واشنگٹن پوسٹ کے ممتاز صحافیوں باب وڈ ورڈ اور رابرٹ کوسٹا کی نئی تصنیف ’’Peril‘‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی فوج نے گزشتہ انتخابات سے قبل ہی اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو فوجی معاملات سے الگ کردیا تھا۔ کتاب کے مطابق جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی کو خدشہ تھا کہ ٹرمپ اپنی صدارت کے اختتام پر فوج کو چین پر حملے کا حکم دے دیں گے۔ اس اندیشے کے تحت جنرل مارک ملی نے اپنے ماتحتوں کو اعتماد میں لیا اور ان سے کہا کہ وہ ان سے مشورے کے بغیر ڈونلڈ ٹرمپ کے کسی حکم پر عمل نہیں کریں گے۔ کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چین پر حملے کے خدشے کے پیش نظر جنرل مارک ملی نے اپنے چینی ہم منصب کو دو ٹیلی فون کالز کیں۔ یہ کالز 30 اکتوبر اور کیپٹل ہلز پر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کے دو روز بعد کی گئیں۔ کتاب کے مطابق جنرل مارک ملی نے یہ کالز ان انٹیلی جنس اطلاعات کا جائزہ لینے کے بعد کیں جن میں بتایا گیا تھا کہ چینی حکام کو یقین ہے کہ بحرہ جنوبی چین میں فوجی مشقوں کے تسلسل میں امریکا چین پر حملے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ پہلی کال میں جنرل مارک ملی نے چینی جنرل کو یقین دہانی کرائی کہ امریکی حکومت مستحکم ہے اور ہر چیز ٹھیک طریقے سے چل رہی ہے۔ کتاب کے مطابق جنرل مارک ملی نے چینی جنرل کو یقین دلایا کہ اگر امریکا نے چین پر حملے کا فیصلہ کیا تو وہ انہیں پہلے سے مطلع کردیں گے۔ انہوں نے چینی جنرل سے کہا کہ میں اور آپ ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں۔ حملہ ہوا تو ہم آپ کو پہلے سے آگاہ کریں گے۔ دوسری کال میں جنرل مارک ملی نے چینی جنرل کو بتایا کہ امریکا چین پر حملے کی تیاری نہیں کررہا۔ کتاب کے مصنفین کے مطابق ان کالز کو خفیہ رکھا گیا اور ان کا تذکرہ ڈونلڈ ٹرمپ سے نہیں کیا گیا۔ کتاب کے مطابق جنرل مارک ملی نے چینی اندیشوں کے پیش نظر جنوبی بحرہ چین میں فوجی مشقیں کرنے والی فوجی قیادت سے بھی رابطہ کیا اور اسے مشقیں معطل کرنے کا مشورہ دیا۔ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنرل مارک ملی نے اپنے ماتحتوں سے حلف لیا کہ اگر ٹرمپ نے چین پر حملے کا حکم دیا تو وہ پہلے ان سے رابطہ کریں گے۔ جنرل مارک ملی کے ان اعترافات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی جماعت نے جنرل مارک ملی کو غدار قرار دیتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے صرف جنرل مارک ملی ہی کو خدشات نہیں تھے بلکہ ہائوس کی اسپیکر نینسی پلوسی بھی اس حوالے سے اندیشوں میں مبتلا تھیں۔ کتاب کے مطابق پلوسی کا خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاگل ہیں اور وہ کسی بھی وقت بے قابو ہوسکتے ہیں۔ کتاب کے مطابق جنرل مارک ملی نے نینسی پلوسی کو بھی یقین دلایا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کوئی بھی خطرناک فیصلہ کرنے سے روک سکتے ہیں۔ انہوں نے پلوسی سے کہا کہ خواہ یہ ایٹمی حملہ ہو یا کسی اور ملک پر چڑھائی امریکی فوج کوئی غیر قانونی یا احمقانہ اقدام نہیں کرے گی۔
امریکا جمہوریت اور سول بالادستی کا چمپئن ہے مگر باب وڈ ورڈ اور رابرٹ کوسٹا کی کتاب کے مذکورہ بالا مندرجات سے ثابت ہے امریکا کی اصل طاقت فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ وہ جب چاہے ایک منتخب صدر کو پھلانگ کر کھڑی ہوسکتی ہے۔ وہ منتخب صدر سے بالا بالا معاملات چلا سکتی ہے۔ وہ قومی سلامتی سے متعلق امور میں منتخب صدر کو اعتماد میں لینے کی پابند نہیں۔ اس کو جواب دہی کا کوئی خوف نہیں۔ اس کا کوئی شخص احتساب نہیں کرسکتا اور وہ کسی ادارے کو جواب دہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں امریکا کی ’’سیاسی تقسیم‘‘ پوری طرح عیاں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی جماعت جنرل مارک ملی کو غدار قرار دے کر ان سے استعفا طلب کررہی ہے اور دوسری جانب صدر بائیڈن پوری طرح جنرل مارک ملی کی پشت پناہی اور حمایت کررہے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب امریکا کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت نمایاں ہو کر سامنے آئی ہو۔ خود ہالی وڈ میں ایسی فلمیں بنی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا کے سابق صدر جان ایف کینیڈی کے قتل میں امریکی اسٹیبلشمنٹ ملوث تھی۔ کینیڈی کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر بہت طاقتور تھے۔ ان کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ وہ عوام میں بے انتہا مقبول تھے۔ ان کا تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کیتھولک تھے جب کہ امریکا ایوانجیلیکل عیسائیوں کا ملک ہے۔ یعنی کینیڈی کا مذہبی عقیدہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے خطرہ تھا۔ کینیڈی کی ذہنی اور نفسیاتی طاقت اور استحکام کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ سوویت یونین نے کیوبا میں میزائل نصب کیے تو امریکی سلامتی خطرے میں پڑ گئی۔ امریکی جرنیلوں کا اس بات پر اجماع تھا کہ امریکا کو کیوبا پر ایٹمی حملہ کردینا چاہیے۔ وہ اعلیٰ سطح کے ہر اجلاس میں کینیڈی پر دبائو ڈالتے کہ وہ کیوبا پر ایٹمی حملہ کر دے۔ امریکا کے لیے کسی ملک پر ایٹمی حملہ کوئی بڑی بات نہیں۔ امریکا کسی اخلاقیات اور کسی انسانیت کو نہیں مانتا یہ وہ جاپان کے خلاف دوبار ایٹم بم استعمال کرچکا تھا مگر کینیڈی کی شخصی اخلاقیات مضبوط تھی۔ چناں چہ وہ بار بار کیوبا پر ایٹمی حملے کے جرنیلی مطالبے کو پھلانگ کر کھڑے ہوجاتے۔ امریکی جرنیل یہ دیکھتے تو اجلاس سے نکل کر کینیڈی کو گالیاں دیتے اور بالآخر انہوں نے ایک مشتبہ کردار کے حامل شخص سے کینیڈی کو قتل کروادیا۔ کینیڈی کے قتل پر بنے والی ایک نیم دستاویزی فلم سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ کینیڈی کے قتل میں امریکی اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا اندیشہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ امریکا کے سابق صدر اوباما نے انتخابی مہم کے دوران قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آگئے تو گوانتاناموبے کے عقوبت خانے کو بند کردیں گے، کیوں کہ یہ عقوبت خانہ امریکا کے ماتھے پر کلنک کا ایک ٹیکہ ہے۔ اوباما اس عقوبت خانے کو ایک قانونی بلیک ہول قرار دیا کرتے تھے مگر اوباما آٹھ سال تک امریکا کے صدر رہے لیکن وہ گوانتا ناموبے کو بند کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ اس لیے کہ گوانتا ناموبے کا عقوبت خانہ امریکی سی آئی اے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کا آئیڈیا ہے۔ امریکی سی آئی اے ابو غرائب جیل اور بگرام ائربیس پر بھی عقوبت خانہ چلاتی رہی اور اس نے اس حوالے سے سول قیادت کو کبھی اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں میں اسٹیبلشمنٹ کی طاقت بے پناہ ہے۔ جنرل ایوب نے مارشل لا 1958ء میں لگایا۔ امریکا کی خفیہ دستاویزات کے مطابق وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو بتا رہے تھے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نااہل ہے اور وہ ملک کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ جنرل ایوب امریکیوں کو بتارہے تھے کہ فوج سیاسی قیادت کو ہرگز بھی ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ جنرل ایوب یہ کام سیاسی قیادت سے چھپ کر کررہے تھے۔ انہیں اس بات کی رتی برابر بھی پروا نہ تھی کہ وہ ایک غیر آئینی راستے پر چل رہے ہیں۔ انہیں مارشل لا مسلط کرنے کا مینڈیٹ حاصل نہ تھا۔ پاکستان جرنیلوں کو جہیز میں نہیں ملا تھا۔ انہوں نے انگریزوں یا ہندوئوں سے پاکستان خریدا بھی نہیں تھا۔ تحریک پاکستان میں بھی جرنیلوں یا فوج کا کوئی کردار نہ تھا مگر جنرل ایوب اچانک پاکستان کے ’’گاڈ فادر‘‘ بن کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے ملک پر مارشل مسلط کرکے تین مزید مارشل لائوں کی بنیاد رکھ دی۔ جماعت اسلامی کے ممتاز رہنما پروفیسر غفور ان رہنمائوں میں شامل تھے جو 1977ء کے بحران میں بھٹو صاحب سے مذاکرات کررہے تھے۔ غفور صاحب نے ہمیں خود بتایا کہ بھٹو صاحب کے ساتھ تمام معاملات طے پاگئے تھے کہ 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر ملک کی سیاسی فضا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ جنرل ضیا نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 90 دن کے اندر انتخابات کراکے واپس چلے جائیں گے مگر جنرل ضیا الحق تقریباً 11 سال تک ملک پر مسلط رہے۔ جنرل پرویز کے مارشل لا کو ہم نے شعور کی آنکھ سے دیکھا۔ ہمیں ان کی پہلی پریس کانفرنس یاد ہے۔ اس پریس کانفرنس میں انہوں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ فوج کا بھی احتساب کریں گے۔ ججوں کا بھی احتساب ہوگا اور ذرائع ابلاغ کو بھی احتسابی عمل سے گزارا جائے گا، مگر نہ فوج کا احتساب ہوا، نہ ججوں سے پوچھا گیا کہ ان کے منہ میں کتنے دانت ہیں، نہ ذرائع ابلاغ کے احتساب کی نوبت آئی۔ الجزائر، مصر اور ترک میں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ بڑی قوی ہے۔ ترکی میں پاکستان کی طرح چار مارشل لا آچکے ہیں اور اگر طیب اردوان مزاحمت نہ کرتے تو ترکی میں پانچواں مارشل لا بھی آگیا تھا۔ مصر کی فوج نے ہمیشہ اسلام پسندوں کو کچلا ہے اور امریکا کی کاسہ لیسی کی ہے۔ یہی رول الجزائر کی فوج کا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں کبھی مارشل لا نہیں آیا۔ وہاں جمہوریت بہت مضبوط ہے مگر ہندوستان میں مارشل لا کے نہ آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت مضبوط ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کی فوج نسلی اور لسانی سطح پر ہم آہنگ نہیں۔ چناں چہ فوج میں کسی ایک یا دو تین طبقات کی بالادستی ممکن نہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو بھارت بھی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا مزہ چکھ چکا ہوتا۔