یہ آج سے کوئی بیس سال پہلے کی بات ہے ہمارے دوست اور جامعہ کراچی کے شعبہ انگریزی کے استاد طیب زیدی کا فون آیا۔ انہوں نے بتایا کہ اردو کی سب سے بڑی ناول نگار قرۃ العین کراچی آئی ہوئی ہیں اور ان کے ایک عزیز کے ہاں ٹھیری ہوئی ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ ان سے ملنا چاہیں گے۔ ہم نے کہا بھائی قرۃ العین کو پڑھتے ہوئے ایک عمر ہوگئی ہے اور ہم جن لوگوں سے ملنے کے تمنائی ہیں ان میں سے ایک نام قرۃ العین حیدر بھی ہیں۔ طیب نے بتایا کہ قرۃ العین ان کی رشتے کی نانی ہیں۔ قصہ کوتاہ ہم قرۃ العین حیدر سے ملنے پہنچے اور ایک سوا گھنٹے تک ان سے باتیں کرتے رہے۔ باتیں جاری تھیں کہ ڈان کے کالم نگار ایم ایچ عسکری قرۃ العین حیدر سے ملاقات کے لیے تشریف لے آئے۔ ایم ایچ عسکری صاحب ایک سیکولر دانش ور تھے۔ انہوں نے آتے ہی یہ ذکر چھیڑ دیا کہ قائد اعظم تو سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی طبقات نے پاکستان کو اُچک لیا ہے ورنہ پاکستان مذہب کے نام پر اور مذہب کے لیے قائم نہیں ہوا تھا۔ اس زمانے میں ہمارے ڈاڑھی نہیں تھی مگر طیب کے ڈاڑھی تھی۔ انہوں نے طیب کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ قائداعظم تو پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتے تھے مگر ہماری نئی نسل مذہبی ہوئی جارہی ہے۔ یہ سب کہنے کے بعد انہوں نے قرۃ العین حیدر کی طرف دیکھا کہ وہ اس سلسلے میں کیا فرماتی ہیں؟ قرۃ العین کا آرٹ بڑا آرٹ ہے مگر ان کا آرٹ مذہبی آرٹ نہیں ہے۔ چناں چہ ہمیں بھی تجسس ہوا کہ دیکھیں اب قرۃ العین حیدر کیا کہتی ہیں؟ قرۃ العین نے ایم ایچ عسکری صاحب کی گفتگو توجہ سے سنی اور چند لمحے توقف فرمایا۔ پھر کہنے لگیں کہ دیکھیے اصل بات یہ ہے کہ پاکستان بنا تو اسلام کے نام پر ہی تھا چناں چہ جو شخص قائد اعظم کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ پاکستان کو سیکولر بنانا چاہتا ہے وہ قائداعظم سے جھوٹ منسوب کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ قائداعظم نے کہا کچھ اور وہ چاہتے کچھ اور تھے۔ انہوں نے نعرہ تو اسلام کا لگایا مگر وہ دراصل پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ قرۃ العین حیدر کا جواب سن کر ہم خوش ہوگئے مگر ایم ایچ عسکری صاحب کا منہ لٹک گیا۔ وہ قرۃ العین حیدر کے جواب سے مایوس ہوئے تھے مگر ان میں یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ اردو کی سب سے بڑی ناول نگار کو جھٹلاتے یا ان کے منہ کو آتے۔ جو بات قرۃ العین حیدر نے کہی تھی وہ بات ہم نے کہی ہوتی ایم ایچ عسکری صاحب ہماری جان کو آجاتے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر کے جواب سے ایم ایچ عسکری کی رائے تبدیل نہیں ہوئی۔ وہ جب تک زندہ رہے قائداعظم کو سیکولر کہتے رہے۔ وہ پاکستان کے بارے میں مسلسل لکھتے رہے کہ پاکستان مذہب کے نام پر وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہ پاکستان کے سیکولر عناصر کی واحد خرابی نہیں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور تاریخ کو مسخ کرتے ہیں بلکہ ان کی خرابی یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان کے مذہبی تشخص کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی جماعت یا کوئی شخص مذہب کی بنیاد پر کوئی کام یا مطالبہ کرتا ہے سیکولر عناصر شور مچانے لگتے ہیں کہ یہ تو مذہب کو درمیان میں لایا جارہا ہے۔ ایسے عناصر کالم نگاروں میں بھی موجود ہیں اور ٹیلی وژن کے اینکرز میں بھی ایسے مذہب دشمن عناصر پائے جاتے ہیں۔
یہ بات انسانی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ ہر قوم اور ملک کا ایک نظریہ ہوتا ہے اور اس کی پوری اجتماعی اور ریاستی زندگی اسی نظریے کی بنیاد پر مرتب ہوتی ہے اور اسی نظریے کا طواف کرتی ہے۔ سوویت یونین کا نظریہ سوشلزم یا کمیونزم تھا اور سوویت یونین کا پورا نظام حیات کمیونزم کے گرد گھومتا تھا۔ سوویت یونین کی معیشت سوشلسٹ معیشت تھی۔ سوویت یونین کا مثالی معاشرہ سوشلسٹ معاشرہ تھا۔ سوویت یونین کا ادب کمیونسٹ ادب تھا۔ یہاں تک کہ سوویت یونین کے لوگ اپنی سائنس کو صرف سائنس نہیں کہتے تھے بلکہ ’’سوویت سائنس‘‘ کہتے تھے۔ اس صورت حال پر اعتراض کرنے والا ایک بھی شخص سوویت یونین میں موجود نہیں تھا۔ ٹروٹسکی ایک انقلابی دانش ور تھا اور اس کا مرتبہ کسی بھی طرح قائد انقلاب لینن سے کم نہیں تھا۔ ٹروٹسکی کو تاریخ کے ایک مرحلے پر لینن سے اس بات پر اختلاف ہوا کہ وہ مارکسزم کی درست تعبیر نہیں کررہا۔ ٹروٹسکی مارکسزم یا سوشلزم کا منکر نہیں ہوگیا تھا۔ اس کا اختلاف ایک ’’عملی اختلاف‘‘ تھا مگر ریاست نے ٹروٹسکی کے علمی اختلاف کو بھی ہضم نہ کیا اور ٹروٹسکی کو انقلاب دشمن قرار دے دیا گیا۔ یہاں تک کہ ٹروٹسکی کو روس سے فرار ہونا پڑا۔ اصولاً ریاست کو اس بات پر خوش ہونا چاہیے تھا کہ ایک انقلاب دشمن ملک سے فرار ہوگیا اور ریاست کو اب اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ ریاست نے ٹروٹسکی کا تعاقب کیا اور چند سال بعد اسے تلاش کرکے مار ڈالا۔ مگر پاکستان کے سیکولر عناصر آئے دن پاکستان کے نظریے اور اس کی نظریاتی بنیاد ہی کا انکار کرتے رہتے ہیں اور ریاست ٹک ٹک ویدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنی رہتی ہے۔ ڈینگ ژیائو پنگ چین میں انقلاب لانے والوں میں ایک تھے مگر انہیں مائو کے ثقافتی انقلاب یا ثقافتی تناظر سے اختلاف ہوگیا۔ چناں چہ مائو نے اٹھا کر انہیں جیل میں پھینک دیا۔ وہ کئی سال تک جیل میں پڑے سڑتے رہے اور بڑی مشکل سے جیل سے باہر آئے۔ مگر پاکستان کے سیکولر عناصر ملک کے نظریاتی تشخص کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں اور آزادی کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ کے دو ہیرو ہیں۔ گاندھی اور سبھاش چندر بوس۔ دونوں ہندوستان کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے مگر ان کی حکمت عملی میں فرق تھا۔ گاندھی پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے اس لیے کہ انہیں معلوم تھا کہ ہندو ایک ہزار سال سے غلام ہیں اور وہ آزادی کے لیے بڑی جدوجہد اور بڑی قربانی پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔ اس کے برعکس سبھاش چندر بوس مسلح جدوجہد کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ گاندھی ہندوستانیوں کا وقت ضائع کررہے ہیں۔ مگر ہندوئوں کے سواد اعظم نے گاندھی کو اپنا رہنما مانا۔ انہوں نے سبھاش چندر بوس کو عزت تو بہت دی مگر رہنمائی دینے سے صاف انکار کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ گاندھی ہندوستان کے ہیرو ہیں اور سبھاش چندر بوس ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے حاشیے پر پڑی ہوئی ایک شخصیت کے سوا کچھ نہیں۔ مگر پاکستان کا حال یہ ہے کہ ہمارے سیکولر عناصر پاکستان کی بنیادوں کو کھودتے ہیں اور وہ ہمارے ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ وہ ہمارے تاریخ کے مرکزی دھارے کا حصہ ہیں۔
سیکولر ازم مغرب کا نظریہ حیات ہے۔ مغرب کا سارا نظام اسی نظریے کا پابند ہے۔ مغرب کا تصورِ آزادی سیکولر ازم کا علمبردار ہے۔ مغربی جمہوریت سیکولر ازم کی علامت ہے۔ مغرب اپنے فنون کو ’’لبرل آرٹس‘‘ کہتا ہے۔ مغرب کی سائنس کو آج تک زندگی اور کائنات میں کہیں خدا نظر نہیں آیا۔ مغرب نہ صرف یہ کے خود سیکولرازم کا علمبردار ہے بلکہ وہ مسلمانوں پر بھی جبراً سیکولرازم مسلط کررہا ہے۔ چناں چہ فرانس سمیت مغرب کے کئی ملکوں میں مسلم خواتین کے برقع اور اسکارف پر پابندی لگادی گئی ہے۔ مغرب کے کئی ملکوں میں مساجد اور ان کے بلند میناروں پر اعتراض ہورہا ہے۔ مساجد کے میناروں کو میزائلوں سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بلند میناروں سے مغرب کے سیکولر شہروں کا ’’سیکولر افق‘‘ داغ دار ہورہا ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کے بچوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے کہ انہیں گھر پر بھی مذہبی تعلیم نہیں دی جاسکتی۔ کیا مغرب کے کسی بھی معاشرے میں کوئی کھڑا ہو کر کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے ملک کے سیکولر اور لبرل تشخص کو تسلیم نہیں کرتا؟
کیا مغرب کے کسی بھی ملک میں کھڑا ہو کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ امریکا یا فرانس کو اسلامی جمہوریہ ہونا چاہیے؟ ایسا کرنا تو درکنار ایسا سوچنا بھی ناممکن ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیکولر عناصر کھلے عام پاکستان کو سیکولر بنانے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ پاکستان کا نظریہ اسلام ہے۔ چناں چہ پاکستان کی ہر چیز کو اسلام کے مطابق ہونا پڑے گا۔ مگر تماشا دیکھیے کہ کچھ اور کیا پاکستان کی سیاست تک اسلامی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی سرعام خود کو سیکولر جماعت کہتی ہے۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ بھی یہ ہے کہ وہ ایک سکولر جماعت ہے۔ نواز لیگ خود کو سیکولر نہیں کہتی تو مذہبی بھی قرار نہیں دیتی۔ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان میں صرف اس جماعت کو سیاست کا حق ہونا چاہیے جو اپنے دستور اور منشور میں اسلام کو غالب کرنے کے عزم کا اظہار کرے۔ جس جماعت کے دستور اور منشور میں اسلام کے غلبے کا وعدہ نہ ہو اس جماعت پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ اسی طرح ذرائع ابلاغ کو اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ ان کا مواد اسلام کے روحانی تقاضوں اور اخلاقی اصولوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ بصورت دیگر اخبار ہو یا ٹی وی اس پر پابندی عائد کردی جائے۔