اب تک آپ ہمارے کالموں میں جاوید چودھری کی گمراہیاں اور حماقتیں ملاحظہ کرتے رہے ہیں، آج ذائقہ بدلنے کے لیے ان کے قلم سے ایک المیے کا بیان ملاحظہ کیجیے۔ جاوید چودھری اپنے کالم میں لکھتے ہیں۔
’’شاکر شجاع آبادی سرائیکی وسیب کے مشہور شاعر ہیں‘ دو بار پرائیڈ آف پرفارمنس لے چکے ہیں‘ چار سو گانے لکھے اور یہ گانے گا کر عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور حمیرا چنا جیسے گلو کار کروڑ پتی ہو گئے اور شاعری کی 13 کتابیں‘ چار مجموعے اور کلیات شایع ہوئی‘ سرائیکی علاقے کا بچہ بچہ ان کو جانتا اور ان کا کلام پڑھتا ہے۔ یہ چھوٹی بحر میں ضرب المثل جیسے شعر کہتے ہیں اور انسانی فہم‘ ضمیر اور ذہن کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں‘ ایک طرف یہ کمالات ہیں اور دوسری طرف ٹریجڈی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے‘ شاکر شجاع آبادی ڈیپ برین اسٹیمولیشن (ڈی بی ایس) نامی اذیت ناک بیماری کا شکار ہیں۔ ان کے جسم کے پٹھے کم زور ہیں‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بیماری بڑھتی جا رہی ہے لہٰذا یہ بول سکتے ہیں‘ چل سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے ہاتھوں سے کھا پی سکتے ہیں‘ ان کی گفتگو صرف ان کے اہل خانہ سمجھ سکتے ہیں یوں یہ 24 گھنٹے اپنے خاندانی ترجمانوں کے محتاج ہیں‘ واش روم بھی خود نہیں جا سکتے‘بیٹے لے کر جاتے ہیں‘ چار بچے ہیں‘ دو بیٹے اور دو بیٹیاں‘ تین شادی شدہ ہیں جب کہ ایک بیٹی کنواری ہے‘ اہلیہ جگرکے عارضے میں مبتلا ہیں‘ بچے بھی نکمے نکلے‘ تعلیم بھی نہیں پائی اور یہ برسرروزگار بھی نہیں ہوئے‘ یہ آج بھی والد کی معمولی سی کمائی پر زندہ ہیں۔ والد کو اٹھا کر محفلوں میں لے جاتے ہیں‘ وہ کانپتا لرزتا بولتا جاتا ہے‘ بچے شعروں کو سیدھا کر کے مجمعے کو سناتے جاتے ہیں اور آخر میں حاضرین جو کچھ عنایت کر دیتے ہیں یہ وصول کر کے گھر آ جاتے ہیں‘ میاں شہباز شریف نے 25 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ طے کیا تھا‘ یہ معمولی رقم بھی نگران حکومت نے بند کر دی تھی چناں چہ شاکر شجاع آبادی غریب تھا‘ غریب ہے اور شاید باقی زندگی بھی غریب رہے گا‘ غربت اور بیماری ان کی زندگی کھا گئی‘ یہ اور اس کا خاندان پوری زندگی عسرت سے نہ نکل سکا۔ پورے ملک نے چند دن قبل شاکر شجاع آبادی کی ایک افسوس ناک وڈیو دیکھی‘ ان کابیٹا انھیں موٹر سائیکل پر اسپتال لے جا رہا تھا‘ یہ لرزے کی وجہ سے موٹر سائیکل پر بیٹھ نہیں سکتے چناں چہ بیٹے نے انھیں سیٹ پر بٹھا کر انھیں اور اپنے آپ کو چادر سے باندھ رکھا تھا لیکن شاکر صاحب اس کے باوجود کبھی اِدھر لڑھک جاتے تھے اور کبھی اْدھر ‘ ان کا سر بھی ان کے سینے پر گرا ہوا تھا‘ یہ وڈیو بھی ان کے بیٹے نے بنوائی تھی اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا کارنامہ بھی اسی نے سرانجام دیا تھا‘ بیٹے کا کہنا تھا میرے پاس گاڑی نہیں ہے لہٰذا میں والد کو اسی طرح موٹر سائیکل پر ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں۔ ہم چاہتے ہیں حکومت شاکر شجاع آبادی کا امریکا میں علاج کرائے اور خاندان کو مالی امداد دے۔ یہ وڈیو واقعی دل شکن تھی‘ اتنے بڑے شاعر کی عسرت‘ بیماری اور صورت حال نے حساس دلوں کو لرزا کر رکھ دیا‘ پنجاب حکومت بھی جاگ اٹھی اور جہانگیر ترین اور یوسف رضا گیلانی کو بھی ترس آگیا‘ یہ بھی چیک لے کر اسپتال پہنچ گئے‘ یہ ردعمل اچھا ہے لیکن… یہ سب کچھ لکھنے کے بعد جاوید چودھری نے کہا ہے کہ اگر شاعری باعزت روزگار ثابت نہیں ہورہی تھی تو شاکر شجاع آبادی کو شاعری چھوڑ دینی چاہیے تھی۔ (روزنامہ ایکسپریس۔ 2 نومبر2021ء)
جاوید چودھری نے جو کچھ لکھا ہے وہ صرف شاکر شجاع آبادی کے انفرادی المیے کا بیان نہیں ہے اس انفرادی المیے میں ایک بہت ہی بڑا اجتماعی المیہ پوشیدہ ہے۔ وہ المیہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ علم و ادب اور اس کے خالقوں سے لاتعلق ہوچکا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہہ دے کہ معاشرہ آکسیجن سے بے نیاز ہوگیا ہے۔ معاشرہ آکسیجن سے بے نیاز ہوجائے گا تو زندہ کیسے رہے گا؟ اس طرح اگر انسان مذہب اور علم و ادب سے بیگانہ ہوجائے گا تو کبھی بھی بہتر انسان نہیں بن سکے گا۔ اس کی شخصیت میں حقیقی انسان، مہذب انسان مرجائے گا۔ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ انسان جب مذہب اور علم و ادب سے بیگانہ ہوجاتا ہے تو وہ صرف ایک درندہ بن کر رہ جاتا ہے یا دنیا کا ایک کتا۔
ہمارے یہاں بادشاہوں اور نوابوں کی مذمت کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن مذمت کرنے والے نہیں جانتے کہ جب تک برصغیر میں بادشاہ اور نوابین موجود رہے وہ علم و ادب کی سرپرستی کرتے رہے۔ وہ نہ صرف علم و ادب کی سرپرستی کرتے رہے بلکہ وہ تخلیق کاروں کو سر آنکھوں پر بٹھائے رہے۔ بہادر شاہ ظفر ہندوستان کے مالک تھے مگر ان کی تخلیق کاروں سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار وہ خواجہ میر درد کے برپا کیے ہوئے مشاعرے میں چلے گئے۔ ان کے پائوں میں شدید تکلیف تھی۔ چناں چہ وہ مشاعرے میں پائوں پھیلا کر بیٹھ گئے۔ میر درد نے اسے مشاعرے کی تہذیب کی پامالی خیال کیا۔ چناں چہ انہوں نے بھری محفل میں بادشاہ سے کہا کہ حضرت ٹانگ میں درد تھا تو مشاعرے میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ بادشاہ نے میر درد کی یہ نازک مزاجی برداشت کی۔ کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ کسی مشاعرے میں کسی شاعر نے بے نظیر بھٹو، نواز شریف یا جنرل ضیا الحق کی کسی حرکت پر اعتراض کردیا ہے۔ میر تقی میر کی بددماغی مشہور زمانہ ہے۔ ایک بار اودھ کے نواب نے مشاعرے میں میر کے کلام کو توجہ سے نہیں سنا تو میر ناراض ہو کر چلے آئے۔ نواب کو ندامت ہوئی اور انہوں نے میر کے گھر جا کر انہیں منایا۔ کیا ہمارے نام نہاد جمہوری دور کا کوئی رہنما بھی یہ سب کرسکتا ہے؟ اردو کے سب سے بڑے نقاد حسن عسکری نے اپنے ایک مضمون میں اس حوالے سے لکھا ہے کہ پرانا معاشرہ شاعر کو ایک شاعر اور عارف کی حیثیت سے بڑی اہمیت دیتا تھا لیکن ہمارا معاشرہ شاعر کو ایک شاعر یا عارف کی حیثیت سے اہمیت نہیں دیتا۔ مغل بادشاہ اکبر کے نورتن مشہور زمانہ ہیں۔ ان نورتنوں میں ایک سے بڑھ کر ایک عالم فاضل شخص موجود تھا۔ نورتنوں کا پس منظر یہ ہے کہ اکبر ان پڑھ تھا۔ وہ جس وقت پیدا ہوا اس کا باپ ہمایوں در در کی خاک چھان رہا تھا۔ چناں چہ وہ اکبر کی تعلیم و تربیت کا اہتمام نہ کرسکا۔ اکبر خود تعلیم یافتہ نہ تھا مگر اس کی نظر میں علم کی بڑی اہمیت تھی۔ چناں چہ اس نے ایسے نو مشیر تلاش کیے جو امور مملکت چلانے کے سلسلے میں اسے بہترین مشورے دے سکیں۔ اورنگ زیب خود عالم تھا اور علم کی اہمیت سے آگاہ تھا۔ چناں چہ اس کا دربار علما سے بھرا ہوا تھا۔ علم سے تعلق کے بغیر نہ اکبر پچاس سال حکمران رہ سکتا تھا نہ اورنگ زیب پچاس سال تک مسند اقتدار پر فائز رہ سکتا تھا۔ میر اور غالب عظیم شاعر ہیں مگر بادشاہت اور نوابی کے ادارے کے بغیر ان کی معاشی ضروریات پوری نہیں ہوسکتی تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بادشاہ اور نواب شاعروں اور عالموں پر رحم کھا کر مہربان نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ شاعروں اور عالموں کی سرپرستی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ شاعروں اور عالموں کے بغیر معاشرہ انسانوں کا معاشرہ نہیں رہ سکتا۔ چناں چہ بادشاہوں اور نوابوں کے خاتمے کے ساتھ ہی شاعروں اور عالموں کی بے قدری کا زمانہ شروع ہوگیا۔ اقبال شاعر اعظم تھے مگر انہیں اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے وکالت کرنی پڑتی تھی۔ یہ اور بات کے ان کے زمانے تک دوچار نوابین موجود تھے اور انہیں نواب آف بھوپال کی طرف سے وظیفہ بھی ملتا رہا ہے۔ لیکن یہ وظیفہ ناکافی تھا۔ اقبال کے خادم علی بخش کا بیان ہے کہ اقبال کو بہت زیادہ پیسے کمانے سے دلچسپی نہیں تھی۔ ان کے ماہانہ اخراجات اگر پانچ سو روپے ہوتے تھے تو وہ اتنے ہی مقدمات لیتے تھے جن سے پانچ سو روپے کی یافت ہوجائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اقبال وکیل نہ ہوتے صرف شاعر ہوتے تو کیا وہ ایک شاعر کی حیثیت سے اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرسکتے تھے؟ کیا معاشرہ شاعر اعظم کا معاشی بوجھ اٹھا سکتا تھا؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
بادشاہ اور نواب برصغیر کے منظرنامے سے غائب ہوئے تو کچھ نئے ادارے وجود میں آگئے اور شاعروں، ادیبوں اور عالموں کی ایک بڑی تعداد نے ان اداروں کے ساتھ وابستہ ہو کر اپنی معاشی زندگی کو ممکن بنایا۔ ان میں سے ایک ادارہ صحافت کا تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ ہماری صحافت پر عالموں، شاعروں اور ادیبوں کا غلبہ تھا۔ ہماری صحافت مولانا آزاد، مولانا مودودی، حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان جیسی شخصیات کی سرپرستی میں کام کررہی تھی۔ چناں چہ برصغیر میں اردو صحافت کا معیار بہت بلند تھا۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اگر صحافت نہ ہوتی تو بہت سے شاعروں، ادیبوں اور عالموں کی کوئی معاشی زندگی نہ ہوتی۔ قرۃ العین حیدر اردو کی سب سے بڑی ناول نگار ہیں اور اگر وہ اردو کے بجائے انگریزی کی ناول نگار ہوتیں تو اب تک انہیں ادب کا نوبل انعام مل چکا ہوتا مگر اس سطح کے باوجود وہ ادب کے سہارے معاشی زندگی بسر نہیں کرسکتی تھیں۔ چناں چہ انہوں نے صحافت کو پیشے کی حیثیت سے منتخب کیا۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ ممبئی کے ایک رسالے میں فلموں پر تبصرے کیا کرتی تھیں۔ وہ جب تک پاکستان میں رہیں ایک سرکاری ادارے سے وابستہ رہیں۔ البتہ ہندوستان میں انہیں صحافت ہی راس آسکتی تھی۔ نئے برصغیر میں فلمی صنعت ایک بہت بڑا ادارہ بن کر اُبھری اور درجنوں شاعر اور ادیب فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے۔ مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمیٰ، شکیل بدایونی، راجندر سنگھ بیدی، منٹو، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس، غرضیکہ کون تھا جو فلمی صنعت سے وابستہ نہیں تھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ جن لوگوں نے فلمی گیت اور کہانیاں لکھیں انہوں نے جھک ماری۔ ایسا نہیں ہے۔
ہم آپ کو ایسے سیکڑوں فلمی گیت سنوا سکتے ہیں جن میں ایک ادبی شان پائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ فلمی گیتوں کی پشت پر غزل کی روایت موجود تھی۔ بھارت کی درجنوں فلموں کی کہانیوں اور مکالموں میں بھی ادبی رنگ موجود ہے۔ ریڈیو کا ادارہ بھی شاعروں اور ادیبوں کی پناہ گاہ بن کر اُبھرا۔ ریڈیو، فلم اور صحافت کا شعبہ موجود نہ ہوتا تو نجانے سلیم احمد کی معاشی زندگی کیسی ہوتی؟ تعلیم کے شعبے نے بھی شاعروں، ادیبوں، نقادوں اور عالموں کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ عسکری صاحب کے عزیزوں کا خیال تھا کہ وہ سی ایس ایس کرکے بڑے آفیسر بنیں گے مگر عسکری صاحب نے انگریزی ادب کی تدریس کو اپنا پیشہ بنالیا۔ انہوں نے کچھ عرصے ایک انگریزی اخبار میں کالم نویسی بھی کی۔ فیض ہمارے زمانے کے اہم شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اہم شاعر ہیں یا نہیں اس سے قطع نظر زیر بحث موضوع کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے معاش کی گاڑی کو چلانے کے لیے پہلے فوج میں ملازمت کی اور پھر صحافت سے وابستہ ہوگئے۔ ن م راشد جدید نظم کا سب سے اہم نام ہیں اور وہ اقوام متحدہ کے ایک ادرے سے وابستہ تھے۔ بدقسمتی سے بہت سے شاعروں اور ادیبوں نے نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو سمجھا ہی نہیں۔ چناں چہ ان کی معاشی زندگی ابتری کا شکار تھی اور ہے۔
مغربی دنیا جیسی بھی ہے تخلیق کاروں کی جنت ہے۔ وہاں کوئی کتاب بھی ایک لاکھ ڈیڑھ لاکھ سے کم شائع نہیں ہوتی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مغربی دنیا میں پبلشر لکھنے والے کو معقول رائلٹی دیتے ہیں۔ چناں چہ مغرب میں صرف لکھ کر معاشی طور پر زندہ رہا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں مسئلہ ہوگیا ہے کہ پہلے کتاب ایک ہزار شائع ہوا کرتی تھی۔ اب پانچ سو کی تعداد میں شائع ہونے لگی ہے۔ صورت حال یہی رہی تو کچھ دنوں میں ڈھائی سو چھپنے لگے گی اور ایک دن کتاب چھپنا ہی بند ہوجائے گی۔ ہمارے یہاں یہ المیہ بھی اپنی جگہ ہے کہ بیش تر صورتوں میں پبلشر ایک مافیا کا کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ وہ خود کتاب سے ہزاروں یا لاکھوں کماتا ہے مگر لکھنے والے کو وہ کچھ نہیں دیتا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اخبار ’’ظاہر کا ادب‘‘ ہے اور ادب ’’باطن کا اخبار‘‘ ہے۔ فرد، معاشرے اور تہذیب کے باطن میں کیا ہورہا ہے اس کی اطلاع، اعلیٰ شاعری، افسانے، ناول اور تنقید ہی سے ملتی ہے۔ چناں چہ جب معاشرہ ادب پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنے انفرادی اور اجتماعی باطن سے آگاہ ہونا چھوڑ دیتا ہے۔ ایزرا پائونڈ نے ایک جگہ ادب کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ادب انسان میں زندہ رہنے کی خواہش کو قائم رکھتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مذہب کے بعد ادب انسان کا دوسرا بڑا سہارا ہے۔ چناں چہ شعر و ادب اور شاعروں ادیبوں سے لاتعلقی ایک بڑے سہارے سے لاتعلقی ہے اور یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔