کیا مغرب ہمارے لیے خطرہ نہیں ہے؟

اسلام دنیا کو بدلنے کے لیے آیا تھا مگر مسلم دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو دنیا کے ذریعے اسلام کو بدلنے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان میں جاوید احمد غامدی اور ان کے شاگردوں کا مشن یہ ہے کہ وہ اسلام کو مغربی فکر کے مطابق بنائیں، اس لیے کہ ہمارے زمانے کی ’’دنیا‘‘ مغرب ہے۔ خورشید ندیم غامدی صاحب کے شاگرد رشید ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ مغرب اسلام اور مسلمانوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کے اس اجمال کی تفصیل کیا ہے خود انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ خورشید ندیم لکھتے ہیں۔
’’مغربی تہذیب ہمارے خاندانی نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘۔
تین نسلوں سے ہم یہ بات سن رہے ہیں۔ انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہمارے ہاں یہ احساس گہرا ہوا۔ آزادی نسواں کو ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا اور ہمیں مغربی تہذیب کی تباہ کاریوں سے خبردار کیا گیا۔ اس کے کھوکھلے پن کو نمایاں کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس چلن کے ساتھ کوئی تہذیب زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ تہذیب تو خودکشی کے درپے ہے۔ آج کی خبر یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے نہ صرف یہ کہ خودکشی نہیں کی بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ اس نے جغرافیائی سرحدوں کو بے معنی بنادیا اور ہمارے گھروں تک آپہنچی ہے۔ اب وہ ہمارے خاندان کا حصہ ہے، اس لیے ہٹوبچو کی ان صدائوں کی کوئی معنویت باقی نہیں رہی۔
خاندانی نظام پر کچھ کہنے سے پہلے میں یہ عرض کروں کہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں مغربی تہذیب، ہماری تہذیب کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا سکی۔ ہم آج بھی اتنے ہی مذہبی ہیں جتنے ڈیڑھ سو سال پہلے تھے بلکہ شاید اس سے زیادہ۔ مساجد، خانقاہوں اور مدرسوں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوچکا کہ 1857ء میں شاید اس بارے میں سوچا نہ جاسکتا تھا۔ مدرسے کی سوچ تو آج جدید تعلیمی اداروں کو بھی اپنی گرفت میں لے چکی۔ مغربی تہذیب اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
سیکولرازم ہی کو لے لیجیے۔ 22 کروڑ کی اس آبادی میں سیکولر کتنے ہوں گے؟ بائیس ہزار؟ معاشرے کی مذہبی و ثقافتی، بُنت آج بھی وہی ہے جو سو سال پہلے تھی۔ دادا جس پیر کا مرید تھا اس کا پوتا آج بھی اسی پیر کے پوتے کا مرید ہے۔ یہی نہیں، ہمارا تصورِ غیرت بھی پوری طرح زندہ ہے۔ غیرت کے نام پر آج بھی بچیاں اسی طرح قتل ہوتی ہیں جیسے پہلے ہوتی تھیں۔ یہی حال ہمارے لباس کا ہے، رسم و رواج کا ہے۔ سب کچھ ویسے کا ویسا ہے۔ اگر مغربی تہذیب نے خودکشی نہیں کی تو ہم نے بھی نہیں کی۔ جس ’’مغربی تہذیب‘‘ کو ہم نے اپنے گھر میں جگہ دی، وہ دراصل اس کی ’’ٹیکنالوجی‘‘ ہے۔ ہم نے اس ٹیکنالوجی سے بطور ٹیکنالوجی فائدہ اُٹھایا۔ لائوڈ اسپیکر آیا تو ہمارے واعظین کی پہنچ کا دائرہ بڑھ گیا۔ انٹرنیٹ آیا تو سب سے زیادہ ہمارے مذہبی لوگوں کے کام آیا۔ انفرادی سطح پر پاکستان میں یوٹیوب کے سب سے زیادہ سبسکرائبرز کسی گانے والے یا فلمی اداکار کے نہیں ایک مذہبی شخصیت مولانا طارق جمیل کے ہیں۔ شاید ہی کوئی گائیک ہو جس نے اپنے نام کا برانڈ کاروباری دنیا میں متعارف کرایا اور پھر کامیاب ہوا ہو۔ یہ اعزاز بھی جنید جمشید کے حصے میں آیا یا پھر مولانا طارق جمیل کے۔
(روزنامہ دنیا۔ 4 دسمبر 2021ء)
تہذیبوں کا تشخص ان کی الٰہیات ہوتی ہے۔ ان کا تصور علم ہوتا ہے۔ ان کا تصورِ انسان ہوتا ہے۔ ان کا تصور تخلیق ہوتا ہے۔ ان کا تصورِ کائنات ہوتا ہے۔ ان تمام دائروں میں اسلام مغرب کی اور مغرب اسلام کی ضد ہے۔ اس دائرے میں اسلام مغرب کا اور مغرب اسلام کا دشمن ہے۔ اس بات کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے۔ اسلام کی الٰہیات یہ ہے کہ اسلام ایک خدا پر ایمان لانے کا تقاضا کرتا ہے۔ خدا پر ایمان لائے بغیر نہ کوئی مسلمان ہوسکتا ہے نہ وہ انسان ہونا Qualify کرتا ہے۔ اسلام کے لیے توحید اتنی اہم ہے کہ اسلام کی ہر چیز خدا مرکز یا God Centric ہے۔ مسلمان نماز پڑھتے ہیں تو خدا کے لیے۔ مسلمان روزہ رکھتے ہیں تو خدا کے واسطے۔ مسلمان حج کرتے ہیں تو خدا کے حکم کے تحت۔ مسلمان زکوٰۃ دیتے ہیں تو خدا کی ہدایت کی وجہ سے۔ یہاں تک کہ مسلمان جہاد بھی کرتے ہیں تو اللہ کی کبریائی کے اعلان اور اس کے نفاذ کے لیے۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
اب اس سلسلے میں مغرب کی اصولی پوزیشن یہ ہے کہ مغرب خدا کا منکر ہے اور وہ خدا پر ایمان کو انسان کے عہد جاہلیت یا عہد طفولیت کی یادگار سمجھتا ہے۔ اسلام کا بنیادی حکم ہے۔ لا الٰہ الا اللہ۔ مغرب کا بنیادی کلمہ ہے لا الہ الا المادہ۔ یعنی نہیں ہے کوئی خدا سوائے مادے کے۔ دوسری سطح پر اس کا نعرہ ہے لاالہ الا انسان۔ نہیں ہے کوئی خدا سوائے انسان کے۔ سوال یہ ہے کہ جو نظام خدا کا منکر اور اس کا دشمن ہو اور جس نے مادے اور انسان کو خدا بنا لیا ہو کیا وہ اسلام اور مسلمانوں اور اسلامی تہذیب کے لیے خطرہ نہ ہوگا؟
مسلمانوں کا تصور علم یہ ہے کہ وہ رسالت کے ادارے کو توحید کے بعد سب سے اہم ادارہ تصور کرتے ہیں اور وحی ان کے نزدیک علم کی سب سے برتر صورت ہے۔ جو علم وحی کی تردید کرے یا اس کے آگے سر تسلیم خم نہ کرے مسلمان اس علم کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرسکتے بلکہ اس کو سرے سے علم ہی نہیں مان سکتے۔ مغرب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خدا کی طرح رسالت کے ادارے اور وحی دونوں کا منکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ تہذیب اور جو نظام رسالت اور وحی کا منکر ہو وہ اسلام، مسلمانوں، اس کی تہذیب اور ان کی تاریخ کے لیے خطرہ نہ ہوگا؟
اسلام کا تصورِ انسان یہ ہے کہ انسان اپنی اصل میں ایک روحانی وجود ہے۔ وہ روح، نفس اور جسم کا مرکب ہے۔ اس کے برعکس جدید مغرب سرے سے روح ہی کا قائل نہیں۔ چناں چہ اس کے نزدیک انسان صرف جسمانی وجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو تہذیب انسان کو صرف جسمانی وجود سمجھتی ہو وہ اسلام اور مسلمانوں کی دشمن نہ ہوگی اور مسلمانوں سے اسے شدید خطرہ لاحق نہ ہوگا؟۔
مسلمانوں کا تصورِ تخلیق یہ ہے کہ خدا خلاق اعظم ہے۔ اس نے کن کہا اور پوری کائنات وجود میں آگئی۔ دوسری جانب اس نے آدم کو، آدم کی حیثیت سے خلق کیا۔ خدا نے کائنات خلق کرنے کے لیے صرف کن کہا اور کائنات وجود میں آگئی اور قرآن کے دعوے کے مطابق اس نے سیدنا آدمؑ کو اپنے ہاتھوں سے خلق کیا۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب کہتی ہے کہ کائنات Big Bang کا نتیجہ ہے۔ اربوں سال پہلے ایک انتہائی کثیف ذرے میں دھماکا ہوا اور کائنات وجود میں آنا شروع ہوگئی۔ انسان کے بارے میں جدید مغرب کا ماننا یہ ہے کہ انسان بندر کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو تہذیب کائنات اور انسان کو خدا کی تخلیق نہ مانتی ہو وہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ نہ ہوگی؟۔
یہ تو ہوئی اصولی پوزیشن کی بات۔ تاریخی تجربہ یہ ہے کہ مغرب ایک ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں اور اسلامی تہذیب کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ دو سو سال تک جاری رہنے والی صلیبی جنگیں مسلمانوں نے ایجاد نہیں کی تھیں۔ ان کا خالق مغرب تھا۔ یہ سن 1095 کی بات ہے۔ اس وقت مغرب کا سب سے بڑا آدمی پوپ ہوتا تھا۔
اس وقت کے پوپ اربن دوم نے ایک تقریر میں اسلام کو شیطانی مذہب قرار دیا اور کہا کہ میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ ہم اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو روئے زمین سے مٹا دیں۔ پوپ کی یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوئی۔ 1099 میں پورا یورپ ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور ان صلیبی جنگوں کی ابتدا ہوئی جو دو سو سال تک اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ بنی رہیں۔ مگر غامدی صاحب کے شاگرد رشید خورشید ندیم فرماتے ہیں کہ مغرب سے ہمیں کوئی خطرہ ہی نہیں۔
یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ مغرب نے 19 ویں صدی میں کم و بیش پورے عالم اسلام پر عملاً قبضہ کرکے اس نوآبادیاتی تجربے کو خلق کیا جو کہیں سو سال، کہیں ڈیڑھ سو سال جاری رہا۔ غلامی کا یہ تجربہ اتنا ہولناک تھا کہ غلامی کے اس تجربے کے زیر اثر برصغیر میں سرسید احمد خان قرآن و حدیث کے منکر ہوگئے۔ انہوں نے قرآن کی پوری تفسیری روایت کو مسترد کردیا۔ انہوں نے اجماع کے اصول کا انکار کردیا۔ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے ادب اور شاعری پر تھوک دیا اور اس دائرے میں بھی مغرب کی پیروی کا علم اٹھالیا۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ عربی، فارسی اور اردو کو چھوڑو، انگریزی اور فرانسیسی سیکھو۔ سرسید ایک فرد نہیں تھے وہ ایک ذہنیت تھے، ایک غلامانہ ذہنیت۔ وہ ایک تناظر تھے غلامانہ تناظر۔ سرسید مرگئے مگر ان کی پیدا کردہ ذہنیت اور تناظر آج تک زندہ ہے اور خود غامدی صاحب اس ذہنیت اور تناظر کی علامت ہیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ مذکورہ حقائق کے باوجود خورشید ندیم ارشاد فرماتے ہیں کہ مغرب ہمارے لیے خطرہ نہیں۔
مغرب ہمارے لیے خطرہ ہے یا نہیں اس سلسلے میں برصغیر کے چار عبقریوں یا Geniuses کا موقف بھی سن لینا چاہیے۔ اکبر الٰہ آبادی برصغیر کی پہلی بڑی شخصیت ہیں جنہوں نے مغرب کو نہ صرف خطرہ سمجھا بلکہ اپنی شاعری میں اس خطرے کی مزاحمت بھی کی۔ شاعری میں اکبر کا ٹیلنٹ اقبال کی سطح کا ہے۔ اس لیے اقبال نے اکبر کے انتقال کے بعد ان کے فرزند کے نام جو خط لکھا اس میں فرمایا کہ تمہارے والد اتنے بڑے آدمی تھے کہ ایشیا میں کوئی ان جیسا شاعر موجود نہیں۔ اکبر کا کمال یہ ہے کہ مسلمان میدان جنگ میں مغرب سے جو بازی ہار گئے تھے اکبر نے اپنی شاعری میں وہ جنگ جیت کر دکھا دی۔ مغرب کے زیر اثر معاشرے میں جو تغّیرات رونما ہورہے تھے اکبر نے اپنی بے مثال شاعری میں ان سب کو بیان کیا ہے۔ خورشید ندیم کہیں تو ہم یہاں اکبر کے 100 شعر پیش کرسکتے ہیں مگر نمونے کے طور پر تین شعر عرض ہیں۔ اکبر کہتے ہیں۔
سیّد اٹھّے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسہ نہ ملا
٭٭
ان کی بیوی نے فقط اسکول ہی کی بات کی
یہ نہ بتلایا کہاں رکھّی ہے روٹی رات کی
٭٭
گھر کے خط میں ہے کہ کل ہوگیا چہلم ان کا
پانیر لکھتا ہے بیمار کا حال اچھا ہے
ہم یہاں ان تین شعروں کی تشریح میں پورا کالم تحریر کرسکتے ہیں مگر اس سے بات طویل ہوجائے گی۔ چناں چہ قارئین ان شعروں کی معنویت پر خود ہی غور کرلیں۔
اقبال اکبر کے بعد ہمارے دوسرے بڑے عبقری یا Genius تھے جنہوں نے مغرب کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ان کا اردو کا سب سے اہم مجموعہ ضرب کلیم عہد جدید کے خلاف اعلان جنگ کے نعرے کے ساتھ شائع ہوا۔ یہاں کہنے کی ضرورت تو نہیں مگر خورشید ندیم صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ عہد ِ حاضر یا عہد ِ جدید سے مراد مغرب ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مغرب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی خطرہ نہیں تھا تو اقبال جیسا عبقری اس کے خلاف اعلان جنگ کیوں کررہا تھا۔
مولانا مودودیؒ برصغیر کے تیسرے بڑے عبقری ہیں جنہوں نے مغرب کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ سمجھا۔ مولانا مودودی نے کراچی میں ادارہ معارف اسلامی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس ادارے کے سامنے تین کام رکھے۔ ایک یہ کہ مغربی فکر اور مغربی فلسفہ حیات نے جو طلسم باندھا ہوا ہے اس کو توڑا جائے۔ دوسرا یہ کہ تمام علوم و فنون کو نئے اسلوب پر اس طرح مرتب کیا جائے کہ وہ اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔ تیسرا یہ کہ ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو اسلام کی مبادیات پر کھڑا ہوا ہو۔ ظاہر ہے کہ اگر مغرب اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ نہ ہوتا تو مولانا ادارہ معارف اسلامی کے سپرد یہ کام ہرگز نہ کرتے۔
محمد حسن عسکری اردو کے سب سے بڑے نقاد ہیں۔ انہوں نے اپنی تصنیف جدیدیت یعنی مغربی فکر کی گہرائیوں کا خاکہ میں پورے مغرب کو مسترد کردیا ہے اور اِسے مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول قرار دے دیا ہے۔ مغرب مسلمانوں کے لیے خطرہ نہ ہوتا تو عسکری صاحب مغرب کو کبھی مسترد نہ کرتے اور اس کے خلاف قلمی جہاد نہ فرماتے۔
جہاں تک مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کا تعلق ہے تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ مسلمانوں کا سیاسی نظام مغرب کے زیر اثر ہے۔ مسلمانوں کی معیشت مغرب کی مٹھی میں ہے۔ مسلمان دفاع کے دائرے میں مغرب کے محتاج ہیں۔ مسلمانوں کے بادشاہ، جرنیل اور سیاسی حکمران مغرب کے ایجنٹ ہیں۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی خواہش آرزوئیں، تمنائیں اور خواب مغرب سے آرہے ہیں۔ ہم مغرب کے علوم پڑھ رہے ہیں۔ مغرب کی تفریح نوش فرما رہے ہیں، مغرب کا لباس زیب تن کررہے ہیں۔ مغرب کی غذائیں کھا رہے ہیں۔ ہمارے اندر بھی مغرب ہے اور باہر بھی مغرب ہے۔ مگر اس کے باوجود خورشید ندیم فرمارہے ہیں کہ مغرب ہمارے لیے خطرہ نہیں۔ بلاشبہ مغرب اب تک مسلمانوں سے ان کا دین نہیں چھین سکا تو اس کی وجہ مولانا ظفر علی خان نے بیان کردی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

Leave a Reply