جاوید احمد غامدی کی فکر کا ایک مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اسلام کو مولانا مودودی کی اصطلاح کے مطابق ایک ’’ضابطۂ حیات‘‘ ثابت نہ ہونے دیا جائے۔ چناں چہ وہ کبھی کہتے ہیں کہ اسلام ایک روحانی اور اخلاقی حقیقت ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ اسلام سیاسی حقیقت نہیں ہے۔ جاوید غامدی کی اس فکر کا اثر ان کے شاگردوں پر بھی پڑا ہے۔ چناں چہ وہ آئے دن اسلام پر کوئی نہ کوئی حملہ کرتے رہتے ہیں۔ خورشید ندیم غامدی صاحب کے شاگرد رشید ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں اسلام پر ایک بھرپور حملہ کیا ہے۔ اس حملے کا اجمال انہی کے الفاظ میں یہ ہے۔ خورشید ندیم لکھتے ہیں۔
’’سقوط ڈھاکا سے بچنا ممکن تھا اگر… یہ کالم اسی جملے کو مکمل کرتا ہے۔
وہ کون سی قوت ہے جو کسی ملک کو متحد رکھ سکتی ہے؟ مذہب؟ فوج؟ یا عوام؟ ہم نے پہلی دو قوتوں پر انحصار کیا۔ ہمارا خیال تھا کہ پاکستان ایک بدن ہے اور اسلام روح بدن۔ جب تک یہ روح اس بدن میں دوڑتی رہے گی، ملک کا کوئی حصہ الگ نہیں ہوسکتا۔ تاریخ نے اس مقدمے کو قبول نہیں کیا۔ اسلام کی روح موجود تھی۔ بنگال میں اسلام، ایک سماجی قوت کے طور پر توانا تھا اور آج بھی ہے۔ بدن کے مگر حصے بخرے ہوگئے۔
فوج بھی موجود تھی۔ جوانوں کی بہادری بھی اساطیری تھی۔ محاذِ جنگ پر کھڑا ہر سپاہی ارض وطن کی سلامتی کے لیے نقد جان کا نذرانہ پیش کرنے کو بے چین تھا۔ جنرل نیازی نے جنرل یحییٰ خان کی ترجمانی کی، ایک عام سپاہی کی نہیں۔ کوئی ایک سپاہی ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہونی ہو کر رہی۔
مذہب ہمیں کیوں نہ بچا سکا؟ اس کا ایک سطری جواب یہ ہے کہ مذہب کا یہ کام ہی نہیں تھا۔ مذہب روحانی وحدت پیدا کرتا ہے، جو لازم نہیں کہ سیاسی وحدت پر بھی منتج ہو۔ تاریخ میں کسی تصور کا ایک دوبار واقعہ بننا، اس بات کو لازم نہیں کرتا کہ اس کو اصول مان لیا جائے۔ تاریخ میں ایک بار اسلام نے سیاسی وحدت پیدا کی لیکن یہ دراصل ایک الٰہی فیصلے کا ظہور تھا۔ رسالت مآبؐ کا مقصد بعثت قرآن مجید نے یہی بتایا تھا کہ وہاں اسلام کو ادیان عرب پر غالب کردیں۔ یہ خدا کا فیصلہ تھا جو نافذ ہوا۔ صحابہ یا خلافت راشدہ کا ابتدائی عہد اسی کی توسیع تھا۔
تیس سال بعد سیاست اپنی فطری ڈگر پر چل نکلی۔ سیاست کے باب میں وہی عوامل بروئے کار آئے جو ہمیشہ سے کسی سیاسی نظام کی تشکیل میں روبعمل رہے۔ عصبیت، مادی قوت، سیاسی بصیرت … جس نے ان قوتوں کو جمع کرلیا، اقتدار اس کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوگیا۔ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ اپنی شخصی حفاظت کے معاملے میں بے پروا رہے۔ قاتلوں نے ان کی جان لے لی۔ سیدنا معاویہؓ نے اس خطرے کا بروقت ادراک کیا اور خود کو محفوظ بنالیا۔ یہی بقا کا قانون ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا، 16 دسمبر 2021ء)
غور کیا جائے تو خورشید ندیم نے اسی کالم میں اسلام کا تیاپانچا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اسلام ایک ’’لازمانی‘‘ حقیقت ہے مگر خورشید ندیم نے اسلام کو صرف رسول اکرمؐ اور آپؐ کے زمانے مبارک تک محدود کردیا۔ خورشید ندیم کہہ رہے ہیں کہ رسول اکرمؐ کے زمانے میں تو اسلام نے سیاسی وحدت پیدا کرکے دکھا دی مگر بعد کے زمانوں میں وہ ایسا نہیں کرپایا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام سیاسی غلبے کے حوالے سے صرف رسول اکرمؐ کے دور تک کے لیے تھا۔ خورشید ندیم کا کہنا ہے کہ خلافت راشدہ کے عہد میں بھی اسلام نے سیاسی وحدت پیدا کرکے دکھائی مگر خلافت راشدہ کا زمانہ تو عہد رسالت کا تسلسل تھا۔ یہ بات صرف محدود معنوں ہی میں درست ہے۔ بلاشبہ خلافت راشدہ کا عہد رسول اکرمؐ کے زمانے کا تسلسل بھی ہے لیکن وہ ان معنوں میں رسول اکرمؐ کے عہد سے مختلف بھی ہے کہ رسول اکرمؐ کا عہد تو ’’نبی کا عہد‘‘ تھا اور خلافت راشدہ کا پورا عہد ’’غیر نبی‘‘ کا عہد ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام نے صرف نبی کے عہد ہی میں سیاسی وحدت پیدا کرکے نہیں دکھائی اس نے غیر نبی کے عہد میں بھی 29 سال تک سیاسی وحدت پیدا کرکے دکھائی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام صرف رسول اکرمؐ کے عہد میں سیاسی وحدت پیدا کرکے نہیں رہ گیا بلکہ اس نے نبی کی عدم موجودگی میں بھی وحدت پیدا کرکے دکھائی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی وحدت پیدا کرنے کے حوالے سے بھی اسلام ’’زمانی‘‘ نہیں ’’لازمانی‘‘ ہے۔ اس کی ایک نہیں کئی تاریخی شہادتیں موجود ہیں۔ خلافت راشدہ تو سیدنا علیؓ پر ختم ہوگئی مگر خلافت کا ادارہ عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں ایک بار پھر پوری قوت سے ابھر کر سامنے آیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تاریخ میں عمر بن عبدالعزیز کو پانچواں خلیفہ بھی کہا جاتا ہے۔ 20 ویں صدی تو کل کی بات ہے۔ مگر اسلام نے تحریک پاکستان کے دوران بھی سیاسی وحدت پیدا کرکے دکھائی۔ برصغیر کی ملت اسلامیہ ہر اعتبار سے تقسیم در تقسیم کا شکار تھی۔ اس میں شیعہ سنی کا اختلاف تھا، دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کی تقسیم موجود تھی۔ اس میں پنجابی، پشتون، سندھی، بلوچی اور یوپی، سی پی کی بنیاد پر اختلاف تھے۔ ذاتوں اور برادریوں کی تقسیم اس کے سوا تھی مگر اسلام نے ایک جداگانہ مسلم ریاست کے لیے برصغیر کے تمام طبقات کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ اب اگر اسلام عہد نبوی میں بھی سیاسی وحدت پیدا کررہا تھا۔ عہد خلافت بھی سیاسی وحدت کو جنم دے رہا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں بھی سیاسی وحدت پیدا کرکے دکھا رہا تھا اور بیسویں صدی میں بھی اس نے سیاسی وحدت پیدا کرکے دکھائی تو پھر اس سے زیادہ لغو بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ اسلام صرف روحانی وحدت پیدا کرتا ہے۔ وہ سیاسی وحدت پیدا نہیں کرسکتا۔
اس سلسلے میں تاریخ کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ روس کا سوشلسٹ انقلاب ایک انسانی ساختہ یا Man made نظام تھا۔ مگر اس نے صرف روس ہی میں نہیں آدھی دنیا میں سیاسی وحدت پیدا کرکے دکھائی۔ یہ بات تاریک کے ریکارڈ پر ہے کہ پوری سوشلسٹ دنیا ایک سیاسی وحدت تھی۔ صرف سیاسی وحدت نہیں۔ وہ ایک معاشی وحدت بھی تھی اور ایک ثقافتی وحدت بھی تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خورشید ندیم کہہ رہے ہیں کہ ایک انسانی ساختہ فلسفہ تو سیاسی کیا معاشی اور ثقافتی وحدت بھی پیدا کرسکتا ہے مگر اللہ کا آخری دین سیاسی وحدت پیدا کرکے نہیں دکھا سکتا۔ وہ بیچارہ صرف روحانی وحدت پیدا کرکے رہ جاتا ہے۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ ملکوں کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ لبرل ازم نے عالمگیر سیاسی وحدت پیدا کرکے دکھائی ہے۔ لبرل ازم کی معاشی وحدت بھی سامنے کی چیز ہے۔ اس کی ثقافتی وحدت بھی راز نہیں۔ لبرل ازم بھی ایک انسانی ساختہ ہے یا Man made نظام ہے۔ اس تناظر میں خورشید ندیم کہہ رہے ہیں کہ سوشلزم ہی نہیں لبرل ازم بھی سیاسی وحدت پیدا کرسکتا ہے مگر بیچارہ اسلام یہ سب کرنے سے قاصر ہے۔ اقبال کا شعر یاد آیا۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
ہندوستان کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ ہندوازم چھے ہزار سال پرانا مذہب ہے۔ اس کی تاریخ میں بڑے مسائل اور تضادات ہیں۔ ہندوازم کا کلاس سسٹم ہولناک ہے۔ اس میں شودر اور دلت حیوانوں سے بھی بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہندوازم میں ایک جگہ رام ہیرو ہیں۔ دوسری جگہ ولن۔ ہندو ازم میں ایک جگہ راون ہیرو ہے، دوسری جگہ ولن۔ ہندوازم میں ایک جگہ ایک دیوی یا دیوتا پوجا جاتا ہے اور دوسری جگہ دوسری دیوی او دیوتا کی پوجا ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی ہندوستان میں ہندوازم کی بنیاد پر ایک سیاسی وحدت پیدا کرنے میں کامیاب ہے۔ لیکن اسلام جس نے حقیقی معنوں میں ایک عالمی تہذیب پیدا کرکے دکھائی ہے اس کے بارے میں غامدی صاحب کے شاگرد کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی وحدت پیدا کرکے نہیں دکھا سکتا۔
خورشید ندیم صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلام مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو متحد نہ رکھ سکا۔ یہ ایک بڑا تاریخی جھوٹ ہے۔
بلاشبہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو مذہب اپنی طاقت سے جدید عہد کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو وجود بخش سکتا ہے وہ پوری کامیابی کے ساتھ اسے چلا بھی سکتا تھا اور چلا سکتا ہے مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم کے بعد پاکستان کے اجتماعی سیاسی وجود میں اسلام کو موثر ہونے کی اجازت ہی نہ دی۔ قائداعظم کے بعد پاکستان کا حکمران طبقہ سیکولرازم اور لبرل ازم کا اسیر ہوگیا۔ جنرل ایوب دس سال ملک پر قابض رہے اور وہ ان دس برسوں میں سیکولرازم کو پروان چڑھاتے رہے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان موجود مذہب کو مضبوط کرنے کے لیے کچھ بھی نہ کیا۔ ان کے بعد جنرل یحییٰ خان آگئے۔ انہیں شراب اور عورت بازی ہی سے فرصت نہیں تھی۔ چناں چہ وہ بھی تین سال تک اسلام کی بیخ کنی کرتے رہے۔ اسلام کا ایک تقاضا یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ انصاف کیا جاتا مگر مغربی پاکستان کے حکمران غاصب اور جابر بن کر کھڑے ہوگئے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھی مگر مشرقی پاکستان کو برابری کا اصول قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ بدقسمتی سے اسے 50 فی صد وسائل بھی مہیا نہیں کیے گئے۔ چناں چہ بنگالیوں کو شکایت پیدا ہوئی کہ مشرقی پاکستان کے حصے کے وسائل بھی مغربی پاکستان پر صرف کیے جارہے ہیں۔ بنگالیوں کی آبادی 56 فی صد تھی اور فوج میں ان کی نمائندگی صرف آٹھ دس فی صد تھی۔ بنگالیوں کی آبادی 56 فی صد تھی اور سول سروس میں ان کی نمائندگی چار پانچ فی صد تھی۔ اسلام کے تصور انصاف کے مطابق بنگالیوں کو ان کا حق دیا جارہا ہوتا اور وہ پھر بھی پاکستان سے الگ ہوجاتے تو کہا جاتا کہ اسلام ناکام ہوگیا۔ بنگالیوں کا لالچ ملک لے ڈوبا۔ مگر بنگالیوں کو تو مغربی پاکستان کے حکمران طبقے نے مسلمان کیا انسان بھی نہ سمجھا۔ چناں چہ پاکستان ٹوٹ گیا۔ سقوط ڈھاکا ہوگیا۔ مگر خورشید ندیم ان حقائق کو نظر انداز کرکے فرمارہے ہیں کہ اصل میں اسلام ناکام ہوا، وہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی وحدت پیدا نہ کرسکا۔ یہ بالکل ایسی بات ہے کہ دوا موجود ہو اور اسے دوا کی شیشی سے نکلنے ہی نہ دیا جائے اور جب مریض مرجائے تو کہہ دیا جائے کہ دوا مریض کو بچانے میں ناکام ہوگئی۔ اسلام کی طاقت یہ تھی کہ اس نے برصغیر میں مسلمانوں کی بھیڑ کو ایک قوم بنایا۔ اس نے جناح کو قائداعظم میں ڈھالا اور پاکستان کو عدم سے وجود میں لاکر دکھایا۔ کیا یہ اسلام پاکستان کو متحد نہیں رکھ سکتا تھا۔ ضرور رکھ سکتا تھا مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے اسلام کو آج تک موثر ہونے ہی نہیں دیا۔ ہمارے جرنیلوں نے ملک میں فوج کو بالادست بنانا چاہا اور وہ بالادست ہوگئی۔ ہمارے سیاست دانوں نے پنجابیت، سندھیت، پشتونیت، مہاجریت اور بلوچیت کو موثر بنایا اور یہ گھٹیا چیزیں موثر ہوگئیں۔ فرقہ پرستوں اور مسلک پرستوں نے فرقوں اور مسلکوں کی نفسیات کو موثر بنایا اور یہ نفسیات موثر ہوگئی۔ پاکستان کا حکمران طبقہ اسلام کو موثر بناتا تو وہ بھی موثر ہوجاتا۔ ایسا نہیں کہ غامدی صاحب اور ان کے شاگرد اس حقیقت سے آگاہ نہیں۔ وہ آگاہ ہیں۔ مگر ان کی کوشش یہ ہے کہ اسلام کو طاقت ور اور ہر مسئلے کا حل باور نہ ہونے دیا جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ اسلام اتنا طاقت ور نہیں جتنا طاقت ور اسے سمجھا جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ امریکا اور یورپ ’’سیاسی اسلام‘‘ کے سخت خلاف ہیں۔ وہ اسے اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ چناں چہ وہ مسلم دنیا میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس فکر کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ اسلام صرف روحانی اور اخلاقی قوت ہے۔ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔