جاوید غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم نے اپنے کالم میں قائد اعظم ثانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کی تاریخ کا ایک ’’متنازع کردار‘‘ بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر قدیر پاکستان کی تاریخ کے منفرد کردار ہیں۔ مقبول بھی اور متنازع بھی۔ مقبول عوام میں متنازع حکام میں۔ خورشید ندیم نے مزید لکھا ہے کہ ایٹمی پروگرام کا سہرا ڈاکٹر قدیر کے سر ’’باندھا‘‘ گیا۔ اگرچہ یہ بھی ایک ٹیم کا کام تھا۔ وہ عوام کے سامنے ایٹمی پروگرام کی علامت بن گئے۔ لوگوں نے انہیں مسیحا ’’جانا‘‘ جس نے پاکستان کو ’’ان کے خیال‘‘ میں دفاعی طور پر ناقابل تسخیر بنادیا۔ خورشید ندیم کے بقول ڈاکٹر صاحب کے ساتھ یہ عجیب واقعہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب حکمران طبقے میں مقبول نہ ہوسکے، نہ فوجی حکمرانوں میں، نہ سول حکمرانوں میں۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند بھی ان سے اور وہ ثمر مبارک مند سے خوش نہیں رہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر پاکستان کے لیے قائد اعظم کے بعد سب سے اہم شخصیت ہیں۔ قائداعظم نے پاکستان بنایا اور ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان بچایا۔ اس لیے ہم نے انہیں اپنے ایک کالم میں قائد اعظم ثانی قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر قدیر کی غیر ضروری تعریف نہیں بلکہ یہ ڈاکٹر قدیر کے ساتھ انصاف ہے۔ مگر خورشید ندیم نے قائد اعظم ثانی کو اپنے کالم میں ’’متنازع‘‘ بنا کر کھڑا کر دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر عبدالقدیر بھی غیر متنازع نہیں ہیں تو پھر کون غیر متنازع ہے؟
قائد اعظم جب مطالبہ پاکستان لے کر کھڑے ہوئے تو ان سے اختلاف کرنے والے بڑے بڑے لوگ موجود تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی کا خیال تھا کہ قومیں مذہب سے نہیں ’’اوطان‘‘ سے بنتی ہیں۔ چناں چہ مذہب کی بنیاد پر ایک علٰیحدہ وطن کے مطالبے کا کوئی جواز ہی نہیں۔ اقبال نے اپنے زمانے میں مولانا حسین احمد مدنی کے اس خیال کا درست اور سخت جواب دیا اور صاف کہا کہ کوئی قوم مذہب سے بنتی ہو یا نہ بنتی ہو مسلمانوں کا تشخص بہرحال صرف مذہب ہے۔ مولانا مدنی کی مذکورہ رائے جمعیت علمائے ہند کی اکثریت کی رائے تھی اور جمعیت علمائے ہند برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تھی۔ تو کیا اس بنیاد پر قائد اعظم کو متنازع قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ قائد اعظم ایک اصولی موقف لے کر اٹھے تھے۔ قائد اعظم نے جب مطالبہ پاکستان کا اعلان کیا تو مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیت نے اس سے اختلاف کیا۔ قائداعظم نے جب قیام پاکستان کی جدوجہد شروع کی تو وہ صرف جناح تھے اور ابوالکلام آزاد نے جب پاکستان کی مخالفت کی تو وہ ’’امام ہند‘‘ کہلاتے تھے۔ تو کیا اس بنیاد پر قائداعظم کو متنازع قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ قائد اعظم اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کی زبان بول رہے تھے اور مولانا ابوالکلام آزاد کا تجزیہ صرف ایک شخصی تجزیہ تھا۔ قائد اعظم نے جب قیام پاکستان کی جدوجہد شروع کی تو احراری علما ایک بڑی قوت تھے اور ایک احراری نے قائداعظم کو ’’کافر اعظم‘‘ قرار دیا تھا تو کیا اس بنیاد پر قائداعظم کو متنازع شخصیت قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ قائد اعظم ایک قوم کی تقدیر کا مقدمہ لڑ رہے تھے اور احراری صرف قائداعظم کے ظاہر کو دیکھ کر کلام کررہے تھے۔ قائداعظم صرف جمعیت علمائے ہند، ابوالکلام آزاد اور احراری علما ہی کو نا پسند نہیں تھے۔ کانگریس اور انگریز بھی انہیں ناپسند کرتے تھے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندو قوم کو قائداعظم سے نفرت تھی۔ اس لیے کہ وہ ’’بھارت ماتا‘‘ کو تقسیم کرنے کی بات کررہے تھے۔ تو کیا اس بنیاد پر قائداعظم کے ساتھ متنازع کا لفظ چسپاں کیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان مفادات کا ٹکرائو تھا اور قائداعظم برصغیر کی ملت اسلامیہ کے مفادات کی علامت تھے۔ انگریزوں کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ گاندھی اور نہرو کو Dictate کرسکتے تھے مگر قائد اعظم کو حکم نہیں دے سکتے تھے۔ چناں چہ قائد اعظم کے سلسلے میں انگریزوں کی کسی رائے کی کوئی اہمیت نہ تھی۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ پاکستان کیا برصغیر کے سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ عناصر اقبال کو شاعر اسلام ہونے کی وجہ سے پسند نہیں کرتے۔ ان کی ناپسندیدگی کی ایک علامت یہ ہے کہ ڈاکٹر مبارک علی نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں اقبال کو ’’دہشت گرد شاعر‘‘ قرار دیا۔ تو کیا اس ایک تبصرے یا سیکولر، لبرل اور سوشلسٹ عناصر کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ہم یہ کہہ دیں کہ اقبال ایک متنازع شخصیت ہیں؟ اقبال نے جب شاعری کا آغاز کیا تو انہوں نے اردو شاعری کی کیمسٹری کو بدل ڈالا۔ چناں چہ برصغیر میں ایک طبقہ ایسا تھا جو کہتا تھا کہ اقبال شاعر تھوڑی ہیں وہ تو فلسفی ہیں اور اپنے خیالات کو نظم کردیتے ہیں۔ تو کیا اس بنیاد پر کہہ دیا جائے کہ اقبال ایک متنازع شاعر ہیں۔ اقبال کا ایک شعر ہے۔
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بُت کدئہ صفات میں
ہمارے درمیان ایسے مذہبی لوگ موجود رہے ہیں اور موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ شعر ذات باری تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہے۔ اقبال نے اپنی مشہور زمانہ نظم شکوہ میں خدا کو ہرجائی یا بے وفا قرار دیتے ہوئے کہا۔
کبھی ہم سے، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تُو بھی تو ہرجائی ہے
اقبال خدا سے کہہ رہے ہیں کہ کبھی تو مسلمانوں کو عروج پر لے جاتا ہے اور کبھی اہل مغرب کو عروج پر لے جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تو بے وفا ہے۔ تو کیا ان اعتراضات کی بنیاد پر کہہ دیا جائے کہ اقبال ایک ’’متنازع شخصیت‘‘ ہیں۔ اقبال کا ایک خیال یہ ہے کہ حیات بعد الممات ہر شخص کے لیے نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد وہی شخص میدان حشر میں اُٹھایا جائے گا جس کی خودی مستحکم ہوگی اور موت کے صدمے کو برداشت کرسکتی ہوگی۔ یہ خیال مسلمانوں کے سوادِ اعظم کے عقیدے کی ضد ہے۔ تو کیا اس بنیاد پر اقبال کو متنازع باور کرا دیا جائے۔ اقبال کا ایک خیال یہ ہے کہ جنت اور دوزخ کا کوئی خارجی وجود نہیں بلکہ یہ ذہنی کیفیتوں کے نام ہیں۔ یہ عقیدہ بھی امت مسلمہ کے عقیدے کی ضد ہے۔ تو کیا اس بنیاد پر اقبال کو متنازع قرار دے کر خوش ہوا جائے؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ اقبال ان معاملات کے باوجود عظیم اور غیر متنازع ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کا مرکزی دھارا اسلام سے ہم آہنگ ہے۔
خورشید ندیم ویسے تو جمہوریت، جمہوریت اور عوام، عوام کرتے رہتے ہیں مگر انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر کے سلسلے میں فوجی اور سول حکمرانوں کی رائے کو بڑا اہم بنا کر پیش کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر پاکستان کے فوجی حکمرانوں کی رائے کو اہم سمجھ لیا جائے تو جنرل ایوب کے زمانے میں مادرِ ملت اور قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں اخبارات میں آدھے آدھے صفحے کے اشتہارت بھی شائع کرائے گئے تھے۔ چناں چہ اس بنیاد پر ہمیں مان لینا چاہیے کہ فاطمہ جناح ایک ’’متنازع شخصیت‘‘ تھیں۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان کے تمام فوجی آمروں نے سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں پر پابندیاں لگائیں۔ جنرل ضیا الحق نے کئی بار یہ کہنا ضروری سمجھا کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کی کوئی گنجائش ہی نہیں، اس لیے کہ اسلام اتحاد کا درس دیتا ہے اور سیاسی جماعتیں قوم کو تقسیم کرتی ہیں۔ تو کیا اس بنیاد پر ہم تسلیم کرلیں کہ سیاسی جماعتیں متنازع ہیں۔ خورشید ندیم میاں نواز شریف کے عاشق ہیں اور میاں نواز شریف کا ریکارڈ یہ ہے کہ ان کی ہر آرمی چیف سے لڑائی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے تین بار نواز شریف کو اقتدار سے باہر کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں نواز شریف ایک متنازع شخصیت ہیں مگر ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ خورشید ندیم نے کبھی میاں نواز شریف کو ’’متنازع‘‘ قرار دیا ہو۔ وہ ہمیشہ میاں صاحب کا ذکر اس انداز سے کرتے ہیں جیسے ان پر پوری قوم کا ’’اجماع‘‘ ہو۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف صرف پنجاب کے رہنما ہیں اور وہ خود پنجاب کی سطح سے بلند نہیں ہونا چاہتے۔
خورشید ندیم نے ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے باہمی تعلقات کا ذکر کرکے بھی یہی تاثر دیا ہے کہ ڈاکٹر قدیر متنازع ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر قدیر کا نام بھی ثمر مبارک مند کے ساتھ لینا ڈاکٹر قدیر کی توہین ہے۔ ڈاکٹر قدیر سورج ہیں اور ثمر مبارک مند محض ایک ذرہ۔ بھلا سورج اور ذرے کا کیا موازنہ، بھلا ذرے کی یہ اوقات کہاں کہ وہ سورج پر اعتراض کرے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند ’’Son of the soil‘‘ ہیں اور ڈاکٹر قدیر کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ وہ Son of the soil نہیں ہیں۔ ڈاکٹر قدیر بھی ’’زمین کے بیٹے‘‘ ہوتے تو خورشید ندیم کبھی انہیں متنازع قرار نہ دیتے۔ جہاں تک پاکستان کے فوجی اور سول قیادت کے ڈاکٹر صاحب کو پسند نہ کرنے کا تعلق ہے تو قصہ یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر قدیر تھوک دیتے تو اس سے درجنوں جرنیل اور نواز شریف جیسے درجنوں سیاست دان نمودار ہوجاتے۔ خورشید ندیم کی یہ دلیل بھی بودی ہے کہ پاکستان کا ایٹم بم ایک ٹیم کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ دنیا کا ہر بڑا کام ٹیم ورک کا تقاضا کرتا ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان بنایا تو وہ تنہا نہیں تھے۔ پوری ایک ٹیم ان کے ساتھ تھی مگر پاکستان کا خالق قائداعظم کو کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر قدیر بھی پاکستان کے ایٹم بم کے واحد خالق ہیں۔