مسلم دنیا میں جو شخص اسلام کا علمبردار نہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کا غدار ہے۔ یہ غدار جرنیل ہوسکتا ہے۔ بادشاہ بھی۔ سیاست دان بھی ہوسکتا ہے اور دانش ور بھی۔ شاعر بھی ہوسکتا ہے اور ادیب بھی۔ کالم نگار بھی ہوسکتا ہے اور استاد بھی۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا ایسے غداروں سے بھری پڑی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے یہ غدار اپنی گفتگوئوں اور تحریروں میں اسلام اور مسلمانوں پر کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں اور مغرب کے ترانے گاتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ ان لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں میں زوال کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف انہیں مغرب میں عروج کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان میں حسن نثار، جاوید چودھری اور خورشید ندیم اسی قماش کے لوگ ہیں۔ ان لوگوں کی تحریروں کا اثر کم تر درجے کے لکھنے والوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ جمیل مرغز روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں مسلمان پسماندہ کیوں کے عنوان سے ایک کالم تحریر فرمایا ہے۔ اس کالم پر حسن نثار، جاوید چودھری اور خورشید ندیم کے اثرات کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ جمیل مرغز صاحب نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں:۔
’’بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان پسماندہ اور غریب کیوں ہیں؟۔ ہمیں بار بار بتایا جاتا ہے کہ ہم اس لیے پسماندہ اور غریب ہیں کہ ہم نے اسلامی راستہ چھوڑ کر مغربی تہذیب اختیارکرلی ہے‘ اب حقیقت یہ ہے کہ مغربی ممالک جن کے قرض کے سہارے ہمارے ملک کی معیشت چلتی ہے‘ جن کے ایجادات کی وجہ سے ہم دعوے کرتے ہیں کہ ہم مہذب اور ماڈرن لوگ ہیں اور یہ ایجادات ساری دنیا استعمال کر تی ہے‘ جن کے جہاز‘ ہواؤں اور سمندروں پر راج کرتے ہیں‘ وہ تو بے راہروی‘ فحاشی‘ بے حیائی‘ بے شرمی وغیرہ کے گڑھ ہیں‘ جہاں شراب‘ شباب‘ بے حجاب‘ ہم جنس پرستی وغیرہ کے بدبودار گٹر ہیں‘ ہماری حالت یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی اور روزی کے لیے بھی ہر کوئی ادھر ہی لپک رہا ہے‘ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کون سچ بول رہا ہے۔ ایجادات‘ دریافتیں اور علوم جیسے انسان دوست چیزیں بھی ان کی اور گناہ کے ادارے شراب خانے‘ جوئے خانے اور شباب خانے بھی ان کے‘ ہم پاک صاف بہترین مسلمان 74سال بعد بھی صرف لنگر خانے کھول رہے ہیں۔ کیا ہم لاجواب نہیں ہیں؟
ہمارے لیے لا ینحل مسئلہ یہ ہے کہ سارے شمس العلماء یعنی علم کے سورج‘ بڑے بڑے بزرگ‘ پیر فقیر‘ تو ہمارے پاس ہیں‘ سارے حکمت کے چاند بھی ہمارے‘ یعنی دنیا بھر کے ’’علم و حکمت‘‘ کے اجارہ دار تو ہم‘ اپنے ماضی پر فخر بھی ہم کریں‘ لیکن ہر اچھی شے کی پیداوار کے مراکز سرزمین کفر پر‘ حیرت ہوتی ہے کہ جن معاشروں میں عریانی‘ اور فحاشی عروج پر‘ وہی زندگی کے ہر میدان میں عروج پر ہیں‘ وہی ورلڈ لیڈر اور سپر پاور میں مدتوں سے شامل ہیں‘ اب تو امریکا آئندہ کسی آسمانی تباہی سے زمین کو بچانے کے لیے مشن (DART MISSION) بھی بھیج رہا ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟۔
دنیا کی وہ کون سی خباثت ہے جو وہاں موجود نہیں لیکن کیسا عجیب اتفاق ہے کہ قیادت‘ عزت‘ دولت‘ انصاف‘ میرٹ‘ طاقت‘ تعمیر ‘ ایجاد‘ اختراع وغیرہ بھی وہیں موجود ہیں‘ ہم تو شاعری میں ہی ستاروں پر کمند یں ڈال کر خوش ہوتے ہیں‘ جب کہ امریکا نے خلائی جہازوں کے بعد خلائی فورس بنائی اور اب خلا میں (DART MISSION) کے نام سے سیارہ بھیجا ہے‘ اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر مستقبل میں کوئی سیارہ زمین کی طرف آئے تو ٹکرانے سے قبل اس کا رخ تبدیل کیا جا سکے جب کہ شراب خانوں‘ جوا خانوں‘ قحبہ خانوں سے پاک پاکستان میں آئے دن اک نئی پالیسی‘ نئی حکمت عملی ‘ نہ سر نہ پیر۔ ایک اور مسئلہ بھی ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے‘ ہمارے علماء کرام ہر وقت امریکا کے زوال کے انتظار میں رہتے ہیں اگر ہم فرض کرلیں کہ ایسا ہو گیا کوئی روس‘ کوئی چین سپر پاور بن گیا تو ہمارے پلے کیا ہوگا؟ کوئی آئے کوئی جائے۔ ہماری مثال میراثی کے اس بیٹے جیسی ہے جس کو باپ نے کہا تھا کہ ’’بیٹا سارا پنڈ بھی مر جائے تو پھر بھی تجھے چودھراہٹ نہیں ملے گی‘ خواہ مخواہ ’’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کے مصداق ناچ رہے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ خراٹوں اور خوابوں سے جان چھڑا کر دماغ پر زور ڈالیں اور اس ملک کے شہہ دماغ فکری دیانتداری سے یہ سوچیں کہ کہیں ایسا تو نہیںکہ عہدحاضر میں عروج و زوال کے پیمانے بدل گئے ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ اپنے زوال کے حقیقی اسباب ڈھونڈ کر ان کا سد باب کرنا ہے۔ ’’علم حاصل کرو چاہے چین بھی جانا پڑے‘‘۔ اب تو جانے کی بات ختم خود چین چل کر ہمارے پاس آیا ہے‘ اسے آسامی سمجھنے کے بجائے اس سے علم حاصل کرو۔ ہمارے صاحب علم اس قوم پر رحم کھا کر اس کی بہتر رہنمائی کریں گے‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس۔ 3 دسمبر 2021ء)
بلاشبہ مسلمانوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کو چھوڑ دیا ہے۔ مگر ان کے زوال کی وجہ ہرگز بھی یہ نہیں کہ انہوں نے مغربی تہذیب کو اختیار کرلیا ہے۔ اقبال یاد آگئے۔ اقبال نے کہا ہے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اس شعر میں ’’وہ‘‘ سے مراد ماضی کے مسلمان ہیں۔ اور ’’تم‘‘ سے مراد عہد حاضر کے مسلمان ہیں۔ یہ بات کہی جاتی ہے تو کہنے والے کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن کو کہاں چھوڑا ہے۔ مسلم معاشروں میں کروڑوں مسلمان قرآن پڑھ رہے ہیں۔ لاکھوں افراط نے قرآن حفظ کیا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ شعر میں قرآن کو ترک کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمانوں نے قرآن پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ قرآن پڑھنا ایک بات ہے۔ اور قرآن کو سمجھنا دوسری بات اور قرآن پر عمل کرنا تیسری بات۔ بلاشبہ مسلمانوں میں قرآن پڑھنے اور اسے حفظ کرنے والے بہت سے ہیں مگر بدقسمتی سے قرآن کو سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے نایاب ہیں۔ امت مسلمہ کی آبادی اس وقت ایک ارب80 کروڑ ہے۔ ان ایک ارب 80 کروڑ لوگوں میں بہ مشکل آٹھ دس لاکھ لوگوں نے قرآن ترجمے سے پڑھا ہوگا۔ ایسے لوگ تو دوچار لاکھ ہی ہوں گے جنہوں نے قرآن کی کوئی تفسیر پوری پڑھی ہوگی۔ اس سے آگے کی صورت حال مزید ابتر ہے۔ ایسے لوگ ہزاروں میں ہوں گے جو قرآن کو سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہوں گے۔ یہ صورت حال اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ مسلمانوں نے عملاً قرآن کو ترک کیا ہوا ہے۔ چلیے قرآن تو کتاب ہے۔ خدا پر ایمان تو تمام ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کا ہے مگر کتنے لوگ ہیں تو جو خدا کو ماننے کی طرح مانتے ہیں۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا معاملہ یہ ہے کہ خدا ان کا صرف ’’قال‘‘ ہے ’’حال‘‘ نہیں ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے۔ نماز اس طرح پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر اس طرح نماز نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم اس طرح پڑھو گویا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ ہم فرض کرتے ہیں مسلمانوں میں دس کروڑ لوگ پانچ وقت کی نمازیں پڑھ رہے ہیں مگر ان میں سے کتنے ہیں جنہیں نماز میں خدا نظر آتا ہو؟ یا جن کو نماز میں احساس ہوتا ہو کہ خدا انہیں دیکھ رہا ہے۔ خدا کو دیکھنے کے ممکنات لاکھوں ہیں۔ جو شخص نماز میں خدا کی موجودگی کا شعور حاصل کرے گا اس کی پوری زندگی خدا کی مرضی کے تابع ہوجائے گی۔ پھر وہ اپنی زندگی خدا کے دین کو غالب کرنے کے لیے ضرور کھپائے گا۔ پھر وہ کسی باطل سے خوف زدہ نہیں ہوگا۔ پھر اس کی پوری زندگی خدا کے رنگ میں رنگ جائے گی۔ مگر نماز پڑھنے والے کروڑوں مسلمانوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ دس دس بیس بیس سال نماز پڑھتے ہیں مگر پھر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ غیبت کرتے ہیں۔ دھوکے دیتے ہیں۔ مسلمانوں اور انسانوں کو اذیت دیتے ہیں۔ ہر سال لاکھوں مسلمان حج کرتے ہیں اور حج کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ انسان کو گناہوں سے اس طرح پاک کردیتا ہے گویا انسان ابھی ابھی پیدا ہوا ہو۔ مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا حال میر تقی میر کے اس شعر جیسا ہے۔
مکّے گیا، مدینے گیا، کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آگیا
آدمی کی زندگی خدا مرکز یا God Centric نہ ہو اور خدا انسان کی ترجیح اوّل نہ ہو تو مکے اور مدینے جانا بھی سود مند ثابت نہیں ہوتا۔ یہ حقائق بتارہے ہیں کہ مسلمانوں نے اسلام یا قرآن کو ترک کیا ہوا ہے۔ اسلام صرف ہمارے ظاہر کو بدل رہا ہے مگر ہم اپنے باطن پر اسلام کو اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دے رہے۔ اقبال نے مسلمانوں کی عروج حاصل کرنے کا ایک اور نسخہ تھمایا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے
اقبال نے اس بات کو دوسری طرح بھی بیان کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہاں اسم محمدؐ سے اجالا کرنے اور محمدؐ سے وفا کرنے کا مطلب سیرت طیبہ کے پورے تجربے کو بسر کرکے دکھانا ہے۔ ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں میں کتنے لوگ ہیں جو سیرت طیبہ کے پورے تجربے کو بسر کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔
چوں کہ ہم سیرت طیبہ کے پورے تجربے کو بسر کرنے کے لیے تیار نہیں اس لیے ہم زوال پزیر ہیں۔ چوں کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نے سیرت طیبہ کے پورے تجربے کو بسر کرکے دکھایا اس لیے اسلام اور مسلمان وقت کی واحد سپر پاور بن کر ابھرے۔
مغرب کے متاثرین بلکہ مغرب کے مرعوبین جب مغرب کے عروج اور غلبے کو بیان کرتے ہیں تو وہ کہے بغیر یہ کہتے ہیں کہ مسلمان بھی اگر دنیا میں معزز ہونا چاہتے ہیں تو انہیں وہی کچھ کرنا چاہیے جو مغرب نے کیا۔ مگر اتفاق سے اس سلسلے میں مسلمانوں کا تاریخی تجربہ بہت مختلف ہے۔ مغرب کے عروج اور غلبے کی ایک وجہ سائنس ہے۔ ایک وجہ ٹیکنالوجی ہے، ایک وجہ غیر معمولی پیداواری صلاحیت یا Power of Production اور معاشی خوشحالی ہے۔ مغرب کے طاقت اور غلبے کا ایک سبب اس کا جمہوری نظام ہے۔ اب اس سلسلے میں مسلمانوں کا تاریخی تجربہ یہ ہے کہ جب مسلمان وقت کی واحد سپر پاور تھے تو ان کے پاس نہ سائنس تھی، نہ ٹیکنالوجی تھی، نہ غیر معمولی پیداواری صلاحیت تھی، نہ معاشی خوشحالی تھی اور نہ مغرب جیسی جمہوریت تھی۔ چوں کہ مسلمان ایک بار ان تمام چیزوں کے بغیر صرف اپنے ایمان اور عمل کی قوت سے وقت کی واحد سپر پاور بنے تھے اس لیے وہ اگر ایک بار پھر ایمان اور عمل کو اختیار کریں گے تو وہ دوبارہ پوری دنیا کی رہنمائی کریں گے۔ اقبال نے ایمان کی غیر معمولی قوت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
ولایت پادشاہی، علمِ اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتہِ ایماں کی تفسیریں
اقبال کہہ رہے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا دوست بناتا ہے، یا کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے یا کسی کو علم اشیا کی جہانگیری سے نوازتا ہے تو اس کی وجہ ایمان ہوتا ہے۔ بلاشبہ اس وقت دنیا پر مغرب ہی کا غلبہ ہے مگر مغربی تہذیب صدیوں سے زوال پزیر ہے۔ اسپینگلر نے 20 ویں صدی کے آغاز پر مغرب کے اس زوال پر پوری کتاب لکھی۔ بیسویں صدی کے وسط میں ٹوائن بی جو اسپینگلر سے بڑا مورخ تھا مغرب کے زوال کی گواہی دی۔ ایلون ٹوفلر نے اپنی تین کتب میں مغرب کو زوال آمادہ دکھایا۔ مسئلہ یہ ہے کہ تہذیبیں صدیوں کا سفر اختیار کرکے عروج پر جاتی ہیں اور صدیوں کا سفر اختیار کرکے زوال پزیر ہوتی ہیں۔ بلاشبہ مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی اور اس کی معاشی ترقی بڑی چیزیں ہیں مگر اتنی بھی بڑی نہیں کہ ان سے مرعوب ہوا جائے۔ مغرب نے جو ترقی ڈیڑھ سو سال میں کی چین نے وہی ترقی چالیس سال میں کرکے دکھادی۔ مادی ترقی کی یہی اوقات ہے۔ مسلمانوں کو بہتر قیادت مل جائے تو مسلمان بھی چالیس سال میں مادی اعتبار سے مغرب کے ہم پلہ ہوسکتے ہیں۔ لیکن عروج کے سلسلے میں مسلمانوں کو چین سے نہیں اپنے تاریخی تجربے سے ہی سب کچھ سیکھنا چاہیے۔ جس امت کے پاس خدا، قرآن اور رسول اکرمؐ جیسی رہبری ہو اسے عروج کے لیے کسی اور طرف دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔