ہندوستان کے انتہا پسند ہندو مسلمانوں پر ایک الزام یہ لگاتے ہیں کہ یہ ایک ہزار سال سے ہندوستان میں موجود ہیں مگر ان کی ہر چیز غیر مقامی ہے۔ ان کا مذہب سعودی عرب سے آیا ہے۔ ان کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ بھی غیر مقامی ہیں۔ ان کی ایک زبان عربی ہے جو عالم عرب سے آئی ہے۔ دوسری زبان فارسی ہے جو ایران سے آئی ہے۔ ہندوستان کے انتہا پسند ہندو ان تمام باتوںکو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔ مگر ایسا کرتے ہوئے وہ ایک بات بھول جاتے ہیں اور وہ یہ کہ مسئلہ مسلمان اور ان کی تاریخ و تہذیب نہیں مسئلہ ہندوستان کے انتہا پسند ہندوئوں کی انتہا پسندی ہے۔ ورنہ اردو تو خالصتاً ہندوستانی ہے۔ مگر ہندوستان کے انتہا پسند اردو کو بھی غیر ملکی ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا تاریخی ثبوت یہ ہے کہ گاندھی نے طاقت ور ہوتے ہی ہندی کو فروغ دینے کے لیے صرف فارسی کو پس منظر میں نہیں دھکیلا انہوں نے اردو کی بھی بیخ کنی کی۔ یہاں تک کہ گاندھی کے زیر اثر منشی پریم چند جیسے افسانہ نگار نے اردو میں افسانہ لکھنا چھوڑ دیا۔ لیکن اردو کے خلاف محاذ آرائی کا صرف گاندھی سے تعلق نہیں۔ ان دنوں بھی بھارت میں اردو کے خلاف محاذ آرائی جاری ہے۔
’’بھارتی ریاست مدھیا پردیش میں بی جے پی سرکار نے ایک حکم نامے کے تحت تمام دفاتر، تعلیمی اداروں، پولیس تھانوں اور نظام عدلیہ میں رائج سیکڑوں اردو فارسی الفاظ کو مٹا ڈالنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کا سرکاری استعمال جرم بنادیا گیا ہے۔ بھارتی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حال ہی میں دہلی میں ایک بڑی کمپنی کی جانب سے ملبوسات کی عالمی نمائش کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاح ’’جشن رواج‘‘ پر بھی بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس سمیت ہندو تنظیموں اور خود مودی سرکار نے اعتراض کیا تھا۔ جس پر نہ صرف کمپنی کو یہ لفظ اشتہاراتی مہم سے نکال دینا پڑا بلکہ معافی نامہ بھی جاری کرنا پڑا۔ دہلی ہائی کورٹ نے دسمبر 2019ء سے دہلی پولیس اور عدالتی اداروں کو ایک ہندو وکیل وشالاچھی گوئیل کی درخواست پر پابند کیا تھا کہ وہ دو صدیوں سے عدالتی فورمز پر لکھی جانے والی اردو فارسی کے 383 الفاظ کو ہمیشہ کے لیے مٹا ڈالیں۔ ادھر شمالی ریاست مدھیا پردیش میں وزیرداخلہ نروتم مشرا نے حکم دیا ہے کہ اردو کے سیکڑوں الفاظ کو اب ریاستی اُفق پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اردو زبان کو بی جے پی مدھیا پردیش کی جانب سے مسلمانوں کی زبان قرار دیا گیا ہے۔ ہندی جریدے ’’امر اُجالا‘‘ کے مطابق مدھیا پردیش کی بی جے پی سرکار نے ریاستی پولیس کی ڈکشنری سے بھی اردو لفظ ہٹانے کا فیصلہ لیا ہے۔ اس ضمن میں ریاستی وزیرداخلہ نے کہا کہ ایسے الفاظ جو ہندو سماج میں استعمال میں نہیں ہیں، انہیں بدل دیا جائے گا۔ جن 300 اردو اور فارسی الفاظ کو مدھیا پردیش سرکار سے نکالا جارہا ہے، یہی الفاظ محکمہ پولیس اور عدلیہ میں پونے دو دہائیوں سے مستعمل ہیں۔ دو روز قبل بی جے پی وزیراعلیٰ شو راج سنگھ چوہان، کلکٹر ضلع اور ایس پی سمیت ایک پریس کانفرنس میں تھے جہاں سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ نے دوران بریفنگ لفظ ’’گم شدہ‘‘ کا استعمال کیا جس پر وزیراعلیٰ شوراج چوہان بھڑک اٹھے اور متعلقہ ایس پی کو ’گم شدہ‘‘ کے بجائے ہندی لفظ استعمال کرنے کا حکم دیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ شو راج چوہان نے کہا کہ پولیس کو شکایت درج کرنے، جانچ رپورٹ تیار کرنے اور دیگر دستاویزی کارروائی میں صرف ہندی الفاظ کا استعمال ہونا چاہئیں۔ اس پر وزیرداخلہ نروتم مشرا نے اگلے ہی دن ایک تحریری سرکیولر کی مدد سے مدھیا پردیش پولیس کو سیکڑوں اردو اور فارسی الفاظ مٹا ڈالنے کا حکم دیا اور انتباہ کیا کہ اگر ریاستی فورم پر بنائی جانے والی دستاویزات میں کوئی اردو یا فارسی لفظ دیکھا گیا تو اس پر سخت ایکشن لیا جائے گا۔ واضح رہے کہ بھارت کے مختلف شہروں اور ریاستوں میں انگریز دور سے قبل بھی ریاستی محکمہ جات سمیت پولیس اور دفاتر میں اردو اور فارسی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن مودی کی حکومت کی مسلم دشمنی نے اب اردو کو ’’مسلمان‘‘ بنا کر بھارت سے بتدریج نکالنے کی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ مدھیا پردیش حکومت کے حکم پر ریاستی پولیس ڈکشنری سے 350 سے زیادہ اردو اور فارسی الفاظ دستاویزات سے غائب ہوجائیں گے۔ ان الفاظ میں مسمی، مسماۃ، روزنامچہ، امروز، استغاثہ، مستغیث، مشتبہ، ضرب، نقول، سرزد، عدم موجودگی، مفرور، انسداد، ضمنی، موصولہ اور روپوش جیسے الفاظ بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے دہلی، راجستھان اور اترپردیش میں بھی ایسے کئی الفاظ بدلے جاچکے ہیں۔ دوسری جانب مدھیا پردیش حکومت کی جانب سے اردو الفاظ کو ہٹانے کے فیصلے کو اپوزیشن جماعت کانگریس نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریسی ترجمان نریندر سلوجا نے طنز میں کہا ہے کہ بی جے پی کو صدیوں سے مستعمل ان الفاظ کا مطلب سمجھنے میں 18 سال لگے۔ حالاں کہ اس کو اور اس کے رہنمائوں کو قتل، عصمت دری جیسے الفاظ کا مطلب اچھی طرح سمجھنا چاہیے تھا، جس سے ریاست میں جرائم اور خواتین اور بچوں کے تحفظ کے حالات بہتر ہوجاتے۔ یاد رہے کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی تازہ رپورٹ کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ریاست مدھیا پردیش میں امن وامان کے حالات مسلسل خراب ہورہے ہیں۔ اردو کے خلاف کریک ڈائون پر بھارتی جریدے ’’جاگرن پوسٹ‘‘ نے یاد دلایا ہے کہ اردو زبان میں دہلی پولیس کی اولین ایف آئی آر کا اندراج 18 اکتوبر 1861ء کو کیا گیا تھا۔ یہ ایف آئی آر آج بھی دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر میں باقاعدہ سنبھال کر رکھی گئی ہے۔ لیکن اب اردو کو مسلمانوں کی زبان دے کر دیش سے نکالا جارہا ہے۔ نئی تنظیمی تعلیمی پالیسی میں آپ کو سنسکرت تو دکھائی دے گی، لیکن اسی منظرنامہ میں اردو مکمل طور پر غائب نظر آئے گی‘‘۔ (روزنامہ امت۔ کراچی)
یہ صورتِ حال بتا رہی ہے کہ جس طرح ہندوستان میں 25 کروڑ مسلمانوں کا جینا حرام کردیا گیا ہے اسی طرح ہندوستان میں اردو پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر ہندوستان اردو سے بھاگ کر کہاں جائے گا۔ اردو ہندوستان کی جڑوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ ہندوستان میں بالی وڈ ایک ارب 40 کروڑ لوگوں کی ثقافتی زندگی ہے۔ بالی وڈ ایک ارب 40 کروڑ لوگوں کا ’’شعری حافظہ‘‘ ہے۔ ہندوستان میں اگر گزشتہ سو سال کے دوران ایک لاکھ فلمیں بنی ہیں اور 20 لاکھ گیت لکھے گئے ہیں تو ان لاکھ فلموں اور 20 لاکھ گیتوں کی زبان اردو ہے۔ ظاہر ہے کہ 20 لاکھ گیت تو کسی کو بھی یاد نہیں ہوں گے لیکن اگر بھارت میں ایک ہزار مقبول گیت ہیں تو ان میں سے 99 فی صد گیتوں کی جڑیں اردو، مسلم تہذیب اور اظہار کے مسلم سانچوں میں پیوست ہیں۔ چناں چہ ہندوستان میں جو شخص بھی ان گیتوں کو سنتا ہے یا انہیں گنگناتا ہے وہ اردو، مسلم تہذیب اور اظہار کے مسلم سانچوں میں سانس لیتا ہے۔ آئیے بالی وڈ کی فلموں کے 21 گیتوں کے مکھڑے ملاحظہ کرتے ہیں۔
1۔ پہلی آواز
ابتدائے عشق میں ہم
ساری رات جاگے
اللہ جانے کیا ہوگا آگے
مولانا جانے کیا ہوگا آگے
دوسری آواز
دل میں تیری الفت کے
بندھنے لگے دھاگے
اللہ جانے کیا ہوگا آگے
مولا جانے کیا ہوگا آگے
باقی صفحہ7نمبر 1
شاہنواز فاروقی
2۔ پہلی آواز
اے کاش کسی دیوانے کو
ہم سے بھی محبت ہوجائے
ہم لٹ جائیں دل کھو جائے
بس ایک قیامت ہوجائے
دوسری آواز
ہے وقت ابھی توبہ کرلو
اللہ مصیبت ہوجائے
(3)
یہ لڑکا ہائے اللہ کیسا ہے دیوانہ
کتنا مشکل ہے توبہ اس کو سمجھانا
کہ ہوتے ہوتے دل بے قرار ہوتا ہے
ہوتے ہوتے ہوتے پیار ہوتا ہے
(4)
پھولوں سے مکھڑے والی
نکلی ہے اک متوالی
گلشن کی کرنے سیر
خدایا خیر
اونچی نیچی ہیں راہیں
لے تھام لے میری بانہیں
کہیں پھسل نہ جائے پیر
خدایا خیر
(5)
لو چہرہ سرخ گلاب ہوا
آنکھوں نے ساغر چھلکایا
یہ غصہ ترا سبحان اللہ
اک حسن کا دریا چڑھ آیا
(6)
ڈم ڈم ڈیگا ڈیگا
موسم بھیگا بھیگا
بن پیے میں تو گرا
میں تو گرا ہائے اللہ
صورت آپ کی سبحان اللہ
(7)
اگر بے وفا تجھ کو پہچان جاتے
خدا کی قسم ہم محبت نہ کرتے
جو معلوم ہوتا یہ انجامِ الفت تو
دل کو لگانے کی جرأت نہ کرتے
(8)
کیا رنگِ محفل ہے دلدارم
ہوجانِ عالم
بھئی واللہ
متوالا ہر دل ہے دلدارم
یارم، یارم
بھئی واللہ
(9)
پتھر کے صنم تجھے ہم نے
محبت کا خدا جانا
بڑی بھول ہوئی ارے ہم نے
یہ کیا سمجھا یہ کیا جانا
(10)
ان بہاروں میں اکیلے نہ پھر
راہ میں کالی گھٹا روک نہ لے
مجھ کو یہ کالی گھٹا روکے گی کیا
یہ تو خود ہے مری زلفوں کے تلے
(11)
جو اُن کی تمنا ہے برباد ہوجا
تو اے دل محبت کی قسمت بنادے
تڑپ اور تڑپ کہ ابھی جان دے دے
یوں مرتے ہیں مرجانے والے دکھا دے
(12)
محبوب مرے محبوب مرے
تو ہے تو دنیا کتنی حسیں ہے
جو تو نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے
(13)
ذکر ہوتا ہے جب قیامت کا
تیرے جلووں کی بات ہوتی ہے
تو جو چاہے تو دن نکلتا ہے
تو جو چاہے تو رات ہوتی ہے
(14)
دل کا سُونا ساز ترانہ ڈھونڈے گا
تیر نگاہِ ناز نشانہ ڈھونڈے گا
مجھ کو میرے بعد زمانہ ڈھونڈے گا
(15)
مارے گئے گلفام
اجی ہاں مارے گئے گلفام
الفت بھی راس نہ آئی
اجی ہاں مارے گئے گلفام
(16)
اب کیا مثال دوں میں تمہارے شباب کی
انسان بن گئی ہے کرن آفتاب کی
(17)
روشن تمہی سے دنیا
رونق تمہی جہاں کی
پھولوں میں پلنے والی
رانی ہو گلستاں کی
سلامت رہو
سلامت رہو
(18)
بڑے بے وفا ہیں یہ حسن والے
پر تری بات کچھ اور ہے
بڑے بے خبر ہیں یہ عشق والے
یہ مری بات کچھ اور ہے
(19)
تری پیاری پیاری صورت کو
کسی کی نظر نہ لگے
چشمِ بد دور
مکھڑے کو چھپالو آنچل میں
کہیں میری نظر نہ لگے
چشمِ بد دور
(20)
آنچل میں سجا لینا کلیاں
زلفوں میں ستارے بھرلینا
ایسے ہی کبھی جب شام ڈھلے
تب یاد ہمیں بھی کر لینا
(21)
مرا محبوب ہے بے مثال
اوئے کمال، اوئے کمال، اوئے کمال
ایسا دیکھا کسی کا نہ حال
اوئے کمال، اوئے کمال، اوئے کمال
یہاں ہم قارئین سے گزارش کریں گے کہ گیتوں کے مواد کو اہمیت نہ دیں۔ آپ ذرا گیتوں کی زبان، بیان اور محاورے پر غور کریں۔ ان گیتوں کی ہر چیز مسلمانوں کی زبان، تہذیب اور اظہار کے سانچوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام گیت ہندو کرداروں پر فلمائے گئے ہیں۔ اسی لیے ہم نے عرض کیا ہے کہ ہندوستان اردو سے بھاگ کر کہاں جائے گا۔