معروف سیکولر دانش ور اور کالم نویس غازی صلاح الدین نے ڈیلی دی نیوز میں شائع ہونے والے اپنے ایک حالیہ کالم میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے ساتویں جماعت کی نصابی کتاب میں ملالہ یوسف زئی کی تصویر کی اشاعت پر اعتراض کرتے ہوئے کتاب شائع کرنے والے ادارے اوکسفرڈ سے وضاحت طلب کرلی ہے۔ غازی صلاح الدین نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ملالہ پاکستان کی ہیرو ہے مگر اس کے باوجود پاکستانیوں کی بڑی تعداد اسے ہیرو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ حالاں کہ ملالہ کو امن کا نوبل انعام بھی مل چکا ہے۔ غازی صلاح الدین نے اپنے کالم میں اس بات کو رتی برابر اہمیت نہیں دی کہ ملالہ کی تصویر نصابی کتاب میں متعلقہ سرکاری ادارے کی اجازت کے بغیر شائع کی گئی تھی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ملالہ کی تصویر کو قومی ہیروز کی تصاویر کے ساتھ شائع کیا گیا تھا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اور مغرب کے ایجنٹس ملالہ یوسف زئی کو پاکستان کا ہیرو بنا کر پیش کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں ملالہ کو ملنے والے نوبل انعام نے سونے پر سہاگے کا کردار ادا کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملالہ یوسف زئی واقعتاً پاکستان کی ہیرو ہے؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ آخر کوئی شخص کس طرح کسی قوم کا ہیرو بنتا ہے؟۔
یہ حقیقت عیاں ہے کہ قوموں کے سب سے طاقت ور ہیروز مذاہب سے آتے رہتے ہیں۔ امام غزالی عظیم الشان عالم دین ہیں اور وہ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ تاریخ پر چھائے ہوئے ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام حنبلؒ چار مسالک کے بانی ہیں اور وہ ہماری مذہبی فکر کی تاریخ کا مرکزی حوالہ ہیں۔ چناں چہ پوری امت مسلمہ انہیں ہیروز کے طور پر دیکھتی ہے۔ مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، مولانا اشرف علی تھانوی، امام رضا خان بریلوی اور مولانا مودودی برصغیر کی مذہب کے ستون ہیں اور کروڑوں لوگ انہیں ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں۔ مذہب اتنا اہم ہے کہ بعض مذاہب میں غیر انسانی کردار بھی پوجے جاتے ہیں۔ شری گینش ہندو ازم کا اہم کردار ہیں اور ان کا سر ہاتھی کا ہے لیکن ہندو شری گینش کو پوجتے ہیں۔ ہندو ازم میں ہنومان ایک بندر ہے مگر اس نے رام اور راون کی کشمکش میں رام کا ساتھ دیا تھا اس لیے ہنومان ہندوازم میں مقدس ہے اور ہندو اس کی پوجا کرتے ہیں۔ اصحاب کہف کبھی مذہب کی تاریخ کے ہیروز تھے۔ اصحاب کہف تو خیر انسان تھے مگر ان انسانوں کی عظمت یہ ہے کہ ان کے حوالے سے ان کے کتے تک کا ذکر قرآن میں آگیا ہے۔ ملالہ یوسف زئی کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا اسلام کیا عیسائیت اور ہند وازم سے بھی کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ مذہب دشمن ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں نکاح کو غیر ضروری قرار دے کر اس کر اس پر اعتراض کیا۔ یہ نکاح پر نہیں شریعت محمدیؐ پر اعتراض تھا۔ چناں چہ ملالہ اس پاکستان کی ہیرو کہہ ہوسکتی ہیں جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔
مسلمانوں کے بہت سے ہیروز تاریخ سے آئے ہیں۔ اس دائرے میں ہمارے ہیرو ابوبکرؓ ہیں، عمرؓ ہیں، عثمان غنیؓ ہیں، علی مرتضیٰؓ ہیں۔ ہمارے ہیرو طارق بن زیاد ہیں جنہوں نے اسپین کو فتح کیا، ہمارے ہیرو محمد بن قاسم ہیں جنہوں نے سندھ پر اسلام کا پرچم لہرایا، ہمارے ہیرو ظہیر الدین بابر ہیں جنہوں نے ہندوستان کو زیر کیا۔ ہمارے ہیرو اورنگ زیب عالمگیر ہیں جنہوں نے 50 سال تک برصغیر میں اسلامی فکر کو زندہ اور برصغیر کی مسلم سلطنت کو متحد رکھا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان تاریخ کے سلسلے میں بھی مذہب کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ جلال الدین اکبر کو مغل سلطنت کا سب سے اہم حکمران مانتی ہے مگر چوں کہ جلال الدین اکبر نے دین الٰہی ایجاد کرکے اسلام کی روح کے منافی کام کیا تھا اس سے مسلمان جلال الدین اکبر سے محبت نہیں کرتے، مسلمان دارا شکوہ کو بھی اپنا ہیرو تسلیم نہیں کرتے۔ کیوں کہ دارا شکوہ ہندوازم سے متاثر تھا اور وہ گیتا کو قرآن سے بڑی کتاب کہتا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی کوئی تاریخی شخصیت نہیں ہیں، ان کا ہماری تاریخ کے متن سے کیا حاشیے سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ چناں چہ ملالہ یوسف زئی پاکستانی قوم کی ہیرو کیسے ہوسکتی ہیں؟
ہمارے ہیروز ہماری تہذیب اور اس کے مظاہرسے بھی آتے رہے ہیں۔ میر، غالب، اقبال ہماری ادبی روایت کی عظیم شخصیات ہیں اور تینوں ہمارے ہیرو ہیں۔ ملالہ یوسف زئی میر، غالب اور اقبال تو کیا ان کی قاری تک نہیں ہیں۔ قرۃ العین حیدر اردو کی سب سے بڑی ناول نگار ہیں اور وہ بلاشبہ ہماری ادبی روایت کی ہیرو ہیں مگر ملالہ یوسف زئی قرۃ العین حیدر کا سایہ بھی نہیں۔ ملالہ یوسف زئی نے اگر قرۃ العین حیدر کے پانچ ناول دیکھے بھی ہوتے تو ہم انہیں اپنی روایت سے وابستہ سمجھ لیتے۔ چوں کہ ملالہ ہماری تہذیب کی نمائندہ نہیں ہیں اس لیے بھی وہ پاکستان کی ہیرو نہیں ہوسکتیں۔
انسانوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جن کی شخصیت بین التہذیبی یا Trans Cultural ہوتی ہے۔ مثلاً امام غزالی کی شخصیت بین التہذیبی ہے۔ غزالی اسلامی تہذیب کی علامت ہونے کے باوجود ہر تہذیب کے انسان کے لیے اہم ہیں اس لیے کہ انہوں نے یونانی فکر کا رد لکھا ہے۔ مسلمانوں کی ایک اور بین التہذیبی یا Trans Cultural شخصیت مولانا روم ہیں۔ مولانا کی فکر و وسیع تر انسانیت کا حصہ ہے۔ چناں چہ وہ صرف مسلم دنیا کے ہیرو نہیں۔ انہیں مغرب میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک مولانا روم امریکا کے مقبول ترین شاعر تھے۔ شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ یہ بات درست ہے مگر رومی کا کمال یہ ہے کہ ان کی شاعری ترجمہ ہونے کے باوجود بھی اپنی معنویت اور اپنے جمال سے محروم نہیں ہوتی۔ شیکسپیئر کہنے کو انگریزی کا ڈرامہ نگار ہے مگر اس کی شخصیت کا جوہر بھی بین التہذیبی ہے اس لیے کہ شیکسپیئر مغربی انسان کی نفسیات کا نہیں ’’انسان‘‘ کی نفسیات کا غواص ہے۔ کہنے کو دوستو وسکی روسی زبان کا ادیب ہے مگر دوستو وسکی کی شخصیت بھی بین التہذیبی ہے۔ یا Trans Cultural ہے۔ چناں چہ دوستو وسکی کو پڑھتے ہوئے خیال آتا ہے کہ وہ انسان کے باطن میں اُتر کر ناول لکھتا ہے۔ ’’روسی انسان‘‘ کے باطن میں اُتر کر نہیں۔ ’’انسان‘‘ کے باطن میں اُتر کر۔ ملالہ یوسف زئی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی شخصیت میں بین التہذیبی انسان کا ایک ریزہ بھی موجود نہیں۔ چناں چہ وہ شیکسپیئر اور دوستو وسکی کی طرح ہر قوم کی ہیرو نہیں بن سکتیں۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بعض انسان صرف صاحب کمال ہونے کی وجہ سے ہیرو بن جاتے ہیں۔ ڈان بریڈ مین آسٹریلیا کے کرکٹر تھے مگر ان کے کھیل میں ایسی عظمت تھی کہ وہ پوری دنیا کے کرکٹرز اور کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کے ہیرو ہیں۔ گیری سوبرز ویسٹ انڈیز کے کرکٹر تھے مگر ان کے کھیل میں ایسا کمال موجود تھا۔ جس نے انہیں ہر ملک کے کھلاڑی کے لیے ایک نمونہ عمل بنادیا تھا۔ ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا کہ آسٹریلیا کے بولر ڈینس للی اورجیف تھامسن پوری دنیا کے فاسٹ بولرز کے لیے ایک مثال تھے۔ ویسٹ انڈیز کے فاسٹ بولر اینڈی رابرٹس اور مائیکل ہولڈنگ کو دنیا بھر کے فاسٹ بولر حیرت اور ہیبت سے دیکھا کرتے تھے۔ عمران خان تھے تو پاکستانی کرکٹر مگر وہ بھارت میں بھی ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ اتفاق سے ملالہ یوسف زئی میں ایسا کوئی ’’کمال‘‘ بھی موجود نہیں جس کی بنیاد پر پاکستانی انہیں ہیرو کا مقام دیں۔ بلاشبہ مغرب نے انہیں نوبل انعام دیا ہے۔ اس عمل سے بلاشبہ لالہ کی عزت بڑھی ہے مگر خود نوبل انعام کی عزت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ جب تک ملالہ کو نوبل انعام نہیں ملا تھا ہمارا خیال تھا کہ نوبل انعام کچھ اہم کرنے والوں کو دیا جاتا ہے مگر جب سے ملالہ کو نوبل انعام ملا ہے خیال آتا ہے کہ نوبل انعام کے لیے کچھ بھی کرنا ضروری نہیں۔