دوسرا —- شاہنواز فاروقی

فرانس کے معروف فلسفی ژاں پال سارتر کا مشہور زمانہ فقرہ ہے
“Hell are the other Peopels” یعنی دوسرے لوگ ہمارا ’’جہنم‘‘ ہیں۔ سارتر کے اس فقرے کا مفہوم واضح ہے: میری زندگی صرف میری زندگی ہے، اس میں دوسرے لوگ غیر ضروری اور اضافی ہیں، اس لیے کہ وہ میری زندگی میں جا و بے جا مداخلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وہ مجھے تکلیف دیتے ہیں، میرا حق مارتے ہیں، میرے خلاف سازش کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ میرے لیے جہنم بن جاتے ہیں۔ چنانچہ میری زندگی میں ’’دوسروں‘‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سارتر دوسروں کو اپنے گھر، گلی، محلے سے ہی نہیں دل سے بھی نکال دیتا ہے۔ سارتر کہنے کو ایک آدمی ہے مگر وہ مغرب کی مادی تہذیب کی علامت ہے، چنانچہ یہ معاملہ انفرادی نہیں اجتماعی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دوسرے کا مفہوم کیا ہے؟


انسان کو سماجی حیوان کہا جاتا ہے اور سماجی زندگی کی بنیاد خاندان ہے۔ چنانچہ جو لوگ خاندان میں شامل ہوتے ہیں انہیں ’’اپنا‘‘ کہا جاتا ہے، اور خاندان کے دائرے سے باہر موجود لوگ ’’دوسرے‘‘ کہلاتے ہیں۔ لیکن جب انسان خاندان کے ادارے سے بلند ہوکر سوچتا ہے تو پھر ذات، برادری اور قبیلے کے لوگ اپنے ہوجاتے ہیں اور ان کے دائرے سے باہر موجود لوگ غیر یا ’’دوسرے‘‘ کہلاتے ہیں۔ دوسرے کی اصطلاح کا مفہوم بسا اوقات قوم کی سطح پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ قوم کو اپنا اور غیر قوم کو ’’دوسرا‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرے کی ایک تعریف ملت یہاں تک کہ تہذیبی سطح پر بھی متعین ہوتی ہے۔ جو لوگ ایک تہذیب کا حصہ ہوتے ہیں ان کے لیے اس تہذیبی دائرے میں موجود لوگ مماثل ہوتے ہیں، اپنے ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ اس تہذیبی دائرے سے باہر کھڑے ہوتے ہیں وہ ’’مختلف‘‘ ہوتے ہیں، غیر ہوتے ہیں۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ ’’دوسرے‘‘ کو کسی بھی دائرے میں برداشت نہیں کیا جاتا، اور برداشت کر بھی لیا جائے تو قبول بہرحال نہیں کیا جاتا۔ لیکن دوسرے کا مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ یہ فرد اور عاشق اور محبوب کی سطح پر بھی کلام کرتا نظر آتا ہے۔
فیض کو لوگ رومانوی شاعر کہتے ہیں لیکن ان کا ایک شعر ہے ؎
اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں؎
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
لوگ سمجھتے ہیں کہ عاشق کے لیے محبوب سے بڑھ کر کون ہوگا؟ مگر فیض نے اس شعر میں محبوب کو بھی نہ صرف یہ کہ ’’دوسرا‘‘ بنادیا ہے بلکہ اسے بھی بتادیا ہے کہ مجھے تجھ سے محبت وغیرہ نہیں ہے۔ میرا تجھ سے صرف یہ تعلق ہے کہ تُو میری ’’تکمیل‘‘ کا ذریعہ ہے۔ فیض کے اس شعر اور اس شعر میں موجود نفسیات کو دیکھا جائے تو ’’تکمیل‘‘ کا لفظ ایک دھوکا تخلیق کرتا نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تکمیل کا لفظ اپنی اساس میں فلسفیانہ بلکہ کائناتی سطح کی معنویت کا حامل ہے، اور یہ سطح فیض صاحب کی دسترس سے ہزاروں میل دور ہے۔ چنانچہ فیض صاحب کو اس شعر میں تکمیل کے بجائے ’’تسکین‘‘ کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ ان کے شعر کے مجموعی مفہوم، لب ولہجے اور فضا کے لیے یہی لفظ زیادہ مناسب تھا۔ مگر انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنا آپ کسی پر ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتا۔ فیض کی لاشعوری خواہش بھی یہی تھی، اس لیے انہوں نے تسکین کی جگہ تکمیل کا لفظ استعمال کرلیا، لیکن اس کے باوجود وہ محبوب کے ’’دوسراپے‘‘ کو چھپا نہیں سکے۔ لیکن یہ محبوب کے دوسراپے کی پست ترین سطح نہیں ہے۔ عبیداللہ علیم کا شعر ہے ؎
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
فیض کے شعر میں تو محبت صرف استحصال تھی لیکن عبیداللہ علیم کے شعر میں محبت استحصال کے ساتھ ساتھ ایسا جرم بھی بن گئی ہے جس سے عاشق کے دم نکلنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔ لیکن شاعر کے لیے محبت بار کیوں بن گئی ہے؟ اس کی تین وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ بیچارے شاعر کو محبت کی ضرورت ہی نہیں تھی، اس کا مسئلہ تو ’’فلرٹ‘‘ تھا۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر کسی درجے میں شاعر کا مسئلہ محبت تھی بھی تو وہ اسے ’’پارٹ ٹائم‘‘ رکھنا چاہتا ہے۔ زیادہ محبت سے محبت کے Full Time Job بننے کا اندیشہ ہے۔ اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ محبت من و تُو کا فرق مٹادیتی ہے، اور شاعر کو اپنی شخصیت سے ایسی محبت ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی اس سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا، اور وہ محبوب کو بھی دائمی طور پر ’’دوسرا‘‘ بنائے رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن ہماری شاعری میں ’’دوسرے‘‘ کی بلند سطحیں بھی موجود ہیں۔ سلیم احمد کا ایک شعر ہے ؎
تُو کوئی اور ہے میں اور ہوں ایسا کیوں ہے
یہ سوال آج محبت نے اٹھایا کیوں ہے؟
اس شعر میں محبت تعلق کا بنیادی حوالہ ہے، لیکن تمام تر محبت کے باوجود شاعر پر انکشاف ہوا ہے کہ وہ اور اس کا محبوب بہرحال دو الگ شخصیتیں ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو اس شعر میں ’’دوسرے‘‘ کا مفہوم ایسا شخص ہے جو محبت کے باوجود ہم سے نفسیاتی اور جذباتی طور پر ’’مختلف‘‘ ہے۔ اس ’’اختلاف‘‘ کی ایک وجہ خود سپردگی کی کمی ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
چاہت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
بعض لوگ اس شعر پر ہنستے ہیں، مگر اس شعر میں ایک ایسی حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے جس کے بغیر شعورِ محبت کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ تاہم ہماری شاعری میں ’’دوسرے‘‘ کے بیان کی بلند ترین سطح میر کے یہاں ملتی ہے۔ میر نے کہا ہے ؎
وجہِ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
میر اردو شاعری میں عشقیہ تجربے کی بلند ترین سطح کے ترجمان ہیں، اس لیے اُن کے اس شعر کے پس منظر میں محبت اپنے تمام تر امکانات کے ساتھ موجود ہے، مگر اس کے باوجود بھی ’’بیگانگی‘‘ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، بلکہ میر نے اسے سماجی، نفسیاتی اور جذباتی سطح سے اٹھاکر کائناتی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سطح پر ’’دوسرے‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟ غور کیا جائے تو اس سطح پر ’’دوسرے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مابعد الطبیعاتی سطح پر ہر فرد دوسرے سے مختلف ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اس کے بغیر زندگی میں تنوع یا کثرت کا اصول بروئے کار ہی نہیں آسکتا تھا۔ لیکن سارتر کے ’’دوسرے‘‘ اور میر تقی میر کے ’’دوسرے‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سارتر کا دوسرا، سارتر کا جہنم ہے، اور میر کا دوسرا میر کا ایسا ساتھی ہے جس سے بال برابر عدم ہم آہنگی بھی میر کے لیے المیہ احساس کی حامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ سارتر کے لیے دوسرا جہنم کیوں بن گیا؟
انسانوں کے باہمی تعلق کا ’’راز‘‘ یہ ہے کہ انسانوں کے باہمی تعلقات ایک تکون کا حصہ ہیں۔ اس تکون کی بلند ترین سطح پر خدا موجود ہے اور تکون کے دونوں نچلے سروں پر انسان کھڑے ہیں۔ اس تکون میں خدا انسانوں کے تعلق کا بنیادی حوالہ اور واسطہ ہے۔ یہی حوالہ اور یہی واسطہ انسانوں کے تعلق کو ’’انسانی‘‘ بنائے رکھتا ہے۔ سارتر کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تہذیب میں خدا انسانوں کے باہمی تعلق سے غائب ہوگیا ہے، چنانچہ انسانوں کے تعلق کی نوعیت منفی ہوگئی ہے۔ اس کے برعکس میر کا دوسرا اگر میر کی جنت ہے یا اس کا ساتھی ہے تو یہ میر کی ’’ذاتی خوبی‘‘ نہیں ہے بلکہ میر کی تہذیب میں خدا انسانوں کے تعلقات کو متاثر یا Regulate کرنے والی حقیقت ہے۔
اسلام ’’دوسرے‘‘ فرد اور اُس سے پہنچنے والی تکلیف کا انکار نہیں کرتا۔ لیکن وہ دوسرے کے ضرر اور تکلیف کو جذب کرکے اسے کمزوری کے بجائے قوت میں ڈھالنے کا درس دیتا ہے۔ مذہب بتاتا ہے کہ دوسرا جہاں ہمارے لیے نقصان کا باعث ہے وہیں دوسرے کی زیادتی کو برداشت کرنے سے ہمیں ’’صبر‘‘ جیسی قیمتی چیز ہاتھ آتی ہے۔ زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کے اجر کا ذریعہ بھی ’’دوسرا‘‘ ہی ہے۔ رہے وہ دوسرے جو ہمارے قرب وجوار میں موجود ہیں تو ان کی موجودگی سے ہمیں صرف غم ہی نہیں مسرت بھی فراہم ہوتی ہے۔ ایک شخص دنیا کو فتح کرلے مگر اس کی فتح پر کوئی خوش ہونے والا نہ ہو تو ساری دنیا کو فتح کرنے میں بھی کوئی مسرت نہیں۔ مذہبی نقطۂ نظرکو فراموش کردیا جائے تو بھی ’’دوسرا‘‘ بڑے کام کی چیز ہے۔ سارتر کے لیے دوسرے جہنم تھے مگر وہ ’’دوسرے‘‘ ہی تھے جنہوں نے اسے پیدا کیا، پال پوس کر بڑا کیا۔ اس کی تعلیم اور فہم وفراست میں اس کے اساتذہ کیا اس کے پورے معاشرے بلکہ پوری تہذیب کا حصہ تھا۔ یہاں تک کہ اس نے دشمنوں سے بھی کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا ہوگا۔ بلکہ تاریخ بتاتی ہے کہ زندگی کو معنی اور سمت فراہم کرنے میں بسا اوقات دشمن دوستوں پر بازی لے جاتے ہیں۔ بلاشبہ دشمنوں کا یہ کردار بڑا ’’مہنگا‘‘ ہوتا ہے، لیکن معنی اور سمت کسی بھی انسان کو مفت فراہم نہیں ہوتے۔ سارتر 20 ویں صدی کے ذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھا مگر کبھی کبھی انسانوں کا ردعمل ان کے فہم کو شکست دے دیتا ہے۔ شاید سارتر کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

Leave a Reply