اہل مغرب اور مغرب زدگان کو جب مذہب کی تذلیل کرنی ہوتی ہے تو وہ اسے ’’قدیم‘‘ قرار دے دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مذہب قدیم ہے اور اصل بات قدیم ہونا نہیں ’’جدید‘‘ ہونا ہے۔ اہل مغرب اور مغرب زدگان کو مذہب کی تحقیر میں شدت پیدا کرنی ہو تو وہ تو مذہب کو ’’غیر عقلی‘‘ یا ’’غیر سائنسی‘‘ باور کرادیتے ہیں۔ مذہب کی تحقیر کو رنگین بنانا ہو تو مذہب کو موضوعی یا Subjective قرار دے دیا جاتا ہے اور تاثر دیا جاتا ہے کہ مذہب زندگی کو دیکھنے کے بہت سے زاویوں میں سے ایک موضوعی یا Subjective زاویہ ہے اور بس۔ معروف کالم نگار یاسر پیرزادہ نے اپنے ایک حالیہ کالم میں یہی کھیل کھیلا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ فرصت کے لمحات میں انسان ہندو فلسفے کی کوئی کتاب اٹھا کر پڑھنے لگے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زندگی کی سب گتھیاں سلجھ گئی ہیں۔ لیکن یاسر پیرزادہ کے بقول ابھی تک زندگی کا کوئی ایسا جامع مطلب تلاش نہیں کیا جاسکا جو انسان کو مطمئن کرسکے۔ کبھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ لیکن پھر اچانک کوئی آواز آتی ہے کہ اصل چیز تو کامیابی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ زندگی کا اصل مقصد تو دائمی سکون ہے۔ ابھی انسان اس فلسفے پر غور ہی کررہا ہوتا ہے کہ ایک اور فلسفی یہ بتاتا ہے کہ دنیا اور عالم رنگ و بو تو خواب و خیال ہیں۔ مایا ہیں۔ حقیقت میں کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ عملیت پسندوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ سب باتیں فلسفیانہ موشگافیاں ہیں۔ اصل میں انسان صرف اسی وقت خوش رہ سکتا ہے جب اس کی زندگی میں مصیبت نہ ہو۔ ان ساری باتوں سے یاسر پیرزادہ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ زندگی کی معنویت کی کوئی ایک تعریف ممکن نہیں۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے زندگی کا مطلب جان لیا ہے۔ لہٰذا بس اسی طریقے سے زندگی گزارنی چاہیے۔ یاسر پیرزادہ نے لکھا ہے کہ زندگی تو ہر لمحہ بدلتی ہے۔ اس کا کوئی ایک مطلب نہیں۔ اس کے مختلف شیڈز ہیں۔ (روزنامہ جنگ۔ 10 اکتوبر 2021ء)
یاسر پیرزادہ نے اپنے اس کالم میں کہیں نام لے کر مذہب بالخصوص اسلام کی نفی نہیں کی مگر ان کی تحریر مذہب کا نام لیے بغیر مذہب پر ایک معروضی حقیقت یا معروضی صداقت یعنی Objective Reality کی حیثیت سے خط تنسیخ پھیر رہی ہے۔ اس لیے کہ مذہب بالخصوص اسلام کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ ایک معروضی صداقت یا Objective truth ہے اور وہی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کا واحد طریقہ ہے۔
فلسفے اور مذہب کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ فلسفے کی تاریخ تردید در تردید کا طویل سلسلہ ہے۔ فلسفے کی تاریخ میں ایک فلسفی سامنے آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ زندگی کی اصل پانی ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد دوسرا فلسفی آتا ہے اور کہتا ہے کہ زندگی کی اصل پانی نہیں ہوا ہے۔ اس کے کچھ سال بعد تیسرا فلسفی آتا ہے اور کہتا ہے کہ زندگی کی اصل نہ پانی ہے نہ ہوا ہے بلکہ زندگی کی اصل آگ ہے۔ ارسطو افلاطون کا شاگرد ہے مگر ارسطو نے اپنی فکر میں افلاطون کا نام لیے بغیر اس کے کم و بیش پورے فلسفے کو رد کردیا۔ ممتاز مغربی فلسفی ہیگل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے فلسفے کا جامع ترین نظام تشکیل دیا مگر کارل مارکس نے ہیگل کے جدلیاتی مادیت کے تصور کے حوالے سے کہا کہ ہیگل سر کے بل کھڑا ہوا تھا میں نے اُسے سیدھا کھڑا کردیا۔ مارکس نے یہ بات اس لیے کہی کہ ہیگل کے یہاں کشمکش اور تصادم خیالات میں ہے اور مارکس کے یہاں کشمکش اور تصادم طبقات میں ہے۔ مغربی فکر کا ایک زمانہ تھا کہ مغربی فکر پر عقل کا غلبہ تھا۔ مگر پھر ایک وقت آیا کہ مغربی فکر میں جذبات اہم ہوگئے، جذبات بھی زیادہ دیر تک اہم نہ رہے۔ ایک وقت آیا کہ مغرب نے انسان کی جبلت کو سب کچھ بنالیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فلسفہ تردید در تردید کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور اس میں واقعتاً کوئی معروضیت یا Objectivity موجود نہیں ہے۔ چناں چہ اس کی بنیاد پر کوئی نظام حیات تشکیل دینا حماقت ہے۔ لیکن مذہب کا معاملہ فلسفے سے بہت مختلف ہے۔
مذاہب کی تاریخ تصدیق در تصدیق کا سلسلہ ہے۔ دنیا کے پہلے نبی نے حقیقت اولیٰ کے بارے میں جو کچھ کہا آخری نبی نے بھی حقیقت اولیٰ کے بارے میں وہی کہا۔ ہزاروں یا لاکھوں سال میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و مرسلین آئے مگر ہر نبی نے توحید کا تصور پیش کیا۔ ہر نبی نے خدا کو خالق، مالک، رازق، علیم اور خبیر قرار دیا۔ دنیا کا ہر مذہب کہتا ہے کہ توحید کے بعد رسالت کا ادارہ اہم ترین ہے۔ ہم رسالت کے ادارے کے بغیر خدا تک نہیں پہنچ سکتے۔ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا آئے اور سب پر وحی نازل ہوئی۔ بہت سے انبیا کو آسمانی کتب دی گئیں اور تمام آسمانی کتب نے زندگی کے بنیادی حقائق کے بارے میں ایک ہی بات کہی۔ مثلاً دنیا کی تمام کتب نے آخرت کا تصور پیش کیا۔ تمام آسمانی کتب نے جنت اور دوزخ کی موجودگی پر اصرار کیا۔ تمام آسمانی کتب نے خدا کی عبادت پر زور دیا۔ تمام آسمانی کتب نے فرشتوں کی موجودگی کی اطلاع دی۔ تمام آسمانی کتب نے حلال و حرام کا تصور پیش کیا۔ تمام آسمانی کتب نے عذاب و ثواب کے فلسفے کو اہم قرار دیا۔ تمام آسمانی کتب نے انسانوں میں شعورِ بندگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ تمام آسمانی کتب نے رشتوں کی حرمت کا تصور پیش کیا۔ تمام آسمانی کتب نے توبہ کو اہم قرار دیا۔ تمام آسمانی کتابوں نے اصرار کیا کہ دنیا دارالامتحان ہے اور آخرت دنیا سے زیادہ اہم ہے۔ تمام مذاہب نے معروضی اخلاق یا Objective Morality کا تصور پیش کیا۔ چوں کہ شریعت محمدیؐ کے بعد تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں اسی لیے اب دنیا میں شریعت محمدیؐ ہی سب سے بڑی معروضی حقیقت یا Objective Reality ہے۔ اسلام قرآن و سنت کے ذریعے تمام مسلمانوں کے افعال و اعمال کو معروضی یا Objective بناتا ہے، مسلمانوں کو حکم ہے کہ ان کے لیے بہترین اسوہ، اسوئہ حسنہ ہے۔ چناں چہ مسلمان عبادت کریں تو رسول اکرمؐ کی طرح، جہاد کریں تو رسول اکرمؐ کے جیسا، عزیزوں اور رشتے داروں سے تعلق رکھیں تو رسول اکرمؐ کی طرز پر، کھانا تناول کریں تو حضورؐ کے طریقے کے مطابق۔ جس مسلمان کی جتنی زندگی اسوئہ حسنہ کے مطابق ہے وہ اتنی ہی معروضی، اتنی ہی مستند، اتنی ہی بامعنی اور اتنی ہی جمیل ہے۔ یاسر پیرزادہ نے کبھی غور نہیں کیا کہ مسلمان آرٹ اور کلچر تک کے دائروں میں معروضیت اختیار کرتے ہیں۔ بلاشبہ ہندوستان، ترکی، انڈونیشیا اور یورپ کی مساجد کا طرزِ تعمیر مختلف ہے۔ مگر تمام مساجد میں ’’مسجد پن‘‘ مشترک چیز ہے۔ بلاشبہ مسلمانوں کا لباس ایک دوسرے سے مختلف ہے مگر اس میں ’’ساتر پن‘‘ مشترک چیز ہے۔ مطلب یہ مذہب بالخصوص اسلام کے دائرے میں زندگی اتنی موضوعی یا Subjective نہیں جتنی یاسر پیرزادہ نے بیان کی ہے۔
جہاں تک مذہب اور فلسفے کے باہمی تعلق اور فلسفے سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا معاملہ ہے تو اقبال نے اپنی معرکہ آرا نظم ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘‘ میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔ شاید یہ نظم یاسر پیرزادہ کی نظر سے نہیں گزری۔ اقبال کہہ رہے ہیں۔
تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا
زنارّیِ برگساں نہ ہوتا
ہیگل کا صدف گہر سے خالی
ہے اُس کا طلسم سب خیالی
محکم کیسے ہو زندگانی
کس طرح خودی ہو لازمانی!
آدم کو ثبات کی طلب ہے
دستورِ حیات کی طلب ہے
دنیا کی عشا ہو جس سے اشراق
مومن کی اذاں نِدائے آفاق
مَیں اصل کا خاص سومناتی
آبا مرے لاتی و مناتی
تو سیّد ِ ہاشمی کی اولاد
میری کَف ِ خاک برہمن زاد
ہے فلسفہ میرے آب و گِل میں
پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں
اقبال اگرچہ بے ہنر ہے
اس کی رگ رگ سے باخبر ہے
شعلہ ہے ترے جنوں کا بے سوز
سن مجھ سے نکتہ دل افروز
انجامِ خرد ہے بے حضوری
ہے فلسفہ زندگی سے دوری
افکار کے نغمہ ہائے بے صوت
ہیں ذوق ِ عمل کے واسطے موت
دیں مسلک ِ زندگی کی تقویم
دیں سَرِ محمدؐ و براہیم ؑ
اقبال نے اپنی اس نظم میں فلسفے کی بنیادی نارسائیوں اور اس کی بنیادی موضوعیت کو آشکار کردیا ہے اور بتادیا ہے کہ انسان کی بقا و فلاح فلسفے میں نہیں ’’دین‘‘ میں ہے۔
مسلمانوں کے لیے دین سے وابستگی کوئی فلسفیانہ مسئلہ نہیں بلکہ یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ مسلمان جب تک دین کے دائرے میں رہتا ہے وہ انسان کی تعریف پر پورا اُترتا ہے۔ اس لیے کہ زندگی بندگی سے زندگی بنتی ہے۔ بندگی کے بغیر زندگی، زندگی نہیں شرمندگی ہوتی ہے۔ دین کی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ دین کے دائرے میں بسر ہونے والی زندگی مستند یا Authentic ہوتی ہے۔ معروضی یا Objective ہوتی ہے۔ اسی سے مسلمانوں کی تاریخ میں تجدید کا ادارہ وجود میں آتا۔ ماہ و سال کی گردش مسلمانوں کو ان کے مرکز سے دور کردیتی ہے مگر پھر کوئی مجدد آکر مسلمانوں کو مرکز آشنا کردیتا ہے۔ انہیں مرکز سے جوڑ دیتا ہے۔ ان کی زندگی کے جلال و جمال کو بحال کردیتا ہے۔ ان کی زندگی کو موضوعیت یا Subjectivity کے گڑھے سے نکال کر معروضیت یا Objectivity کی شاہراہ پر گامزن کردیتا ہے۔