عمران خان میں ہزاروں برائیاں ہوں گی مگر ایک خوبی ہے۔ ان کے دل میں جو کچھ ہوتا ہے بلا کم وکاست بیان کردیتے ہیں۔ وہ گفتگو کرتے ہوئے اس خوف میں مبتلا نہیں ہوتے کہ دنیا کیا کہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یہ بات کھل کر کہی کہ عورت کا کم لباس نوجوانوں کے جنسی جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب میں تو جنسی جذبات کے نکاس کا بندوبست موجود ہے مگر ہمارے معاشرے میں جنسی جذبات گھٹ کر رہ جاتے ہیں اور انسان کو جرائم پر اکساتے ہیں۔ عمران خان کے اس بیان پر سیکولر اور لبرل عناصر پنجے جھاڑ کر عمران خان کے پیچھے پڑ گئے۔ ایک لبرل اینکر نے کہا کہ عمران خان سیاست دان بنیں معلم نہ بنیں، ایک اور اینکر نے فرمایا کہ وہ ان معاملات میں مذہب کو درمیان میں نہ لائیں۔ جیو کے شاہزیب خانزادہ نے وہی راگ الاپا جو اس سے پہلے الاپتے رہے ہیں کہ جنسی حملوں کا تعلق لباس سے نہیں طاقت کی نفسیات سے ہے۔ بعض سیکولر، لبرل عناصر نے خیال پیش کیا کہ عمران خان نے جنسی حملوں کا نشانہ بننے والی مظلوم خواتین ہی کو ظالم بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ ایک صاحب نے سوال اٹھایا کہ بھلا ایک سات سال کی بچی کے لباس میں ایسی کیا بات ہوسکتی ہے کہ کوئی اس پر جنسی حملہ کرے؟ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کے اسباب کیا ہیں؟
اردو ادب کی ممتاز شخصیت رشید احمد صدیقی نے کہیں یہ بات لکھی ہے کہ جس انسان کا تصورِ عورت پست ہوتا ہے اس کا تصورِ خدا بھی پست ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا مظہر ہے۔ چناں چہ جو شخص عورت کی تکریم نہیں کرتا وہ دراصل خدا کی صفت ِ رحمت کی تکریم سے محروم ہے۔ اس بات کا زیر بحث موضوع سے یہ تعلق ہے کہ مغرب کے زیر اثر ہمارے معاشرے کا تصورِ عورت بھی پست ہوتا جارہا ہے۔ اسلامی تہذیب میں عورت ماں کی حیثیت سے محترم ہے۔ بیوی کی حیثیت سے قابل احترام ہے۔ بہن کی حیثیت سے قابل تکریم ہے۔ بیٹی کی حیثیت سے عزت کے لائق ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مغربی فکر اور مغربی کلچر نے عورت کو ان تمام حیثیتوں میں سراہنا چھوڑا ہوا ہے، مغربی فکر اور مغربی کلچر میں عورت صرف ایک حیثیت سے اہمیت کی حامل ہے۔ جنس کی علامت کی حیثیت سے۔ Sex Symbol کے طور پر۔ مغرب کی فلم میں عورت جنس کی علامت ہے۔ مغرب کے ڈرامے میں عورت صرف جنس کی علامت ہے۔ مغرب کی موسیقی میں عورت صرف جنس کی علامت ہے۔ مغرب کے ادب میں عورت صرف جنس کا استعارہ ہے۔ مغرب کی مصوری عورت کو صرف جنس کی علامت کے طور پر سامنے لاتی ہے۔ مغرب کی اشتہار بازی عورت کو ایک گرما گرم جنسی کباب کی حیثیت سے پیش کررہی ہے۔ آپ کبھی غور فرمائیں کہ آپ نے امریکا، بھارت اور پاکستان کی کتنی فلموں میں عورت کو ماں، بہن، بیٹی، بیوی، ڈاکٹر، انجینئر، شاعر یا ادیب یا استاد کی حیثیت سے مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے پایا ہے؟ آپ نے مغرب اور اس کے زیر اثر مغرب کے کتنے مصوروں کو ماں، بیوی، بہن، بیٹی پینٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ آپ نے کتنے ڈراموں میں عورت کو کوئی بڑا علمی یا سماجی کارنامہ انجام دیتے ہوئے ملاحظہ کیا ہے؟ آپ نے کس اشتہار میں عورت کو صرف انسان کی حیثیت سے پیش ہوتے دیکھا ہے؟ ان تمام دائروں میں عورت صرف ایک حیثیت میں پیش ہورہی ہے، جنس کی علامت کے طور پر۔ بدقسمتی سے عریاں فلموں اور فحش ویب سائٹس نے تمام حدوں کو پھلانگ لیا ہے۔ اب آپ اس بات کو اس طرح دیکھیں کہ ایک عام نوجوان یا عام شخص عورت سے متعلق 50 ہزار مناظر دیکھ کر بیٹھا ہوا ہے اور ان 50 ہزار مناظر میں سے ہر منظر عورت کو جنس کی علامت کے طور پر پیش کررہا ہے۔ اس صورت میں اس نوجوان یا فرد کا ’’تصورِ عورت‘‘ کیا شکل اختیار کرے گا؟ کیا اس کی نظر میں عورت کی کوئی ’’تقدیس‘‘ ہوگی؟ کیا اس کے دل میں عورت کا کوئی ’’احترام‘‘ ہوگا؟ کیا اس کی نگاہ میں عورت کی کوئی ’’عظمت‘‘ ہوگی؟ کیا وہ عورت کو ایک انسان، ایک ماں، ایک بیٹی، ایک بہن، ایک بیوی، ایک شریک حیات کے طور پر سراہا سکے گا؟ یا اس کے عورت سے متعلق سارے خیالات، سارے جذبات، سارے احساسات جنس آلود ہوجائیں گے؟ کیا ایسا فرد معاشرے اور عورت کے لیے خطرناک نہیں ہوجائے گا؟ لبرل اور سیکولر عناصر کہتے ہیں کہ آخر ایک سات سالہ بچی یا اس کا لباس کسی شخص کے جنسی جذبات کو کس طرح بھڑکا سکتا ہے اور اسے جنسی حملے پر مجبور کرسکتا ہے۔ یہ ایک خلط مبحث ہے۔ اس بات کو اس طرح سمجھیں کہ ایک شخص کے جنسی جذبات کو ایک اداکارہ، ایک گلوکارہ، ایک ماڈل گرل، ایک عریاں فلم میں کام کرنے والی عورت نے ابھارا ہے۔ مگر اس شخص کی ان تمام افرد تک ’’رسائی‘‘ نہیں ہے۔ وہ ان تمام کرداروں میں سے کسی کردار کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ مگر وہ ایک عام عورت یا ایک عام بچی تک رسائی رکھتا ہے، وہ ان لوگوں کو اپنے جال میں پھانس سکتا ہے۔ وہ ان دونوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ چناں چہ وہ یہی کرتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے کہ غصہ تو آپ کو طاقت ور شخص پر آیا ہے مگر آپ طاقت ور شخص کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چناں چہ آپ گھر آکر غصہ بیوی بچوں پر نکال دیتے ہیں۔ ساری دنیا اور ہمارے معاشرے میں یہ عمل بہت بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ یہ خیال کہ عورت کا مختصر لباس مرد کے جنسی جذبات کو نہیں بھڑکاتا ایک جاہلانہ خیال ہے۔ انسان طاقت کے مظاہر سے طاقت پرستی سیکھتا ہے۔ دولت کی نمائش سے اس کے دل میں دولت کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ چناں چہ جنسی اعضا کا ’’اظہار‘‘ بھی جنسی جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ آخر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ فلموں میں ’’تشدد‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔ اس فلموں کے تشدد سے لوگ تشدد سیکھتے ہیں۔ ہندوستان میں دلیپ کمار نے فلم گنگا جمنا بنائی تو سینسر بورڈ نے اس کو نمائش کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دلیپ کمار ہندوستان کے سب سے بڑے اداکار تھے اور وہ اس فلم میں ڈاکو کا کردار ادا کررہے تھے۔ چناں چہ سینسر بورڈ کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں دلیپ کمار کو دیکھ کر نوجوان ڈاکو بنے کی طرف مائل نہ ہوجائیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ فلم، ڈرامے یا عام زندگی میں جنسی جذبات کو ابھارنے یا بھڑکانے والا مواد ناظرین کو بالآخر جنسی جرائم کی طرف لے جاسکتا ہے۔ یہ خیالی پلائو نہیں ایک حقیقی امکان ہے۔ یہاں ہم عرض کریں گے کہ عورت کا لباس تو بڑی چیز ہے عورت کی ایک مسکراہٹ بھی کمزور لوگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے مغرب کے پیدا کلچر میں کمزور شخصیتوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ مغربی معاشروں ہی میں نہیں اسلامی معاشروں میں بھی کروڑوں افراد کی اخلاقی، نفسیاتی اور جذباتی صحت بہت خراب ہے۔ اس کی وجہ ہے۔
انسان کی اخلاقی، نفسیاتی اور جذباتی صحت کے سلسلے میں مذہب کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ مذہب ایک سطح پر ’’علم‘‘ ہے۔ مذہب کا صحیح اور مناسب علم انسان کو حاصل ہوجائے تو وہ انسان کو بہت سی برائیوں سے بچا سکتا ہے۔ لیکن مغرب کیا ہمارے ’’اسلامی معاشرے‘‘ کا یہ حال ہے کہ کروڑوں افراد کی علمی سطح انتہائی پست ہے۔ ہمارے یہاں کروڑوں افراد ایسے ہیں جنہوں نے کچھ اور کیا قرآن بھی نہیں پڑھا ہوا۔ بدقسمتی سے جو لوگ ناظرہ قرآن پڑھ لیتے ہیں ان کی 99 فی صد تعداد قرآن کو ترجمے کے ساتھ نہیں پڑھتی۔
ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو قرآن کو کسی تفسیر کی مدد سے سمجھتے ہیں۔ چناں چہ ہمارے معاشرے کے کروڑوں افراد کا مذہبی علم ان کے اخلاق اور کردار کی تعمیر و تشکیل میں کوئی کردار ہی ادا نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف نام کے مسلمان ہیں۔ ان لوگوں سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ یہ جنسی جذبات کی آندھیوں سے لڑیں گے اور جنسی ماحول کے سیلاب میں نہیں بہیں گے۔ مذہب کا دوسرا اور زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ مذہب کو صرف علم یا صرف ’’قال‘‘ نہیں ہونا چاہیے اسے ہمارا ’’حال‘‘ ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں تو اچھے اچھے مذہبی لوگوں بلکہ علما تک کا حال پتلا ہے۔ اقبال نے اس لیے سوسال پہلے شکایت کی تھی۔
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
اقبال نے مدرسے اور خانقاہ پر چار سنگین الزامات لگائے ہیں جو چند مستثنیات کے سوا کل بھی درست تھے اور آج بھی درست ہیں۔ چوں کہ مذہبی لوگوں کی عظیم اکثریت کے لیے مذہب صرف ’’قال‘‘ ہے ’’حال‘‘ نہیں ہے اسی لیے ان کے ہمارے مدرسوں تک سے جنسی جرائم کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔ بلاشبہ مدارس میں خرابی کا دائرہ وسیع نہیں ہے مگر ہمارے مدارس اور خانقاہیں اب تزکیہ نفس کے ویسے مراکز نہیں رہیں جیسی کبھی تھیں۔
مغربی دنیا نے جنس کو نہ صرف ایک طوفان میں ڈھال دیا ہے بلکہ اسے عالمگیر بھی بنادیا ہے۔ یہ طوفان خدا اور مذہب کے ساتھ ہمارے تعلق کو کمزور بنارہا ہے۔ یہ ہمارے اخلاق کو بنیادوں سے اکھاڑ رہا ہے۔ اس نے انسانی رشتوں کو زہر آلود کردیا ہے اس لیے کہ مغرب میں اب تحریم کے رشتے بھی جنسی رشتے بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے زیر اثر پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اب چاہتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ بھی مادر پدر آزاد معاشرہ بن جائے۔ وہ چاہتے ہیں کو عورت کو جنس کی علامت کے طور پر پیش کیے جانے پر کوئی اعتراض نہ کرے اور عورت کے لباس اور پیشکش کے سلسلے میں مذہب اور اخلاق کو آواز نہ دی جائے۔