کیا ہر غالب مومن ہے؟

ملک کے معروف کالم نگار حسن نثار کے کالموں میں اسلام اور اس کی تعبیر کے حوالے سے اندھیر نگری چوپٹ راج کا منظرنامہ اکثر طلوع ہوتا رہتا ہے۔ حسن نثار اسلام کی کسی مستند تعبیر کو ماننے کے بجائے اپنی خود ساختہ تعبیر کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ مثلاً جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار فرمایا کہ پردے کا حکم صرف امہات المومنین کے لیے تھا۔ اس کا عام مسلمان خواتین سے کوئی تعلق نہیں۔ اب انہوں نے اپنے ایک کالم میں فتویٰ دیا ہے کہ جو غالب ہوتا ہے وہی مومن ہوتا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں کیا کہا ہے خود انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔
’’(مسلمان) تعلیمات، ہدایات، احکامات اور فرمودات کو رٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی کھوپڑیاں بھی استعمال کریں۔ کیوں کہ ان میں اللہ نے ’’مغز‘‘ نام کی ایک شے بھی رکھی ہوئی ہے اور اسی لیے وہ تم سے غورو فکر کی توقع رکھتا ہے۔ اسلام لیڈ کرنے کا نام ہے، لیڈ ہونے کا نہیں۔ (اللہ نے فرمایا ہے) بے شک تم ہی غالب ہوگے اگر تم مومن ہو‘‘۔ اور اسے سمجھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جو غالب ہے وہ مومن کی definition کے قریب ہوتا ہے۔ پابند ِ صوم و صلوٰۃ ہونا اپنی جگہ لیکن اگر باقی زندگی میں ’’پابندی اوقات‘‘ کی کوئی حیثیت نہیں تو ذلت کے لیے یہی عادت کافی ہے‘‘۔
(روزنامہ جنگ۔ 9 ستمبر 2021ء)
اسلام کے اعتبار سے مومن صرف وہی ہوسکتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہو۔ مگر حسن نثار اپنے کافر، مشرک، منافق اور فاسق سب کے لیے ’’مومن‘‘ ہونے کی راہ ہموار کردی ہے اور اس کا اصول انہوں نے یہ بتایا ہے کہ جو غالب ہوتا ہے وہ مومن کی تعریف کے قریب تر ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پوری انسانی تاریخ کی معنویت بدل کر رہ جاتی ہے۔ حسن نثار کی بات کو درست مان لیا جائے تو نمرود بھی مومن تھا اس لیے کہ وہ اپنے زمانے میں غالب تھا۔ فرعون بھی مومن تھا اس لیے کہ وہ اپنے عہد میں غالب تھا۔ رسول اکرمؐ کے دور کے کافر اور مشرک بھی مومن تھے۔ اس لیے معاشرے میں انہی کا سکہ چل رہا تھا۔ قیصر و کسریٰ بھی مومن تھے اس لیے کہ وہ وقت کی سپر پاورز تھے۔ انگریز بھی مومن تھے اس لیے کہ سلطنت برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ سوویت یونین بھی مومن تھا اس لیے کہ آدھی دنیا پر اس کی حکومت تھی۔ امریکا بھی مومن ہے اس لیے کہ وہ پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ یزید بھی مومن تھا اس لیے کہ سیدنا امام حسینؓ کے مقابلے پر غالب تو وہی رہا۔ بلاشبہ قرآن کہتا ہے کہ تم ہی غالب رہو گے بشرطیکہ کہ تم مومن ہو لیکن مومن کے لیے بنیادی شرط اللہ اور اس کے رسول پر کامل ایمان ہے۔ جس شخص یا قوم کا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں وہ غالب تو ہوسکتی ہے مگر مومن نہیں ہوسکتی۔ مگر حسن نثار نے صرف غلبے کو مومن ہونے کی علامت بنادیا ہے۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو حسن نثار سرسید کی معنوی اولاد ہیں۔ سرسید انگریزوں کے اس لیے عاشق نہیں تھے کہ وہ درست تھے بلکہ وہ انگریزوں کے اس لیے عاشق تھے کہ وہ غالب تھے۔ اس سلسلے میں سرسید کا اصول یہ تھا کہ جو غالب ہے وہی صحیح ہے اگر وہ صحیح نہ ہوتا تو غالب کیوں ہوتا۔ سرسید نے انگریزوں کو کبھی مومن تو نہیں کہا مگر انہوں نے انگریزوں کی جس طرح پوجا کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ انگریزوں کو مومن سے بھی بڑی چیز سمجھتے تھے۔ حسن نثار نے اس سلسلے میں قرآن تک کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کر ڈالا۔ انہوں نے اس سلسلے میں یہ ضرورت بھی محسوس نہیں کی کہ وہ اپنی حمایت میں قرآن کی کوئی ایسی آیت پیش کرتے جس سے ہر غالب قوت کا مومن ہونا ثابت ہوتا۔ نہ ہی انہوں نے اس سلسلے میں کوئی حدیث پیش کی یہاں تک کہ وہ اس سلسلے میں کسی مستند عالم دین کا قول بھی پیش کرنے سے قاصر رہے۔ اس سلسلے میں حسن نثار کا رویہ یہ ہے میں جو سمجھتا ہوں وہی درست ہے۔ بقول میر
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اب یہ محض اتفاق ہے کہ اقبال کا ایک بہت اہم تصور اور کردار مومن ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اقبال نے مومن کے بارے میں کیا کہہ رکھا ہے۔ اقبال نے فرمایا ہے۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
٭٭
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
٭٭
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
٭٭
بندئہ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوت فرمانروا کے سامنے بیباک ہے
٭٭
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
٭٭
ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کار ساز
٭٭
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندئہ مومن کی اذاں سے پیدا
٭٭
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سّرِ کلیم و خلیل
٭٭
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
٭٭
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکرے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
حسن نثار ذرا بتائیں تو دنیا کے کس کافر، مشرک، منافق اور فاجر و فاسق میں مومن کی خصوصیات اور اس کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ کافر کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ مادی دنیا میں کھویا ہوا ہوتا ہے اور اس کا عاشق ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مومن کی یہ پہچان ہے کہ وہ آفاق یا مادی دنیا اور مادی مظاہر میں کھویا ہوا نہیں ہوتا بلکہ مادی مظاہر مومن میں جذب ہوتے ہیں۔ اقبال کا ارشاد ہے کہ کافر کے لیے صرف جسمانی طاقت ہی سب کچھ ہوتی ہے اس لیے وہ تعداد یا اسلحے پر انحصار کرتا ہے اور اس کو فیصلہ کن سمجھتا ہے لیکن اس کے برعکس مومن کی شان یہ ہے کہ وہ صرف شہادت حق کا فریضہ انجام دینا چاہتا ہے۔ اس کے پاس تلوار ہو تو ٹھیک اور اگر نہ ہو تو وہ تلوار کے بغیر بھی میدانِ کار زار میں دادِ شجاعت دے لڑسکتا ہے۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ بندئہ مومن کا دل مایوسی اور دکھاوے سے پاک ہوتا ہے اور بندئہ مومن حکمران وقت کے سامنے حق گوئی کے حوالے سے بیباک ہوتا ہے۔ وہ جس بات کو حق سمجھتا ہے ببانگ دہل اس کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے برعکس کافروں اور مشرکوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ صرف انبیا و مرسلین کے منکر ہوتے ہیں۔ وہ صرف حق کی تردید کرتے ہیں۔ وہ قوت فرمانروز کے سامنے سر نہیں اٹھاتے۔ وہ طاقت کے آگے ہمیشہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ مومن قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت کی چار صفات سے آراستہ ہوتا ہے۔ حسن نثار ذرا بتائیں تو کہ کس کافر اور مشرک میں اور کس منافق و فاسق میں یہ صفات پائی جاتی ہیں۔ اقبال کا اصرار ہے کہ بندہ مومن کی شخصیت خدا مرکز یا God Centric ہوتی ہے۔ اسی لیے بندۂ مومن پراسرار ہوتا ہے اور اسی لیے اس کی ٹھوکر سے دریا و صحرا دو نیم ہوجاتے ہیں اور پہاڑ اس کی ہیبت سے رائی بن کر رہ جاتے ہیں۔ حسن نثار ذرا مطلع تو کریں کہ کیا کافروں، مشرکوں، منافقوں اور فاسقوں اور فاجروں کی بھی یہی شان ہوتی ہے؟
اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں مسلمان مغلوب اور مغرب غالب کیوں ہے؟ اقبال نے اس سوال کا جواب دو مصرعوں میں دیا ہے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
مسلمانوں کے عروج کی بنیاد یہ تھی کہ وہ قرآن و سنت سے جڑے ہوئے تھے۔ ان کے لیے قرآن کتاب تلاوت نہیں کتاب انقلاب تھی اور ان کے لیے رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ نمونہ ٔ عمل تھی۔ لیکن جب مسلمانوں نے قرآن و سیرت طیبہ سے تعلق توڑ کرلیا تو وہ صاحب کردار نہ رہے۔ پھر وہ دنیا کو بدلنے والی قوت نہ رہے بلکہ خود دنیا نے انہیں بدلنا اور اپنے سانچے میں ڈھالنا شروع کردیا۔ اکبر الٰہ آبادی کی شاعری کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انگریز اس لیے غالب نہیں ہوئے کہ ان کی تہذیب برتر اور ہماری تہذیب کمتر تھی۔ بلکہ انگریزوں کا غلبہ بتاتا ہے کہ وہ بہتر ہتھیاروں کی وجہ سے غالب ہوئے۔ اکبر کو اپنی تہذیب کی برتری کا اتنا یقین تھا کہ مسلمان میدان جنگ میں جو جنگ ہار گئے تھے اکبر نے اپنی شاعری میں وہ جنگ جیت کر دکھا دی۔ اقبال کو مغرب کے عروج کے زمانے میں اس بات پر کامل یقین تھا کہ مغربی تہذیب موت کے تجربے سے دوچار ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا۔
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا

مولانا مودودی کو مسلمانوں کے عہد ِ زوال میں مسلمانوں سے اتنی امید تھی کہ انہوں نے صاف کہا کہ مسلمانو قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور دنیا پر چھا جائو۔ یہاں قرآن و سنت کی دعوت کا مطلب قرآن و سنت کا مصداق بننا ہے۔ مغرب کے غلبے اور مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب علم کے دائرے میں مغرب کی پیش قدمی اور مسلمانوں کی پسپائی ہے۔ مسلمان جب تک خلاّق تھے۔ غالب تھے۔ جب وہ خلاّق نہ رہے تو مغلوب ہوگئے۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ حسن نثار جیسوں کو دیکھ کر اکبر الٰہ آبادی کا شعر یاد آجاتا ہے۔ اکبر نے کہا ہے۔
میں نے مانا کہ کلیں تیز چلی ہیں لیکن
آپ شہتیر نہیں ہیں کہ چرے جاتے ہیں

Leave a Reply