مغرب شیطان ہے۔ اس کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جب بھی مسلم معاشروں میں داخل ہوتا ہے اسلام کے باغی پیدا کرتا ہے۔ یونانی فلسفہ مسلم معاشروں میں داخل ہوا تو اس نے ابن سینا اور فارابی جیسے لوگ پیدا کیے۔ ابن سینا اور فارابی کی فکر کے چار بہت ہی بڑے مسائل تھے۔ ان کا پہلا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کائنات کو ازلی و ابدی تسلیم کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس عقیدے کا نقص یہ ہے کہ اس سے کائنات اور خدا ہم پلّہ ہوجاتے ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ابن سینا اور فارابی نے یہی مقام کائنات کو بھی عطا کردیا۔ امام غزالی نے صاف لکھا ہے کہ جو شخص کائنات کو ازلی و ابدی سمجھتا ہے وہ کفر کرتا ہے۔ ابن سینا اور فارابی کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ وہ عقل پر وحی کی بالادستی کے قائل نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ عقل کو کام کرنے کے لیے وحی کی ضرورت نہیں۔ عقل خود نیک و بد کا تعین کرسکتی ہے۔ یہ عقیدہ مسلم دنیا میں پھیل جاتا تو مسلم دنیا میں بھی مذہب کا وہی حال ہوتا جو مغرب میں ہوا۔ ابن سینا اور فارابی کا تیسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ مرنے کے بعد انسان کے جسمانی طور پر اٹھائے جانے کے قائل نہ تھے۔ چوتھا مسئلہ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا کلیات کا علم تو رکھتا ہے جزیات کا علم نہیں رکھتا۔ امام غزالی نے ان تمام فکری چیلنجوں کا جواب دیا اور مسلم دنیا میں یونانی فلسفے کا بیج مار کر رکھ دیا۔ یہ اتنا بڑا کام تھا کہ اتنا بڑا کام قومیں، ملتیں، امتیں اور تہذیبیں کرتی ہیں۔ لیکن غزالی نے یہ کام تن تنہا کرکے دکھا دیا۔
مغربی فکر برصغیر میں آئی تو اس نے سرسید کو پیدا کیا۔ انگریزوں اور مغربی فکر کی آمد سے قبل سرسید آپ کی اور میری طرح ایک عام مسلمان تھے مگر مغرب کے غلبے نے ایک نیا سرسید پیدا کیا۔ اس نئے سرسید نے خود کو مغربی فکر سے ہم آہنگ کرنے کے لیے قرآن کے تمام معجزات کا انکار کردیا۔ حدیث کو اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیا اور منکر حدیث کہلائے۔ انہوں نے فقہ کی پوری روایت کو فضول کہہ کر مسترد کردیا۔ انہوں نے 13 سو سال کے تفسیری سرمائے پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ انہوں نے اجماع کے اصول کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے مسلمانوں میں مغربی تہذیب کی محبت اور اپنی تہذیب کی نفرت پیدا کی۔ انہوں نے مغربی زبانوں کو سر پر بٹھایا اور عربی، فارسی اور اردو کو حقیر باور کرایا۔ آج ہمارے یہاں مغربی فکر، الحاد اور اسلام دشمنی پیدا کررہی ہے۔ حال ہی میں تحریک آزادی نسواں سے وابستہ بعض خواتین کے اجلاس کی روداد کا تھوڑا سا حصہ انٹرنیٹ پر لیک کیا گیا ہے۔ یہ حصہ Audio پر مشتمل ہے۔ ذرا دیکھیے تو اس آڈیو میں موجود دو مغرب زدہ خواتین کیا کہہ رہی ہیں۔
پہلی خاتون ’’بہرحال جو بات ہم بھول رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مرد کا غلبہ معاشرے میں ایک حقیقت ہے۔ ہمیں اس کے ساتھ لڑنا ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ مجھے شریعت کے ساتھ لڑنا ہے یا نہیں لڑنا ہے، مجھے نہیں پتا کہ مجھے مردوں کے ساتھ لڑنا ہے یا نہیں لڑنا ہے۔ لیکن مجھے الہدیٰ والوں کی یہ بات پسند نہیں کہ اچھی عورت وہ ہے جو برقع پہنتی ہے، جو نماز پڑھتی ہے، جس کے ناخن کٹے ہوئے ہیں، مجھے اسی بیانیے سے لڑائی کرنی ہے اور چاہے یہ بات میری ماں بیٹھ کر گھر میں کر رہی ہو، چاہے انہوں نے جینز پہنی ہوئی ہو، چاہے وہ بڑی ماڈرن عورت ہوں لیکن اگر وہ کوئی ایسی بات کررہی ہیں تو مجھے انہیں وہیں چپ کرانا ہے (اور کہنا ہے) ’’Please don’t give me that shit‘‘
دوسری عورت: ’’اگر آپ شریعت کے اندر یا قرآن کے اندر یا حدیث کے اندر یا سنت کے اندر یا کسی بھی طریقے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ اسلام نے عورت کو برابری کے حقوق دیے ہیں تو مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں الہدیٰ ٹائپ کے اداروں نے عورتوں کو غلط طرف لگادیا اور انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں میں پھنسادیا۔ مثلاً وضو کا طریقہ، نیل پالش ہٹانے کے طریقے، روزے کس طرح خراب ہوجاتے ہیں، کس طرح نہیں۔ اچھا مذہب کا کام یہ بالکل نہیں ہے، وہ آپ کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں (آپ کی رہنمائی کرے)۔ مثلاً یہ کہ آپ کے غسل خانے کے معاملات، یا اگر آپ کو قبر میں جانا ہے تو آپ کا منہ دو انچ کدھر ہونا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں مذہب یہی ہے۔ بھاڑ میں گیا کہ قبر میں آپ کا منہ کدھر ہوگا، مغرب کی طرف ہوگا یا چار انچ شمال کی طرف ہوگا۔ اس سے کیا فرق پڑنا ہے۔ آپ مرچکے ہیں‘‘۔
یہ گفتگوئیں ہم نے تقریباً من و عن تحریر کی ہیں۔ صرف کہیں انگریزی الفاظ کا ترجمہ کردیا ہے تاکہ عام قاری بھی بات کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکے۔ آپ نے دیکھا ہمارے معاشرے میں مغرب کیسی مخلوق پیدا کرچکا ہے۔ یہ مخلوق مذہب کا مذاق اُڑا رہی ہے، شریعت کا مذاق اڑا رہی ہے، نماز کا مذاق اُڑا رہی ہے۔ لیکن یہ مخلوق ایسا کیوں کر رہی ہے؟ اس کی وجہ ہے، مغرب کے ممتاز دانشور جیمس فریزر نے اپنی مشہور زمانہ کتاب Golden Bow میں انسانی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ انسانی تاریخ کا ابتدائی زمانہ ’’جادو کا عہد‘‘ تھا۔ اس دور میں جادو غالب حقیقت تھا۔ اس کا بیانیہ ہر طرف چھایا ہوا تھا اور حقیقت کا تعین جادو ہی سے ہوتا تھا۔ انسان کے ذہن نے کچھ ترقی کی تو انسان نے مذہب ’’ایجاد کرلیا‘‘۔ اس طرح دنیا میں مذہب کا زمانہ شروع ہوگیا اور مذہب غالب حقیقت بن گیا۔ اس کا بیانیہ ہر طرف چلنے لگا۔ انسان کے ذہن نے مزید ترقی کی تو فلسفے کا زمانہ آگیا، انسان کی فکر مرتب ہوگئی، منظم ہوگئی۔ انسان دلیل اور منطق کی زبان بولنے لگا لیکن یہ زمانہ بھی اب ماضی کی یادگار بن چکا ہے۔ ہمارا زمانہ سائنس کا زمانہ ہے۔ سائنس کی بنیاد، سائنسی مشاہدہ اور سائنسی تجربہ ہے۔ اب حقیقت وہی ہے جسے سائنس حقیقت کہتی ہے۔ جس چیز کو سائنس تسلیم نہ کرے وہ وہم ہے، گمان ہے، افسانہ ہے، حقیقت نہیں ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ یہ صرف جیمس فریزر کا تناظر نہیں ہے، یہی مغرب کا تناظر ہے، یہی جدید دنیا کا تناظر ہے اور اس تناظر کی رو سے مذہب ایک بہت پرانی اور مسترد شدہ چیز ہے۔ مغرب نے مسلم معاشروں میں جو مغرب زدہ مخلوق تخلیق کی ہے وہ مغرب کے اس بیانیے کو سو فی صد درست تسلیم کرتی ہے اور اس کی نظر میں اسلام کی کوئی اوقات اور بساط نہیں ہے۔
آپ غور کریں گے تو یہ حقیقت آپ پر آشکار ہوجائے گی کہ جن دو مغرب زدہ خواتین کی گفتگو ہم نے کالم میں پیش کی ہے وہ صرف نام کی مسلمان ہیں۔ ان کا تصورِ خدا انتہائی پست ہے۔ وہ یا تو خدا کو مانتی ہی نہیں اور مانتی بھی ہیں تو خدا ان کے نزدیک رحیم و کریم نہیں ہے، انصاف پسند نہیں ہے، ہوتا تو پھر ہر طرف مرد کس طرح غالب ہوتے اور عورتیں ہر طرف کس طرح کمزور ہوتیں۔ ان عورتوں کا اگر خدا پر ایمان ہے بھی تو ان کا خیال ہے کہ خدا نے عورت کو عورت بنا کر انصاف نہیں کیا۔ ان عورتوں کے نزدیک عورت تو وہ ہے جو مردوں کے برابر ہو بلکہ ان پر اپنا حکم چلائے۔ غور کیا جائے تو ان عورتوں کا تصورِ رسالت بھی پست ہے۔ رسول اکرمؐ پوری انسانیت کے نجات دہندہ ہیں اور پوری انسانیت میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ رسول اکرمؐ سے بڑی ہستی دنیا میں کوئی نہیں، مگر آپؐ کا تصورِ عورت یہ تھا کہ آپؐ کو اپنی والدہ سے ایسی محبت تھی کہ آپ نے فرمایا کہ اگر میں نماز پڑھ رہا ہوتا اور میری والدہ مجھے بلاتیں تو میں نماز چھوڑ کر اپنی والدہ کی بات سنتا۔ آپؐ کو سیدہ خدیجہ سے ایسی محبت تھی کہ آپؐ نے سیدہ خدیجہ کی موت کے سال کو غم کا سال قرار دیا۔ آپؐ کا سیدہ فاطمہ سے یہ تعلق تھا کہ سیدہ فاطمہ آجاتیں تو آپؐ کھڑے ہوجاتے۔ آپؐ اپنی رضاعی بہن تک کا اتنا اکرام کرتے کہ وہ آجاتیں تو کھڑے ہوجاتے اور اپنی چادر ان کے لیے بچھا دیتے۔ مگر مغرب زدہ خواتین رسول اکرمؐ اور آپؐ کی شریعت تک کو اپنے لیے نجات کا باعث نہیں سمجھتیں۔ مغرب زدہ عورتوں کا تصورِ مذہب بھی پست ہے۔ حالاں کہ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیوی، بیٹی ہر حیثیت سے قابل تکریم بنایا ہے اور جو لوگ عورت کی عزت نہیں کرتے وہ اپنے مذہب کے خلاف کام کرتے ہیں۔ امریکا کے ممتاز جریدے ٹائم نے ایک بار لکھا تھا کہ اسلام اپنے ظہور کے وقت عورتوں کے لیے ایک انقلابی تحریک تھا۔ اس نے خواتین کو بلند مرتبہ دیا۔ ان کے حقوق کو اہمیت دی مگر ہماری مغرب زدہ خواتین اسلام سے اتنی بھی مطمئن نہیں جتنی کہ ٹائم میگزین مطمئن تھا۔
مغرب زدہ خواتین مغرب کے زیر اثر مساوات مرد و زن کا نعرہ لگاتی ہیں، حالاں کہ مساوات پوری کائنات میں کہیں موجود ہی نہیں۔ کائنات میں ’’تنوع‘‘ ہے، کوئی امیر ہے کوئی غریب ہے، کوئی ذہین ہے کوئی کند ذہن ہے، کوئی صحت مند ہے، کوئی معذور ہے، چراغ، چراغ ستارے، ستارے ہیں۔ چاند، چاند ہے۔ سورج، سورج ہے۔ چراغ کا اپنا کردار ہے۔ ستارے کا اپنا رول ہے۔ چاند کا اپنا دائرہ ہے۔ سورج کا اپنا مشن ہے۔ چراغ چاند نہیں بن سکتا۔ چاند سورج میں نہیں ڈھل سکتا۔
مسلم دنیا کی مغرب زدہ خواتین کو آج تک اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوسکا کہ ان کا ’’تصورِ عورت‘‘ بھی مردوں ہی کی تخلیق ہے۔ اس سلسلے میں ڈی ایچ لارنس کا مضمون Give her a pattern غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مضمون میں لارنس نے ثابت کیا ہے کہ عورتیں ہمیشہ مردوں کے دیے گئے تصور کے مطابق خود کو ڈھالتی ہیں۔ نیرو نے تیز طرار عورت کا تصور پیش کیا اور یہ تصور عورتوں میں مقبول ہوگیا۔ دانتے نے نیک اور مقدس عورت کا تصور پیش کیا اور لارنس کے بقول ہر طرف یہی تصور عام ہوگیا۔ نشاء ثانیہ کے مردوں نے پڑھی لکھی عورت کا تصور پیش کیا اور عورتوں نے پڑھی لکھی عورت کے اس تصور کو اپنا لیا۔ مغرب کے مردوں نے اب ’’جنس زدہ‘‘ عورت کا تصور پیش کیا ہوا ہے اور مغرب کی اکثر عورتیں خود کو Sex Symbol بنانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ اس منظرنامے میں صرف مذہب خواتین کا واحد سہارا ہے اور وہ بھی صرف اسلام۔ اس لیے کہ اسلام کسی مرد کی ایجاد نہیں۔ اسلام کا تصورِ عورت خدا کا تصورِ عورت ہے جو مردوں اور عورتوں سے یکساں محبت کرتا ہے۔