مسلم دنیا میں کروڑوں مسلمان ایسے ہیں جو خدا سے اتنا مرعوب نہیں ہیں جتنا مغرب سے مرعوب ہیں۔ انسان کی زندگی میں خدا کی ہیبت نظر نہیں آتی، البتہ ان کی سیکڑوں باتوں سے مغرب کی ہیبت ٹپکتی نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کروڑوں مسلمانوں نے مغرب کو اپنا خدا بنایا ہوا ہے۔ برصغیر میں مغرب کو خدا بنانے کے عمل کا آغاز سرسید سے ہوا۔ سرسید نے قرآن کا انکار کیا ہے۔ حدیث کو مسترد کیا۔ اجماع پر خط تنسیخ پھیرا۔ تفسیر کی تیرہ سو سالہ تاریخ کو ناقابل اعتبار قرار دے دیا مگر انہوں نے مغرب کی ایک ایک بات کی تائید کی۔ انہوں نے مغرب کے علوم کو پوجا۔ مغرب کے فنون کو سراہا۔ مغرب کے فلسفے کی تائید کی۔ اس کی سائنس کو سر پر بٹھایا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر میں سرسید مغرب کی ہیبت میں مبتلا لوگوں کے سردار ہیں۔ بلاشبہ برصغیر کے تمام مغرب زدگان سرسید کی معنوی اولاد ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ حسن نثار نے سرسید کو کتنا پڑھا ہے مگر وہ جس طرح مغرب کی ہیبت میں مبتلا ہیں اسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ سرسید کے حقیقی شاگرد ہیں۔ حسن نثار کی مغرب سے مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اپنے ایک کالم میں یہ تک فرما دیا کہ دنیا کی غالب قوتیں تقوے کی تعریف کے قریب تر ہیں اس لیے کہ قرآن کہتا ہے کہ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ اب حسن نثار نے اپنے ایک حالیہ کالم میں مغرب کی ہیبت میں مبتلا ہونے کے نئے شواہد پیش کیے ہیں۔ وہ اپنے کالم زوال کے اسباب اور سدباب میں لکھتے ہیں۔
’’حیرت ہوتی ہے کہ جن معاشروں میں عریانی، فحاشی، بے حیائی، سنگل مدرز وغیرہ عروج پر ہیں، وہی ورلڈ لیڈرز اور سپرپاورز میں مدتوں سے شامل ہیں تو آخر اس کی وجہ یا وجوہات کیا ہیں؟ بے ستر ساحلوں سے لے کر بن بیاہے جوڑوں تک وہ کون سی خباثت ہے جو وہاں موجود نہیں لیکن کیسا عجب اتفاق کہ قیادت، عزت، دولت، انصاف، میرٹ، طاقت، تعمیر، ایجاد، اختراع وغیرہ بھی وہیں موجود ہیں۔ ہم تو شاعری میں ہی ستاروں پر کمندیں ڈال کر اپنے حرام خور، کام چور اور چوری کھانے والے رانجھے راضی کرتے رہے جبکہ امریکا نے باقاعدہ ’’خلائی فورس‘‘ بھی لانچ کردی ہے جس کا ’’لوگو‘‘ اسٹار ٹریک سیریز فلموں کی فلیٹ کمانڈ کے ’’لوگو‘‘ سے مماثلت رکھتا ہے۔
فی الحال میرا ایک سوال ہے کہ ہم جو امریکا کے زوال کا انتظار فرما رہے ہیں تو مجھے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا لیکن ایک لمحہ کے لیے یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ایسا ہوگیا، کوئی روس کوئی چین سپر پاور بن گیا تو بھلا ہمیں اس سے کیا؟ ’’ہیلن آف ٹرائے، کوئی آئے کوئی جائے‘‘ کمزوروں کے کشکول کا تو صرف رُخ ہی تبدیل ہوگا اور اصل بات وہی جو میراثی نے اپنے فرزند ارجمند کو سمجھائی کہ ’’بیٹا! سارا پنڈ بھی مرجائے تو پھر بھی تجھے چودھراہٹ نہیں ملے گی‘‘۔ ایویں خوامخواہ‘‘ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ والی بات ہے اور اصل بات صرف اتنی ہے کہ خراٹوں اور خوابوں سے جان چھڑا کر دماغ پر زور ڈالیں اور اس ملک کے شہہ دماغ فکری دیانتداری سے یہ سوچیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ عہد حاضر میں عروج و زوال کے پیمانے ہی اوپر نیچے ہوگئے ہوں کہ اس کی گواہی میں صدیاں پیش کی جاسکتی ہیں‘‘۔
(روزنامہ جنگ۔ 8 نومبر 2021ء)
حسن نثار جیسے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغرب سے متاثر و مرعوب ہی نہیں ہیں بلکہ وہ مغرب پر ’’ایمان‘‘ لائے ہوئے ہیں۔ چناں چہ انہیں ہر چیز پر شبہ ہوجاتا ہے اپنے ایمان پر شبہ نہیں ہوتا۔ حسن نثار اور ان جیسے لوگوں کا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود مغرب کے مفکرین اور دانش وروں کو نہیں پڑھتے ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ خود مغرب میں مغرب کے زوال کی پیشگوئیاں مدتوں سے ہورہی ہیں۔ اسپینگلر نے بیسویں صدی کے آغاز میں زوال مغرب کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب تحریر کی اور اس نے ثابت کیا کہ مغربی تہذیب زوال آمادہ ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مغرب مذہب سے بیگانہ ہوگیا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس نے مادے کو خدا بنالیا ہے۔ اسپینگلر نے صاف کہا ہے کہ تہذیب عروج کا زمانہ اس کے مذہب کے آغاز کا زمانہ ہوتا ہے اور کسی تہذیب کے زوال کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ اس کلچر میں بلند عمارتیں بننے لگتی ہیں۔ سیاست ’’دولت مرکز‘‘ ہوجاتی ہے۔ اسپینگلر کے بقول زوال آمادہ کلچر کا آرٹ فیشن پرست ہوجاتا ہے، اس کی سائنس یقین سے محروم ہوجاتی ہے۔ اسپینگلر کے ان خیالات کو دیکھا جائے تو مغرب میں زوال کی تمام علامتیں موجود ہیں۔ مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کردیا ہے۔ اس کی سیاست ’’دولت مرکز‘‘ ہے۔ اس کا آرٹ فیشن کی نذر ہوگیا ہے اس کی سائنس قانون عدم تیقن یا law of uncertainty کی گرفت میں ہے۔ مغرب کا ایک اور ممتاز مورخ آرنلڈ ٹائن بی ہے۔ ٹائن بی نے جاپانی اسکالر اکیدا کے ساتھ ایک مکالمے میں صاف کہا ہے کہ مغرب کا زوال یقینی ہے۔ البتہ اس کو دو چیزوں کے ذریعے مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ ٹائن بی کے بقول مغرب کو بچانے کی ایک صورت یہ ہے کہ مغربی تہذیب میں روحانیت داخل کی جائے اور دوسرا کام اہل مغرب کو یہ کرنا ہوگا کہ انہیں ٹیکنالوجی کے عشق سے جان چھڑانی ہوگی۔ ان دو اقدامات کے بغیر مغرب کو مرنے سے نہیں بچایا جاسکتا۔ ایلون ٹوفلر مغرب کا ممتاز ماہر عمرانیات ہے۔ اس کی تین کتب مشہور زمانہ ہیں۔ اس کی پہلی کتاب ’’فیوچر شاک‘‘ ہے۔ دوسری کتاب ’’تھرڈ ویو‘‘ ہے اور تیسری کتاب ’’پاور شفٹ‘‘ ہے۔ ان کتابوں میں ٹوفلر نے تسلیم کیا ہے کہ مغرب کی تہذیب کی ریل گاڑی انسانوں کے قابو سے نکل گئی ہے، اس لیے کہ ٹیکنالوجی انسانوں کے قابو سے نکل گئی ہے۔ چناں چہ مغرب کا حادثے سے دوچار ہونا یقینی ہے۔ تاہم ٹوفلر کا کہنا ہے کہ ہمیں حادثے سے بچنے کے لیے مذہب کی مدد کی ضرورت نہیں۔ مغرب کا بحران سائنس اور ٹیکنالوجی نے پیدا کیا ہے اور وہی اسے اس بحران سے نکالیں گی۔ جہاں تک امریکا کے زوال کا تعلق ہے تو حسن نثار اس سلسلے میں امریکا کے ممتاز دانش ور اور مورخ پال کینیڈی کتاب ’’عظیم طاقتوں کا عروج و زوال‘‘ ہی پڑھ لیں۔ اس کتاب میں کینیڈی نے صاف کہا ہے کہ برطانیہ، سلطنت عثمانیہ اور سوویت یونین کی طرح امریکا زوال کا شکار ہوچکا ہے۔ لیکن چوں کہ حسن نثار اور ان جیسے مغرب زدگان مغرب کے دانش وروں کو بھی نہیں پڑھتے ہیں اس لیے انہیں ہر طرف مغرب عروج کی منازل طے کرتا نظر آتا ہے۔ حسن نثار کے کالم کے تناظر میں سوال یہ ہے کہ مغرب کے عروج کا سبب کیا ہے؟
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان جس چیز پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور جسے اپنی ترجیح اول بناتا ہے اس چیز میں وہ کمال پیدا کرکے ضرور دکھاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ خدا، رسول اور کتاب اللہ کی محبت مسلمانوں کی ترجیح اوّل تھی۔ چناں چہ مسلمان تیزی کے ساتھ عروج کی طرف گئے اور آدھی سے زیادہ دنیا پر غالب ہوگئے۔ مغرب نے خدا اور مذہب کے انکار کے بعد مادے پر توجہ مرکوز کی اور اسے اپنی ترجیح اوّل بنایا۔ چناں چہ مغرب پچاس ساٹھ سال میں دنیا کی سب سے بڑی مادی طاقت بن کر اُبھرا اور وہ مادی طاقت کے زور پر پوری دنیا کو گرفت میں لے آیا۔ اس اصول کو عام زندگی کی مثالوں سے بھی سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔ بعض لوگ جسم کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور اسے ترجیح اوّل بناتے ہیں اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے عمدہ ’’تن ساز‘‘ بن جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ذہن کی ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور اسے ترجیح اول بناتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے عالم اور تخلیق کار بن جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو دولت سے محبت ہوجاتی ہے اور وہ دولت مند بننے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور اسے ترجیح اول بنالیتے ہیں۔ چناں چہ دیر یا سویر وہ دولت مند بن جاتے ہیں۔ اللہ کا قانون ہے انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
مغرب نے مادی ترقی کو خدا بنایا، اسے پوجا اور اس کو ترجیح اول بنایا۔ چناں چہ وہ انسانی تاریخ میں مادی ترقی کی سب سے بڑی مثال بن گیا۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے۔ ترقی اور غلبے کا اصول اگر دائمی ہے تو ترقی اور غلبہ بھی دائمی ہوگا۔ اس کے برعکس ترقی اور غلبے کا اصول اگر عارضی ہے تو ترقی اور غلبہ بھی عارضی ہوگا۔ مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے مادے سے محبت کی ہے اور اسے اپنی ترجیح اول بنایا ہے اور مادہ ایک عارضی شے ہے وہ بہت جلد زوال کی زد میں آجاتا ہے۔ اس لیے مغرب کا غلبہ بھی عارضی ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی ترجیح اول خدا، رسول اور قرآن کی محبت ہے۔ چناں چہ مسلمان خدا، رسول اور کتاب اللہ کی محبت میں کمزوری کی وجہ سے عارضی طور پر زوال پزیر تو ہوسکتے ہیں مگر ان کی پسند اعلیٰ ترین درجے کی ہے۔ چناں چہ آج نہیں تو کل وہ ایک بار پھر عروج کی طرف جائیں گے اور پوری دنیا پر غالب ہوں گے۔ قرآن و حدیث کے دلائل اس بات کی پشت پر موجود ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صاف کہا ہے کہ وہ دنیا میں اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا، خواہ مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ چوں کہ اللہ نے کہہ دیا ہے اس لیے آج نہیں تو کل اسلام غالب آکر رہے گا۔ اس دعوے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے ’’میرا زمانہ رہے گا جب تک کہ اللہ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا عہد رہے گا، جب تک اللہ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا دور دورہ رہے گا، جب تک اللہ کی منشا ہوگی۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہئیں گے۔ اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج البنوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی‘‘۔ جب رسول اکرمؐ نے فرمادیا کہ دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج البنوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی ایسا ضرور ہوگا۔ آج نہیں تو کل ہوگا۔ کل نہیں تو پرسوں ہوگا۔ پانچ سال بعد ہوگا، پچاس سال بعد ہوگا، مسلمانوں کے دنیا پر غلبے کی بات مذاق نہیں۔ دنیا میں توحید کی امانت صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ عیسائیت نے توحید کو مسخ کرکے شرک ایجاد کرلیا ہے۔ ہندوازم بھی ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر 33 کروڑ خدا لیے کھڑا ہے۔ یہودی حضرت عزیز کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف جدید مغرب ہے جو خدا کا منکر ہے۔ چناں چہ دنیا میں توحید کا تصور بحال ہوگا اور دنیا ایک خدا پر ایمان لائے گی تو صرف اسلام کے ذریعے۔ چناں چہ اگر مسلمان اسلام سے چمٹے رہیں گے اور اس کے تقاضے پورے کریں گے تو اسلام کے ساتھ ساتھ وہ بھی غالب ہوں گے۔ پیدائشی مسلمان اسلام کے تقاضے پورے نہیں کریں گے تو خدا پیدائشی مسلمانوں کا محتاج نہیں ہے۔ وہ کہیں سے بھی ایسے لوگوں کو اٹھادے گا جو اسلام کے تقاضے پورے کرنے والے ہوں گے اور پھر خدا ان لوگوں کے ذریعے اپنے دین کو غالب کرے گا۔ تہذیبوں کے بارے میں ایک بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ تہذیبیں نہ دوچار دن میں پیدا ہوتی ہیں نہ دوچار دن میں زوال پزیر ہوتی ہیں اور نہ دوچار دن میں ان کے زوال کا دائرہ مکمل ہوتا ہے۔ مغرب کی موت مدتوں سے ایک سامنے کی چیز ہے، البتہ مغربی تہذیب کے مرنے اور کفن دفن میں کچھ وقت اور لگ سکتا ہے۔