پاکستان کے سیکولر اور لبرل حلقوں میں برصغیر کی مسلم ریاست اور مسلم معاشرے کی نااہلیوں کا ماتم عام ہے۔ حسن نثار اور ان جیسے لوگ کہتے ہیں کہ جب مغرب اوکسفرڈ یونیورسٹی تعمیر کررہا تھا تو برصغیر کی مسلم ریاست تاج محل بنارہی تھی۔ جب مغرب سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہا تھا برصغیر کی مسلم ریاست اور مسلم معاشرہ سویا پڑا تھا۔ جب یورپ صنعتی انقلاب برپا کررہا تھا برصغیر کی ریاست اور معاشرہ زرعی ماحول میں سانس لے رہا تھا۔ جب مغرب ستاروں پر کمند ڈال رہا تھا برصغیر کے لوگ کھانے ’’ایجاد‘‘ کررہے تھے۔ ان باتوں سے ثابت کیا جاتا ہے کہ برصغیر کی مسلم ریاست اور معاشرہ صرف نااہل ہی نہیں احمق بھی تھا۔ اسے علم، تہذیب اور ترقی سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ بدقسمتی سے ان میں سے اکثر الزامات جھوٹے، سرسری اور سطحی ہیں۔ برصغیر میں مسلمانوں نے جو کارنامے انجام دیے اس کی مثال تاریخ عالم میں ڈھونڈنے سے بھی شایدہی ملے۔
برصغیر میں مسلمانوں کی فتوحات تاریخ ساز اور ششدر کردینے والی ہیں۔ محمد بن قاسم نے صرف 17 ہزار فوجیوں کی مدد سے سندھ فتح کیا۔ ان کا مقابلہ راجا داہر سے تھا جس کا لشکر ایک لاکھ نفوس پر مشتمل تھا مگر ایمان کی قوت اور بہتر جنگی حکمت عملی کی وجہ سے محمد بن قاسم کا لشکر ایک لاکھ کی فوج پر غالب آیا۔ بابر ہندوستان آیا تو اس کے پاس صرف 8 ہزار فوجی تھے۔ اس کا مقابلہ ابراہیم لودھی سے تھا جس کا لشکر ایک لاکھ افراد پر مشتمل تھا۔ بابر کئی دن تک کوشش کے باوجود کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ تب بابر نے گڑگڑا کر اللہ کے حضور توبہ کی اور شراب نوشی ترک کرنے کا وعدہ کیا۔ اگلے ہی دن بابر کے 8 ہزار فوجیوں نے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست فاش دی۔ کہنے کو محمد بن قاسم اور بابر کی فتوحات انفرادی فتوحات تھیں مگر ان فتوحات سے برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کے غلبے کی راہ ہموار ہوئی۔ فتوحات کے تذکرے سے یاد آیا کہ جو لوگ برصغیر کی مسلم ریاست اور مسلم معاشرے کی نااہلیتوں کا ماتم کرتے ہیں وہ اتنی سی بات کا شعور نہیں رکھتے کہ اگر برصغیر کی مسلم ریاست اور مسلم معاشرہ اتنا ہی نااہل اور احمق ہوتا جتنا کہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تو کیا مسلمان ایک ہزار سال تک برصغیر کے حکمران رہ سکتے تھے۔ نااہل اور احمق لوگ کہیں اقتدار میں آبھی جاتے ہیں تو پانچ سات سال میں ناکام ہوکر منظر سے غائب ہوجاتے ہیں مگر مسلم ریاست ایک ہزار سال تک برصغیر میں اپنا پرچم بلند کیے رہی۔ برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کی فتوحات کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے برصغیر میں چھ ہزار سال پرانی تہذیب کو شکست دی تھی۔ اس تہذیب کے پاس اس کے دعوے کے مطابق آسمانی کتاب یعنی وید تھی، گیتا تھی، مہا بھارت تھی، اس کے پاس رام اور کرشن جیسے لوگ تھے، اس تہذیب نے زندگی کے ہر شعبے میں کمالات کی دنیا خلق کی تھی، اس نے فلسفے کی روایت کو چار چاند لگائے تھے، غیر معمولی لسانی نظریات خلق کیے تھے، اس نے والمیکی، سور داس اور تلسی داس جیسے شاعر پیدا کیے تھے۔ کہانیوں کی شاندار روایت پیدا کی تھی۔ یعنی مسلمانوں کا مقابلہ ایک طاقت ور تہذیب سے تھا مگر مسلمان اپنے ایمان، اپنے نظریات اور اپنی غیر معمولی تہذیب قوت کے باعث اس تہذیب پر غالب آئے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جتنے مسلمان اسلام کو برصغیر سے ملے اتنے مسلمان اسے کہیں سے فراہم نہیں ہوئے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے ایک ہزار سال کے دوران کروڑوں ہندوئوں کو مسلمان کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ کارنامہ ریاست اور سرمائے کی قوت کے بغیر انجام دیا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تلوار اور ریاست کی طاقت جس طرح انسانوں کو بدلتی ہے اسی طرح کوئی چیز انسانوں پر اثر انداز نہیں ہوتی مگر برصغیر میں ہندوئوں کو مسلمان بنانے کے عمل میں حکمران اور ان کی تلوار کبھی بروئے کار نہ آئی۔ برصغیر کے منظرنامے پر صوفیا اور علما چھائے رہے اور انہی کی کوششوں، انہی کے تقوے، علم اور محبت نے کروڑوں ہندوئوں کی قلب ماہیت کی۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہندوستان میں باہر سے جو آیا وہ ہندو ازم میں جذب ہوگیا۔ کُشان باہر سے آئے اور ہندو ازم انہیں کھا گیا۔ جاٹ اور گوجر باہر سے آئے ہندوازم نے انہیں جذب کرلیا۔ بدھ ازم برہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت تھی مگر ہندوازم نے اسے اتنا بدل ڈالا کہ وہ ہندو ازم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ سکھ ازم توحید پر کھڑا ہوا مذہب ہے مگر ہندوستان میں سکھوں کا حال دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ ہندو ازم کی ایک شاخ کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں کا کمال اور کارنامہ یہ ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک ہندوئوں کے ساتھ رہے اور انہوں نے اپنا جداگانہ مذہبی اور تہذیبی تشخص برقرار رکھا۔ ہندوستان میں مسلمان کبھی اکثریت نہ بن سکے وہ جہاں رہے ایک اقلیت رہے مگر اقلیت نے کبھی اپنی پہچان پر سمجھوتا نہ کیا۔ یہ صورت حال مسلمانوں کی روحانی اور تہذیبی اہلیت کا ایک ٹھوس ثبوت ہے۔
یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ مسلم برصغیر ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہلاتا تھا۔ انگریز مورخ ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی کتاب ’’دی انارکی‘‘ میں بالکل درست لکھا ہے کہ جب انگریز برصغیر میں آئے تو برصغیر عالمی پیداوار کا 25 فی صد پیدا کررہا تھا۔ اس بات کی اہمیت کو آج کے تناظر میں سمجھنا ہو تو کہا جائے گا کہ امریکا اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور ہے، اعداد وشمار کے مطابق اس وقت امریکا عالمی پیداوار کا 21 اور بعض ماہرین کے مطابق 23 فی صد پیدا کررہا ہے۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ یہ صنعتی انقلاب کے بعد کی دنیا ہے۔ امریکا پوری دنیا میں علم، ایجاد و اخترا ع کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس کے باوجود امریکا عالمی پیداوار کا صرف 21 فی صد یا 23 فی صد پیدا کررہا ہے۔ مگر برصغیر 19 ویں صدی میں عالمی پیداوار کا 25 فی صد پیدا کررہا تھا۔ تو کیا ایک نااہل ریاست اور ایک نااہل اور احمق معاشرہ ایسا کرسکتا ہے؟ آج ساری دنیا چین کی ترقی کو حیرت سے دیکھ رہی ہے مگر چین اس وقت عالمی پیداوار کا 17 یا 19 فی صد پیدا کررہا ہے۔ مگر مسلم برصغیر عالمی پیداوار کا 25 فی صد پیدا کررہا تھا۔ بجائے اس کے کہ ہم اس برصغیر کو حیرت سے دیکھیں ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو اس برصغیر کو گالی دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ حسن نثار کہتے ہیں کہ جب مغرب اوکسفرڈ بنارہا تھا تو ہم تاج محل تعمیر کررہے تھے۔ وہ یہ کہتے ہوئے اتنی سی بات نہیں سمجھتے کہ تاج محل فن تعمیر یا انجینئرنگ کا بھی ایک شاہکار ہے اور یہ شاہکار اس زمانے کے علم میں غیر معمولی مہارت پیدا کیے بغیر خلق نہیں ہوسکتا تھا۔ بھارت کی ممتاز محقق اُتسا پٹنائک نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ انگریز ہندوستان سے 45 ہزار ارب ڈالر لوٹ کر لے گئے۔ اس لوٹ مار سے انگریزوں نے جو ترقی کی وہ تو سب ہی کے سامنے ہے مگر اس لوٹ مار کے حوالے سے یہ حقیقت کسی کے سامنے نہیں ہے کہ مسلم برصغیر انتہائی امیر ہوگا تو اس سے 45 ہزار ارب ڈالر لوٹے گئے ہوں گے۔ تو کیا نااہل ریاستیں اور نااہل معاشرے اتنے امیر ہوسکتے ہیں؟
مسلم برصغیر کے گزشتہ تین سو چار سو سال کے زمانے کو برصغیر کے معاشرے کے زوال کا زمانہ کہا جاتا ہے مگر اس زوال کے زمانے میں بھی مسلمانوں کے اجتماعی شعور کی خلاّقی کا یہ عالم ہے کہ اس نے اردو جیسی عظیم الشان زبان خلق کر ڈالی۔ دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ گزشتہ تین سو چار سو سال میں دنیا کی کسی قوم اور کسی تہذیب نے نئی زبان خلق کرکے نہیں دکھائی۔ زبان کی تخلیق مذاق نہیں۔ اس کے لیے غیر معمولی تخلیقی ذہن درکار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں انفرادی اہلیت سے کام نہیں چلتا۔ کروڑوں لوگوں کی ذہانتیں صرف ہوتی ہیں تو ایک زبان وجود میں آتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ برصغیر کے معاشرے میں اتنی جان تھی کہ وہ ایک نئی زبان خلق کرسکے۔ مسلم برصغیر نے صرف اردو ہی خلق نہیں کی اس زبان کی مختلف ادبی اصناف میں دیو قامت لوگ بھی پیدا کیے۔ دنیا کی شاید ہی کوئی زبان ہوگی جس نے ابتدائی دو سو تین سو سال میں میر غالب اور اقبال جیسے عظیم شاعر پیدا کیے ہوں گے۔ اردو نے گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں علم تفسیر کی اتنی شاندار روایت پیدا کی ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں عربی اور فارسی بھی تفسیر کی ایسی روایت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
اردو کے پاس بڑے افسانہ نگار ہیں، بڑے نقاد ہیں، بڑے محقق ہیں، بڑے مزاح نگار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ تمام حقائق برصغیر کی مسلم ریاست اور مسلم معاشرے کی نااہلی کو ظاہر کررہے ہیں یا اس کی غیر معمولی اہلیت کو ثابت کررہے ہیں؟
یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ جس زمانے کو مسلم ریاست اور مسلم معاشرے کے زوال کا زمانہ کہا جاتا ہے اس زمانے میں برصغیر کی ملت اسلامیہ قیام پاکستان کا مطالبہ لے کر کھڑی ہوگئی۔ یہ امر اس بات کا غماز ہے کہ برصغیر کی ملت اسلامیہ عہد زوال میں بھی بہت بڑی بات سوچ سکتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک نااہل معاشرہ بڑی بات سوچ سکتا ہے؟ کیا ایک نااہل معاشرہ محمد علی جناح پیدا کرسکتا ہے؟ برصغیر کی ملت اسلامیہ صرف پاکستان کا مطالبہ کرکے نہیں رہ گئی اس نے اس خواب کو حقیقت بھی بنا کر دکھایا۔ اہم بات یہ ہے کہ حالات ایسے کسی کام کے لیے سازگار نہیں تھے۔ ایک طرف انگریز تھے جو وقت کی واحد سپر پاور تھے اور وہ پاکستان نہیں چاہتے تھے۔ دوسری طرف ہندو اکثریت تو اور وہ بھی پاکستان نہیں چاہتی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان ناممکن کی جستجو کے سوا کچھ نہ تھا لیکن قائد اعظم کی قیادت میں برصغیر کے زوال میں ڈوبے ہوئے معاشرے نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ زوال کے باوجود معاشرے میں زندگی موجود تھی۔ شعور موجود تھا، قوت محرکہ موجود تھی، سوال یہ ہے کہ اگر برصغیر کی مسلم ریاست اور مسلم معاشرہ ہزار کمزوریوں کے باوجود اتنے کارنامے انجام دے سکتا تھا وہ عہد عروج میں کیا نہیں کرسکتا ہوگا؟۔