اکبرالٰہ آبادی نے کہا ہے۔
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتون خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
اکبر کا یہ شعر اس دور کی یادگار ہے جب برصغیر میں مغربی تہذیب کے زیر اثر لڑکیوں کو جدید تعلیم دلانے کا مطالبہ سامنے آگیا تھا۔ اکبر نے لڑکیوں کو جدید تعلیم دلانے کی حمایت کی مگر صاف کہا کہ ہماری تہذیب ’’خاتون خانہ‘‘ کی تہذیب ہے سبھاکی پری یا ’’محفل کی رونق‘‘ کی تہذیب نہیں ہے۔ چناں چہ لڑکیاں تعلیم ضرور حاصل کریں مگر وہ گھروں کو رونق بخشیں، محفلوں کو نہیں۔ سرسید برصغیر میں جدیدیت کے امام ہیں۔ وہ پورے معاشرے کو مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ دینا چاہتے تھے مگر لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں انہوں نے صاف کہا ہے کہ انہیں جدید علوم و فنون کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں وہی تعلیم حاصل کرنی چاہیے جو ان کی نانایوں، دادیوں نے حاصل کی تھی مگر زمانے کے انقلاب نے سرسید کی اس ’’رجعت پسندی‘‘ سے اتفاق نہ کیا اور خواتین میں جدید تعلیم پھیل کر رہی۔ اس سلسلے میں اکبر سرسید سے زیادہ روشن خیال ثابت ہوئے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ نہیں ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جدید تعلیم اور مغربی تہذیب کے زیر اثر ہمارے معاشرے میں اب ’’خاتون خانہ‘‘ کی تذلیل اور تحقیر عام ہوگئی ہے۔ چناں چہ ہمیں چند روز پیش تر ایک انگریزی اخبار میں ایک لڑکی کا خط پڑھ کر اکبر کا مذکورہ بالا شعر یاد آگیا۔ انگریزی اخبارات میں قارئین کے مسائل اور ان کا حل کے عنوان سے مواد شائع ہوتا ہے۔ ایک انگریزی اخبار میں ایک جدید تعلیم سے آراستہ لڑکی نے ایک عجیب خط لکھا۔ اس نے لکھا کہ میں نے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی ہے مگر میں نوکری نہیں کرنا چاہتی۔ میں شادی کرکے اپنا گھر آباد کرنا چاہتی ہوں اور زندگی بھر خاتون خانہ کا کردار ادا کرنے کی خواہش مند ہوں۔ لڑکی نے لکھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ جب میں نے اپنے گھر والوں کو اپنے خیالات سے آگاہ کیا تو گھر میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ہر شخص نے لڑکی کی مخالفت کی اور اس کو باور کرایا کہ اس کے خیالات غلط ہیں اور اسے لازماً ایک پیشہ ورانہ زندگی بسر کرنی چاہیے۔ لڑکی نے سوال اُٹھایا کہ اسے ایک فرد کی حیثیت سے اپنی زندگی کے راستے کا انتخاب کرنے کی آزادی کیوں میسر نہیں ہے؟
ہم ابھی لڑکی کے خط کے مندرجات پر غور کر ہی رہے تھے کہ معروف صحافی انصار عباسی نے اپنے کالم میں اس مسئلے کے ایک اور پہلو کی نشاندہی کی۔ انہوں نے معاشرے کو یاد دلایا کہ آج کل ٹی وی پر ایک اشتہار چل رہا ہے جس میں ایک دادی اماں اپنے بیٹے اور اپنی بہو سے اپنی پوتی کی موجودگی میں کہتی ہیں کہ بیٹی (پوتی) جیسے ہی اپنی گریجویشن مکمل کرے اس کا اچھا سا رشتہ ڈھونڈ کر اس کی شادی کردیں۔ اس پر پوتی ناراض ہو کر وہاں سے چلی جاتی ہے۔ دادی اس کے اس رویے پر حیران ہو کر پوچھتی ہیں کہ اسے کیا ہوا؟ بیٹا جواب میں کہتا ہے۔ دراصل بیٹی ابھی ماسٹرز کرنا چاہتی ہے۔ جس پر دادی پوتی کے کمرے میں جا کر اسے راضی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب تم ماسٹرز کرلو گی تو پھر دھوم دھام سے تمہاری گریجویشن کی خوشی منائیں گے۔ انصار عباسی نے اشتہار کا حوالہ دینے کے بعد بتایا کہ ان کے ایک جاننے والے نے بتایا کہ ایک خاتون نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے کسی سے بات کی۔ بیٹی کو جب یہ معلوم ہوا تو غصے میں آپے سے باہر ہوگئی اور ماں سے کہا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرچکی اور اب وہ شادی نہیں کرنا چاہتی بلکہ نوکری کرنا چاہتی ہے۔ ان واقعات کو دیکھا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ مغرب زدگان کا ایک طبقہ ایک مسلم معاشرے میں خاتون خانہ کے تصور کی تذلیل، تحقیر اور بیخ کنی کررہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کام اتفاقی طور پر نہیں بلکہ پورے شعور کے ساتھ ہورہا ہے۔
ہمیں ان واقعات سے اٹھارہ بیس سال پہلے کا ایک امریکی شو یاد آگیا۔ اس کا نام ہے ’’اوپرا ونفری شو‘‘۔ اوپرا امریکا کی ایک ممتاز ٹی وی میزبان ہیں۔ ان کے شو کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ دنیا میں 300 سے زیادہ ٹیلی وژن چینلوں سے نشر ہوتا تھا۔ معلوم نہیں اب یہ شور جاری ہے یا نہیں۔ بہرحال جس شو کی ہم بات کررہے ہیں اس شو کا موضوع یہ تھا کہ امریکا کی ممتاز جامعات میں تعلیم حاصل کرنے والی بہت سی طالبات تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمتوں کے بجائے شادی کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ وہ پیشہ ورانہ زندگی بسر نہیں کرنا چاہتیں بلکہ وہ خاتون خانہ بن کر رہنا چاہتی ہیں۔ اوپرا نے اپنے شو میں ایسی کئی لڑکیوں کو مہمان کے طور پر بلایا ہوا تھا۔ اوپرا نے تمام لڑکیوں سے پوچھا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پیشہ ورانہ زندگی کیوں بسر نہیں کرنا چاہتیں اور کیوں وہ جلد از جلد شادی کرکے ایک گھریلو زندگی بسر کرنے کے لیے کوشاں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں لڑکیوں نے جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ تھا کہ ان لڑکیوں کے والدین ملازمت کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کا بچپن خوفناک تنہائی میں بسر ہوا۔ لڑکیاں کہہ رہی تھیں کہ ان کے والدین صبح سے گھروں سے نکل جاتے تھے اور شام ڈھلے واپس لوٹتے تھے۔ ان کے بقول وہ اسکول سے واپس آکر گھروں پر تنہا ہوتی تھیں اور والدین کی واپسی تک ان کا تمام وقت خوف اور اندیشوں میں بسر ہوتا تھا۔ لڑکیوں نے کہا کہ یہ تجربہ اتنا تلخ ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری اولاد بھی اس تنہائی کو جھیلے جو ہم نے جھیلی ہے۔ چناں چہ ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پیشہ ورانہ زندگی کے بجائے خاتون خانہ بن کر رہنے کے عمل کو ترجیح دے رہی ہیں۔
مغرب میں خواتین کو گھروں سے نکلے ہوئے ایک صدی ہونے کو آرہی ہے اور سو ال کا تجربہ ثابت کررہا ہے کہ خواتین کے گھر سے نکلنے کے نتیجے میں مغربی تہذیب عدم توازن کا شکار ہوگئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مغرب میں خواتین نے گھروں کو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے نہیں چھوڑا تھا۔ اصل قصہ یہ تھا کہ مغرب نے 20 ویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں دو عالمی جنگیں لڑیں جن میں 10 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ جنگ کا اصول یہ ہے کہ اس میں ایک آدمی مرتا ہے تو تین زخمی ہوتے ہیں۔ یعنی دو عالمی جنگوں میں 10 کروڑ افراد ہلاک اور 30 کروڑ افراد زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے والوں میں لاکھوں ایسے تھے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معذور ہوگئے تھے۔ اس صورت حال کے نتیجے میں مغرب کے کارخانوں اور دفاتر میں افراد کار کی قلت ہوگئی۔ چناںچہ خواتین کو گھروں سے نکلنا اور کارخانوں اور دفاتر میں مردوں کی جگہ لینی پڑی۔ مغرب میں خواتین ایک بار گھر سے نکلیں تو پھر واپس ہی نہیں آئیں۔ چناں چہ مغرب کے کروڑوں گھروں کا حال ناصر کاظمی کے اس شعر جیسا ہو گیا۔
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
مگر مغرب کے گھروں کی دیواروں پر صرف اداسی کا ڈیرا نہیں تھا بلکہ گھروں کی دیواروں پر تنہائی اور خوف کے سائے بھی لہرا رہے تھے اور ان کے زیر اثر ایسی نسلیں پروان چڑھ رہی تھیں جن کو معلوم ہی نہیں تھا کہ والدین کی محبت کیا ہوتی ہے؟ ان کا سایہ کیسا ہوتا ہے؟ ان کی رفاقت کا کیا مفہوم ہوتا ہے؟ ان کی شفقت انسان کی شخصیت کی تعمیر اور تشکیل میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟
بلاشبہ بچے کی شخصیت کی تعمیر اور تشکیل میں والد اور والدہ دونوں کا کردار ہوتا ہے مگر والد بچے کی شخصیت پر 45 فی صد اور والدہ بچے کی شخصیت پر 55 فی صد اثر ڈالتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کا بچپن بیش تر صورتوں میں ماں کے زیر سایہ بسر ہوتا ہے اور ماہرین نفسیات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان کی شخصیت ابتدائی دس برسوں میں بن جاتی ہے۔ اس کے بعد اس شخصیت کی صرف تفصیل سامنے آتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نئی نسلوں کی تعمیر اور تشکیل میں ماں کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ مگر اب مغرب کے زیر اثر ہمارے معاشرے میں ماں اور بیوی کے کردار کو پس منظر میں دھکیلا جارہا ہے اور نوجوان لڑکیوں کو یہ پٹی پڑھائی جارہی ہے کہ اصل زندگی تو ڈاکٹر، انجینئر، اداکارہ، گلوکارہ اور ماڈل گرل ہونے میں ہے۔ ماں اور بیوی ہونے میں کیا رکھا ہے۔ بلاشبہ ہمیں خواتین ڈاکٹرز، خواتین اساتذہ اور خواتین صحافیوں کی بھی ضرورت ہے مگر ہمیں اس سے زیادہ اچھی مائوں اور اچھی بیویوں کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ہماری تہذیب کی اصل طاقت خاندان میں ہے۔ جیسے خاندان ہوتے ہیں ویسا معاشرہ ہوتا ہے اور جیسا معاشرہ ہوتا ہے ویسی ہی تہذیب ہوتی ہے اور بلاشبہ ایک اچھی ماں اور ایک اچھی بیوی کے بغیر اچھے خاندان کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری تہذیب میں ماں کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ نپولین اہل مغرب میں سے تھا مگر مشرق کے زیر اس نے صاف کیا ہے کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔