مسلمانوں نے ہندوئوں سے نفرت کی ہوتی تو آج ہندوستان میں ایک بھی ہندو نہ ہوتا۔ اس لیے کہ مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی اور ایک ہزار سال میں نفرت کی آگ تمام ہندوئوں کو جلا کر بھسم کرسکتی تھی۔ مسلمانوں نے ہندوئوں سے نفرت نہیں کی تو یہ مسلمانوں کا کوئی ذاتی، شخصی یا نسلی کمال نہیں۔ یہ مسلمانوں کا مذہبی کمال ہے۔ مسلمانوں کا مذہب انسانوں کی جو تربیت کرنا ہے اس کے دائرے میں حریف کو ناپسند تو کیا جاسکتا ہے مگر اس سے نفرت نہیں کی جاسکتی۔ اس کے برعکس دوسری طرف یہ صورت حال ہے کہ مسلمانوں سے ہندوئوں کی نفرت کی آگ سرد پڑنے کا نام نہیں لے رہی بلکہ اس نفرت کے الائو سے آسمان کو چھونے والی آگ کی لپٹیں بلند ہورہی ہیں۔ ان لپٹوں نے جنوبی ایشیا میں کروڑوں لوگوں کی زندگی کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہندوستان کے ہندو مسلمانوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟۔
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔ ہندو اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کو عظیم سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے پاس چھے ہزار سال پرانی تہذیب ہے۔ اس تہذیب نے کرشن اور رام جیسی شخصیات اور وید اور گیتا جیسی کتب پیدا کی ہیں۔ ہندو اپنی مذہبی کتب میں موجود واقعات کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ہزاروں سال پہلے ہوائی جہاز ایجاد کرلیا تھا۔ پلاسٹک سرجری میں کمال حاصل کرلیا تھا۔ اس کا ثبوت وہ یہ دیتے ہیں کہ راون نے سیتا کو اغوا کیا تو وہ اسے ایک جنگل سے ایک ’’پُشپک ومان‘‘ یا پھولوں سے بنے ہوئے جہاز میں سری لنکا لے کر گیا۔ اسی طرح ہندوئوں کے دیوتا گنیش کا سر ہاتھی جیسا ہے اور جسم انسانوں جیسا۔ ہندوئوں کے بقول یہ منظر قدیم پلاسٹک سرجری کا حاصل تھا۔ ہندو ایک طرف اپنی ’’تاریخی عظمت‘‘ کو دیکھتے ہیں اور دوسری جانب انہیں مسلمانوں کا ایک ہزار سال پر پھیلا ہوا غلبہ نظر آتا ہے۔ چناں چہ انہیں خیال آتا ہے کہ ایک کمتر تہذیب نے ایک برتر تہذیب کو اپنا مطیع بنالیا۔ اس حقیقت کو قبول کرنا ان کے لیے دشوار ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ہندو ایک ہزار سال میں اِدھر اُدھر مسلمانوں کے غلبے کی تھوڑی بہت مزاحمت کرتے رہے مگر وہ مسلمانوں کو کبھی فیصلہ کن شکست سے دوچار کرکے ان کے اقتدار اور غلبے کو ختم نہیں کرسکے۔ چناں چہ یہ منظرنامہ ہندوئوں کو شدید احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے اور احساس کمتری کے بارے میں ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ احساس کمتری نفرت کی زبان میں کلام کرتا ہے۔
مسلمانوں سے ہندوئوں کی نفرت کا ایک سبب یہ ہے کہ مسلمانوں نے صرف ایک ہزار سال تک برصغیر پر حکومت ہی نہیں کی بلکہ انہوں نے لاکھوں ہندوئوں کو مشرف بہ اسلام بھی کیا۔ آج برصغیر میں 65 کروڑ مسلمان موجود ہیں۔ ان مسلمانوں کی عظیم اکثریت مقامی افراد پر مشتمل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے لاکھوں ہندوئوں کو طاقت اور سرمایے کے بل پر مسلمان نہیں کیا۔ مسلمان ہندوئوں کو مسلمان بنانے کے لیے اقتدار کی طاقت استعمال کرتے تو آج برصغیر میں ایک بھی ہندو موجود نہ ہوتا۔ مسلمانوں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تبلیغ اور کردار کی قوت سے ہندوئوں کو مسخّر کیا۔ ہندوئوں کے لیے یہ صورت حال بھی ناقابل قبول ہے۔ ہندوازم کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے دوسرے مذاہب کو اپنے اندر جذب کیا ہے۔ بدھ ازم برہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت تھی مگر ہندوئوں نے بدھ ازم کو اتنا پالتو بنالیا کہ آج بدھ ازم ہندو ازم کی ایک شاخ محسوس ہوتا ہے۔ سکھ ازم بھی ہندوازم سے مختلف ہے مگر آپ ہندوستان جائیں گے تو دیکھیں گے کہ ہندوئوں اور سکھوں کی تہذیب و ثقافت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ مگر اس کے برعکس مسلمانوں نے خود ہندو ازم کے پیروکاروں کو منقلب کرکے رکھ دیا۔ اسلام نے کروڑوں ہندوئوں کو بدل ڈالا اور اپنے اندر جذب کرلیا۔ ہندوئوں کے لیے یہ صورت حال بھی ناقابل قبول ہے۔ چناں چہ وہ ڈیڑھ سو سال سے مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے تحریکیں چلا رہے ہیں۔ 20 ویں صدی کے اوائل میں انہوں نے ’’شدھی‘‘ کی تحریک چلائی اور مسلمانوں کو زبردستی ہندو کرنے کی کوشش کی۔ اب وہ ’’گھر واپسی‘‘ کے عنوان سے ایک تحریک برپا کیے ہوئے ہیں۔ جس کے تحت مسلمانوں پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ اسلام کو ترک کرکے اپنے اصل یا سابقہ مذہب ہندوازم کی طرف لوٹ جائیں۔ مگر ہندوئوں کی یہ تحریکیں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ یہ ناکامی بھی ہندوئوں کو مشتعل کرتی ہے اور انہیں مسلمانوں سے شدید نفرت محسوس ہوتی ہے۔
ہندوئوں کی مسلمانوں سے نفرت کی ایک وجہ پاکستان بھی ہے۔ ہندوئوں کو لگتا ہے کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ان پر حکومت کی اور جب مسلمانوں پر ان کے غلبے کا وقت آیا تو مسلمانوں نے ہندوئوں کے غلبے سے بچنے کے لیے ایک الگ ملک حاصل کرلیا۔ پاکستان اگر ایک سیکولر ملک ہوتا تو ہندوئوں کو پاکستان سے زیادہ نفرت نہ ہوتی مگر پاکستان اسلامی ملک ہے۔ اسلام کا مظہر ہے۔ چناں چہ ہندو پاکستان کو دیکھتے ہیں اور جل بھن کر کباب ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان نے سقوط ڈھاکا کی صورت میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی تھی اور اگر ہندوستان اسی کامیابی پر قانع رہتا تو کوئی غضب نہ ہوجاتا۔ مگر اندراگاندھی نے اس موقع پر فرمایا کہ ہم نے آج ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ دو قومی نظریہ اسلام کے سوا کچھ نہیں۔ چناں چہ اندرا گاندھی نے دو قومی نظریے پر نہیں اسلام پر حملہ کیا۔ مسلمانوں کی روح کو نشانہ بنایا۔ مسلمانوں کے تشخص پر وار کیا۔ اس قوت کو شکست دینے کا اعلان کیا جو برصغیر میں مسلمانوں کے غلبے کی بنیاد تھی۔
ہندوئوں کو مسلمانوں سے اسی لیے بھی نفرت ہے کہ نفرت اور جبر ان کے تاریخی مزاج کا حصہ ہے۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب مہا بھارت میں صاف لکھا ہے کہ ایک برہمن کے گھر شودر اور شودر کے گھر برہمن پیدا ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اعلیٰ ذات کے ہندو پانچ ہزار سال سے شودروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کررہے ہیں۔ ہندوازم میں برہمن، شتری، ویش اور شودر انسانوں کی روحانی یا نفسیاتی اقسام ہیں۔ مگر ہندوازم نے اس درجہ بندی کو نسلی سلسلہ بنادیا ہے۔ اس نسلی سلسلے میں برہمن سب سے افضل ہے۔ پھر شتری کا نمبر ہے۔ برہمن دین کا محافظ ہے اور شتری ریاست کا محافظ ہے۔ ویش وہ لوگ ہیں جن کی ’’عقل ِ معاش‘‘ تیز ہے۔ اس کے برعکس شودر صرف جسمانی مشقت کرنے والے لوگ ہیں۔ چناں چہ ان کا مرتبہ سب سے کم ہے اور ہندوازم نے انہیں پانچ ہزار سال سے اپنی تاریخ کے حاشیے پر پھینکا ہوا ہے۔ حالاں کہ مہا بھارت صاف کہتی ہے کہ ایک برہمن کے گھر میں شودر اور شودر کے گھر میں برہمن پیدا ہوسکتا ہے۔ مگر ہندوئوں نے خود اپنی مقدس کتاب کو ایک طرف پھینک رکھا ہے اور وہ پانچ ہزار سال سے اپنے ہی مذہب کے دائرے میں سانس لینے والے شودروں سے نفرت کیے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو مذہب اپنے اوپر ایمان رکھنے والے انسانوں سے انصاف نہیں کرسکتا وہ مسلمانوں سے کیا انصاف کرے گا؟ بدھ ازم ہندوستان کی خاک ہی سے اٹھا تھا اور اس کے بہت سے تصورات ہندوازم سے ماخوذ ہیں مگر چوں کہ بدھ ازم برہمن ازم کے خلاف بغاوت تھا، اس لیے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے بدھ ازم کو ہندوستان کے قلب میں قدم نہیں جمانے دیے۔ انہوں نے بدھسٹوں کو مار مار کے مرکز سے بھگادیا۔ چناں چہ بدھ ازم ہندوستان کے مضافات میں پھیلا۔ ہندوئوں کے تاریخی مزاج کی نفرت سے سکھوں کو بھی وافر حصہ فراہم ہو کر رہا۔ اندرا گاندھی نے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کو قتل کرنے کے لیے سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر ٹینک چڑھا دیے۔ چناں چہ اندرا گاندھی کے دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو قتل کردیا۔ یہ صرف دو سکھوں کا فعل تھا۔ سکھ برادری کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا مگر دہلی میں ہندو تمام سکھوں پر چڑھ دوڑے اور ایک دن میں انہوں نے دو ہزار سکھ قتل کردیے۔ یہ صورت حال اس کے باوجود رونما ہوئی کہ ہندو ازم سکھ ازم کو جذب کیے بیٹھا ہے اور سکھ خود کو ہندوئوں کا ’’اتحادی‘‘ سمجھتے ہیں۔
پاکستان کے بعض احمق سیاست دان اور کالم نویسوں کا خیال ہے کہ بھارت میں کانگریس ’’اعتدال پسند‘‘ ہے اور بی جے پی انتہا پسند ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں اور پاکستان کے لیے دونوں انتہا پسند ہیں اور ان میں صرف درجہ بندی کا فرق ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان بنانے کی ضرورت کانگریس کی پالیسیوں کی وجہ سے پڑی۔ یہ کانگریس ہی تھی جس نے کشمیر پر فوج کشی کرکے اس پر قبضہ کیا۔ کانگریس کی قیادت ہی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرنے والی ریاست حیدر آباد دکن پر قبضہ کیا۔ کانگریس ہی نے جوناگڑھ کو پاکستان میں شامل ہونے سے روکا۔ کانگریس ہی نے پاکستان توڑنے میں اہم کردار ادا کیا اور کانگریس کے ہی دور میں بابری مسجد شہید ہوئی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کے لیے اصل بی جے پی، بی جے پی نمبر ایک ہے اور کانگریس بی جے پی نمبر دو۔