تو افغانی بہادر نہیں بیوقوف ہیں؟

بڑے انسانوں اور بلند تصورات کو سمجھنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ درست طریقہ یہ ہے کہ بڑے انسانوں اور بلند تصورات کو ان کی سطح پر جا کر سمجھا جائے۔ مگر بدقسمتی سے لوگوں کی عظیم اکثریت بڑے انسانوں اور بلند تصورات کو سمجھنے کے لیے یہ طریقہ اختیار نہیں کرتی۔ لوگوں کی اکثریت اس سلسلے میں دوسرا طریقہ استعمال کرتی ہے۔ وہ بڑے انسانوں اور بلند تصورات کو اپنی پست سطح پر گھسیٹ لاتی ہے اور پھر ان کو سمجھتی ہے۔ ملک کے معروف صحافی اور کالم نگار رئوف کلاسرا نے افغانیوں اور ان کے تصور جہاد اور شوق شہادت کو سمجھنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔ چناں چہ رئوف کلاسرا نے اپنے تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ افغانی بہادر نہیں بیوقوف ہیں۔ رئوف کلاسرا نے کیا لکھا ہے۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ انہوں نے لکھا ہے۔
’’کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ افغان اور ہمارے پشتون بھائی بھی اس Myth کا شکار ہیں کہ ان کا امیج بنادیا گیا ہے، وہ بہادر لوگ ہیں، انہیں آج تک کوئی فتح نہیں کرسکا۔ اپنے اس امیج کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی نسلیں تباہ ہوگئیں۔ گھر چھوٹ گئے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں پناہ لینی پڑی۔ دنیا بھر کا اسلحہ اور گولہ بارود ان پر گرایا گیا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے۔ لیکن وہ لڑتے رہے تا کہ دنیا یہ نہ سمجھے کہ افغانیوں پر انہوں نے حکومت کرلی۔ بہادری اور بیوقوفی میں باریک لائن ہوتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ بھی اس بانس سے اُتر آئیں جس پر دنیا نے افغانیوں اور پشتونوں کو چڑھا رکھا ہے۔ وہ بھی ’’نارمل‘‘ ہوجائیں ورنہ دنیا انہیں اسی طرح بانس پر چڑھا کر ان کی نسلوں کو مرواتی اور ان کی دھرتی کو برباد کرتی رہے گی۔ (روزنامہ دنیا۔ یکم ستمبر 2021ء)
رئوف کلاسرا کا یہ کالم پڑھ کر ہمیں بے ساختہ اقبال کا مشہور زمانہ شعر یاد آگیا۔ اقبال نے کہا ہے۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا
یہاں سوال یہ ہے کہ اقبال کے اس شعر میں غیرت کا مفہوم کیا ہے؟ مسلمانوں کی غیرت کی بلند ترین سطح یہ ہے کہ مسلمان کا سر صرف خدا کے سامنے جھکتا ہے۔ اس لیے کہ خدا ہمارا خالق ہے۔ مالک ہے۔ رازق ہے۔ اسی کی طرف سے ہم دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ اسی کی وجہ سے ہم دنیا میں مقیم ہیں اور اسی کی طرف بالآخر ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ چوں کہ مسلمان کا سر صرف حقیقی خدا کے سامنے جھکتا ہے۔ اس لیے مسلمان کی غیرت یہ ہے کہ وہ جھوٹے خدائوں کے سامنے اپنی گردن نہیں جھکا سکتا۔ وہ سلطنت برطانیہ، سوویت یونین یا امریکا کی غلامی قبول نہیں کرسکتا۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو بے غیرت کہلائے گا۔ مسلمانوں کی غیرت کی دوسری سطح یہ ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے ہیں۔ اسلام حق ہے اور باقی ہر نظام باطل ہے۔ چناں چہ مسلمان کی غیرت یہ ہے کہ وہ باطل کی کسی بھی صورت کے آگے سرنگوں نہیں ہوسکتا۔ اس کے سامنے باطل برطانیہ بن کر آئے گا تو وہ اس کے خلاف جہاد کرے گا۔ باطل اس کے سامنے سوویت یونین بن کر آئے گا تو مسلمان اس کے خلاف صف آراء ہوجائے گا۔ باطل امریکا بن کر اس کے سامنے آئے گا تو مسلمان اس کی بھرپور مزاحمت کرے گا۔ مسلمان ایسا نہیں کرے گا تو بے غیرت کہلائے گا۔ باطل پرستوں میں اس کا شمار ہوگا۔ مسلمانوں کی غیرت کی ایک اور سطح یہ ہے کہ مسلمان رسول اکرمؐ کے پیروکار ہیں۔ رسول اکرمؐ سردار الانبیا ہیں۔ خاتم النبیین ہیں۔ آپؐ کی پوری سیرت طیبہؐ جہاد اکبر اور جہاد اصغر سے آراستہ ہے۔ چناں چہ مسلمان باطل کی مزاحمت نہیں کریں گے تو رسول اکرمؐ کی سیرت سے غداری کے مرتکب ہوں گے۔ رسول اکرمؐ کی سیرت کا ایک پہلو غزوئہ بدر ہے۔ غزوہ بدر میں مسلمان صرف 313 تھے اور ان کے سامنے ایک ہزار کا لشکر جرار تھا۔ مسلمانوں کی عسرت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس صرف دو گھوڑے تھے۔ 6 اونٹ تھے۔ 6 تلواریں اور صرف 4 زرہ بکتر تھیں۔ بعض مسلمانوں کے پاس لڑنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا مگر اس کے باوجود مسلمان رسول اکرمؐ کی قیادت میں باطل کے خلاف صف آرا ہوئے۔ مسلمان اب عہد جدید میں رسول اکرمؐ کی پیروی نہیں کریں گے تو وہ اسوئہ حسنہ سے روگردانی کے مرتکب ہوں گے۔ مسلمانوں کی غیرت کی ایک سطح یہ ہے کہ مسلمانوں نے جہاد کی قوت سے آدھی سے زیادہ دنیا فتح کی۔ انہوں نے سیدنا عمرؓ کے زمانے میں وقت کی دو سپر پاورز قیصر و کسریٰ کو منہ کے بل گرایا۔ یہ صورتِ حال رسول اکرمؐ کے اصحاب کا ورثہ ہے۔ مسلمانوں کی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ خلفائے راشدین اور صحابہ کے ورثے کی پاسداری کریں۔ مسلمانوں کی غیرت کی ایک سطح یہ ہے کہ مسلمان دنیا میں ایک ارب 80 کروڑ ہیں۔ ان کے پاس 57 آزاد ریاستیں ہیں۔ تیل کے معلوم ذخائر کا 60 فی صد اور گیس کے معلوم ذخائر کا 70 فی صد مسلمانوں کے پاس ہے۔ چناں چہ مسلمان باطل کی مزاحمت نہیں کریں گے تو وہ مذکورہ بالا حقائق کا منہ چڑائیں گے۔ اتفاق سے افغانیوں کے پاس غیرت کی فراوانی ہے صرف غیرت کی نہیں۔ غیرت دیں کی۔ اسی لیے اقبال نے ان کے بارے میں کہا ہے۔
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
بدقسمتی سے جہاں غیرت نہیں ہوتی وہاں بے غیرتی ہوتی ہے۔ ایسی بے غیرتی جو افغانوں کی بہادری کو سرعام بیوقوفی قرار دیتی ہے۔
رئوف کلاسرا نے لکھا ہے کہ دنیا نے افغانیوں کو بہادری کے بانس پر چڑھایا ہوا ہے۔ ارے بھائی اس کا ثبوت کیا ہے؟ افغانیوں نے 19 ویں صدی میں سلطنت برطانیہ کو دھول چٹائی تو اس سے پہلے افغانیوں کی بہادری پر دنیا نے کتنی کتابیں یا کتنے اخباری مضامین تحریر کیے تھے۔ دنیا نے افغانیوں کی بہاری پر کتنی فلمیں کتنے ڈرامے بنائے تھے۔ دنیا نے افغانیوں کی بہادری کی مدح میں کتنے قصدے سپرد قلم کیے تھے۔ ظاہر ہے کہ دنیا نے ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کیا تھا۔ افغانیوں کی ’’غیرت دیں‘‘ ان کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کا حصہ ہے۔ چناں چہ یہی غیرت دیں سلطنت برطانیہ کے خلاف بروئے کار آگئی۔ افغانیوں نے بیسویں صدی میں جب سوویت یونین کو منہ کے بل گرایا تو اس سے قبل دنیا نے افغانیوں کی بہادری پر کتنی کتب مرتب کی تھیں؟ دنیا نے افغانیوں کی غیرت پر کتنے افسانے اور ناول تحریر کیے تھے؟ دنیا نے افغانیوں کی غیرت پر کتنی خبریں شائع اور نشر کی تھیں۔ ایک بھی نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سوویت یونین کی مزاحمت سے قبل افغانی اپنی بہادری کے کسی نشے میں مبتلا نہیں تھے۔ ان کے پاس کچھ تھا تو ان کی غیرت دیں۔ افغانیوں نے 21 ویں صدی میں جب امریکا اور اس کے 48 اتحادیوں کو شکست سے دوچار کیا تو اس سے پہلے دنیا نے افغانیوں کی بہادری کے کتنے ترانے گائے؟ دنیا نے افغانیوں کی بہادری پر کتنے گیت لکھے؟ کتنے قاموس مرتب کیے؟ ارے بھائی گزشتہ 20 برس میں دنیا نے طالبان کی دہشت گردی اور ان کی انتہا پسندی کے سوا کسی بات کا ذکر ہی نہیں کیا۔ چناں چہ امریکا اور اس کے 48 اتحادیوں کی مزاحمت کرتے ہوئے جو اپنی بہادری کے کسی بانس پر سواری نہیں گانٹھی ہوئی تھی۔ افغانیوں نے اس بار بھی صرف اپنی غیرت دیں سے کام لیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو رئوف کلاسرا نے افغانیوں کو اپنی بہادری کے بانس پر چڑھا کر بے شرمی بے حیائی اور جہالت کا مظاہرہ کیا ہے۔ افغانیوں کو بے وقوفی چھو کر بھی نہیں گزری وہ سر سے پائوں تک بہادر ہیں۔ بلکہ وہ بہادری سے بنے ہوئے ہیں۔

رئوف کلاسرا اگر افغانیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں تو وہ اقبال کے مردِ مومن اور شاہیں سے رجوع کریں۔ ذرا دیکھیے تو اقبال مردِ مومن کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔ اقبال کہہ رہے ہیں۔
تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
٭٭
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
٭٭
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
٭٭
ہر لحظ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
٭٭
نہ ہو نو مید نو میدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امید مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
اقبال کی شاعری کا ایک اہم کردار شاہیں ہے۔ افغانیوں کی تاریخ کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ اقبال کے شاہیں ہیں۔ اقبال نے شاہیں کے بارے میں فرمایا ہے۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
٭٭
گزر اوقات کرلیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی
٭٭
چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی و دانش و فرہنگ
٭٭
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
٭٭
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرئہ افتاد
اقبال نے دو شعر رئوف کلاسرا اور ان جیسی ذہنیت کے حامل لوگوں کے لیے بھی کہہ رکھے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
وہ فریب خوردہ شاہیں کے پلا ہو کر گسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی
٭٭
برہنہ سر ہے تو عزمِ بلند کر پیدا
یہاں فقط سرِ شاہیں کے واسطے ہے کلاہ
رئوف کلاسرا نے اپنے کالم میں بلال الرشید جیسے بدباطن کی طرح یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آخر افغانوں کی تین سپر پاورز کے خلاف صف آرائی سے کیا حاصل ہوا؟ عرض ہے کہ افغانوں نے ایسا کرکے اسلام کی لاج رکھی ہے۔ امت مسلمہ کا فرض کفایہ ادا کیا ہے اور اپنی آزادی کا کامیاب دفاع کیا ہے۔

Leave a Reply