پاکستان میں سیکولر دانش وروں کو اسلام اور پاکستان پر حملے کرتے دیکھ کر ہمیں پروین شاکر کا شعر یاد آجاتا ہے۔ پروین شاکر نے کہا ہے
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جائوں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
پاکستان میں صداقت تو اہل مذہب کے پاس ہے مگر ان کے پاس سیاسی و ابلاغی طاقت نہیں ہے۔ سیکولر عناصر کے پاس صداقت نہیں ہے مگر ان کے پاس سیاسی اور ابلاغی طاقت ہے۔ چناں چہ اہل مذہب صداقت کے حامل ہونے کے باوجود بھی فتح یاب نہیں ہوپاتے۔ سیکولر اور لبرل عناصر اسلام اور پاکستان کے حوالے سے بے سروپا باتیں کرتے ہیں مگر ان کی بات ہزاروں لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ چناں چہ ان کے بیانیے کا ہر طرف چرچا ہوتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سیکولر دانش وروں کے پاس بڑے اخبارات ہیں بڑے چینلز ہیں۔ بدقسمتی سے مذہب اور پاکستان کا دفاع کرنے والوں کے پاس نہ بڑے اخبارات ہیں نہ ان کا کوئی چینل ہے۔ افسوس کہ ان کے پاس چھوٹا چینل بھی نہیں ہے۔ اس صورت حال نے سیکولر عناصر کے حوصلوں کو بہت بڑھادیا ہے اور اسلام اور پاکستان پر ان کے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ندیم ایف پراچہ روزنامہ ڈان کے کالم نگار ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں پاکستان کی بنیاد پر زبردست حملہ کیا ہے۔ انہوں نے معروف سیکولر دانش ور خالد احمد کے ایک ٹی وی پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ خالد احمد نے اپنے پروگرام میں موجود لوگوں سے پوچھا کہ وہ پہلے مسلمان ہیں یا پہلے پاکستانی ہیں؟ 90 فی صد لوگوں نے کہا کہ وہ مسلمان پہلے ہیں۔ ندیم ایف پراچہ نے لکھا ہے کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی برطانوی کہے کہ وہ عیسائی پہلے ہے اور برطانوی بعد میں۔ ندیم ایف پراچہ کے بقول ایک ایسے عہد میں اپنے مذہبی تشخص پر اصرار لایعنی بات ہے جس میں قومی مملکت ایک طے شدہ اصول یا ضابطہ بن چکی ہو۔ ندیم ایف پراچہ نے لکھا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک مثلاً مصر، ترکی اور سعودی عرب میں اگر لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ پہلے کیا ہیں تو اکثریت کا جواب یہ ہوگا کہ وہ پہلے مصری، ترکش اور سعودی ہیں۔ ندیم پراچہ نے افسوس کے ساتھ لکھا ہے کہ مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ اس سے ندیم ایف پراچہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم سے پاکستانی تشخص کے تعین میں کوئی بڑی گڑبڑ ہوگئی ہے۔ (روزنامہ ڈان۔ 4 جولائی 2021ء)
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ عرض کرنا ہے کہ پاکستان کسی ’’قومیت‘‘ کی بنیاد پر نہیں ’’اسلام‘‘ کے نام پر وجود میں آیا۔ جس زمانے میں پاکستان کا مطالبہ سامنے آیا اس زمانے میں قومیت کی تعریف، نسل، جغرافیہ اور زبان سے متعین ہوتی تھی۔ قومیت کی اس تعریف کی رو سے مسلمانوں کے لیے علٰیحدہ ملک کا مطالبہ کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ اس لیے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی نسل ایک نہیں تھی۔ جغرافیہ ایک نہیں تھا اور نہ ہی ان کی زبان ایک تھی۔ البتہ مسلمانوں کا مذہب ایک تھا۔ اسلام۔ چناں چہ مسلمانوں نے اپنے تشخص کے اصل مظہر یعنی اسلام ہی کو علٰیحدہ ملک کی بنیاد بنایا۔ مسلمانوں نے کہا ہمارا مذہب ہندوئوں سے الگ ہے۔ چناں چہ ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ بھی ہندوئوں سے جدا ہے، ہمارے عقائد الگ ہیں، اقدار مختلف ہیں، لباس ایک سا نہیں ہے، ہمارے ہیروز بھی جدا ہیں۔ چناں چہ ہمیں اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کے تحفظ کے لیے ملک بھی الگ چاہیے۔ اس تناظر میں جب اہل پاکستان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ وہ پہلے مسلمان ہیں یا پاکستانی تو وہ پاکستان کے نظریے اور تاریخی تجربے کی بنیاد پر بالکل درست جواب دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم مسلمان پہلے ہیں، ویسے دیکھا جائے تو پاکستان کے تناظر میں مسلمانیت اور پاکستانیت کو آپس میں لڑانے کا کوئی جواز اس لیے نہیں کہ پاکستانیت اپنی اصل میں اسلامیت ہی ہے۔ اس لیے کہ اگر اسلامیت نہ ہوتی تو پاکستانیت کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ اسلام ہے تو پاکستان ہے۔ اسلامیت ہے تو پاکستانیت ہے۔ اس سلسلے میں اقبال بہت پہلے ہماری رہنمائی کرکے چلے گئے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی ملت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
چناں چہ کوئی برطانوی اگر یہ کہتا ہے کہ وہ پہلے برطانوی ہے تو یہ بات قابل فہم ہے۔ برطانیت بڑی حد تک نسل، جغرافیہ اور زبان کا نام ہے۔ مگر پاکستانیت نسل، جغرافیے اور زبان کا نام نہیں۔ پاکستانیت اسلامیت کا دوسرا نام ہے۔ جہاں تک مصر، ترکی اور سعودی عرب کا تعلق ہے تو ان ملکوں میں عرب اور ترک قوم پرستی مضبوط ہے۔ اس لیے ان ملکوں کے بہت سے لوگ خود کو پہلے مصری، ترکی یا سعودی کہیں گے۔ لیکن تجزیہ کیا جائے تو ان ملکوں کی آبادی بھی سیکولر اور مذہبی گروہوں میں منقسم ہے۔ مثلاً اگر مصر میں کسی اخوانی سے پوچھا جائے گا کہ وہ پہلے مسلمان ہے یا مصری تو یقینا ان کا جواب یہ ہوگا کہ وہ پہلے مسلمان ہے۔ لیکن اگر ایک سیکولر مصری سے پوچھا جائے گا کہ وہ پہلے کیا ہے تو وہ کہے گا کہ وہ پہلے مصری ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کا باطن ہر جگہ اپنا اظہار کرتا ہے۔ ایک عاشق یا شاعر کو چودھویں کے چاند میں اپنے محبوب کا چہرہ نظر آتا ہے مگر نظیر اکبر آبادی کے بقول بھوکے کو چودھویں کے چاند میں روٹیاں نظر آتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے پاکستان کے لوگوں کی عظیم اکثریت کا باطن اسلام سے آراستہ ہے اس لیے جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ مسلمان پہلے ہیں یا پاکستانی پہلے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ وہ مسلمان پہلے ہیں۔ یہ پاکستانیوں کا ایک ایسا امتیاز ہے جو انہیں پورے عالم اسلام میں ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔
ندیم ایف پراچہ نے اپنے کالم میں معروف سوشلسٹ دانش ور حمزہ علوی اور معروف ماہر معاشیات جاوید برکی کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان کے مطالبے کی پشت پر معاشی محرکات بھی بنیادی کردار ادا کررہے تھے۔ بلاشبہ معاشیات بہت اہم چیز ہے۔ مگر یہ بات سو فی صد جھوٹ ہے کہ قیام پاکستان کے مطالبے کا بنیادی محرک معاشیات تھی۔ قیام پاکستان کا مطالبہ 1930ء اور 1940ء میں سامنے آیا۔ 1930ء میں اقبال نے ایک جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا اور 1940ء میں قرار داد پاکستان منظور ہوئے یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیرمیں معاشیات اور معاشی محرکات کہیں زیر بحث ہی نہیں تھے۔ برصغیر کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کی بڑی بڑی جاگیریں تھیں۔ ان کے پاس کئی ریاستیں تھیں۔ جدید تعلیم سے آراستہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پولیس، فوج، ریلوے اور دوسرے محکموں میں ملازم تھی۔ اس منظرنامے میں مسلمان کہیں معاشی عدم تحفظ کا شکار نہ تھے۔ چناں چہ معاشی محرکات قیام پاکستان کے مطالبے کی اساس بن ہی نہیں سکتے تھے۔ البتہ ہندو اکثریت کے ہندوستان میں مسلمانوں کا مذہب اور تہذیبی وجود کئی خطرات سے دوچار تھا۔ ہندو شدھی کی تحریک کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنارہے تھے۔
گاندھی فارسی اور اردو کو پس منظر میں دھکیل کر ہندی کو آگے بڑھا رہے تھے۔ ہندوئوں کا دعویٰ تھا کہ ہندوستان کے اکثر مسلمان کبھی ہندو تھے۔ چناں چہ انہیں دوبارہ ہندو بنایا جانا چاہیے۔ ان تمام اسباب سے مسلمانوں میں اپنے مذہبی اور تہذیبی وجود کی بقا کا سوال پیدا ہوا اور یہی سوال مطالبہ پاکستان کی اصل بنیاد بنا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ قائد اعظم معاشیات کو بھی مذہبی تناظر میں دیکھ رہے تھے۔ چناں چہ انہوں نے کراچی میں اسٹیٹ بینک کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صاف کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم انسان کے معاشی مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ چناں چہ مسلمان ماہرین معاشیات کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کے لیے اسلام کی روشنی میں معاشی اور مالیاتی نظام وضع کریں۔ اس تناطر میں دیکھا جائے تو بانی پاکستان کی معاشیات بھی سیکولر نہیں مذہبی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس دعوے میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ قیام پاکستان کے مطالبے کی پشت پر معاشیات بھی اہم کردار ادا کررہی تھی۔ یہ شوشا سیکولر اور سوشلسٹ دانش وروں نے اس لیے چھوڑا ہے کہ وہ پاکستان کے قیام کے سلسلے میں اسلام کے کردار کی اہمیت کو گھٹا سکیں۔
ندیم ایف پراچہ نے لکھا ہے کہ پاکستان کو اسلامی تشخص ہے ہمکنار کرنے کا خیال پاکستان کے حکمران طبقے کو اس وقت آیا جب مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا۔ ندیم ایف پراچہ کے بقول ممتاز مورخ اشتیاق حسین قریشی نے 1971ء کے سانحے آنے کے بعد لکھا کہ پاکستان کا اسلامی تشخص اگر ہماری اجتماعی نفسیات میں اترا ہوا ہوتا تو وہ بنگلا قوم پرستی پیدا نہیں ہوسکتی تھی جس نے مشرقی پاکستان کو بنگلادیش بنایا۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اگر قائد اعظم زندہ رہتے تو وہ پاکستان کو قرآن و سنت کی روشنی میں ضرور ایک اسلامی ریاست بناتے۔ لیکن قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد جو لوگ پاکستان کے حکمران بنے انہوں نے قائد اعظم کے وژن سے غداری کی پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کی سازش کی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے مذہبی تشخص کا مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی اور اس سے پیدا ہونے والے عدم تحفظ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ پاکستان آئینی اعتبار سے ایک اسلامی ریاست ہے تو یہ پاکستان کے نظریے کے عین مطابق ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے وضع کی گئی حقیقت نہیں۔
ندیم ایف پراچہ نے معروف سیکولر مورخ مبارک علی کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں میں ’’امت‘‘ کے تصور سے وابستگی اس وقت پیدا ہوئی جب برصغیر میں مسلمانوں کی حکمرانی ختم ہوگئی اور مسلمانوں کو اچانک محسوس ہوا کہ وہ تو برصغیر میں صرف ایک اقلیت ہیں۔ یہ ایک صریح جھوٹ ہے۔ امت کا تصور قرآن کا تصور ہے۔ حدیث کا تصور ہے۔ خلافت راشدہ کا تصور ہے چوں کہ برصغیر کے مسلمان زیادہ مذہبی ہیں اس لیے وہ امت کے تصور سے زیادہ وابستہ ہیں۔ شاہ ولی اللہ اور مولانا مودودی کے علم کلام اور اقبال کی شاعری میں امت کا تصور جس بلند اور تخلیقی سطح پر کلام کرتا نظر آتا ہے وہ صرف مذہب سے گہری وابستگی ہی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ اس کا کسی خوف، کسی عدم تحفظ سے کوئی تعلق ہیں۔