مشورہ دیا ہوتا تو پھر وہ یہ مطالبہ کرتے ہوئے اچھے لگتے۔ عمران خان کی مذکورہ بالا گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں افغانستان میں طالبان کے غلبے سے ہراساں ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ طالبان افغانستان پر غالب آگئے تو وہ پھر امارت اسلامیہ کے تجربے کو دہرائیں گے اور یہ تجربہ پھر پاکستان میں بھی اسلام کے غلبے کے جذبات کو ہوا دے گا پاکستان کے حکمرانوں کو دوسرا خوف یہ ہے کہ طالبان پورے افغانستان کے مالک بن گئے تو پھر ان کی گردن مروڑنا ممکن نہیں رہے گا۔
عمران خان کے انٹرویو کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے انٹرویو میں صاف کہہ دیا کہ پاکستان امریکا کو پاکستان میں فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا تاریخ کے ریکارڈ پر یہ بات موجود ہے کہ جنرل ایوب نے امریکا کو خفیہ فوجی اڈہ فراہم کیا تھا جنرل پرویز مشرف نے تو پاکستان ہی امریکا کے حوالے کردیا تھا لیکن عمران خان نے پوری جرأت سے امریکا کو NO کہہ دیا ہے غالباً اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے امریکا کو فوجی اڈہ دیا تو چین کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں اور چین کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوگئے تو سی پیک سمیت بہت کچھ دائو پر لگ جائے گا۔ دیکھیے پاکستان کے NO کے مضمرات کب سامنے آتے ہیں؟۔