افغانستان میں طالبان کی برق رفتار پیش قدمی کے ساتھ ہی امریکا اور یورپ سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں کہ اگر طالبان نے افغانستان طاقت کے زور پر فتح کیا تو عالمی برادری ان کے قبضے یا اقتدار کو تسلیم نہیں کرے گی۔ مغربی دنیا کے اس ردِعمل سے صاف ظاہر تھا کہ امریکا اور یورپ کو توقع نہیں تھی کہ طالبان اتنی تیزی سے آگے بڑھیں گے۔ اور کابل کا کنٹرول حاصل کرلیں گے۔ لیکن مسئلہ امریکا اور یورپ کی توقع کا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکا اور یورپ جس طرح طاقت کی مذمت کررہے ہیں اور جس طرح جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی دنیا طاقت کے خلاف ہے اور مغربی دنیا کو جمہوریت بہت عزیز ہے۔ حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ مغربی دنیا کی تاریخ طاقت پرستی کی تاریخ ہے اور مغربی دنیا کو مسلم ملکوں میں جمہوریت کبھی بھی عزیز نہیں رہی۔
اس سلسلے میں یورپ کی تاریخ ہے کہ اس نے 19 ویں صدی میں آدھی سے زیادہ دنیا کو طاقت سے فتح کیا۔ کیا انگریزوں نے برصغیر میں پہلے جمہوریت متعارف کراکے انتخابات کردیے تھے اور وسیع البنیاد حکومت قائم کی تھی؟ ایسا نہیں تھا۔ انگریز آئے اور انہوں نے طاقت اور سازشوں کے ذریعے پورے برصغیر پر قبضہ کر لیا اور ڈیڑھ سو سال تک کسی جمہوری نظام کے بغیر برصغیر پر حکومت کرتے رہے۔ انہوں نے برصغیر کے مالک بہادر شاہ ظفر کو اپنا قیدی بنالیا۔ حد یہ ہے کہ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر پر انہی کے ہندوستان میں ’’بغاوت‘‘ کا مقدمہ چلایا۔ انگریز اتنے سفاک تھے کہ انہوں نے جنگ آزادی لڑنے والوں کو وحشی، درندے اور ڈاکو قرار دیا اور جنہیں صرف گولی ماری جاسکتی تھی انہیں توپ کے گولوں سے اڑایا گیا۔ انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان میں مرنے تک کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو رنگون میں قید کردیا۔ وہیں بہادر شاہ ظفر کا کسمپرسی میں انتقال ہوا۔ بہادر شاہ ظفر کو اس صورتِ حال کا اندازہ تھا۔ اسی لیے انہوں نے کہا تھا۔
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
یہ صرف انگریزوں کی کہانی نہیں ہے۔ فرانسیسیوں نے الجزائر میں ظلم کی انتہا کردی۔ انہوں نے طاقت کے ذریعے فرانس پر قبضہ کیا اور جنگ آزادی لڑنے والے 15 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اطالویوں نے عمر مختار کے لیبیا میں طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظلم ڈھائے۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے تو اس کی تاریخ ہی طاقت پرستی کی تاریخ ہے۔ سفید فام باشندوں نے طاقت کے زور پر امریکا کو فتح کیا اور 8 سے 10 کروڑ ریڈ انڈینز کو مار ڈالا۔ کیا امریکا نے افغانستان پر حملے سے قبل افغانستان میں انتخابات کراکے وہاں کی حکومت سے حملے کی اجازت لی تھی؟ کیا امریکا نے عراق پر جارحیت سے قبل عراق میں جمہوریت متعارف کراکے وسیع البنیاد حکومت بنادی تھی اور اس حکومت سے پوچھا تھا کہ امریکا عراق پر حملہ کرے یا نہ کرے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ پھر امریکا اور یورپ یہ کیوں کہہ رہے تھے کہ اگر طالبان نے طاقت کے زور پر افغانستان کو فتح کیا تو امریکا اور یورپ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے؟
امریکا اور یورپ صرف طالبان کی طاقت کی مخالفت نہیں کررہے، وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں جمہوریت ہونی چاہیے، پاکستان تک میں بعض لوگ فرما رہے ہیں کہ طالبان کو چاہیے کہ وہ افغانستان پر کنٹرول حاصل کرتے ہی وہاں انتخابات کا اعلان کردیں۔ مغرب جمہوریت جمہوریت بہت کرتا ہے مگر مغرب کو مسلم دنیا میں کہیں حقیقی جمہوریت درکار نہیں۔ آج مغرب اور اس کے زیر اثر افراد طالبان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ جمہوریت کو سینے سے لگالیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان میں انتخابات ہوئے اور ان میں طالبان فتح یاب ہوگئے تو پھر کیا ہوگا کیا امریکا اور یورپ طالبان کی جمہوری اور انتخابی کامیابی کو قبول کرلیں گے؟ اس سلسلے میں مغرب کا ریکارڈ شرمناک اور شیطنت میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ الجزائر میں انتخابات ہوئے تو الجزائر کی تحریک اسلامی یعنی اسلامی فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔ یہ دیکھتے ہوئے الجزائر کی فوج میدان میں کود پڑی۔ اس نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ مغرب اس صورت حال پر خاموش رہا۔ اس نے الجزائر کی فوج کی مذمت ہی نہیں کی۔ اس نے الجزائر کی فوجی آمریت کو قبول کرلیا اور الجزائر پر کسی قسم کی اقتصادی پابندیاں عاید نہیں کیں۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ ہے کہ اگر الجزائر کے انتخابات میں کسی سیکولر یا لبرل جماعت نے دو تہائی اکثریت حاصل کی ہوتی تو الجزائر کی فوج میدان میں آتی اور نہ مغرب کے لیے اس میں کوئی قابل اعتراض بات ہوتی۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان میں انتخابات ہوئے اور ان میں طالبان نے دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تو کیا امریکا اور یورپ طالبان کی جمہوری کامیابی کو قبول کرلیں گے؟ حقائق سے آگاہ ہر شخص اس سوال کا جواب نفی میں دے گا۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ حماس ایک جہادی تنظیم تھی مگر فلسطین کی تاریخ کے ایک اہم اور نازک مرحلے پر اس نے محسوس کیا کہ اب اسے ایک سیاسی جماعت کا کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔ چناں چہ حماس نے خود کو ایک سیاسی جمہوری قوت میں ڈھالا۔ اس نے انتخابات میں حصہ لیا اور واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ مگر نہ امریکا نے حماس کی حکومت کو تسلیم کیا نہ یورپ نے حماس کی جمہوری حکومت کو سینے سے لگایا۔ سوال یہ ہے کہ اگر امریکا اور یورپ نے افغانستان میں طالبان کی جمہوری کامیابی کو تسلیم نہ کیا تو پھر کیا ہوگا؟
اس سلسلے میں مصر کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ صدر مرسی نے آزادانہ انتخابات میں ووٹ کی طاقت سے کامیابی حاصل کی تھی مگر صدر مرسی کی کامیابی پہلے دن سے امریکا اور یورپ کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی۔ حالاں کہ اخوان کے تعلقات امریکا سے بھی تھے اور یورپ سے بھی۔ بالآخر ہوا یہ کہ جنرل سیسی نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسی سلسلے میں امریکا نے منافقانہ کردار کی حد کردی۔ اس نے جنرل سیسی کی فوجی مداخلت کو فوجی مداخلت تک قرار نہ دیا۔ وہ ایسا کرتا تو اسے مصر پر اقتصادی پابندیاں عاید کرنا پڑجاتیں۔ جنرل سیسی نے اقتدار پر قبضے کے بعد اخوان کے آٹھ سے دس ہزار کارکنوں کو دن دہاڑے قتل کردیا۔ مصری فوج نے اخوان کے کارکنوں کے سروں اور سینوں پر گولیاں ماریں۔ ان پر ٹینک چڑھا دیے۔ مگر امریکا اور یورپ کے کان پر جوں تک رینگ کر نہ دی۔ سوال یہ ہے کہ اگر طالبان جمہوری طور پر اقتدار میں آگئے اور انہوں نے افغانستان کی پارلیمنٹ کا اجلاس بلالیا اور امریکا نے پارلیمنٹ ہائوس پر B-52 طیاروں سے بم گرا دیے تو پھر کیا ہوگا؟ یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ امریکا اور یورپ کو مسلم دنیا میں کسی حقیقی جمہوریت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ امریکا اور یورپ کی تمنا یہ ہے کہ انتخابی عمل کے ذریعے صرف سیکولر اور لبرل قیادت سامنے آئے۔ لیکن اس قیادت کے لیے بھی شرط یہ ہے کہ یہ ’’قوم پرست‘‘ یا ’’ملک پرست‘‘ نہ ہو۔ مسلم دنیا کے کسی ملک کی قیادت اگر قوم پرست ہوگی تو امریکا اور یورپ کے لیے قابل قبول نہ ہوگی۔ مہاتیر محمد ’’اسلامسٹ‘‘ نہیں تھے مگر وہ ’’قوم پرست‘‘ تھے۔ چناں چہ امریکا نے ان کے خلاف سازشیں کیں۔ رجب طیب اردوان بھی ’’اسلامسٹ‘‘ نہیں ہیں مگر وہ ’’قوم پرست‘‘ ہیں۔ چناں چہ امریکا اور یورپ ان کے خلاف بھی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ دراصل امریکا کو مسلم دنیا میں صرف اپنے ’’ایجنٹس‘‘ درکار ہیں۔ یہ ایجنٹس جرنیل ہوں تو کوئی بات نہیں۔ یہ ایجنٹس بادشاہ ہوں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ پھر امریکا کو نہ جمہوریت یاد رہتی ہے نہ اُسے انسانی حقوق یاد آتے ہیں۔
طالبان کو ان کے پہلے دور میں صرف تین ملکوں یعنی پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا تھا مگر اس بار طالبان بہتر حکمت عملی کے ساتھ کام کرتے نظر آرہے ہیں۔ چناں چہ امکان یہ ہے کہ طالبان کے اقتدارِ اعلیٰ پر چین اور روس جس بڑی طاقتوں کو کوئی اعتراض نہ ہوگا اور وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرسکتے ہیں۔ طالبان نے اب تک ایران کے ساتھ بھی بہتر رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور وہ افغانستان ان شیعہ آبادی کو اپنے بندوبست میں مناسب نمائندگی دینے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو طالبان کی عالمی قبولیت کے امکانات ماضی کے مقابلے پر کافی بہتر ہیں۔