اسلام دشمن طاقتیں ایک ہزار سال سے اس بات کا پروپیگنڈا کررہی ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔ افسوس کہ پروپیگنڈا کرنے والوں کو اتنی سی بات بھی معلوم نہیں کہ طاقت کے ذریعے صرف جغرافیہ فتح کیا جاسکتا ہے اور مسلمانوں نے صرف جغرافیہ فتح نہیں کیا۔ انہوں نے قلوب اور اذہان کو بھی مسخر کیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک قلوب اور اذہان تلوار اور توپ کے ذریعے فتح نہیں ہوئے۔ مسلمانوں نے قلوب و اذہان کو فتح نہ کیا ہوتا تو آج دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک ارب 80 کروڑ نہ ہوتی۔ برصغیر میں 65 کروڑ سے زیادہ مسلمان نہ ہوتے۔ امریکا اور یورپ میں لاکھوں اہل مغرب مشرف بہ اسلام نہ ہوئے ہوتے۔ مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے تاریخ کے طویل سفر میں جو عظمت حاصل کی وہ دوچیزوں کا نتیجہ ہے۔ ایک تقویٰ اور دوسرا علم۔
بدقسمتی سے ہماری معاشرت میں تقوے کو ظاہر میں منحصر کرلیا گیا ہے۔ بلاشبہ ڈاڑھی سنت رسول ہے مگر تقویٰ ڈاڑھی میں نہیں ہے۔ بلاشبہ پردہ اللہ کا حکم ہے مگر پردہ برقعے میں مرتکز نہیں ہے۔ متقی انسان وہ ہے جو خدا مرکز زندگی بسر کرتا ہو۔ متقی وہ ہے جس کی خدا سے محبت اس کی تمام محبتوں پر غالب آگئی ہو اور جس کے خوف خدا نے اس کے خوف کی تمام صورتوں پر غلبہ حاصل کرلیا ہو۔ ان دو کیفیتوں کے درمیان کھڑا ہوا آدمی متقی آدمی ہے اور یہی وہ شخص ہے جو خدا مرکز زندگی گزار سکتا ہے۔ تقوے کو اللہ تعالیٰ نے یہ استعداد عطا کی ہے کہ جس شخص کے دل میں تقویٰ پیدا ہوجاتا ہے وہ دلوں کو مسخر کرنے لگتا ہے۔ وہ مرجع خلائق بننے لگتا ہے۔ جب سورج صبح کو نکلتا ہے تو وہ کوئی پریس کانفرنس نہیں کرتا کہ میں نکل رہا ہوں یا نکل آیا ہوں۔ جب سورج نکلتا ہے تو چار دانگ عالم میں اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور اس کی روشنی سے پوری دنیا جان لیتی ہے کہ سورج نکل رہا ہے۔ جب کسی شخص کے دل میں تقوے کا سورج طلوع ہوجاتا ہے تو وہ اطراف واکناف میں موجود لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے لگتا ہے۔ وہ لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے لگتا ہے۔ لوگ اس میں کشش محسوس کرنے لگتے ہیں اور اس کے گرد جمع ہونے لگتے ہیں۔ جس شخص کے تقوے کا معیار جتنا بلند ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ محبوب اور موثر بننے لگتا ہے۔ رسول اکرمؐ اور صحابہ کی عظیم سیرتیں، اولیا اور مجددین کی شخصیتیں اس بات کا بین ثبوت ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ تقوے سے نمودار ہونے والے کردار نے کروڑوں لوگوں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے۔ تلوار صرف جغرافیہ فتح کرسکتی ہے وہ دلوں کو فتح کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اگر طاقت دلوں کو فتح کرسکتی تو یورپ کی غاصب قومیں بھی مفتوحہ علاقوں سے واپس نہ لوٹتیں اور ان کے خلاف کہیں بھی بغاوت کھڑی نہ ہوتی۔ چوں کہ یورپ کی غاصب قوتوں نے صرف جغرافیہ فتح کیا تھا اس لیے ان کو بالآخر اپنی کالونیوں سے واپس جانا پڑا اور وہ بھی صرف ڈیڑھ سو سال میں۔ مسلمان ہندوستان آئے تو ہزار سال تک حکومت کرتے رہے اور انہوں نے کروڑوں ہندوئوں کو مسلمان کیا۔ مسلمان اسپین پہنچے تو چھ سو سال تک وہاں کے حکمران رہے اور لاکھوں عیسائیوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔
مسلمانوں کی تاریخ میں علم کی اہمیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایمان کے بعد سب سے زیادہ زور علم پر دیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق قرآن پاک میں 800 سے زیادہ مقامات ایسے ہیں جہاں علم یا اس کے متعلقہ موضوعات کی اہمیت کو عیاں کیا گیا ہے۔ قرآن پاک کہتا ہے کہ کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں؟ قرآن کہتا ہے تم تفکر سے کام کیوں نہیں لیتے۔ تدبر کو کیوں بروئے کار نہیں لاتے۔ رسول اکرمؐ کا فرمان ہے علم مومن کی گم شدہ میراث ہے یہ جہاں سے ملے اسے حاصل کرو۔ رسول اکرمؐ نے مزید فرمایا ہے کہ جب اہل دنیا دنیا سے
رخصت ہوتے ہیں تو وہ ورثے کے طور پر مال اور جائداد چھوڑ کے جاتے ہیں۔ یہی چیزیں ان کے وارثین میں تقسیم ہوتی ہیں۔ مگر انبیا کا ورثہ علم ہے۔ کوئی نبی جب دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ اپنے پیچھے علم کو ورثے کے طور پر چھوڑ کر جاتا ہے۔ مسلمانوں کی ابتدائی نسلوں نے علم کی اس اہمیت کو سمجھا اور علم کا سمندر خلق کرکے دکھایا۔ قرآن دنیا کی واحد آسمانی کتاب نہیں ہے۔ دنیا میں توریت بھی موجود ہے۔ زبور بھی موجود ہے۔ انجیل بھی موجود ہے۔ وید بھی موجود ہیں۔ مگر مسلمانوں نے قرآن حکیم کی تفسیر کی جو عظیم الشان روایت پیدا کی اس کی مثال پوری دنیا میں موجود نہیں کہ قرآن مجید پر رسول اکرمؐ کے زمانے سے گفتگو شروع ہوئی اور آج تک یہ گفتگو جاری ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں صرف برصغیر میں دو درجن سے زیادہ بڑی تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ عربی اور فارسی میں اردو سے بڑی زبانیں ہیں مگر گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں جتنی تفاسیر اردو میں لکھی گئیں اتنی تفاسیر عربی اور فارسی میں بھی نہیں لکھی گئیں۔ یہ صورت حال بتارہی ہے کہ قرآن مجید کی معنویت کا خزانہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیا آئے۔ ان میں سے کچھ انبیا کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ مگر دنیا کی کوئی قوم اپنے نبی کے تمام اقوال کو جمع نہ کرسکی۔ سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا موسیٰؑ اور سیدنا عیسیٰؑ کے چند اقوال ہم تک پہنچے ہیں مگر مسلمانوں نے رسول اکرمؐ کی کہی گئی ایک ایک بات کو علم حدیث کی صورت میں مدون کردیا۔ علم حدیث کے مستند ہونے کا یہ عالم ہے کہ احادیث کے متن کو قرآن کے بعد سب سے مستند متن تسلیم کیا جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو علم حدیث جیسا عظیم الشان علم دنیا کی کسی بھی قوم کے پاس نہیں۔ مسلمانوں نے فقہ کی عظیم الشان عمارت تعمیر کی۔ مسلمانوں کی فق کی عظمت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ صرف امام ابوحنیفہؒ نے 12 لاکھ مسائل پر غور کرکے ان کا اسلامی حل دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ فقہ کی اس روایت میں امام شافعیؒ، امام مالکؒ اور امام حنبلؒ کے علم کو بھی شامل کرلیا جائے تو علم کا ایک سمندر ہمارے سامنے آموجود ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے شاعری کی اتنی بڑی روایت پیدا کی ہے کہ دنیا کی کوئی قوم شاعری کی ایسی شاندار روایت ہمارے سامنے نہیں لاسکتی۔ اقبال ایک عظیم شاعر ہیں مگر انہوں نے مولانا روم کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے لکھا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ مولانا کی شاعری ایک سمندر ہے اور میں اس کے ساحل پر پڑا ہوا ایک کوزا ہوں۔ مولانا روم کی شاعری کی عظمت یہ ہے کہ اگر دوسری قوموں کے سو عظیم شاعروں کی شاعری کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور مولانا روم کی شاعری کو ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو معنویت اور کیفیت کے اعتبار سے مولانا کی شاعری کا پلڑا بھاری ہوگا۔ مسلمانوں نے داستان کی عظیم الشان روایت پیدا کی۔ مسلمانوں نے تصوف کا اتنا بڑا علم پیدا کیا کہ دنیا کی کوئی قوم اس علم کے برابر علم ہمارے سامنے نہیں لاسکی۔ مسلمانوں نے طبیعات، کیمیا، ریاضی، طب، علم فلکیات اور دوسرے علوم و فنون میں چار سو سال تک پوری دنیا کی قیادت کی، جس طرح آج ہماری جامعات میں مغرب کے مفکرین کے نظریات اور خیالات پڑھائے جاتے ہیں ایک وقت تھا کہ ہمارے مفکرین اور دانش وروں کے خیالات اور نظریات اسی طرح مغرب کی جامعات میں پڑھائے جاتے تھے۔ مغرب کے دو ممتاز دانش وروں رابرٹ بریفالٹ اور مائیکل مورگن ہملٹن نے اپنی کتب میں لکھا ہے کہ مغرب کے پاس ایک علم بھی ایسا نہیں جو انہوں نے مسلمانوں سے نہ لیا ہو۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مغرب مسلمانوں سے علم حاصل نہ کرتا تو وہ کبھی وہ نہیں بن سکتا تھا جو وہ بنا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے کوئی نیوٹن اور آئن اسٹائل تو پیدا نہیں کیا مگر مغرب میں بھی مسلمانوں کے علم کے بغیر نیوٹن اور آئن اسٹائن کا پیدا ہونا ناممکن تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح تقوے کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ قلوب کو فتح کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے علم کو یہ استعداد عطا کی ہے کہ وہ اذہان کو مسخر کرتا ہے۔
چناں چہ مسلمانوں نے دنیا میں کروڑوں قلوب کو تقوے کے ذریعے اور کروڑوں اذہان کو علم کے ذریعے فتح کیا اور وہ انہی بنیادوں پر فاتحِ زمانہ کہلائے۔ بدقسمتی سے جس چیز کو مسلمانوں کا زوال کہا جاتا ہے اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ مسلمانوں کی زندگیاں خدا مرکز اور علم مرکز نہیں رہیں۔ اب ہماری زندگیاں دولت کے گرد طواف کرتی ہیں، طاقت کے گرد طواف کرتی ہیں، شہرت کے گرد طواف کرتی ہیں، عہدوں اور مناصب کے گرد طواف کرتی ہیں، دنیا کے گرد طواف کرتی ہیں۔
اقبال نے مسلمانوں کے زوال علم کو دیکھتے ہوئے آج سے سو سال پہلے مسلمانوں سے ایک بڑی شکایت کی تھی۔ اقبال نے کہا تھا۔
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
اس شعر میں اقبال مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں کتاب پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ تُو کتاب کا سمجھنے والا نہیں رہا۔ اس شعر کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تجھے کتاب پڑھنے سے فائدہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ تو کتاب پڑھ کر ایک نئی کتاب تخلیق نہیں کرسکتا۔ سو سال پہلے اقبال کو شکایت تھی کہ مسلمان خلاّق نہیں رہے۔ مگر آج مسلمانوں کی عظیم اکثریت کتاب پڑھنے والی بھی نہیں رہی۔ جس طرح دنیا میں پانڈے کی نسل ختم ہورہی ہے اسی طرح مسلمانوں میں کتاب پڑھنے والے نایاب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کتاب کیا اب تو مسلمانوں میں اخبار پڑھنے والے بھی نایاب ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے اور پاکستان میں تمام اردو انگریزی اخبارات کی اشاعت 20 لاکھ سے زیادہ نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ 22 کروڑ میں سے صرف 20 لاکھ افراد خرید کر اخبار پڑھتے ہیں۔ کتاب سے ہمارے تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ ہم پانچ ہزار کا جوتا خریدتے ہیں اور اسے سستا سمجھتے ہیں اور ہم 200 روپے کی کتاب خریدتے ہیں اور اسے مہنگا سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے باطن میں جوتوں کی طلب موجود ہے مگر کتاب کی طلب موجود نہیں۔ اس تناظر میں یہ حقیقت راز نہیں کہ مسلمان جب تک تقوے اور علم میں کمال پیدا نہیں کریں گے اس وقت تک وہ زوال کے چنگل سے نہیں نکل سکیں گے۔