دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے لندن میں ایم کیو ایم کے دفتر پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کے سلسلے میں چھاپے کے حوالے سے نتائج اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے حوالے سے جاری تحقیقات ایم کیو ایم کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد دے گی۔ ایم کیو ایم حکومت کی اہم اتحادی اور سیکولر قوتوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کے تازہ بیان برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی اس خبر کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے مطابق لندن میٹروپولیٹن پولیس پریس آفس کے اہلکار مسٹر جوناتھن نے ایجویر کے علاقے میں الطاف حسین کے ’’کاروباری دفتر‘‘ پر چھاپے کی تصدیق کی ہے۔ میٹرو پولیٹن پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ الطاف حسین کے کاروباری دفتر پر تلاشی کا کام دو دن سے جاری تھا جو جمعرات کو شروع ہوا اورجمعہ کی شام مکمل کرلیا گیا۔ ایم کیو ایم کے منحرف رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کے سلسلے میں ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپے، تلاشی اور دستاویز لے جانے کی خبریں کئی روز سے ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہی تھیں لیکن پہلی بار برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی اردو سروس کے نمائندے سے ٹیلی فون پر لندن پولیس کے ترجمان نے تصدیق کی ہے۔ خبروں کی مطابق اسکاٹ لینڈ یارڈ ڈاکٹر عمران فاروق کے قاتلوں تک پہنچ گیا ہے
حقیقت کیا ہے اس کا اندازہ تو مستقبل میں ہوجائے گا، لیکن اس خبر پر دفتر خارجہ کے ترجمان کا وضاحتی بیان حیرت انگیز ہے، دفتر خارجہ کے ترجمان کی ہفتہ وار اخباری گفتگو کا موضوع بین الاقوامی تعلقات ہوتا ہے، لیکن ایک سیاسی رہنما کی قتل کی تفتیش کا مسئلہ دفتر خارجہ کا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر اس تفتیش سے پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات یا بین الاقوامی تعلقات کا تعلق ہوتا تو ضرور اس پر دفتر خارجہ کے تبصرے کا جواز ہوتا ہے۔ یہ تبصرہ جن الفاظ میں سامنے آیا ہے وہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے، دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاورق کے قتل کی تفتیش اور ایم کیو ایم کے دفتر کے چھاپے سے قبل از وقت نتائج اخذ کرنا غلط ہوگا، اسی کے ساتھ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ تحقیق و تفتیش کے بعد غلط فہمیوں کے بادل چھٹ جائیں گے یعنی ایم کیو ایم اسکاٹ لینڈ یارڈ یا لندن پولیس کی تفتیش کے بعد بھی پاک صاف ہوکر نکل آئے گی۔ اس کے بعد دفتر خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ ایم کیو ایم حکومت کی اہم اتحادی اور ملک میں سیکولر قوتوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ لندن پولیس کی جانب سے ابھی تک کسی شخص یا جماعت کو نام لے کر ملزم نامزد نہیں کیا گیا ہے البتہ یہ بڑی پیش رفت ہوئی ہے جس کے مطابق لندن پولیس نے ایم کیو ایم کے دفتر پر چھاپا مارا ہے، متعلقہ افراد سے تفتیش کی ہے اور شاید کچھ دستاویزات بھی لے کر چلے گئے ہیں، البتہ اس دفتر کو لندن پولیس نے کسی جماعت کا دفتر قرار دینے کے بجائے الطاف حسین کا ’’بزنس آفس‘‘ بتایا ہے۔ اس تفتیشی عمل سے اس کو پریشان ہونا چاہیے جو قتل کی اس واردات میں شامل ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو لیکن دفتر خارجہ کے ترجمان کی تشویش اور توقع کا اس سے کیا تعلق ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، آخر دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کس کو یہ پیغام دیا ہے کہ ایم کیو ایم ملک میں سیکولر قوتوں کی نمائندہ جماعت ہے، یعنی ایم کیو ایم کے قائد کی برطانیہ میں قتل کے الزام میں ماخوذ ہونے کا عمل پوری ایم کیو ایم کو تحلیل کردے گا اور ایم کیو ایم کا زوال ملک کی سیکولر قوتوں کا زوال قرارپائے گا۔ پاکستان میں ایم کیو ایم کا تعارف صرف ایک فاشسٹ دہشت گرد تنظیم اورقاتلوں اور بھتا خوروں کے گروہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے ملک اور بیرون ملک سب آگاہ ہیں۔ لیکن پاکستان اور عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کو قاتلوں اور دہشت گرد فاشسٹ تنظیم کے حوالے کرنے کا فیصلہ ملکی اور عالمی قوتوں نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب این آر او جیسے قانون جو ہر قسم کی لاقانونیت اور جرائم کو جائز قرار دینے والے قانون کے تحت نئی حکومت قائم ہوئی اور جنرل پرویز مشرف کی ’’روشن خیال‘‘ حکومت کی وراثت آصف علی زرداری کی’’ قومی مفاہمتی جمہوریت‘‘ کے حوالے کی گئی تو اس کا مرکزی کردار ایم کیو ایم تھی۔ حالانکہ پاکستان میں 12مئی ایم کیو ایم کے جرائم اور دہشت گردی کی سب سے بڑی شہادت بن گیا تھا۔ ملکی داخلی سیاست میں جعلی انتخابی فہرست کے اندراج کے انکشاف سے یہ حقیقت توعیاں ہوہی گئی تھی کہ جب تک کراچی شہر کو ایم کیو ایم کی دہشت گردوں سے آزاد نہیں کرایا جاتا اس وقت تک شہر میں آزاد اور شفاف انتخابات ہوہی نہیں سکتے۔ اب لندن میں ایم کیو ایم کے منحرف رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش نے عالمی سطح پر بھی بعض حقائق منکشف کردیے ہیں اور ایسے حالات نظرآنے لگے ہیںجس کے بعد عالمی قوتوں کے لیے الطاف حسین جیسے دہشت گرد کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا مشکل ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان میں امریکاکا تخلیق کردہ سیاسی نظام بھی زمین بوس ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کی تشویش دفترخارجہ کو کیوں ہورہی ہے جس نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے بارے میں غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔ دفتر خارجہ کا ترجمان پاکستان کا ترجمان ہے یا ایم کیو ایم کا؟ البتہ دفتر خارجہ نے یہ بات درست کہی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان میں سیکولر قوتوں کی نمائندہ جماعت ہے اس بیان کا یہی سب سے مثبت پہلو ہے، جس نے دنیا کے سامنے اور اہل پاکستان کے سامنے سیکولر قوتوں کا حقیقی چہرہ پیش کردیا ہے۔ کراچی سیکولر دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ وہ لوگ جو ملک اور دنیا کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، انہوں نے کبھی بھی کراچی سمیت پورے ملک میں سیکولر قوتوں کی دہشت گردی سے نجات کے لیے کوئی آواز بلند نہیں کی۔ ہم نے اس کا مشاہدہ کیا ہے کہ لوگوں کے اوپر کراچی کے دہشت گردوں کا خوف پورے ملک میں طاری رہا ہے، اس کے باوجود کراچی میں ایم کیو ایم کی دہشت گردی کے حقائق پر پردہ ڈالا گیا۔ روشن خیال طبقات کی نمائندگی کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے انسانی حقوق کی پامالی کا ریکارڈ توڑ دیا لیکن اسے ’’انتہا پسندی‘‘ کے خلاف جنگ لڑنے کا ہیرو قرار دیا اور اسی شخص نے 12مئی کے سیاہ ترین دن کو جب دن کی روشنی میں کراچی شہر کی مرکزی شاہراہ کو جسٹس افتخار چودھری کا استقبال کرنے والوں کے خون سے لالہ زار کردیا گیا اس دن اس سفّاکی اور درندگی کو جنرل پرویز مشرف نے عوامی قوت کا مظاہرہ قرار دیا۔ کراچی میں دہشت گردوں اور قاتلوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے والوں کی فہرست طویل ہے۔ اس وقت حاضر نام آصف علی زرداری اور رحمٰن ملک کا ہے جو اپنی پارٹی کے مقتولوں کے خون سے بھی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان سے اس بات کا سبب بھی معلوم ہوگیا، یعنی ایم کیو ایم سیکولر قوتوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ ہمیں بھی سیکولر قوتوں کی اصل شناخت معلوم ہوگئی کہ یہ بات دفتر خارجہ سے پہلے پاکستان میں سیکولر فورم کے ایک ترجمان بھی کہہ چکے ہیں۔ پاکستان میں سیکولرزم کی اصل تشریح بھی یہی ہے۔