معاصر دنیا کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی ہمارے عہد کے امتیازی نشانات بن گئے ہیں۔ اس دنیا کے عدم توازن کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس میں انتہا پسندی اور دہشت گردی پر گفتگو بھی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے اسلوب میں کی جارہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے اس طرح منسلک کردیا گیا ہے کہ اسلام اور انتہا پسندی اور مسلمان اور دہشت گردی ہم معنی نظر آنے لگے ہیں۔ حالانکہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ ایک دفاعی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ دنیا تاحال اسلام اور مسلمانوں کی دنیا نہیں ہے۔ سیکولر اور لبرل قوتوں کی دنیا ہے۔ اس دنیا کے سارے وسائل سیکولر اور لبرل قوتوں کے ہاتھ میں ہیں اور یہی قوتیں قوموں، ملّتوں اور تہذیبوں کے تعلقات کی تعریف متعین کررہی ہیں۔ وہ جب چاہتی ہیں جنگ ایجاد کرلیتی ہیں، جب چاہتی ہیں مذاکرات کی بساط بچھا دیتی ہیں، جب چاہتی ہیں حقیقی یا مصنوعی امن کو دنیا کا مقدر بنادیتی ہیں۔ اس منظرنامے میں اسلام اور مسلمانوں کے پاس دفاعی جنگ لڑنے کے سوا کوئی چارۂ کار ہی نہیں ہے، اور دفاعی جنگ لڑنے والے نہ انتہاپسند ہوسکتے ہیں اور نہ وہ حقیقی معنوں میں دہشت گردی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں ’’ردعمل‘‘ میں کرتے ہیں۔ عمل کا ’’تعیش‘‘ مسلمانوں کی دسترس ہی میں نہیں۔ مگر اس کے باوجود امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام انتہا پسندی کا مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد ہیں۔ اس منظرنامے کی مزید ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ معاصر دنیا افراد اور گروہوں کی انتہاپسندی اور دہشت گردی کو خوب پہچانتی ہے، مگر اسے ریاستوں کی دہشت گردی کہیں نظر نہیں آتی۔ امریکہ کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی کہتے ہیں کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی بدمعاش ریاست ہے۔
امریکہ کی ایک اور ممتاز دانش ور سوسن سونٹیگ نے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ امریکہ کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے۔ لیکن بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور مسلم دنیا پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے والے، امریکہ کو دہشت گرد ریاست نہیں کہتے۔ اسرائیل گزشتہ 65 سال سے فلسطینیوں کی سرزمین پر قابض ہے۔ وہ لاکھوں فلسطینیوں کو قتل اور جلاوطن کرچکا ہے۔ اس نے مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے لیکن انتہاپسندی اور دہشت گردی کا شور مچانے والی کوئی طاقت اسرائیل کو دہشت گرد نہیں کہتی۔ بھارت میں گزشتہ 65 سال کے دوران ساڑھے چار ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مسلم کش فسادات ہوئے ہیں۔ بھارت کی فوجیں گزشتہ چھ دہائیوں میں مقبوضہ کشمیر میں چار لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں، ہزاروں لوگ گھروں سے غائب ہیں، ہزاروں کشمیری بھارت کی جیلوں میں اذیت ناک زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادی طلب کرتے ہیں، مگر دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شور برپا کرنے والا کوئی ملک بھارت کو انتہا پسند اور دہشت گرد نہیں کہتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مغربی دنیا اور اس کے اتحادیوں نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اصطلاحوں کو ہائی جیک کرلیا ہے، ان کی نجکاری کرلی ہے، اور یہ بین الاقوامی اور تہذیبی سطح پر انتہا پسندی اور نفسیاتی، جذباتی اور ابلاغی دہشت گردی کی سب سے بڑی مثال ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ساری دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا غلغلہ برپا ہے مگر کوئی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تعریف متعین کرنے کے لیے تیار نہیں! تجزیہ کیا جائے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ دنیا پر انتہا پسندوں اور دہشت گردی کی نفسیات رکھنے والوں کا غلبہ ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو انتہا پسندی اور دہشت گردی کب کی Define ہوچکی ہوتیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے نفسیاتی اور سماجی اثرات کی نوعیت کیا ہے؟
اس روئے زمین پر آباد انسانیت کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ تمام انسان ایک کنبے کا حصہ ہیں اور ان کے درمیان اختلاف کی نوعیت فطری ہے۔ لیکن انتہاپسندی انسانوں کی وحدت کو نمایاں نہیں ہونے دیتی اور وہ اختلاف کو دشمنی بنادیتی ہے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا دشمنوں سے بھر گئی ہے۔ اس دنیا میں دوستی ہے بھی تو اس کی نوعیت تکنیکی، عارضی اور حکمت عملی کے تحت ہے۔ البتہ دشمنی برجستہ، حقیقی اور دائمی ہے۔ اس حوالے سے خود امتِ مسلمہ کا حال اچھا نہیں۔ کہنے کو ’’مسلک‘‘ ایک راستہ ہے اور دین کے دائرے میں کئی مسالک ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہمارے مذہبی لوگوں کی انتہاپسندی نے ’’مسالک‘‘ کو ’’فرقہ‘‘ بنادیا ہے۔ اس نوعیت کی فرقہ پرستی کے تحت لوگ ایک دوسرے کی تکفیر کررہے ہیں، ایک دوسرے کے لیے اپنی مساجد کو بند کررہے ہیں، ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں، ایک دوسرے سے شادی بیاہ کے معاملات کرنے پر آمادہ نہیں۔ اسلام دیوار میں در بناتا ہے، اور ہمارے مسلک پرست در کو بھی دیوار میں ڈھالتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سمندر کی نفسیات کنویں اور تالاب کی نفسیات بن گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد کنویں اور تالاب ہی کو سمندر سمجھنے لگی ہے۔
انسانی زندگی میں زبان کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ اسے نظرانداز کرکے زندگی پر گفتگو ہی نہیں کی جاسکتی۔ انسان جو کچھ سوچتا ہے زبان کی مدد سے سوچتا ہے۔ انسان جو کچھ محسوس کرتا ہے زبان کی مدد سے محسوس کرتا ہے۔ انسان جو کچھ کہتا ہے زبان کی مدد سے کہتا ہے۔ لیکن انتہا پسندی زبان کے پورے سانچے کو بے معنی بنا دیتی ہے۔ وہ انسان سے کہتی ہے کہ زبان و بیان تمہارے مافی الضمیر اور مفادات کے لیے کفایت نہیں کرتے، ان کا سہارا لینا بے کار ہے، تمہیں جسمانی طاقت کی زبان میں بات کرنی چاہیے، تم اس طرح اپنے حریف کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہو اور اسے زیادہ تیزی اور آسانی کے ساتھ زیر کرسکتے ہو۔ اس صورت حال میں گفتگو اور مکالمہ ممکن ہی نہیں رہتا، یا پھر گفتگو اور مکالمہ ایک کھیل بن جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ کشمیر اور فلسطین پر مذاکرات کے درجنوں دور ہوچکے ہیں لیکن اسرائیل ہو یا بھارت، انہوں نے مذاکرات اور مکالمے کو وقت گزارنے اور حریف کا وقت ضائع کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے مقابلے پر اور بھارت پاکستان کے مقابلے پر زیادہ طاقت ور ہے، اور دونوں ممالک کی طاقت انہیں انتہا پسندی کی جانب دھکیلتی ہے۔ امریکہ اور سابق سوویت یونین میں اگر بعض معاملات پر مذاکرات ہوئے اور مذاکرات کامیاب رہے تو اس کی بنیادی وجہ اخلاقیات، مکالمے یا دلیل پر ان کا ایمان نہیں تھا، بلکہ اس کی وجہ طاقت یا دہشت کا توازن تھا۔ پاکستان کی قومی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو جرنیلوں کی انتہاپسندی نے مشرقی پاکستان میں کسی بامعنی مکالمے کی راہ ہموار نہ ہونے دی اور ملک ٹوٹ گیا۔ جنرل پرویزمشرف نے نواب اکبر بگٹی کو مکالمے کے لائق نہ سمجھا اور انہیں قتل کرڈالا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بلوچستان آتش فشاں بنا ہوا ہے۔
انتہاپسندی کا مسئلہ شوہر اور بیوی کے تعلق تک پر اثرانداز ہوتا ہے۔ مغرب میں طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح اس بات کا ثبوت ہے کہ زوجین کے درمیان محبت اور مکالمہ دونوں دم توڑ چکے اور دو انسان چھوٹی سی زندگی کو ایک ساتھ بسر کرنے کی اہلیت کھوچکے ہیں۔
انتہاپسندی اور دہشت گردی معاشرے میں خوف پیدا کرتے ہیں، اور خوف سے دو ہولناک چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان منطقی انداز میں سوچنے (Rational thinking) کے قابل نہیں رہتا، اور دوسری یہ کہ انسان ناامید ہوجاتا ہے اور طرح طرح کے اندیشے اسے گھیر لیتے ہیں۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب کراچی میں نصیراللہ بابر ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کررہے تھے اور ایم کیو ایم نے ایک سال میں پے در پے 54 خونیں ہڑتالیں کرانے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ اُس دور میں کراچی میں خوف کا یہ عالم تھا کہ رات آٹھ، نو بجے کے بعد گلیوں میں انسان کیا کتے بھی نظر نہ آتے تھے۔ یعنی کتوں کو بھی یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ شہر کی گلیاں اور چوراہے غیر محفوظ ہوچکے ہیں۔ اس زمانے میں ایک ہڑتال کے بعد ہم کھانے پینے کے سامان کی تلاش میں گھر سے نکلے تو ہم نے دیکھا کہ لوگ ٹولیوں کی صورت میں اِدھر اُدھر کھڑے ہیں اور ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ بہت ہوچکا، اب کراچی کو پاکستان سے الگ ہو ہی جانا چاہیے۔ وہ یہ بات اتنے اطمینان سے کہہ رہے تھے جیسے کراچی کی علیحدگی کے بارے میں بات نہ کررہے ہوں بلکہ کھانے پینے کی اشیاء کے نرخوں پر گفتگو کررہے ہوں۔ لیکن یہ صرف ’’عوام‘‘کا حال نہیں تھا۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک دن قومی سطح کے ایک سیاسی رہنما کا یہ بیان روزنامہ جنگ میں شائع ہوا کہ کراچی میں اقوام متحدہ کی فوجیں اتر چکی ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ پاکستان کا جو فوجی دستہ بوسنیا میں اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ تھا وہ بوسنیا سے واپس لوٹا تھا اور کراچی بندرگاہ پر اترنے والے اس کے سازو سامان پر اقوام متحدہ کی امن فوج کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ قومی رہنما یہ دیکھنے کے لیے خود کراچی کی بندرگاہ پر موجود نہ تھے، انہیں ان کے کسی ذریعے نے یہ اطلاع دی تھی، لیکن چونکہ کراچی خوف کی گرفت میں تھا اور اس کے حوالے سے طرح طرح کے بین الاقوامی منصوبے زیربحث تھے، اس لیے مذکورہ قومی رہنما نے بھی اطلاع ملتے ہی بیان دینا ضروری سمجھا۔
دہشت گردی سے انسان مرتے ہیں، اور مرنے کا المیہ اس کی تفصیل میں ہوتا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں صرف خبر رپورٹ ہوتی ہے۔ المیہ اور اس کی تفصیلی رپورٹ نہیں ہوتی۔ ماں باپ بچوں سے دور ہوں تو اس کے بھی نفسیاتی، جذباتی اور اخلاقی اثرات ہوتے ہیں، لیکن دہشت گردی میں ماں باپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو جاتے ہیں اور دہشت گردی کا ایک لمحہ درجنوں خاندانوں کے لیے دہائیوں کا دل دہلا دینے والا سفر بن جاتا ہے۔ محبت بچھاکر اور محبت اوڑھ کر سونے والے محبت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ دینے والے لینے والے بن جاتے ہیں۔ جنہوں نے کبھی ایک دن بھی بھوک کا منہ نہیں دیکھا ہوتا وہ فاقے جھیلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ انسان کسی بڑے کاز کے لیے جان دیتا ہے تو اس کے لواحقین کو یہ خیال رہتا ہے کہ مرنے والے کی زندگی ضائع نہیں ہوئی۔ مگر دہشت گردی، موت پر بے معنویت کی مہر لگاکر اس کے دکھ کو بہت بڑھا دیتی ہے، اور یہ دکھ بسا اوقات نسل در نسل سفر کرتا ہے۔