کیا سابق سوویت یونین میں یہ ممکن تھا کہ سوویت یونین کا کوئی کالم نویس لکھتا کہ سوشلزم کو افراد کا ذاتی معاملہ یا ذاتی فعل ہونا چاہیے، اور اس کا ریاست و سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے؟ کیا امریکا اور یورپ میں کوئی لکھنے والا یہ لکھ سکتا ہے کہ لبرل ازم کو صرف انفرادی زندگی کے دائرے تک محدود ہونا چاہیے، اور اسے اجتماعی یا ریاستی زندگی میں دخل اندازی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے؟ ظاہر ہے کہ ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ اگر کوئی شخص سوویت یونین میں سوشلزم کو ذاتی فعل قرار دیتا تو اُسے ’’مرتد‘‘ قرار دے کر یا تو مار دیا جاتا، یا سائبیریا بھیج دیا جاتا۔ امریکا اور یورپ میں بھی کوئی شخص لبرل ازم کو ذاتی زندگی تک محدود کرے گا تو اسے ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے کہ امریکا اور یورپ میں لبرل ازم کو ’’ریاستی مذہب‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ تماشا ہورہا ہے کہ جاوید چودھری جیسے کالم نگار اسلام کو ذاتی معاملہ اور ذاتی فعل قرار دینے اور اسے ریاستی امور سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں، اور بدقسمتی سے ان کی سرکوبی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ جاوید چودھری نے مذہب کو ذاتی فعل قرار دینے کا مطالبہ اپنے ایک حالیہ کالم میں کیا ہے۔ انہوں نے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز بیٹھیں اور آئین کو بڑا مان لیں۔ پورے ملک کو قانون کا پابند بنادیں اور پھر تین چار بڑے فیصلے کرلیں۔ آپ ایک دو انڈسٹریز کو ہر قسم کی ٹیکس ریلیکسیشن دے دیں۔ سوشل میڈیا دنیا کی جدید ترین سائنس ہے۔ آپ اس کی پوری انڈسٹری کو تیس سال کے لیے ہر قسم کے ٹیکس سے چھوٹ دے دیں۔ آپ فلم اور میوزک کی انڈسٹری کو بھی ٹیکس فری کردیں، اور آپ کنسٹرکشن انڈسٹری کو بھی دس سال کی ٹیکس ہالیڈے دے دیں، پورے ملک کا معاشی پہیہ چل پڑے گا۔ یہ جو ہم ہر چھے ماہ بعد اپنی پوری پالیسی بدل دیتے ہیں اس نے پورے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ آپ پلیز یہ بند کردیں۔ اور دوسرا مہربانی فرماکر مذہب کو ذاتی فعل قرار دے دیں۔ ملک میں کسی شخص کو دوسرے شخص پر اپنے عقائد تھوپنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ملک چل پڑے گا، ورنہ دو تین برس بعد اس ملک کا ہر شخص اپنے منہ سے کہے گا: کاش ہم بنگالی ہوتے، آپ اُس وقت سے ڈریں‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس، 21 دسمبر 2021ء)
اس سے پہلے وہ اپنے ایک اور کالم میں اسلام کو ذاتی معاملہ قرار دینے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ ان کا یہ کالم پریانتھا کمار کے بہیمانہ قتل کے حوالے سے تھا۔ اس کالم میں انہوں نے پریانتھا کے قتل کی ذمے داری اس بات پر ڈالی کہ ہم نے مذہب کو معاشرے اور ملک پر اثرانداز ہونے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ یعنی اسلام ریاستی امور میں دخیل ہے۔ ان کے بقول ہم مذہب کو معاشرے اور ریاست سے نہیں نکالیں گے تو وہی ہوگا جو ہورہا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کیا لکھا، ملاحظہ کیجیے:
’’ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن اس واقعے نے ہمارا رہا سہا بھرم بھی ختم کردیا، ہمارے ملک میں اب سری لنکن بھی قدم نہیں رکھیں گے، ہم انتہا پسند ثابت ہوتے چلے جارہے ہیں، بس اعلان باقی ہے، اور ہم اگر نہ سنبھلے تو یہ اعلان بھی ہوجائے گا۔ میں بار بار عرض کرتا رہا ہوں، میں آخری بار عرض کررہا ہوں کہ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہوتا ہے، اسے صرف ذات تک محدود رہنا چاہیے، یہ جب ملک اور معاشرے تک چلا جاتا ہے تو پھر اس کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو اِس وقت اس ملک میں نکل رہا ہے۔ لہٰذا اب بھی جاگ جائیں، اب بھی آنکھیں کھول لیں، ورنہ ہماری آنکھیں بچیں گی اور نہ ہم کھولنے کے قابل رہیں گے، اور ہم میں سے ہر شخص پٹرول کا کین اٹھاکر اپنا ہدف تلاش کررہا ہوگا اور اسے لاشوں میں اپنی پسند کی لاش نہیں مل رہی ہوگی‘‘۔
(روزنامہ ایکسپریس، 17 دسمبر 2021ء)
مذہبی اور تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کو سیکولر قرار دینے یا اسے سیکولر بنانے کے مطالبے کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے سب سے عظیم کرداری نمونے کی مثال رسول اکرمؐ ہیں۔ آپؐ نے ریاست قائم کی تو اس کی ہر چیز کو اسلام کے مطابق چلایا۔ یہ ریاست عدل کرتی تو مذہب کے مطابق۔ یہ ریاست معاشی نظام قائم کرتی تو مذہب کی روشنی میں۔ یہ ریاست جہاد کرتی تھی تو مذہب کے احکامات کے مطابق۔ اب سوال یہ ہے کہ زیر بحث مسئلے کے سلسلے میں اہلِ پاکستان رسول اکرمؐ کے اسوۂ حسنہ کو دیکھیں یا جاوید چودھری جیسے گمراہ شخص کے مطالبے پر توجہ دیں؟ رسول اکرمؐ کا عہد تمام ہوا تو خلفائے راشدین کا مبارک زمانہ آگیا۔ اس زمانے میں بھی ریاست مذہب کے ماتحت رہی، اور اس کے تمام امور مذہب کی روشنی میں چلائے گئے۔ ملوکیت عہدِ رسالتؐ اور عہدِ خلافت سے ایک بڑا انحراف تھی مگر اس دور میں بھی ریاست کے اکثر امور اسلام ہی کے مطابق چلائے گئے۔ مثلاً عدالتیں قرآن و سنت کی روشنی میں انصاف کرتی رہیں۔ زکوٰۃ اور عشر کا نظام قرآن و سنت کی روشنی میں چلتا رہا۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا عمل ہوتا رہا۔ اس تناظر میں بھی دیکھا جائے تو جاوید چودھری کا مطالبہ یا مشورہ پوری اسلامی تاریخ کے تجربے سے متصادم ہے۔ بعض سیکولر دانش ور کہتے ہیں کہ مذہب اور ریاست کی یکجائی کا تصور بیسویں صدی کی پیداوار ہے اور اس سے پہلے کے علما اور مسلم دانش ور ریاست و سیاست اور مذہب کی یکجائی کے قائل نہیں تھے۔ لیکن یہ بات بھی جھوٹ ہے۔ علما اور مسلمان دانش ور ہر عہد میں سیاست اور مذہب کی یکجائی کے قائل رہے ہیں۔ امام غزالیؒ نے ’’احیا العلوم‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ اسلامی معاشرے میں ریاست و سیاست مذہب کی پابند ہیں۔ ابنِ خلدون نے اپنے مشہورِ زمانہ مقدمے میں فرمایا ہے کہ ریاست و سیاست مذہب کی پابند ہیں۔ مجدد الف ثانیؒ نے اپنے زمانے میں ریاست کو مذہب کا پابند بنانے کے لیے عظیم جدوجہد کی۔ وہ جہانگیر کے خلاف کھڑے ہوگئے، اور جہانگیر کو بالآخر ان کی بات ماننی پڑی۔ شاہ ولی اللہ بھی مذہب و سیاست کی یکجائی اور سیاست پر مذہب کی بالادستی کے قائل تھے۔ اقبال نے صاف کہا ہے:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
جہاں تک مولانا مودودیؒ کا تعلق ہے تو ان کی پوری زندگی ریاست و سیاست پر مذہب کے غلبے کو ممکن بنانے پر صرف ہوگئی۔ اس تناظر میں بھی دیکھا جائے تو جاوید چودھری کے مطالبے یا مشورے کا چھوٹا اور لایعنی پن ظاہر ہے۔
ہوسکتا ہے جاوید چودھری پاکستان کے سوا کسی اور مسلم ریاست کا ذکر کریں اور کہیں کہ اس ملک میں سیاست کو مذہب سے الگ کرنے کی ضرورت ہے، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تو وہ یہ بات کہہ ہی نہیں سکتے۔ اس لیے کہ پاکستان تو وجود ہی میں اسلام کی وجہ سے آیا ہے۔ یہ مسلم تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے مذہب کی بنیاد پر ایک ریاست کا مطالبہ کیا، اور نہ صرف مطالبہ کیا بلکہ اس مطالبے کی بنیاد پر ایک تحریک برپا کی، اور بالآخر مذہب کے نام پر پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اب جاوید چودھری اسی پاکستان میں کھڑے ہوکر فرما رہے ہیں کہ مذہب کو ذاتی معاملہ یا ذاتی فعل قرار دیا جائے اور اسے معاشرے اور ریاست پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ ی
ہ مطالبہ دوقومی نظریے، تحریک پاکستان اور اُن لاکھوں قربانیوں پر تھوکنے کے مترادف ہے جو برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں دیں۔ موجودہ پاکستان کا قصہ یہ ہے کہ اس کا آئین اسلامی ہے، اور یہ آئین ریاست کے تمام امور پر اسلام کے غلبے کو یقینی بناتا ہے۔ اس اعتبار سے جاوید چودھری کا مطالبہ یا مشورہ خلافِ آئین بھی ہے۔ ایک جانب جاوید چودھری اپنے کالموں میں حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آئین کو بڑا مان لیں، اور دوسری جانب وہ مذہب کو انفرادی معاملہ قرار دے کر آئین پر حملہ بھی کرتے ہیں۔
جاوید چودھری کے کالم میں یہ تاثر بھی موجود ہے کہ پریانتھا کمار کا قتل ہو، یا اس جیسی دوسری وارداتیں… ان کا ریاستی امور میں اسلام کی مداخلت سے گہرا تعلق ہے، اور اگر ہم نے معاشرے اور ریاست پر پڑنے والے مذہب کے اثر کو نہ روکا تو معاشرے میں قتل و غارت گری نہ صرف یہ کہ برپا رہے گی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔ دیکھا جائے تو اصل صورتِ حال جاوید چودھری کے تجزیے کے برعکس ہے۔ ملک میں قتل و غارت گری ریاستی امور میں اسلام کی مداخلت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے ہورہی ہے کہ اسلام ریاستی امور میں عملاً کہیں دخیل ہی نہیں۔ جاوید چودھری بتائیں تو ہماری کون سی چیز اسلام سے ہم آہنگ ہے؟ کیا ہماری سیاست اسلام کے زیر اثر ہے؟ کیا ہمارے منتخب سیاسی نمائندوں کا کردار اسلام سے ہم آہنگ ہے؟ کیا ہماری معیشت اسلام کے مطابق چلائی جارہی ہے؟ کیا ہمارا نظامِ انصاف اسلام کے مطابق کام کررہا ہے؟ کیا ہمارا نظام تعلیم اسلامی ہے؟ کیا ہمارے ذرائع ابلاغ اسلام کے اصولوں کی پاسداری کررہے ہیں؟ کیا ہمارے اکثر گھروں اور تعلیمی اداروں کا ماحول اسلامی ہے؟ کیا ہمارے ڈراموں اور فلموں پر اسلام کا کوئی اثر ہے؟ کیا ہمارے اساتذہ اور پولیس والوں کی شخصیات اسلام سے ہم آہنگ ہیں؟ چونکہ ہماری ہر چیز خلافِ اسلام ہے اس لیے قرآن کی اصطلاح میں بحروبر میں فساد برپا ہوگیا ہے۔ جاوید چودھری خود آئے دن اپنے کالموں میں لکھتے رہتے ہیں کہ معاشرے میں بدعنوانی ہے، چوری ہے، ڈاکا ہے، ملاوٹ ہے، رشوت خوری ہے، چور بازاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں معاشرے میں اسلام کی موجودگی کا پتا دے رہی ہیں یا اس بات کا اشتہار بنی ہوئی ہیں کہ ہمارا معاشرہ مسلم معاشرہ تو ہے ’’اسلامی معاشرہ‘‘ نہیں ہے۔ مولانا رومؒ نے فرمایا ہے کہ اصل تہذیب ’’احترامِ آدمیت‘‘ ہے، اور حقیقی احترامِ آدمیت معاشرے میں اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اور خدا کا رشتہ مضبوط اور حسین بنتا ہے۔ مسلمان جتنا اچھا ’’عبد‘‘ ہوگا اتنا ہی اچھا ’’انسان‘‘ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے اچھے ’’عبد‘‘ موجود ہیں؟ اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ ہمارا معاشرہ خدا کو ماننے والوں کا معاشرہ تو ہے، خدا کی ماننے والوں کا معاشرہ نہیں ہے۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ جاوید چودھری معاشرے اور ریاست کو مذہب کے اثر سے نکال کر کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب عیاں ہے۔ ان کی منزل سیکولر معاشرہ اور سیکولر ریاست ہے۔ وہ اپنے کالموں میں اکثر سیکولر معاشروں اور سیکولر ریاستوں کے گیت گاتے نظر آتے ہیں، مگر بدقسمتی سے جاوید چودھری کو سیکولرازم کی خون آشامی اور انسانیت سوزی کی تاریخ معلوم نہیں۔ ایرک فرام مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات ہیں۔ انہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ’’The Anatomy of Human Destructiveness‘‘ میں لکھا ہے کہ مغربی اقوام نے گزشتہ پانچ سو سال میں 2600 سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں۔ ان جنگوں میں دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں۔ دو عالمی جنگوں میں 10 کروڑ انسان ہلاک اور 30 کروڑ افراد زخمی ہوئے۔ یہ جنگیں ’’مذہبی عالم اسلام‘‘ نے نہیں ’’سیکولر مغرب‘‘ نے ایجاد کیں۔ ایرک فرام نے کتاب میں ایک اور بہت اہم بات لکھی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انسان جیسے جیسے ’’جدید‘‘ یا ’’سیکولر‘‘ ہوتا گیا ہے، اس کی خون آشامی اور انسان سوزی بڑھتی گئی ہے۔ ایرک فرام نے لکھا ہے کہ ’’قدیم انسان‘‘ صرف اپنے دفاع میں کسی کو ہلاک کرتا تھا مگر جدید انسان کے لیے انسانوں کا قتل ایک ’’کھیل‘‘ ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ 30 سال کے دوران عراق اور افغانستان میں 25 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو مار ڈالا۔ یہ سیکولر امریکا ہے جس نے گوانتاناموبے اور ابوغرائب جیل ایجاد کی۔ چین اور روس کے انقلابات بھی سیکولر انقلابات تھے۔ چین کے انقلاب میں 4 کروڑ افراد ہلاک ہوئے۔ روس کے انقلاب میں 80 لاکھ لوگ مارے گئے۔ مثل مشہور ہے ’’بداچھا بدنام بُرا‘‘۔ چنگیز خان خون آشامی کے لیے بدنام ہے، مگر سیکولر مغرب کی خون آشامی کے سامنے اُس کی خون آشامی بچوں کا کھیل ہے۔