ایک زمانہ تھا کہ ہم ’’ہیروز‘‘ کے سلسلے میں بڑے ’’مالدار تھے۔ اس سلسلے میں ہمارا شمار ارب پتیوں اور کھرب پتیوں میں ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ہیروز مذہب سے آئے تھے۔ چناں چہ ہمارے ہیروز ابوبکرؓ تھے، عمر فاروقؓ تھے، عثمان غنیؓ تھے، علی مرتضیٰ تھے، ہزاروں صحابہ تھے، ہمارے ہیروز میں علما تھے، صوفیا تھے۔ اقبال نے ہمارے ہیروز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
عطار ہو، رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی
لیکن ہمارے ہیروز صرف مذہب سے نہیں آتے تھے۔ ہمارے ہیروز تاریخ سے بھی آتے تھے۔ چناں چہ ہمارے ہیروز خالد بن ولیدؓ تھے، طارق بن زیاد تھے، محمد بن قاسم تھے، جلال الدین خوازم تھے، بابر تھے، ٹیپو سلطان تھے، لیکن ہمارے ہیروز صرف مذہب اور تاریخ سے نہیں آتے تھے، ادب سے بھی آتے تھے، چناں چہ ہمارے ہیرو مولانا روم تھے، بیدل تھے،سنائی تھے، حافظ شیرازی تھے، سعدی تھے، میر تھے، غالب تھے، اقبال تھے۔ اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری جب تک زندہ رہے اپنے استاد فراق گورکھ پوری اور دیب صاحب کا ذکر کرتے رہے۔ یہ لوگ عسکری صاحب کے استاد بھی تھے اور ان کے ہیرو بھی تھے۔ سلیم احمد ساری زندگی عسکری عسکری کرتے رہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے جو کچھ سیکھا عسکری صاحب سے سیکھا۔ انہیں عسکری صاحب کی تحریریں، عسکری نگر نظر آتی تھیں۔ سراج منیر اور احمد جاوید کے ہیروز میں خود سلیم احمد بھی شامل تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک زمانہ میں ادبی اور غیر ادبی استاد بھی ہمارے ہیروز میں شامل تھے۔ خود والدین بھی اپنی اولاد کے لیے ایک عظیم الشان کرداری نمونہ ہوا کرتے تھے۔ اولاد والدین کو اس طرح دیکھتی جیسے وہ ان کے ہیرو ہوں مگر بدقسمتی سے مغربی تہذیب نے ہمارے معاشرے میں کرداری نمونوں کا ہولناک بحران پیدا کردیا ہے۔ اب ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کے لیے کرداری نمونے مذہب، تاریخ، ادب، تہذیب اور معاشرے سے نہیں آتے۔ اقبال نے ایک صدی پہلے شکایت کی تھی۔
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ
یہ شعر اور باتوں کے علاوہ اس امر کا بھی اظہار تھا کہ اب خانقاہ اور مدرسہ ہیروز پیدا کرنے والے ادارے نہیں رہے۔ جن اداروں میں نہ زندگی ہو نہ محبت ہو نہ معرفت ہو نہ نگاہ ہو وہاں ہیروز کیسے پیدا ہوسکتے ہیں؟ تو پھر اب ہمارے معاشرے کے ہیروز کہاں سے آرہے ہیں؟
اب ہمارے معاشرے کے ہیروز فلم اور ٹیلی وژن کے اداکار ہیں، گلوکار ہیں، ماڈلز ہیں، کرکٹرز ہیں، سیاستدان ہیں، تاجر اور صنعت کار ہیں، ٹی وی اینکرز ہیں، ٹک ٹاک اسٹارز ہیں۔ یہ صورت حال اس امر کی غماز ہے کہ ہمارا معاشرہ اپنے مذہب، اپنی تاریخ، اپنی تہذیب اور اپنے ادب کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہوگیا ہے۔ اب ہمارے معاشرے کے لیے اپنے مذہب، اپنی تاریخ، اپنی تہذیب اور اپنے ادب میں کوئی Inspiration نہیں ہے۔ ایک وقت تھا کہ معاشرے اپنے ہیروز کے سلسلے میں بہت حساس ہوا کرتے تھے۔ یونان کی دو ریاستوں ایتھنز اور اسپارٹا کے دو عظیم الشان پہلوانوں کے درمیان کشتی ہوئی۔ کشتی دیکھنے کے لیے ہزاروں لوگ موجود تھے۔ مقابلے میں ایتھنز کا پہلوان بولو فتح یاب ہوگیا۔ اس فتح پر ایتھنز کے تماشائی جھوم اٹھے۔ لوگوں نے بولو کو کاندھے پر اٹھالیا۔ ہجوم نعرے لگانے لگا، بولا ایتھنز کا ہیرو ہے، بولو ایتھنز کا ہیرو ہے، ہجوم کا ہیجان بڑھتا جارہا تھا اس صورت حال میں ایک بوڑھا تیزی کے ساتھ اکھاڑے کی جانب بڑھا، اس نے چیخ کر لوگوں کو خاموش ہوجانے کے لیے کہا۔ اکھاڑے میں خاموشی چھا گئی۔ بوڑھے نے ہجوم سے مخاطب ہو کر کہا۔ بولو نے کشتی جیت کر ایتھنز کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ بولو ہمارا ہیرو ہے۔ لیکن صرف آج کا ہیرو۔ ایتھنز کا مستقل ہیرو تو صرف سقراط ہی ہوسکتا ہے۔ ہجوم بوڑھے کی بات سمجھ چکا تھا۔ چناں چہ لوگوں نے نعرے لگانے شروع کردیے۔ بولو ہمارا آج کا ہیرو ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم معاشرے کے اصل اور مستقل ہیروز صرف مذہب، تاریخ، تہذیب اور معاشرے ہی سے آسکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے ہیروز اب فلم، ٹی وی اور کرکٹ سے آرہے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟۔
ایک زمانہ تھا کہ اسلامی معاشرے میں تقوے اور علم کو سب سے بڑی اقدار کا درجہ حاصل تھا۔ اسلام کہتا ہے فضیلت نہ تو رنگ کو ہے، نہ نسل کو، جغرافیے کو ہے نہ دولت اور طاقت کو۔ فضیلت تو صرف دو چیزوں کو حاصل ہے۔ تقوے کو اور علم کو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم تاریخ کے تمام بڑے ہیروز تقوے علم اور ان کے نتائج سے نمودار ہوتے تھے۔ مگر اب کسی مسلم معاشرے میں تقوے اور علم کو فضیلت حاصل نہیں۔ اب فضیلت حاصل ہے تو صرف تین چیزوں کو۔ دولت، طاقت اور شہرت۔ اب ہیرو وہی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ دولت ہے، جس کے پاس سب سے زیادہ طاقت ہے جس کے پاس سب سے زیادہ شہرت ہے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ اب اداکاروں، کرکٹرز اور سیاست دانوں کے پاس دولت کی بھی فراوانی ہے، ان کے پاس طاقت بھی بے پناہ ہے اور شہرت بھی ان کے گھر کی باندی ہے۔ اداکاروں، گلوکاروں اور کرکٹرز کے پاس کیا اب تو سیاستدانوں کے پاس بھی تقویٰ اور علم نہیں ہے۔ میاں نواز شریف ملک کے سب سے بڑے سیاستدان ہیں مگر ان کے تشخص میں تقوے اور علم کا کوئی رنگ موجود نہیں۔ ان کا تشخص سرمایہ ہے، کرپشن ہے، طاقت ہے اور شہرت ہے۔ بدقسمتی سے ان کی شہرت کا بھی ’’اسلامیت‘‘ یا ’’پاکستانیت‘‘ سے تعلق نہیں بلکہ پنجابیت سے تعلق ہے مگر اس کے باوجود وہ ’’سیاسی ہیرو‘‘ ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو تقویٰ اور علم چھو کر بھی نہیں گزرا۔ ان کی متاع بھی دولت، طاقت اور شہرت ہے۔ بدقسمتی سے ان کی شہرت بھی ’’اسلامیت‘‘ اور ’’پاکستانیت‘‘ سے کوئی علاقہ نہیں رکھتی۔ پیپلز پارٹی اب ایک ’’سندھی جماعت‘‘ ہے۔ عمران خان مسٹر کلین بنتے ہیں مگر ان کا بھی تقوے اور علم سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا سرمایہ بھی ان کی طاقت اور شہرت ہے۔ ان کی شہرت بلاشبہ ’’پاکستانیت‘‘ سے متعلق ہے مگر یہ پاکستانیت صرف نعرہ ہی نعرہ ہے۔ اس کا کوئی ٹھوس تشخص نہیں۔ تحریک انصاف میں خیر سے لبرل اور سیکولر عناصر بھرے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ یہاں نواز شریف، بلاول بھٹو اور عمران خان ہماری نئی نسل کو کیا سکھا سکتے ہیں؟ کیا وہ کسی بھی اعتبار سے ہماری نئی نسل کے لیے کرداری نمونہ کہلانے کے مستحق ہیں؟۔
ایک وقت تھا کہ اداکاروں اور اداکارائوں کی بھی ایک مذہبیت، ایک اخلاقیات اور ایک تہذیب ہوتی تھی۔ دلیپ کمار کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ وہ کہنے کو ایک اداکار تھے مگر وہ شعر و ادب پر ایک دانش ور کی طرح گفتگو کرسکتے تھے۔ وہ بالی وڈ کا سب یس سے بڑا نام تھے۔ ان کی ساری زندگی فلموں میں گزری تھی مگر ان کا شعور مذہبی سوالات سے دوچار تھا۔ وہ ایک بار پاکستان آئے تو پی ٹی وی نے ان سے ایک انٹرویو کیا۔ انٹرویو کرنے والے پینل میں سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کو کوئی خوف بھی لاحق ہے۔ دلیپ کمار نے کہا کہ میرا اصل خوف یہ ہے کہ جب میں خدا کے سامنے حاضر ہوں گا اور خدا پوچھے گا کہ یوسف خان تم دنیا میں کیا کرتے رہے تو میں کیا جواب دوں گا؟ یہ کہہ کر دلیپ کمار نے اپنے پورے کیریئر کی نفی کردی۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس اب اچھے اچھوں کو لاحق نہیں ہوتا۔ ہوتا بھی ہے تو وہ اس کا اظہار کروڑوں لوگوں کے سامنے نہیں کرتے۔ آپ کا کیا خیال ہے نواز شریف، آصف زرداری یا الطاف حسین کے ذہن میں کبھی یہ سوال آیا ہوگا کہ آخرت میں خدا جب ان سے پوچھے گا کہ دنیا میں کیا کرتے رہے تو ہم کیا جواب دیں گے؟۔
بھارت کی ایک اداکارہ وجنتی مالا ہیں، فلمی دنیا میں ان کی شہرت ایک اچھی اداکارہ سے زیادہ ایک اچھی رقاصہ کی تھی۔ بھارتی ریاست گجرات میں مسلم کش فسادات ہوئے تو وجنتی مالا نے مسلمانوں کی مدد کے لیے ایک امدادی کیمپ لگایا۔ بی جے پی نے وجنتی مالا کو دھمکی دی کہ مسلمانوں کی مدد بند کرو ورنہ ہم تمہیں مار دیں گے۔ وجنتی مالا نے کہا کہ تم مجھے بیشک مار دو مگر میں مظلوم مسلمانوں کی مدد سے باز نہیں آسکتی۔ اس سے ثابت ہوا کہ وجنتی مالا میں ’’انسانیت‘‘ زندہ تھی۔ ہمارا یہ حال ہے کہ علما، دانش وروں اور صحافیوں تک نے 30 سال تک الطاف حسین کے جبر کے سامنے سر جھکائے رکھا۔ جب معاشرہ کرداری نمونوں کے بحران میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر ہر کوئی طاقت، سرمائے اور شہرت کے بت کو پوجنے لگتا ہے۔