پاکستان کے بعض کالم نویس پاکستان میں طالبان کی حمایت کو ایک بڑا جرم بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ بلال الرشید نے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے ایک کالم میں کچھ عرصہ پہلے مطالبہ کیا تھا کہ جو لوگ طالبان کی حمایت کرتے ہیں وہ پاکستان چھوڑ کر افغانستان کیوں نہیں چلے جاتے۔ اب روزنامہ جنگ ہی میں یاسر پیرزادہ نے بھی یہی بات کہی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ لوگ طالبان کو اللہ کا سپاہی اور مجاہد سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ طالبان نے جذبہ ٔ ایمانی کی بنیاد پر کفر کو شکست دی ہے وہ بوریا بستر باندھیں اور بیوی بچوں سمیت افغانستان منتقل ہوجائیں۔ (روزنامہ جنگ۔ 18 اگست 2021ء)
ہم نے یہ بات کبھی لکھی نہیں مگر آج عرض کیے دیتے ہیں کہ ہمارے پسندیدہ شہر مکہ اور مدینہ ہیں مگر ہم کہیں اور کیا مکے اور مدینے میں بھی جا کر آباد نہیں ہوسکتے۔ نہ سعودی حکومت ہمیں وہاں آباد ہونے کی اجازت دے سکتی ہے۔ مکہ اور مدینہ تو خیر دور کی بات ہے ہم کراچی چھوڑ کر لاہور میں آباد نہیں ہوسکتے۔ انسان جہاں پیدا ہوتا ہے جہاں اس کا بچپن اور جوانی گزرتی ہے وہ جگہ اسے محبوب ہوتی ہے۔ پھر انسان کی عزیز داریاں ہوتی ہیں، دوستیاں ہوتی ہیں، انسان اپنے عزیزوں اور دوستوں کو آسانی کے ساتھ کہاں چھوڑ سکتا ہے؟ دوسری جگہ آباد ہونے میں ایک مسئلہ زبان کا ہوتا ہے۔ ہم اگر چار دن اردو نہ بولیں تو زندگی اجیرن ہوجائے۔ انسان کی زندگی میں کلچر کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے۔ کلچر انسان کی فضا ہوتا ہے۔ اس کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ چناں چہ کسی کے لیے بھی اپنا شہر اور اپنا ملک چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔ البتہ ان لوگوں کی اور بات ہے جن کی جڑیں اپنے کلچر میں ہوتی ہیں نہ انہیں اپنی زبان سے انس ہوتا ہے، نہ ان کے لیے رشتے ناتوں کی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ نہ ان کے لیے دوستیوں کا کوئی مفہوم ہوتا ہے۔ ایسے لوگ کہیں بھی جا کر آباد ہوسکتے ہیں اور خوش رہ سکتے ہیں۔ لیکن ’’انسانوں‘‘ کے لیے اپنا ’’ماحول‘‘ ترک کرنا آسان نہیں ہوتا شہر اور ملک کیا علاقہ بدلنا تک آسان بات نہیں ہوتا۔ ہم گزشتہ چالیس سال سے کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں آباد ہیں۔ نارتھ ناظم آباد اور اس کے قرب و جوار میں ہمارے دو بھائی اور ایک بہن بھی آباد ہیں۔ نارتھ ناظم آباد ہی میں ہماری سسرال بھی ہے۔ چناں چہ ہمارے لیے نارتھ ناظم آباد کے علاقے تک کو چھوڑنا آسان نہیں۔ کہیں جا کر آباد ہونے کا عمر سے بھی گہرا تعلق ہے۔ پندرہ بیس سال کی عمر میں نئے سماجی اور ثقافتی ماحول کا حصہ بننا آسان ہے مگر چالیس پچاس سال کے بعد نئے ماحول میں رچ بس جانا ناممکنات میں سے ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی محل نظر ہے کہ جو لوگ طالبان کی حمایت کررہے ہیں وہ ظالم امریکا کے مقابلے پر مظلوم افغانیوں کی حمایت کررہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب ہم غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کریں گے اور اسرائیل کے خلاف ان کی کسی کامیابی پر خوش ہوں گے تو بلال الرشید اور یاسر پیرزادہ جیسے کم ظرف اور بدباطن ہم سے کہیں گے کہ آپ کو پاکستان چھوڑ کر غزہ میں آباد ہوجانا چاہیے۔ کچھ دن بعد ہم مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین کی حمایت کریں گے اور ان کے کسی کارنامے پر شاد ہوں گے تو یہ کم ظرف اور بدباطن لوگ کہیں گے کہ اب آپ کو مقبوضہ کشمیر میں جا کر آباد ہوجانا چاہیے۔ ہم روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کریں گے تو یہ ہمیں میانمر میں جا کر آباد ہونے کا مشورہ دیں گے۔
بلال الرشید نے اپنے ایک حالیہ کالم میں افغان طالبان اور مسلم دشمنی کی نئی حدودوں کو چھو لیا ہے۔ ذرا ان کے کالم کا یہ اقتباس تو ملاحظہ کیجیے، لکھتے ہیں۔
’’اس کے باوجود چیختا ہوا یہ سوال ہمارے سامنے کھڑا ہے کہ اس جنگ سے طالبان اور افغانستان نے کیا حاصل کیا؟ پاکستان نے کیا حاصل کیا؟ عالم اسلام کو کیا حاصل ہوا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صرف 4 عشروں میں دو عالمی طاقتوں کو خاک چٹانے والا افغانستان آج ترقی و خوشحالی کا نمونہ ہوتا اور دونوں عالمی قوتیں عبرت کی مثال، افلاس، بھوک اور بیماری سے مگر افغان مر رہے ہیں، امریکی اور روسی نہیں۔ تعلیم افغانوں کے پاس نہیں، پینے کا صاف پانی نہیں، آپ فلک بوس عمارتوں سے بھرپور امریکی اور روسی شہروں کا موازنہ افغان شہروں سے کرلیں، خود سے آپ یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ یہ کیسی جنگ مسلمانوں نے جیتی ہے؟‘‘
(روزنامہ جنگ۔ 18 اگست 2021ء)
جیسا کہ ظاہر ہے اس اقتباس میں بلال الرشید نے افغانوں، طالبان اور مسلمانوں، تینوں پر تھوکا ہے۔ بلکہ انہوں نے افغانستان میں ہونے والے جہاد پر کیچڑا اچھالا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کرکے مجاہدین نے کیا حاصل کیا؟ کوئی بلال الرشید کو بتائے کہ جہاد افغانستان سے پہلے جہاد کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جہاد کا ادارہ ختم ہوچکا۔ اب رہتی دنیا تک کبھی بھی کہیں بھی جہاد کا ادارہ بحال نہیں ہوگا۔ جہاد افغانستان نے ثابت کیا کہ جہاد کی روح اور جہاد کا ادارہ اسی طرح زندہ ہے جس طرح چودہ سو سال پہلے زندہ تھا۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد میں درجنوں مسلم ممالک کے مسلمانوں نے رضا کارانہ طور پر شرکت کی۔ وہ جہاد اور شہادت کی آرزو لے کر افغانستان آئے اور ثابت کیا کہ رسول اکرمؐ کے ارشاد کے مطابق امت مسلمہ جسد ِ واحد ہے۔ اس جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ کیا جہاد کا احیا اور امت مسلمہ کے جسد ِ واحد ہونے کے تصور کی بحالی کوئی معمولی بات تھی؟۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کی کامیابی سے پہلے عام خیال تھا کہ مسلمان صرف زمین کا بوجھ ہیں۔ مگر مسلمانوں نے جہاد کو کامیابی سے ہمکنار کرکے ثابت کیا کہ مسلمانوں کے پاس اتنی روحانی قوت اور ایسے عظیم تصورات ہیں جن کے ذریعے وہ وقت کی سپر پاور کو شکست دے سکتے ہیں۔ اس طرح جہاد افغانستان سے مسلمانوں کا کھویا ہوا اعتماد انہیں واپس ملا۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟ طالبان نے تو اس سلسلے میں حد ہی کردی۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد میں پوری امت مسلمہ شریک تھی۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کو امریکا اور یورپ کو بھی حمایت حاصل تھی مگر امریکا اور روس کے 48 اتحادیوں کے خلاف جنگ میں طالبان تنہا تھے، وہ تھے اور ان کا خدا تھا۔ نہ روس ان کی مدد کررہا تھا، نہ چین کی حمایت انہیں حاصل تھی۔ حد تو یہ ہے کہ وہ پاکستان جو طالبان کو ’’اپنے بچے‘‘ کہتا تھا اس نے بھی طالبان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ جنرل پرویز نے سیکڑوں کی تعداد میں مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا اور ان کے اعتراف کے مطابق کروڑوں ڈالر کمائے۔ چناں چہ امریکا کے خلاف طالبان کی فتح سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی فتح سے زیادہ بڑی فتح ہے۔ یہ فتح ہر حوالے سے تاریخ ساز ہے مگر بلال الرشید اس فتح کا مذاق اُڑا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اس فتح سے مسلمانوں نے کیا حاصل کیا۔ بلال الرشید کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بعض جنگیں صرف ’’شہادت حق‘‘ کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ خواہ ان میں فتح نصیب ہو یا نہ ہو۔ شہادت ِ حق اسلام کا ایک اہم تصور ہے، آخر غزوہ احد سے کیا حاصل ہوا؟ مگر غزوہ احد بھی غزوہ بدر کی طرح شہادت ِ حق کا مظہر تھا۔ چناں چہ اس غزوے کی بھی غیر معمولی اہمیت اور تقدیس ہے۔ خاکم بدہن اگر طالبان کو 20 سال تک امریکا کے خلاف جہاد کرنے کے بعد شکست ہوجاتی تو بھی کوئی بات نہ ہوتی۔ اس لیے کہ طالبان نے شہادت ِ حق کا فرض ادا کردیا تھا، مگر اللہ تعالیٰ نے طالبان کو اس معرکے میں فتح سے ہمکنار کیا۔ اس معرکے کی اہمیت یہ ہے کہ طالبان نصرت الٰہی کے بغیر امریکا اور اس کے 48 اتحادیوں کو شکست دے ہی نہیں سکتے تھے۔ چناں چہ طالبان کی فتح سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل تھی۔ جس فتح پر تائید الٰہی کا سایہ صاف نظر آرہا ہو اس کا مذاق بلال الرشید اور یاسر پیرزادہ جیسے بدباطن ہی اُڑا سکتے ہیں۔
بلال الرشید کی بدباطنی نے انہیں یہ بات بھی سمجھائی کہ سوویت یونین اور امریکا کے خلاف جہاد سے افغانستان خوشحال کیوں نہیں ہوا؟ کیا اسلام میں جہاد کا تصور یہ ہے کہ وہ خوشحال ہونے کے لیے کیا جاتا ہے، ترقی یافتہ ہونے کے لیے کیا جاتا ہے۔ رسول اکرمؐ کے زمانہ مبارک میں ہونے والے غزوات اور سرایا سے مسلمان کتنے خوشحال اور ترقی یافتہ ہوگئے تھے۔ ذرا بلال الرشید اس کی تفصیل تو فراہم کریں۔ اس سلسلے میں بلال الرشید کی روحانی، اخلاقی اور علمی عسرت کا یہ حال ہے کہ انہیں اقبال کے یہ اشعار تک یاد نہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
شہادت سے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجیب چیز ہے لذّتِ آشنائی
ویسے بلال الرشید یہ بھی بتائیں کہ مغربی دنیا نے دو عالمی جنگیں لڑیں۔ آخر ان دو عالمی جنگوں سے مغربی دنیا کو کیا حاصل ہوا؟ 10 کروڑ لوگوں کی ہلاکت، 30 کروڑ لوگوں کا زخمی ہونا۔ پاکستان نے بھارت سے چار جنگیں لڑیں۔ ان جنگوں سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا۔ 1971ء کی جنگ کے بعد تو پاکستان ہی آدھا رہ گیا۔ طالبان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے امریکا کے خلاف 20 سال جنگ لڑی اور امریکا سے پورا افغانستان بچا کر لے گئے۔ قاضی حسین احمد نے ایک بار ہمیں بتایا تھا کہ وہ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز سے ملے تو انہوں نے جنرل پرویز سے پوچھا کہ آپ نے امریکا کی مزاحمت کا فیصلہ کیوں نہیں کیا۔ جنرل پرویز نے کہا کہ میں نے سروسز چیفس سے پوچھا تھا کہ ہم امریکا کے خلاف کتنی دیر لڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا دس منٹ۔ جس امریکا کے خلاف ایٹمی پاکستان صرف دس منٹ لڑ سکتا تھا اس امریکا کے خلاف طالبان نے 20 سال لڑ کر دکھادیا۔ یہ ایک معجزہ ہے۔ مگر بلال الرشید اور یاسر پیرزادہ جیسے لوگ معجزے پر بھی تھوک دیتے ہیں۔