پاکستان کے سیکولر اور لبرل لکھنے والوں کو جنرل ضیاء الحق سے جیسی نفرت ہے ایسی نفرت تو انہیں شیطان سے بھی نہیں ہوگی۔ سیکولر اور لبرل دانش وروں کو جنرل ضیا الحق اس لیے ناپسند نہیں ہیں کہ وہ ایک فوجی آمر تھے بلکہ انہیں جنرل ضیا الحق سے اس لیے نفرت ہے کہ وہ مذہبی انسان تھے اور ان کے اثر سے معاشرے اور ریاست میں مذہب کا بول بولا ہوا۔ سیکولر اور لبرل دانش ور کہتے ہیں کہ جنرل ضیا الحق کی آمد سے پہلے معاشرہ ’’نارمل‘‘ یعنی سیکولر اور لبرل تھا۔ مگر جنرل ضیا الحق نے معاشرے کو مذہبی بنادیا۔ سیکولر اور لبرل عناصر کے بقول جنرل ضیا الحق نے معاشرے کی ایسی کایا کلپ کی کہ ہم آج تک سنبھل نہیں سکے ہیں۔ سیکولر اور لبرل عناصر کو اگر جنرل ضیا کی فوجی آمریت سے چڑ ہوتی تو وہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز کی بھی مذمت کرتے مگر سیکولر اور لبرل عناصر کا مسئلہ جنرل ضیا الحق کی مذہبیت ہے۔ بلاشبہ معاشرے پر حکمرانوں کا گہرا اثر ہوتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ مذہب برصغیر کے لوگوں کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ برصغیر کے مسلمان ہوں یا ہندو وہ مذہب کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بالخصوص برصغیر کے مسلمان تو مذہب کے بغیر زندگی کا تصور ہی نہیں کرسکتے۔ ہندو ازم بظاہر غیر عقلی نظر آتا ہے مگر وہ پانچ چھ ہزار سال سے زندہ ہے۔ ہندوازم کی مذہبی زبان سنسکرت مر گئی مگر ہندو ازم کے عقاید، عبادات اور رسوم و رواج زندہ ہیں۔ جہاں تک برصغیر کے مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کی پوری تاریخ ہی اپنی اصل میں مذہب کی تاریخ ہے۔
مغل بادشاہ اکبر نے ’’دین الٰہی‘‘ ایجاد کیا۔ دین الٰہی اسلام سے بڑا انحراف تھا۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور مسلمانوں کو کسی مذہبی تجربے کی ضرورت ہی نہیں مگر اکبر کا دین الٰہی مختلف مذاہب کی تعلیمات کا ملغوبہ تھا۔ اکبر سیکولر ازم کے معنوں میں ’’لادین‘‘ نہیں ہوگیا تھا۔ مغل بادشاہ خود کو ’’ظل ِ الٰہی‘‘ یا خدا کا سایہ کہلوانا پسند کرتے تھے۔ یہ اصطلاح لایعنی ہے۔ اس لیے کہ ایک جابر اور قاہر خدا کا سایہ نہیں ہوسکتا مگر اس اصطلاح پر بہرحال مذہب کا سایہ ہے۔ جہانگیر اور مجدد الف ثانی کی کشمکش کی بنیاد بھی مذہب تھا۔ مجدد الف ثانی کا اعتراض یہ تھا کہ مغل بادشاہوں نے اپنے دربار میں سجدئہ تعظیمی کو رواج دیا ہے اور یہ ازروئے شریعت غلط ہے اس لیے کہ ایک مسلمان کا سر صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک سکتا ہے۔ بادشاہ کے سامنے نہیں۔ چناں چہ مجدد الف ثانی نے جہانگیر سے مطالبہ کیا کہ سجدئہ تعظیمی کو ختم کرو۔ مجدد الف ثانی کا ایک اعتراض یہ تھا کہ مغل بادشاہوں نے ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحے پر پابندی عاید کی ہوئی ہے اور انہوں نے ایک حلال چیز کو حرام کردیا ہے۔ چناںچہ مجدد الف ثانی نے جہانگیر سے مطالبہ کیا کہ گائے کے ذبیحے پر عاید پابندی ختم کی جائے۔ جہانگیر کو بالآخر مجدد الف ثانی کے یہ مطالبات تسلیم کرنے پڑے۔ اورنگ زیب عالمگیر اور داراشکوہ کی کشمکش کو بعض لوگ اقتدار کی کشمکش سمجھتے ہیں مگر ایسا نہیں تھا۔ اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش اصل میں اسلام یا ہندو ازم کی بالادستی کی کشمکش تھی۔ اس کشمکش میں اورنگ زیب اسلام اور داراشکوہ ہندو ازم کی علامت تھا۔ داراشکوہ کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ ہندو ازم سے بہت زیادہ متاثر ہوگیا تھا۔ وہ ہندوئوں کی مذہبی کتاب گیتا کو قرآن سے بڑی کتاب کہتا تھا۔ اس کی موجودگی اور اثر سے ہندو اتنے قوی ہوگئے تھے کہ وہ مساجد شہید کردیتے تھے اور ریاست انہیں کچھ نہیں کہتی تھی۔ اس صورت حال کے تناظر میں اورنگ زیب کی تشویش یہ تھی کہ اگر داراشکوہ بادشاہ بن گیا تو برصغیر میں اسلام نابود ہوجائے گا اور ہر طرف ہندوازم کا غلبہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش میں علما اور صوفیا اورنگ زیب کے ساتھ تھے اور اورنگ زیب نے علما کے فتوے کی بنیاد پر ہی داراشکوہ کے قتل کا حکم صادر کیا۔
برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبیت کی ایک بہت بڑی علامت تحریک خلافت ہے۔ یہ کتنی عجیب بات تھی کہ خلافت ترکی میں ختم ہورہی تھی اور تحریک خلافت برصغیر میں چل رہی تھی۔ برصغیر کے مسلمان صرف خلافت کی بقا اور سلامتی کی دعائیں ہی نہیں کررہے تھے وہ خلافت کے لیے عملی اقدامات بھی کررہے تھے۔ وہ انگریزوں پر دبائو ڈال رہے تھے کہ وہ ترکی میں خلافت کے خاتمے میں اپنا کردار ادا نہ کریں۔ برصغیر کے مسلمان روپے پیسے سے خلافت کی مدد کررہے تھے اور برصغیر کی خواتین خلافت پر اپنے زیورات لٹا رہی تھیں۔ خلافت پوری امت کا مسئلہ تھا مگر خلافت کے سلسلے میں تحریک صرف برصغیر میں چل رہی تھی۔ عالم عرب میں یا تو سناٹے کا راج تھا یا عرب ترکوں کے مرکز اقتدار کے خاتمے کا جشن منا رہے تھے۔ خلافت تحریک اتنی بڑی تحریک تھی کہ اس نے گاندھی جیسے رہنما کو تحریک خلافت کی حمایت پر مجبور کردیا۔ بلاشبہ خلافت تحریک کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ کمال اتا ترک نے خود خلافت کے خاتمے کا اعلان کردیا مگر برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت کی بقا و سلامتی کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی، اس لیے کہ ان کے لیے خلافت ایک بہت بڑی مذہبی علامت تھی۔
برصغیر پر انگریزوں کا تسلط مسلمانوں اور ہندوئوں کا سب کا مسئلہ تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے مغربی تہذیب اور انگریزوں کی جیسی مزاحمت کی ویسی مزاحمت ہندوئوں نے نہیں کی۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی مزاحمت کی بنیاد ان کا مذہبی تہذیبی اور تاریخی شعور تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے 1857ء میں جو جنگ آزادی لڑی وہ جنگ نہیں جہاد تھا۔ اس جہاد کا سہرا مسلمانوں کے سر تھا اگرچہ ہندو بھی کہیں کہیں 1857ء کی جنگ آزادی میں شریک تھے مگر انگریزوں نے جنگ آزادی کے خاتمے کے بعد جس طرح مسلمانوں سے انتقام لیا اس سے ثابت ہوگیا کہ وہ مسلمانوں ہی کو اس جہاد کا ذمے دار سمجھتے تھے۔ بعدازاں مسلمانوں نے فکری دائرے میں مغربی تہذیب کی جو مزاحمت کی اس کی بنیاد بھی مذہبی شعور پر رکھی ہوئی تھی۔ برصغیر میں مغربی تہذیب کے خلاف سب سے پہلے اکبر الٰہ آبادی نے آواز بلند کی۔ اکبر کا مذہبی اور تہذیبی شعور بے مثال تھا۔ یہ شعور کہہ رہا تھا۔
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
٭٭
ان کی بیوی نے فقط اسکول ہی کی بات کی
یہ نہ بتلایا کہاں رکھّی ہے روٹی رات کی
٭٭
نہیں پرسش کچھ اس کی الفتِ اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
اکبر کی شاعری کی عظمت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان جو جنگ میدان جنگ میں ہار گئے تھے اکبر نے وہ جنگ اپنی شاعری میں جیت کر دکھا دی۔ اقبال نے بھی مغربی تہذیب کی بے مثال مزاحمت کی۔ انہوں نے اپنی شاعری میں مغربی تہذیب کو مکمل طور پر رد کردیا اور مسلمانوں کو احساس دلایا کہ ان کا مذہب ماضی کی یادگار نہیں بلکہ مستقبل صرف اسلام کا ہے۔ مولانا موودی نے بھی اپنی تحریروں میں مغرب کی مزاحمت کا حق ادا کردیا۔ انہوں نے مغربی تہذیب کو جاہلیت خالصہ، تخمِ خبیث اور شجرِ خبیث قرار دیا۔
جس زمانے میں پاکستان کے قیام کا مطالبہ سامنے آیا اس عہد میں قوموں کی تعریف نسل، جغرافیے اور زبان سے متعین ہورہی تھی مگر مسلمانوں نے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تو اسلام کو اس کی بنیاد بنایا۔ دو قومی نظریہ اپنی اصل میں اسلام کے سوا کچھ نہیں۔ قائداعظم نے بار بار کہا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو اقلیت نہ کہا جائے۔ برصغیر کے مسلمان اقلیت نہیں ایک ’’قوم‘‘ ہیں۔ ان کا ایک مذہب ہے، ایک تہذیب ہے، ایک تاریخ ہے اور وہ ان تمام بنیادوں پر ہندوئوں سے مختلف قوم ہیں۔ چناں چہ برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے مذہب، تہذیب اور تاریخی تجربے کی بقا و سلامتی کے لیے ایک الگ وطن درکار ہے۔ بلاشبہ مذہب نہ ہوتا تو پاکستان کبھی وجود میں نہ آتا۔
بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک ایک سیاسی تحریک تھی مگر مسلمانوں کا شعور کبھی صرف سیاست سے مطمئن نہیں ہوسکتا تھا۔ چناں چہ پاکستان کے لوگوں کے مذہبی شعور نے دیکھتے ہی دیکھتے پی این اے کی سیاسی تحریک کو تحریک نظام مصطفی میں تبدیل کردیا۔ اس سے تحریک کی قوت کئی گنا بڑھ گئی۔ بھٹو صاحب خود ایک سیکولر شخص تھے مگر مذہب پاکستان کے لوگوں کی عظیم اکثریت کا اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ بھٹو صاحب نے 1973ء میں جو آئین بنایا وہ سیکولر نہیں اسلامی آئین تھا۔
بھٹو صاحب کے خلاف عوامی جذبات بڑھے تو انہوں نے سیاسی اور معاشی اقدامات نہیں کیے۔ انہوں نے ’’مذہبی اقدامات‘‘ کیے۔ انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ شراب پر پابندی لگا دی۔ جمعے کی تعطیل کا اعلان کردیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں اسلام کا غلبہ جنرل ضیا الحق کا کارنامہ نہیں برصغیر کی مذہب میں ڈوبی ہوئی تاریخ کی ایک کروٹ ہے۔ جنرل ضیا الحق اس کروٹ کی صرف ایک علامت ہیں اور بس۔