یہ واقعہ امام ابوحنیفہؒ سے متعلق ہے۔ آپ مسجد میں بیٹھے درس دے رہے تھے۔ گلی میں لڑکے گیند سے کھیل رہے تھے کہ اچانک گیند درس میں بیٹھے ہوئے طلبہ کے درمیان آگری۔ گلی میں کھیلتے ہوئے لڑکے سہم گئے اور کسی کی جرأت نہ ہوئی کہ وہ امام ابوحنیفہؒ کے درس میں مداخلت کرے۔ اچانک لڑکوں کے درمیان سے ایک لڑکا آگے بڑھا اور تمام ادب و آداب کو پھلانگتا ہوا مسجد میں داخل ہوگیا۔ وہ دندناتا ہوا آگے بڑھا اور گیند اٹھا کر لے آیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے لڑکے کو غور سے دیکھا اور فرمایا: یہ ولدالحرام ہے۔ یہ امام ابوحنیفہؒ کی بصیرت تھی۔ تحقیق کی ضرورت نہ تھی مگر پھر بھی کچھ لوگوں نے لڑکے کے بارے میں معلومات جمع کیں تو معلوم ہوا کہ وہ واقعتاً ولد الحرام ہے۔ لوگ امام ابوحنیفہؒ کی بصیرت پر ششدر رہ گئے۔ ہم نے یہ واقعہ بیس سال کی عمر میں پڑھا تھا۔ گزشتہ پینتیس سال کے دوران ہمیں ایسے کئی لوگ ملے جن کو دیکھ کر امام ابوحنیفہؒ یاد آئے اور خیال آیا کہ امام ابوحنیفہؒ ان لوگوں کو دیکھتے تو ان کے بارے میں کیا کہتے؟
خیر آپ ان باتوں کو بھول جائیے اور اطلاعات کے وفاقی وزیر فواد چودھری کے اس شرمناک بیان پر غور کیجیے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ اقبال اور قائداعظم پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے۔ فواد چودھری نے فرمایا کہ اگر قائداعظم پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے تو پھر تحریکِ پاکستان کی قیادت مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی کررہے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ تخلیقِ پاکستان کا مقصد اقلیت کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ قائداعظم کا لباس بہت مختلف تھا۔ فواد چودھری کے بقول عمران خان قائداعظم کے پاکستان کی بازیافت کے لیے کوشاں ہیں۔
لوگ کہتے ہیں جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، مگر فواد چودھری کے نہ صرف دو پائوں ہیں بلکہ دو ہاتھ، دو آنکھیں، دو کان اور ایک ناک بھی ہے۔ فواد چودھری نے اقبال پر الزام لگایا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جس جداگانہ ملک کا تصور پیش کیا وہ اسلامی مملکت نہیں تھا۔ اقبال اور اسلام کا تعلق یہ ہے کہ اسلام کے بغیر اقبال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اقبال سر سے پائوں تک اسلام میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان کی شاعری کی اصل قوت ہی اسلام ہے۔ اسلام نہ ہوتا تو اقبال کی عظیم شاعری بھی نہ ہوتی۔ اقبال کی شاعری لاکھوں اشعار پر مشتمل ہے اور لاکھوں اشعار کسی نظریے، تجربے یا خیال سے وابستہ ہوئے بغیر نہیں کہے جاسکتے۔ اقبال کے لیے اسلام کتنا اہم تھا اس کا اندازہ اقبال کے اس شعر سے کیا جاسکتا ہے:
بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تُو مصطفوی ہے
اقبال اس شعر میں ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کی امت سے مخاطب ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تیری ساری قوت اسلام میں مضمر ہے۔ اسلام نہیں تو تُو بھی نہیں۔ یہاں تک کہ اسلام ہی تیرا دیس ہے، تُو اسلام میں اور اسلام تجھ میں بسا ہوا ہے۔ یہی تیرا اصل تشخص ہے۔ مگر فواد چودھری فرما رہے ہیں کہ اقبال مسلمانوں کے لیے جو الگ ملک چاہتے تھے وہ ہرگز بھی اسلامی ریاست نہیں تھا۔ اسلام کی ضد سیکولرازم ہے، اور سیکولرازم کی تعلیم یہ ہے کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ مگر اقبال سیکولر ریاست کے تصور سے بیزار تھے، کیوں کہ سیکولر ریاست خود خدا بن کر بیٹھ جاتی ہے۔ چناں چہ اقبال نے اس ریاست کے تصور کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے:
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقبال کہہ رہے ہیں کہ نئی دنیا نے جو نئے خدا ایجاد کیے ہیں ان میں سے ایک وطن اور ریاست کا جدید تصور بھی ہے۔ یہ تصور اتنا غیر مذہبی ہے کہ اسے اگر مذہب کا کفن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مگر فواد چودھری کا اصرار ہے کہ اقبال جس ریاست کی تشکیل چاہتے تھے وہ ایک غیر مذہبی ریاست تھی۔
جہاں تک قائداعظم کا تعلق ہے تو قائداعظم کا پاکستان پہلے دن سے ایک اسلامی پاکستان تھا۔ ایک مذہبی پاکستان تھا۔ قائداعظم سے کسی صحافی نے پوچھا کہ پاکستان کا آئین کیا ہوگا؟ قائداعظم نے کہا کہ ہمیں آئین بنانے کی ضرورت کیا ہے! ہمارا آئین قرآن کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ پاکستان میں اسٹیٹ بینک کا آغاز ہوا تو قائداعظم نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے لیے سوشلزم کا تصورِ معیشت قابلِ قبول ہے، نہ سرمایہ داری کے تصورِ معیشت ہی کو ہم سینے سے لگا سکتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے معاشی ماہرین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ اسلام کی روشنی میں معیشت کا ایک نیا نمونہ تیار کریں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظم کے لیے اسلام صرف مذہب نہیں تھا بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات تھا، اور وہ معیشت کے دائرے میں بھی اسلام ہی کو غالب دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ جہاں تک پاکستان کے سیاسی تصور کا تعلق ہے تو ایک بار قائداعظم نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ پاکستان ایک پریمیئر اسلامی ریاست ہوگا۔
یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ یہ دو قومی نظریہ تھا جس نے جناح کو قائداعظم، جغرافیے کو پاکستان اور برصغیر کی بھیڑ کو ایک قوم بنایا۔ دوقومی نظریہ اسلام کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دوقومی نظریے کی ضد ایک قومی نظریہ تھا جس پر گاندھی، نہرو اور کانگریس اصرار کررہی تھی۔ ایک قومی نظریہ نسل، جغرافیے اور زبان کا ملغوبہ تھا۔ ہندو قیادت کہہ رہی تھی کہ نسلی، جغرافیائی اور لسانی اعتبار سے ہندو اور مسلمان ایک قوم ہیں، برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کبھی ہندو تھی، کبھی برہمن، شتریہ، ویش اور شودر تھی، اس قوم کا جغرافیہ کل بھی ایک تھا آج بھی ایک ہے، دونوں قوموں کی زبان بھی ملتی جلتی ہے، اردو لغت کا تیس سے چالیس فی صد حصہ ہندی سے فراہم ہوا ہے۔ مگر قائداعظم نے قومیت کی اس تعریف کو مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان نسل، جغرافیے اور زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ مذہب، تہذیب اور تاریخ کی بنیاد پر ہندوئوں سے مختلف قوم ہیں۔ چوں کہ ان کا مذہب ہندوئوں کے مذہب سے الگ ہے اس لیے ان کی تہذیب اور تاریخ بھی ہندوئوں سے جدا ہے۔ قائداعظم نے کہا کہ دونوں قوموں کے ہیرو بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں، ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا ولن ہے، بابر اور اورنگ زیب مسلمانوں کے ہیرو ہیں مگر ہندوئوں کے ولن ہیں۔ شیواجی اور رانا پرتاب ہندوئوں کے ہیرو ہیں مگر مسلمانوں کے ولن ہیں۔ چوں کہ پاکستان کی بنیاد دوقومی نظریہ ہے اس لیے پاکستان کی بنیاد اسلام ہے۔ جو شخص اس حقیقت کو جھٹلاتا ہے وہ جھوٹا ہے، مکار ہے، شیطان ہے، سیکولر ہے، لبرل ہے۔
فواد چودھری نے کبھی اس حقیقت پر غور نہیں کیا ہوگا کہ پاکستان پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں بن رہا تھا اور تحریکِ پاکستان دلی، یوپی اور سی پی میں چل رہی تھی۔ اگر پاکستان کا مطلب لاالٰہ الا اللہ نہ ہوتا تو بھلا دلی، یوپی اور سی پی کے لوگوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے لوگوں کو ایک آزاد ریاست فراہم کرنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرتے؟ چوں کہ دلی، یوپی اور سی پی کے مسلمان ’’نظریاتی‘‘ تھے، چناں چہ انہوں نے پاکستان کے قیام کے لیے تن، من، دھن کی بازی لگادی۔ جن علاقوں میں پاکستان بن رہا تھا اُن علاقوں کا یہ حال تھا کہ 1946ء تک پنجاب پر یونینسٹ پارٹی کا قبضہ تھا، اور یونینسٹ پارٹی انگریزوں اور کانگریس کی اتحادی تھی۔ کے پی کے پر سرحدی گاندھی غفار خان غالب تھے، اور غفار خان گاندھی کے دوست اور کانگریس کے رہنما تھے، اور صوبہ سرحد میں سرحدی گاندھی کہلاتے تھے۔ انہیں پاکستان سے ایسی نفرت تھی کہ انہوں نے مرنے کے بعد پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہ کیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر دلی، یوپی اور سی پی کے لوگ تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیتے تو تخلیقِ پاکستان کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا، اور دلی، یوپی اور سی پی کے لوگ ’’سیکولر پاکستان‘‘ کے علَم بردار نہیں تھے، وہ ’’اسلامی پاکستان‘‘ کے علَم بردار تھے۔
فواد چودھری نے کبھی اس بات پر بھی غور نہیں کیا کہ اندرا گاندھی نے سقوطِ ڈھاکا کے بعد کہا کہ ہم نے آج دوقومی نظریے کو خلیجِ بنگال میں غرق کردیا ہے۔ اندرا گاندھی نے یہ بات اس لیے کہی کہ دوقومی نظریہ یا اسلام ہی وہ قوت تھا جس نے پاکستان کو جنم دیا۔ چناں چہ اندرا گاندھی نے دوقومی نظریے کی آڑ میں دراصل اسلام پر ہی حملہ کیا تھا۔ پاکستان سیکولر ریاست ہوتا تو اندرا گاندھی کو دوقومی نظریے یا اسلام پر حملے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔
فواد چودھری کا کہنا ہے کہ پاکستان اقلیت کے مفادات کے تحفظ کے لیے تخلیق کیا گیا۔ فواد چودھری نے یہ بات کہہ کر قائداعظم پر براہِ راست حملہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کانگریس کے رہنما برصغیر کے مسلمانوں کو ’’اقلیت‘‘ کہتے تھے تو قائداعظم سخت ناراض ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے ہمیں اقلیت نہ کہو، مسلمان اقلیت نہیں ’’قوم‘‘ ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی قومیت نسل، جغرافیے اور زبان سے نہیں بلکہ ان کے مذہب سے متعین ہوتی ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
مسلمانوں کو نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک ایک کرنے والی قوت صرف اسلام ہے۔ صرف اسلام۔