بھٹو صاحب اگرچہ ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’لبرل‘‘ تھے مگر وہ قومی اسمبلی میں تقریریں کرتے ہوئے ’’اسلامسٹ‘‘ بن جاتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر ہمیں ضرورت پڑی تو ہم اپنے نظریے کی برتری ثابت کریں گے۔ وہ اعلان کیا کرتے تھے کہ ہمیں اپنے دین پر فخر ہے اور ہم اس کے لیے اپنی جان کی قربانی بھی دے سکتے ہیں۔ مگر بھٹو صاحب کے یہ خیالات اور جذبات ان کی اولاد کو منتقل نہ ہوسکے۔ بے نظیر بھٹو کے فہم اسلام کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک بار جلسے سے خطاب کررہی تھیں کہ کسی قریبی مسجد سے اذان کی آواز آئی۔ بے نظیر نے اپنی تقریر معطل کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی اور فرمایا ’’اذان بج رہا ہے‘‘۔ بے نظیر بھٹو کے فہم اسلام کا یہ عالم تھا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے عام رہنمائوں کا مذہبی شعور کس درجے کا ہوگا۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ ایک بار قومی اسمبلی میں تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو سورئہ اخلاص کی درست تلاوت نہ کرسکے۔ انہوں نے سورئہ اخلاص کی تلاوت کی بار بار کوشش کی۔ سورئہ اخلاص اتنی مختصر ہے کہ ہمارے پانچ چھ سال کے بچے بھی روانی کے ساتھ سورئہ اخلاص سنا دیتے ہیں، مگر رحمن ملک کا مذہبی شعور پانچ چھ سال کے بچے سے بھی کمتر ہے۔ اس کے باوجود رحمن ملک کی جرأت کا یہ عالم ہے کہ وہ خود کو عالم دین سمجھتے ہیں۔ چناں چہ وہ اکثر اسلام پر ایک اتھارٹی کی طرح گفتگو کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ رحمن ملک ایک گمراہ شخص ہیں۔ اس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں اسلام کے تصورِ جہاد پر کھل کر حملہ کیا ہے اور اسے ’’شدت پسندی‘‘ سے منسلک کردیا ہے۔ رحمن ملک نے اپنی تحریر میں کیا بکواس کی ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے بارے میں خبردار کرتا رہا ہوں کیوں کہ اس کی جڑیں سوویت یونین اور افغانستان کے درمیان جنگ کے دوران جہاد میں پائی جاتی ہیں۔ جب میں وزیرداخلہ تھا اس وقت میری تقریر کا ایک اقتباس ہے اور یہ آج بھی موقع محل کے عین مطابق ہے اور پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے موزوں ہے۔
افغانستان پاکستان خطے میں انتہا پسندی اس وقت شروع ہوئی جب ہم نے سابقہ سوویت یونین اور افغانستان کے درمیان جنگ کے دوران ’’جہاد میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا‘‘۔ سوویت یونین سے لڑنے کے لیے ہزاروں جہادی پاکستان میں اُترے اور جنگ کے بعد ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ اور یہ دیکھا گیا کہ طالبان کا ارتقا ہورہا ہے اور شدت پسندی مسلسل پھیل رہی ہے۔ جب جنگ ختم ہوئی تو اس خطے میں 300 مدرسے تھے اور جب پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو یہ تعداد بڑھ کر 23000 ہوگئی تھی۔ تمام مدارس دہشت گردی میں ملوث نہیں تھے لیکن ان میں پڑھنے والوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مذہب اور غربت دو اہم چیزیں تھیں اور ’’جب یہ مل جائیں تو یہ بہت مہلک ہوسکتی ہیں اور اسی کا ہمیں سامنا کرنا پڑا‘‘۔ اب افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعد پاکستان میں شرعی قوانین بڑھانے کے مطالبات منوانے کی کوشش کی جائے گی۔ حکومت کو اس مشن کے ہینڈلرز سے نمٹنے کے لیے جوابی حکمت عملی تیار رکھنی چاہیے، ورنہ ہمیں اندرونی طور پر شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (روزنامہ جنگ 14 ستمبر 2021ء)
جہاد کا تصور کسی ’’شدت پسند‘‘ ملّا یا مولوی کی ’’ایجاد‘‘ نہیں۔ جہاد اللہ کا حکم اور رسول اکرمؐ کی سنت ہے۔ قرآن مجید جہاد کے سلسلے میں احکامات سے بھرا ہوا ہے۔ مگر جس شخص کو سورئہ اخلاص یاد نہ ہو اِسے جہاد کے سلسلے میں قرآن کی آیات کا کیا علم ہوگا؟۔
قرآن کہتا ہے۔
’’تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں اے خدا! ہمیں اس بستی سے نکال جہاں کے لوگ بڑے ظالم و جفاکار ہیں اور ہمارے لیے خاص اپنی طرف سے ایک محافظ و مددگار مقرر فرما۔ (النساء- 75)
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر و نافرمان وہ ظلم و سرکشی کی خاطر لڑتے ہیں۔ پس شیطان کے دوستوں سے لڑو کہ شیطان کی جنگ کا پہلو کمزور ہے‘‘۔ (النساء75-)
قرآن مجید کی ایک آیت کا ترجمہ ہے:
’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتائوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے۔ وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اس کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرو۔ یہ تمہارے لیے بہترین کام ہے اگر تم جانو‘‘۔ (سورئہ الصف 10-11-)
قرآن میں اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے:
’’اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھے ہوئے جم کر لڑتے ہیں۔ گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ (سورئہ الصف 4-)
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:
’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کے آباد کرنے کو ان لوگوں کے کام کے برابر ٹھیرایا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں لڑے۔ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ جو لوگ ایمان لائے۔ جنہوں نے حق کی خاطر گھربار چھوڑا اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے لڑے ان کا درجہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا ہے۔ اور وہی لوگ ہیں جو حقیقت میں کامیاب ہیں‘‘۔ (التوبہ 19-20-)
فقہ کی مشہور کتاب بدائع الصنائع میں لکھا ہے:
’’مگر جب اعلان عام ہوجائے کہ دشمن نے ایک اسلامی ملک پر حملہ کیا ہے تو پھر جہاد و فرضِ عین ہو جاتا ہے اور ہر مسلمان جو جہاد کی قدرت رکھتا ہو فرداً فرداً اس کی فرضیت عائد ہوجاتی ہے۔ نفیر عام کے بعد تو ادائے قرض کا حق اس کے بغیر پورا ہوتا ہی نہیں کہ سب کے سب جہاد کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ اس وقت وہ سب مسلمانوں پر اس طرح فرضِ عین ہوجاتا ہے جیسے روزہ اور نماز پس غلام کو بغیر آقا کی اجازت کے اور عورت کو بغیر اپنے شوہر کی اجازت کے نکلنا چاہیے۔ کیوں کہ ان عبادات میں جو فرض عین ہیں غلام اور بیوی کی خدمات آقا اور شوہر کی ملک سے مستثنیٰ ہیں جسے نماز اور روزہ۔ اسی طرح بیٹے کے لیے مباح ہوجاتا ہے کہ وہ بغیر والدین کی اجازت کے نکل کھڑا ہو کیوں کہ روزہ نماز جیسے فرض ایمان میں والدین کا حق اثر انداز نہیں ہوسکتا‘‘۔
(الجہاد فی الاسلام۔ مولانا مودودی۔ صفحہ 58)
غور کیا جائے تو رحمن ملک نے اپنی تحریر میں ان تمام احکامات و تصورات کی کھلی توہین کر ڈالی ہے۔ اسلام میں جہاد صرف ریاست کی نہیں پورے معاشرے کی ذمے داری ہے۔ اسلام میں Standing Army کا کوئی تصور موجود نہیں۔ اسلام کی نظر میں پورا مسلم معاشرہ بلکہ پوری امت مسلمہ ہی اسلام کی فوج ہے۔ چناں چہ رسول اکرمؐ اور خلافت راشدہ میں جہاد صرف ریاست نہیں کرتی تھی پورا معاشرہ جہاد کرتا تھا۔
بدقسمتی سے عہد حاضر میں تمام اسلامی ممالک نے اس تصور کو ترک کردیا ہے اور اب ہر ملک میں ایک تنخواہ دار فوج ریاست کے دفاع کی ذمے دار ہے۔ آپ اندازہ تو کریں کہ اگر ایک پورا اسلامی معاشرہ اور پوری امت مسلمہ فوج بن جائے تو اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کس حد تک ناقابل تسخیر ہوجائے گا۔ عہد ِ حاضر میں صرف اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جس نے ملک کے دفاع کو پورے معاشرے کی ذمے داری قرار دیا ہوا ہے۔ چناں چہ اسرائیل میں ہر بالغ نوجوان پر ایک مختصر مدت کے لیے فوجی خدمات انجام دینا قرض ہے۔ یہی سبب ہے کہ پوری عرب دنیا مل کر بھی اسرائیل جیسی چھوٹی سی ریاست کا مقابلہ نہیں کرپا رہی۔
رحمن ملک نے جہاد کو ’’شدت پسندی‘‘ کے ساتھ منسلک کیا ہے اور شدت پسندی مغرب کا تھوکا ہوا نوالہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے تمام سیکولر اور لبرل عناصر مغرب کا یہی تھوکا ہوا نوالہ چباتے رہتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے تصورِ جہاد کا کسی شدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاد کا تصور اسلامی معاشرے کا ’’معمول‘‘ ہے، اس کا ’’غیر معمولی پن‘‘ نہیں۔ یعنی جہاد اسلامی معاشرے کی Normalcy ہے۔ Abnormalcy نہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب کسی کو شدت پسند کہنے کا حق نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں رحمن ملک کی تحریر پڑھ کر بے ساختہ اقبال کی نظم ’’جہاد‘‘ یاد آگئی۔ اس نظم میں اقبال فرماتے ہیں۔
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کار گر
لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود بے اثر
تیغ و تفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذّت سے بے خبر
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اُسے کہ مسلماں کی موت مر
تعلیم اس کو چاہیے ترکِ جہاد کی
دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ یورپ سے درگزر
مغرب کی تاریخ یہ ہے کہ سفید فام مغربیوں نے امریکا میں 10 کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کر ڈالا۔ آسٹریلیا میں 45 لاکھ مقامی باشندوں کو قتل کر ڈالا۔ مغرب نے ’’عالمی جنگیں ایجاد کیں جن میں 10 کروڑ لوگ مارے گئے۔ امریکا نے جاپان پر دو ایٹم بم گرادیے جس سے 2 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ امریکا نے افغانستان اور عراق میں 10 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر دیا مگر مغرب شدت پسند نہیں۔ مسلمانوں نے اپنے مذہب اور اپنے معاشروں کے دفاع کے سوا کچھ نہیں کیا مگر وہ شدت پسند ہیں۔