شاعر نے کہا ہے:
کچھ محبت میں کچھ عداوت میں
ہم نے اس آدمی کو سمجھا نہیں
محبت کائنات کی سب سے بڑی طاقت ہے مگر محبت انسان اور حقیقت کے درمیان پردہ بھی بن جاتی ہے۔ اس صورت میں انسان کو حقیقت ویسی ہی نظر آتی ہے جیسا کہ محبت دکھانا چاہتی ہے۔ چنانچہ ماں کو اپنا کالا کلوٹا بد صورت بچہ بھی ’’چاند‘‘ نظر آتا ہے۔ محبت کی طرح نفرت بھی حقیقت اور انسان کے درمیان پردہ بن جاتی ہے۔ بہو خواہ کتنی ہی اچھی ہو ساس کو اس میں سو عیب ہی نظر آئیں گے اور ساس خواہ دوسری ماں بن جائے مگر بہو کے لیے وہ ساس ہی رہے گی۔ محبت اور نفرت کا مقابلہ صرف انفرادی زندگی تک محدود نہیں۔ محبت اور نفرت اجتماعی زندگی میں بھی حقیقت اور انسان کے درمیان پردہ بن جاتی ہیں۔ خاص طور پر نفرت۔ ذوالفقار علی بھٹو بڑے سیاست دان تھے مگر ان سے نفرت کرنے والوں کو وہ صرف ’’فسطائی رہنما‘‘ دکھائی دیتے ہیں حالانکہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی پروگرام دیا‘ ملک کو 1973ء کا متفقہ اسلامی آئین دیا‘ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا‘ شراب پر پابندی لگائی‘ جمعہ کی تعطیل کا اعلان کیا۔ لیکن بھٹو سے نفرت کرنے والوں کو اُن میں کوئی بات نظر نہیں آتی۔ اس کے برعکس جنرل ضیا الحق سے نفرت کرنے والوں کے لیے جنرل ضیا صرف ایک فوجی آمر ہیں حالانکہ ان کے دور میں ایٹم بم بنا۔ انہوں نے افغان جہاد کی قیادت کی۔ انہوں نے ملک کی فضا میں اسلام کے چرچے کو عام کیا۔ مگر جنرل ضیا سے نفرت کرنے والوں کو یہ چیزیں نظر نہیں آتیں۔ بلال الرشید جنگ کے کالم نویس ہیں‘ وہ صحافت میں اسٹیبلشمنٹ کے ترجمانوں میں سے ایک ہیں۔ انہیں طالبان سے نفرت ہے‘ ان کی طالبان سے نفرت کا یہ عالم ہے کہ انہیں امریکا کے خلاف طالبان کی تاریخ ساز اور بے مثال فتح بھی فتح نظر نہیں آتی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا:
’’میرے بہت سے بھائی ایمان رکھتے ہیں کہ افغان طالبان نے جہاد کی قوت سے امریکا کو شکست دی‘ ان سے میرا سوال یہ ہے کہ ویت نام والوں نے بھی امریکا کو شکست دی‘ وہ تو مسلمان تھے ہی نہیں۔ یہ اسلام کی جنگ نہیں ہے۔ چاکلیٹ اور شراب پر پلنے والے امریکی فوجی دنیا بھر میں اسی تاریخ کے حامل ہیں۔ امریکا کے حصے میں تو ذلت آنی ہی تھی کہ ہر مغرور طاقت کے ساتھ خدا ایسا ہی کرتا ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 14 جولائی 2021ء)
بلال الرشید کی اس دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو حق و باطل کی کشمکش کی پوری تاریخ کی معنویت ہی بدل کر رہ جائے گی۔ بلاشبہ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو فتح اللہ تعالیٰ کی عنایت ہی کا نتیجہ تھی مگر رسول اکرمؐ اور 313 صحابہؓ نے جس قوتِ ایمانی‘ جس جذبۂ جہاد اور حبِ شوق شہادت کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور اس کو نظر انداز کرکے غزوۂ بدر پر کوئی بات ہی نہیں کی جاسکتی۔ غزوۂ بدر میں طاقت کا ایک ہولناک عدم توازن موجود تھا اور دنیاوی معیار کے مطابق اس غزوہ میں مسلمانوں کی فتح کا کوئی امکان نہیں تھا مگر 313 صحابہ کرامؓ نے طاقت کے ہولناک عدم توازن کی رتی برابر بھی پروا نہیں کی۔ وہ پورے جذبۂ ایمانی سے لڑے اور خدا ان کے اسی جذبۂ ایمانی کی آزمائش کرنا چاہ رہا تھا۔
بلال الرشید کے تجزیے کو درست مان لیا جائے تو سیدنا عمرؓ کے زمانے میں وقت کی دو سپر پاورز قیصر و کسریٰ کی مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کا بھی کوئی مفہوم نہیں۔ اس لیے کہ خدا قیصر و کسریٰ کے غرور کو توڑنا چاہ رہا تھا۔ اس تناظر میں اسپین میں طارق بن زیادؒ کی بے مثال کامیابی کا کوئی مفہوم ہے نہ سندھ میں محمد بن قاسمؒ کی فتح کا کوئی مطلب حالانکہ طارق بن زیادؒ اور محمد بن قاسمؒ نے 17 ہزار فوجیوں کے لشکر کے ذریعے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دی۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا کی امداد واعانت کے بغیر مسلمان کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا مگر اسلام ہی کی تعلیم ہے کہ ’’ذریعہ‘‘ بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ بلاشبہ ہدایت خدا ہی دیتا ہے مگر اس ہدایت کا فریضہ ہمیشہ رسول اور انبیاء بنے ہیں۔ چنانچہ اسی لیے اعانت کے ادارے کے بغیر مذہب اور نجات کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو افغانستان میں طالبان کی امریکا پر فتح گزشتہ ایک ہزار سال کی مسلم تاریخ کی سب سے بڑی خبر ہے۔ یہ خبر امریکا اور یورپ کے پاس ہوتی تو وہ اب تک اس پرآٹھ دس فلمیں بنا چکے ہوتے‘ اس سلسلے میں ڈیڑھ درجن دستاویزی فلمیں تیار ہو چکی ہوتیں‘ دو درجن کتابیں اس حوالے سے سامنے آچکی ہوتیں اور امریکا و یورپ کی فتح کی خبر ان کے اخبارات میں مسلسل شہ سرخیاں تخلیق کر رہی ہوتی۔ مگر ہمارا یہ حال ہے کہ ہم طالبان کی تاریخ ساز اور بے مثال فتح کا مذاق اڑا رہے ہیں اس پر مٹی ڈال رہے ہیں‘ اس کی اہمیت کو کم کرنے میں لگے ہوئے ہیں یہاں تک کہ بلال الرشید جیسے عناصر اسے فتح ہی تسلیم نہیں کر رہے۔ بلاشبہ امریکا کو ویت نام میں بھی شکست ہوئی تھی مگر ویت نام کی مزاحمتی قوت کو وقت کی دوسری سپر پاور سوویت یونین کی کامل سرپرستی حاصل تھی۔ پوری کمیونسٹ دنیا ویت نام میں مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ تھی مگر افغانستان میں امریکا کی مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ خدا کے سوا کوئی نہ تھا۔ نہ روس امریکا کی مزاحمت کرنے والوں کے ساتھ تھا نہ چین اس سلسلے میں ان کی مدد کر رہا تھا۔ مسلم دنیا کو اس مزاحمت سے کوئی دل چسپی ہی نہ تھی اس لیے کہ مسلم دنیا کے حکمران امریکا کے باج گزار ہیں۔ وہ افغانستان میں امریکا کے خلاف برپا جہاد کی حمایت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس کے باوجود مجاہدین نے امریکا کی ناک رگڑ دی۔ یہاں کہنے کی بات یہ بھی ہے کہ طالبان کی فتح اصل میں طالبان کی فتح تھوڑی ہے۔ یہ باطل پر حق کی فتح ہے‘ عالم کفر پر اسلام کی فتح ہے‘ ظالم پر مظلوم کی فتح ہے‘ اسلامی تہذیب کی مغربی تہذیب پر فتح ہے‘ ٹیکنالوجی پر ایمان کی فتح ہے‘ کمزور کی طاقت ور پر فتح ہے۔ امریکا اور مجاہدین کے معرکے میں طاقت کا ایسا ہولناک عدم توازن تھا کہ تاریخ اس کی مثال نہیں ملتی۔ سیاسی دائرے میں امریکا کی طاقت ایک لاکھ کی طاقت تھی اور مجاہدین کی طاقت صرف ایک کی طاقت تھی۔ معاشی دائرے میں امریکا کی طاقت ایک کروڑ کی طاقت تھی اور طالبان کی طاقت ایک کی طاقت تھی۔ عسکری دائرے میں امریکا کی طاقت ایک ارب کی طاقت تھی اور مزاحمت کرنے والوں کی طاقت ایک کی طاقت تھی۔ اس کے باوجود امریکا ہار گیا‘ مجاہدین جیت گئے۔ بلال الرشید کا کہنا ہے کہ خدا متکبرین کا سر نگوں کرتا رہتا ہے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے مگر ان کی اس دلیل سے بھی ثابت ہے کہ افغانستان میں خدا طالبان کے ساتھ تھا ایسا نہ ہوتا تو طالبان کبھی امریکا پر غالب نہ آئے ہوتے۔ مگر طالبان سے بلال الرشید کی نفرت اتنی شدید ہے کہ انہیں طالبان کی کوئی خوبی نظر نہیں آرہی۔ چنانچہ وہ افغانستان میں طالبان کی فتح کو صفر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
بلال الرشید نے ملا عمر کو ’’ہیرو‘‘ ماننے سے بھی انکار کردیا حالانکہ ملا عمر مسلمانوں کی عصری تاریخ کے ایک بہت بڑے ہیرو ہیں۔ ہیرو کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ طاقت ور سے نہیں ڈرتا۔ ملا عمر کو علما تک نے امریکا کی طاقت سے ڈرایا مگر ملا عمر نے امریکا کی طاقت پر تھوک دیا اور اس سے ڈرنے سے انکار کر دیا۔ ہیرو ہمیشہ حق پر ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتا ہے۔ ملا عمر کو دنیا عزیز ہوتی تو وہ امریکا سے مفاہمت کر لیتے اور اس کے آگے ہتھیار ڈال دیتے مگر ملا عمر نے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ ہیرو کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ ناممکن کو ممکن بناتا ہے جس طرح قائد اعظم نے پاکستان کے قیام کے ناممکن کو ممکن میں ڈھالا اسی طرح ملا عمر نے امریکا کی شکست کے ناممکن کو ممکن بنا کر دکھایا۔ مگر بلال الرشید کو یہ باتیں دکھائی ہی نہیں دیتیں۔ ملا عمر سے ان کی نفرت بلاشبہ ان کے اور حقیقت کے درمیان ایک پردہ بن گئی ہے۔ بلال الرشید نے اپنے کالم میں اسامہ بن لادن کو بھی زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ملا عمر کو چاہیے تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کر دیتے۔ ایک مسلمان کے لیے اس کی ذاتی پسند اور ناپسند کچھ نہیں ہوتی۔ مسلمان ہر چیز کے بارے میں پہلا سوال یہ کرتا ہے کہ ایسا کرنا اسلام کی رو سے غلط ہے یا صحیح ہے۔ چنانچہ ملا عمر نے کہا تھا کہ اگر امریکا کے پاس اسامہ کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت یا شہادت ہے تو وہ پیش کی جائے۔ بصورت دیگر اپنے مہمان کو دشمن کے حوالے کرنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے۔ یہ ایک اصولی مؤقف تھا اور امریکا اسامہ کے خلاف کوئی بھی ٹھوس ثبوت یا شہادت پیش نہ کر سکا۔ ملا عمر کے بارے میں یہ بات ایک ہزار بار دہرانے کے قابل ہے کہ ملا عمر نے اقبال کی فکر کی پیروی میں حد کردی اقبال نے کہا تھا:
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
ملا عمر نے اپنا ملک دائو پر لگا دیا مگر حق سے بے وفائی نہیں کی۔