پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کے ایک بیان نے ہمیں حیرت کے سمندر میں غرق کردیا۔ بلاول زرداری نے فرمایا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا ترجمہ پیپلز پارٹی ہے۔ جس کا منشور و لائحہ عمل 22 کروڑ پاکستانیوں کے وطن کو ایک حقیقی جمہوری و فلاحی ریاست بنانے کا واحد راستہ ہے۔ بلاول نے کہا کہ پیپلزپارٹی ایک تحریک ہے جس کی اساس شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نظریے اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے فلسفے پر استوار ہے۔ بلاول نے کہا کہ آج پیپلز پارٹی کا 55 واں یوم تاسیس ہے۔ یہ تجدید ِ عہد کا دن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے اور مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کا خواب حقیقت میں بدلنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں جمہوریت کو پائوں جمانے دیے جائیں اور لاڈلا سازی کا خاتمہ کیا جائے۔ (روزنامہ جسارت۔ 30 نومبر 2021ء)
ہم نے بلاول کا یہ بیان پڑھا تو ہمیں اقبال کی ایک معرکہ آرا نظم ’’عزازیل کی عرضداشت‘‘ یاد آگئی۔ ذرا دیکھیے تو اس نظم میں بالخصوص اس نظم کے آخری شعر میں اقبال نے ابلیس سے کیا کہلوایا ہے۔
کہتا تھا عزازیل خداوندِ جہاں سے
پرکالۂ آتش ہوئی آدم کی کفِ خاک
جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب
دل نزع کی حالت میں، خرد پختہ و چالاک
ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت
مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک
تجھ کو نہیں معلوم کہ حورانِ بہشتی
ویرانیِ جنت کے تصور سے ہیں غم ناک
ابلیس کے جمہور ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
ایک وقت تھا کہ سیاست اعلیٰ اقدار اور اعلیٰ تصورات کی علامت تھی مگر ہمارے زمانے تک آتے آتے سیاست دان جمہور کے ابلیس بن گئے ہیں۔ انہوں نے مکر، فریب، جھوٹ اور لوٹ مار کو اپنا شعار بنالیا ہے۔ چناں چہ اقبال کی مذکورہ نظم میں ابلیس خدا سے صاف کہتا ہے کہ چوں کہ اب سیاست دان خود جمہور کے ابلیس بن چکے ہیں اس سے زمین پر اب میری ضرورت باقی نہیں رہی۔ بدقسمتی سے بلاول زرداری کے مذکورہ بیان سے ثابت ہے کہ وہ بھی جمہوری کے ابلیسوں میں شامل ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ اپنے بیان میں جھوٹ کے دریا نہ بہاتے۔ بلاول زرداری کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی پاکستان میں جمہوریت کا ترجمہ ہے حالاں کہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا جمہوریت سے کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی نہ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں جمہوری تھی، نہ بے نظیر کے عہد میں نہ آصف زرداری کے دور میں اور نہ اب بلاول کے وقت میں اسے جمہوری کہا جاسکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پیپلز پارٹی کے بانی تھے۔ پارٹی اور عوام میں ان کی مقبولیت غیر معمولی تھی۔ چناں چہ اگر وہ پارٹی میں انتخابات کرا دیتے تو وہی پارٹی کے لیڈر منتخب ہوتے مگر بھٹو صاحب جب تک زندہ رہے انہوں نے پارٹی میں انتخابات نہیں ہونے دیے، حالاں کہ ایک جمہوری پارٹی میں جمہوریت کا ہونا ناگزیر ہے۔ جمہوریت مغرب سے آئی ہے اور مغرب کے کسی ملک میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کسی سیاسی جماعت میں انتخابات نہیں ہوتے۔ بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے اور کانگریس وہاں کی قدیم ترین سیاسی جماعت ہے۔ اس جماعت پر نہرو خاندان کا قبضہ ہے مگر کانگریس میں بھی انتخابات ہوتے ہیں۔ نہرو نے بھی کانگریس میں انتخابات کرائے۔ اندرا گاندھی نے بھی کانگریس میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ راجیو گاندھی کے زمانے میں بھی کانگریس میں انتخابات ہوتے رہے اور آج بھی کانگریس میں انتخابات ہوتے ہیں۔ مگر بھٹو صاحب کی جمہوریت پسندی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کبھی پارٹی میں انتخابات نہ ہونے دیے۔ بے نظیر بھٹو بھی مغرب کی پڑھی ہوئی تھیں اور وہ بھی جمہوریت کا راگ الاپتی رہتی تھیں مگر انہوں نے بھی کبھی پارٹی میں انتخابات نہ ہونے دیے۔ بدقسمتی سے آصف زرداری اور بلاول بھی پارٹی میں انتخابات کرانے کے لیے تیار نہیں، اس کے باوجود بلاول فرما رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی پاکستان میں جمہوریت کا ترجمہ ہے۔
بھٹو صاحب کی جمہوریت پسندی کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے 1970ء میں عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگایا۔ یہ نعرہ جمہوریت کی تردید تھا۔ شیخ مجیب کی جماعت عوامی لیگ نے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرلی تھی اور جمہوریت اکثریت کو تسلیم کرنے کا نام ہے۔ مگر بھٹو صاحب نے مغربی پاکستان سے کامیاب ہونے والے عوامی نمائندوں کو دھمکی دی کہ اگر ان میں سے کسی نے شیخ مجیب کی طرف سے بلائے گئے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ بھٹو صاحب اگر شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کرلیتے تو جنرل یحییٰ پر انتقال اقتدار کے لیے دبائو بڑھ جاتا اور ملک دولخت نہ ہوتا مگر بھٹو صاحب نے جمہوریت پر تھوک دیا۔ انہوں نے اکثریت کے اصول کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا اور ملک کو دولخت کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ایک طرف بھٹو صاحب کی یہ جمہوریت دشمنی ہے اور دوسری جانب بلاول زرداری کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی پاکستان میں جمہوریت کا ترجمہ ہے۔ بھٹو صاحب کی جمہوریت دشمنی کی ایک مثال یہ ہے کہ انہوں نے 1977ء کے انتخابات میں زبردست دھاندلی کی۔ ابتدا میں بھٹو نے دھاندلی کو تسلیم نہیں کیا مگر جب پی این اے کی تحریک نے عوامی مقبولیت حاصل کرلی تو بھٹو صاحب نے پی این اے کے رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات میں قومی اسمبلی کی 30 سے زیادہ نشستوں پر دھاندلی کو تسلیم کرلیا اور وہاں دوبارہ انتخابات کرانے پر آمادہ ہوگئے۔
انتخابات میں دھاندلی جمہوریت کو ریپ کرنے کے برابر ہے۔ بدقسمتی سے بھٹو صاحب نے جمہوریت کی عزت پر حملہ کیا۔ ایک جانب بھٹو صاحب کی یہ حرکت ہے اور دوسری جانب بلاول کا یہ دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی پاکستان میں جمہوریت کا ترجمہ ہے۔ بھٹو صاحب نے انتخابات میں صرف دھاندلی ہی نہیں کی انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں پر ظلم کی انتہا کردی۔ مولانا جان محمد عباسی لاڑکانہ سے بھٹو صاحب کے خلاف انتخابات لڑنا چاہ رہے تھے مگر بھٹو صاحب نے انہیں اغوا کرالیا تاکہ وہ لاڑکانہ سے بھی بلامقابلہ منتخب ہوسکیں۔ بھٹو صاحب نے میاں طفیل محمد کو جیل میں ڈال دیا اور وہاں ان پر تشدد کیا گیا۔ یہ سب کچھ جمہوریت کی ضد تھا مگر بلاول زرداری فرما رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی پاکستان میں جمہوریت کا ترجمہ ہے۔ جمہوریت میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو آزاد صحافت کے قائل ہی نہ تھے۔ چناں چہ انہوں نے صحافیوں کو جیلوں میں ٹھونسا اور روزنامہ جسارت کی اشاعت بند کرادی۔ یہ جمہوریت کی کھلی بیخ کنی تھی، مگر بلاول کا ارشاد ہے کہ پیپلز پارٹی پاکستان میں جمہوریت کا ترجمہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پاکستان میں ’’ڈیموکریسی‘‘ کی نہیں ’’پلوٹو کریسی‘‘ یا امرا شاہی کی علامت ہے۔ پلوٹو کریسی کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس کے ذریعے معاشرے کے امیر اور مراعات یافتہ طبقات اقتدار کے حصول کو ممکن بناتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں معاشی عدم مساوات ہوتی ہے اور غریبوں کے لیے ترقی کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں۔ پلاٹو کریسی میں وڈیروں اور زمینداروں کا سیاسی نظام پر غلبہ ہوتا ہے۔ جب دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان پر امریکا کا قبضہ ہوگیا اور امریکی جنرل میک آرتھر نے جاپان میں جمہوریت کو نافذ کرانا چاہا تو اس نے جاپان کے وزیراعظم پوشیڈا سے کہا کہ آپ کے یہاں جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی ہے اور ان کی موجودگی میں جمہوریت نہیں آسکتی۔ چناں چہ آپ جاگیرداری کا خاتمہ کریں اور جاپان کے وزیراعظم نے ایسا ہی کیا۔
آزادی کے بعد نہرو نے بھی ہندوستان میں جاگیرداری کو ختم کردیا اور اگر ہندوستان میں دوچار فی صد جمہوریت ہے تو اس لیے کہ وہاں جاگیرداروں اور جرنیلوں کو غلبہ حاصل نہیں ہے۔ ان باتوں کا زیر بحث موضوع سے یہ تعلق ہے کہ بھٹو صاحب جاگیردار تھے اور پیپلز پارٹی بھی جاگیرداری کی علامت ہے۔ بھٹو صاحب نے ملک میں زرعی اصلاحات متعارف کرائیں مگر یہ سب ایک دھوکا تھا۔ اصل میں بھٹو صاحب جاگیرداری کو ختم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایسا کرتے تو اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے۔
بلاول نے پیپلز پارٹی کو آزادی اور فلاحی ریاست کی علامت بھی باور کرایا ہے لیکن پیپلز پارٹی میں کون ایسا تھا جو بھٹو صاحب، بے نظیر بھٹو یا بلاول سے اختلاف کی جرأت کرسکتا تھا یا کرسکتا ہے؟ بھٹو صاحب نے تو اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کے بانی جے اے رحیم کو نہ بخشا۔ یوں تو پورے ملک کا برا حال ہے مگر جب ہم دیہی سندھ میں سفر شروع کرتے ہیں تو ہر طرف بھوک اور افلاس نظر آتا ہے۔ حالاں کہ پیپلز پارٹی چالیس سال سے سندھ پر حکومت کررہی ہے۔ یہ ہے پیپلز پارٹی کی فلاحی ریاست کی فلاح کا ایک نمونہ ہے۔ بلاول نے پیپلز پارٹی کو مساوات کا علمبردار بھی باور کرایا ہے مگر پیپلز پارٹی پچاس سال سے شہری سندھ پر کوٹا سسٹم کی پابندی عائد کیے ہوئے ہے جو عدم مساوات کیا ظلم کی ایک علامت ہے۔