امریکا پر طالبان کی فتح اتنی حیرت انگیز ہے کہ مغرب کے دانش ور بھی طالبان کی فتح کے ترانے گاتے ہوئے پائے جارہے ہیں۔ برطانیہ کے جریدے دی اکنامسٹ کا ایک حالیہ مضمون اس کی روشن مثال ہے۔ اکنامسٹ نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ افغانستان میں امریکا کی شکست ویت نام میں امریکا کو لاحق ہونے والی شکست سے بہت بڑی ہے اس لیے کہ ویت نام کی جنگ میں ایک سپر پاور یعنی سوویت یونین امریکا کی مزاحمت کرنے والے گوریلوں کی پشت پناہی کررہی تھی مگر افغانستان میں طالبان کو کسی ملک کی حمایت اور پشت پناہی حاصل نہ تھی۔ لیکن جنگ کے کالم نویس اور ہارون الرشید کے فرزند بلال الرشید کو طالبان سے ایسی نفرت ہے کہ وہ طالبان کی بے مثال فتح میں بھی عیب تلاش کیے جارہے ہیں۔ ان کی طالبان سے نفرت دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ شاید اپنی نفرت کرنے کی قوت ہی سے زندہ ہیں۔ ان کی طالبان سے نفرت دیکھ کر سلیم احمد کا ایک شعر یاد آجاتا ہے۔
اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے
تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے
بلال الرشید نے امریکا کے خلاف طالبان کی بے مثال فتح پر تھوکتے ہوئے لکھا۔
’’امریکا سے نفرت مجھے بھی ہے لیکن نفرت سے زمینی حقائق بدل تو نہیں جاتے۔ جنگ لڑنے کا ایک انسانی طریقہ ہوتا ہے۔ فوجی جوان ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جہاز گرائے جائیں۔ آبدوزیں ٹکرائیں۔ آج مسلمان بحیثیت مجموعی خود فریبی کا شکار ہوچکے۔ کیا مسلمانوں کے جنگی جہازوں نے امریکی جنگی جہاز گرا ڈالے یا اس کا بحری بیڑہ تباہ کر ڈالا؟ کیا آمنے سامنے کی جنگ میں امریکی فوج کو طالبان نے افغان شہروں میں داخل ہونے نہیں دیا۔ جس طرح مسلمانوں نے خودکش حملوں سے بھرپور یہ جنگ لڑی، اس میں کوئی Grace نہیں تھی بلکہ یہ قابل نفرت تھی۔ عراق، افغانستان، شام اور لیبیا سمیت ناٹو نے جہاں چاہا حملہ کرکے حکومتیں گرادیں۔ آج دنیا میں کوئی مسلمان ملک ایسا ہے، جو امریکا پر حملہ کرسکے؟ یہ انسانی تاریخ کی پہلی فتح ہے، جس میں فاتح ملک تباہی و بربادی کا شکار ہے اور مفتوح ملک کی طرف سے مالی امداد کا متمنی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ افغانستان میں امریکی تھک کر لوٹ گئے لیکن کیا اب ہم اپنی اولاد کو ان ننھے خودکش بمباروں سے متاثر کریں گے، بے گناہ جنہیں قتل کر ڈالا گیا‘‘۔
(رزنامہ جنگ۔ یکم ستمبر 2021ء)
دیکھا جائے تو بلال الرشید نے طالبان اور امریکا کی طاقت کے عدم توازن کے حوالے سے طالبان کا مذاق اڑایا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ طالبان کی جنگ میں وقار یا Grace تو اس وقت ہوتا جب وہ ہوائی جہاز کے مقابلے پر ہوائی جہاز، بحری جہاز کے مقابلے پر بحری جہاز اور میزائل کے مقابلے پر میزائل لاتے مگر طالبان نے تو خودکش حملوں کے ذریعے امریکا کا مقابلہ کیا۔ بھلا یہ بھی کوئی مقابلہ ہوا؟ طاقت کا عدم توازن اسلامی تاریخ کا ’’معمول‘‘ ہے۔ غزوئہ بدر برپا ہوا تو ایک جانب ایک ہزار کا لشکر تھا اور دوسری جانب 313 کی فوج۔ ایک ہزار کے لشکر کے پاس سیکڑوں گھوڑے اور اونٹ تھے۔ 313 کے لشکر کے پاس صرف دو گھوڑے اور چار اونٹ تھے۔ ایک ہزار کے لشکر کے پاس سیکڑوں تلواریں تھیں۔ 313 کے لشکر کے پاس 6 تلواریں تھیں۔ بلال الرشید اس زمانے میں ہوتے تو مسلمانوں کو شرم دلاتے اور کہتے کہ پہلے کافروں کی طاقت کے مساوی طاقت جمع کرو پھر میدان کارزار میں اُترو۔ گھوڑوں کے مقابلے پر گھوڑے لائو، اونٹوں کے مقابلے پر اونٹ پیش کرو۔ تلواروں کے مقابلے پر تلواریں حاضر کرو۔ بلال الرشید کو شاید اس بات پر بھی اعتراض ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کیوں کی۔ وہ کہتے یہ تو کھلی جانب داری ہے۔ مگر وہ یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ فرشتوں کی مدد مسلمانوں کے ایمان، شوق شہادت اور استقامت کا نتیجہ تھی۔ طاقت کے توازن کا نتیجہ نہیں تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ تاریخ نے طاقت کے توازن کا نتیجہ دیکھا ہی نہ ہو۔ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے ہمیں خود بتایا کہ ان کی ملاقات جنرل پرویز سے ہوئی تو انہوں نے جنرل پرویز سے پوچھا کہ آپ نے نائن الیون کے بعد امریکا کے مقابلے کے بارے میں کیوں نہ سوچا۔ جنرل پرویز نے قاضی صاحب سے کہا کہ میں نے اپنے سروسز چیفس سے پوچھا تھا کہ ہم امریکا کا کتنی دیر مقابلہ کرسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ دس منٹ۔ اس مقابلے میں ہوائی جہازوں کے مقابلے پر ہوائی جہاز تھے۔ بحری جہازوں کے مقابلے پر بحری جہاز تھے۔ میزائلوں کے مقابلے پر میزائل تھے۔ منظم فوج کے مقابلے پر منظم فوج تھی۔ ایٹمی صلاحیت کے مقابلے پر ایٹمی صلاحیت تھی لیکن جہازوں نے جہازوں کے، میزائل نے میزائلوں کے اور منظم فوج نے منظم فوج کے مقابل آنے سے صاف انکار کردیا۔ البتہ پاکستان کے جرنیل جو جنگ صرف دس منٹ لڑسکتے تھے طالبان نے وہ جنگ 20 سال لڑ کر اور جیت کر دکھادی۔ مگر بلال الرشید کو دس منٹ جنگ لڑنے والوں سے محبت ہے اور 20 سال امریکا سے جنگ لڑنے والوں سے سخت نفرت ہے۔
اسلامی تاریخ میں طاقت کا عدم توازن صرف غزوئہ بدر ہی میں ظاہر نہیں ہوا۔ طارق بن زیاد نے اسپین کا وسیع علاقہ فتح کیا تو ان کے پاس صرف 18 ہزار فوجی تھے۔ ان کے خلاف جو لشکر صف آرا تھا وہ ایک لاکھ انسانوں پر مشتمل تھا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر طارق بن زیاد نے کشتیاں جلادیں تا کہ مسلمانوں کے لشکر میں موجود کسی سپاہی کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ وہ میدان جنگ سے فرار حاصل کرکے جان بچاسکتا ہے۔ چناں چہ طارق بن زیاد کا لشکر دل و جان سے لڑا اور اس نے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست سے دوچار کیا۔ بلال الرشید یا ان جیسا کوئی اس موقع پر موجود ہوتا تو طارق بن زیاد کو بہت بُرا بھلا کہتا۔ فرماتا پہلے طاقت کا توازن پورا کرو اور پھر دشمن کو للکارو۔ محمد بن قاسم نے جب سندھ فتح کیا تو اس وقت بھی طاقت کا ایک ہولناک عدم توازن موجود تھا۔ ایک طرف 17 ہزار کا لشکر تھا دوسری طرف راجا داہر تھا جو ایک لاکھ نفوس کی فوج کے ساتھ میدان کارزار میں کھڑا تھا۔ راجا داہر کے پاس گھوڑے تھے، ہاتھی تھے، بلال الرشید یا ان جیسا کوئی شخص اس وقت موجود ہوتا تو محمد بن قاسم کو برا بھلا کہتا۔ فرماتا جنگ لڑنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے طاقت کا توازن پیدا کرنا سیکھو۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ طاقت کا عدم توازن محمد بن قاسم کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ محمد بن قاسم نے صرف 17 ہزار کے لشکر سے ایک لاکھ کی فوج کو زیر کرلیا۔ بابر نے ہندوستان فتح کیا تو اس کے پاس صرف 8 ہزار فوجی تھے۔ اس کے سامنے ایک لاکھ کا لشکر کھڑا تھا۔ بلال الرشید یا ان جیسا کوئی ہوتا تو بابر کو شرم دلاتا۔ کہتا ہندوستان فتح کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے طاقت کا توازن پیدا کرو۔ لیکن بابر نے طاقت کے ہولناک عدم توازن کے باوجود صرف 8 ہزار فوجیوں کی مدد سے ہندوستان فتح کرلیا۔ اس لیے ہم نے عرض کیا ہے کہ طاقت کا عدم توازن اسلامی تاریخ کا ’’معمول‘‘ ہے۔
بلال الرشید نے جنگ کے حوالے سے وقار یا Grace کو یاد کیا ہے۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جنگ میں وقار اس بات سے پیدا ہوتا ہے کہ لڑنے والا کس خیال سے لڑ رہا ہے؟۔ کیا وہ زمین کے لیے لڑ رہا ہے؟ کیا وہ مال و متاع کے لیے صف آرا ہے؟ یا وہ اللہ کی کبریائی کے اعلان کے لیے میدان جنگ میں آکھڑا ہوا ہے؟ طالبان کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ وہ کلمے کی سربلندی کے لیے میدان میں کھڑے تھے۔ ان کے لیے افغانستان دارالسلام تھا اور امریکا اور اس کے اتحادی کفر اور شرک کی علامت تھے۔ چناں چہ طالبان کی جنگ میں پہلے دن سے ایک ایسا وقار موجود تھا جو عام جنگوں کو نصیب نہیں ہوتا۔ جنگ میں وقار اس بات سے بھی پیدا ہوتا ہے کہ لڑنے والا مظلوم ہے یا ظالم۔ جارح ہے یا مجروح؟ افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کے حوالے سے صاف ظاہر ہے کہ طالبان مظلوم بھی تھے اور مجروح بھی۔ امریکا ظالم بھی تھا اور جارح بھی۔ چناں چہ طالبان کی جنگ میں تو وقار تھا مگر امریکا کی جنگ میں کوئی وقار کوئی Grace نہ تھا۔ جنگوں میں وقار اس بات سے بھی پیدا ہوتا ہے کہ جنگ لڑنے والا اپنی آزادی کا دفاع کرسکا یا نہیں کرسکا۔ بلاشبہ طالبان نے 20 سال پر محیط جنگ میں ہر لمحے اپنی آزادی کا دفاع کیا۔ وہ نہ امریکا کی طاقت سے مرعوب ہوئے اور نہ انہیں امریکی ڈالر خرید سکا۔ جنگ کا وقار اس بات سے بھی متعین ہوتا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں ہاتھ آنے والی فتح کے بعد فاتح نے مفتوحین کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ طالبان نے کابل فتح کرنے کے بعد اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کردیا۔ چناں چہ طالبان کی جنگ میں اس حوالے سے بھی ’’وقار‘‘ موجود ہے۔
بلال الرشید نے طالبان کے خودکش حملوں کا ذکر اس طرح کیا ہے جیسے طالبان خودکش حملوں کے موجد بھی ہوں اور شوقین بھی۔ حالاں کہ تاریخ کے ریکارڈ پر یہ بات موجود ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے پائلٹوں نے امریکیوں پر خودکش حملے کیے۔ اس کی وجہ طاقت کا ہولناک عدم توازن تھا۔ سری لنکا کی خانہ جنگی میں تامل ٹائیگرز نے بھی خودکش حملوں کو جنگی حکمت عملی کے طور پر برتا۔ اس کا سبب بھی طاقت کا عدم توازن تھا۔ 1965ء کی جنگ بعض محاذوں پر پاک فوج کے سپاہی بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ اس کا سبب بھی طاقت کا عدم توازن تھا۔ طالبان نے امریکا اور اس کے 48 اتحادیوں کے خلاف خودکش حملوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تو اس کا سبب بھی طاقت کا ہولناک عدم توازن تھا۔ خودکش حملے طالبان کی مجبوری تھے، شوق نہیں۔