آپ کو خوبصورت انسان پسند ہے یا حسین انسان؟ آپ کو دبلا شخص بھاتا ہے یا پتلا شخص؟ آپ کہیں گے خوبصورت اور حسین میں اور دبلے اور پتلے انسان میں کوئی فرق ہی نہیں۔ اس لیے کہ خوبصورت اور حسین اور دبلا اور پتلا ہم معنی الفاظ ہیں۔ آپ کا خیال درست ہے لیکن اگر کسی کے دل میں مرض ہو تو پھر وہ لفظوں کے ساتھ کھیلنے لگتا ہے۔ جاوید احمد غامدی کے شاگرد رشید خورشید ندیم کا معاملہ یہی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک کالم میں ’’مذہبی ریاست‘‘ اور ’’اسلامی ریاست‘‘ میں فرق کیا ہے اور فرمایا ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست تو ہے مگر مذہبی ریاست نہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں کیا فرمایا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’قائد اعظم کوئی مذہبی ریاست نہیں چاہتے تھے۔ یہ بات انہوں نے واضح الفاظ میں کہہ رکھی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس باب میں مغالطہ کیا ہے اور کیوں ہے؟
قائد اعظم کا تصور ریاست ایک پامال موضوع ہے۔ اس پر جو کچھ لکھا جانا چاہیے تھا میرا خیال ہے اس سے زیادہ لکھا جاچکا۔ اس کے باوصف ہر سال 11 اگست یا 25 دسمبر کو یہ بحث پھر زندہ ہوجاتی ہے۔ متعدد بار پیش کیے گئے دلائل کو ایک بار پھر دہرایا جاتا ہے لیکن اختلاف رائے ختم نہیں ہوتا۔ اس سال بھی یہی ہوا۔ قائداعظم کی سالگرہ پر فواد چودھری صاحب نے ایک تقریر کی اور یہ بحث پھر زندہ ہوگئی۔ میں بھی اس موضوع پر شاید کوئی نئی بات نہ کہہ سکوں، تاہم مجھے خیال ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کی دو خاص وجوہات ہیں اگر ان کو سمجھ لیا جائے تو یہ مغالطہ بڑی حد تک دور ہوسکتا ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ مذہبی ریاست اور اسلامی ریاست کو باہم مترادف اصطلاحیں سمجھا جاتا ہے، درآں حالیکہ، یہ دو مختلف اصطلاحیں ہیں۔ مذہبی ریاست انگریزی کے لفظ تھیوکریسی (Theocracy) کا ترجمہ ہے۔ اس کا ایک معروف مطلب ہے ’’مذہبی طبقے کی حکومت‘‘۔ اس اصطلاح نے مغرب میں جنم لیا اور وہاں اس سے کلیسا کی حکومت مراد لی جاتی ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’’پاپائیت‘‘ کیا گیا ہے۔ اگر ہم اسے مسلم معاشرے کے پس منظر میں سمجھیں تو اس سے مراد ہوگی ’’علما یا مذہبی طبقے کی حکومت‘‘۔ قائداعظم نے ان معانی کو سامنے رکھتے ہوئے واضح لفظوں میں یہ کہا کہ پاکستان مذہبی ریاست (Theocratic State) نہیں ہوگا۔ قائد اعظم نے یہ بات بحیثیت گورنر جنرل کہی۔ فروری 1948ء میں امریکی عوام کے لیے انہوں نے ایک ریڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے ریاست سے متعلق مختلف امور پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔ آئین کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ آئین ساز اسمبلی کو ابھی یہ مرحلہ طے کرنا ہے مگر اس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ یہ جمہوری ہوگا اور اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔ ’’اسلام نے ہمیں وحدتِ آدم، مساوات اور انصاف کا درس دیا ہے۔ پاکستان کسی صورت میں بھی ایک مذہبی ریاست نہیں ہو گا، اِن معنوں میں کہ اس پر کوئی مذہبی طبقہ الٰہی مشن کے ساتھ حکمرانی کرے۔ یہاں وہ شہری بھی بستے ہیں جو مسلمان نہیں، جیسے ہندو، مسیحی اور پارسی۔ انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے شہریوں کو میسر ہیں اور وہ پاکستان کے معاملے میں اپنا کردار ادا کریں گے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 4 جنوری 2022ء)
پاکستان میں اس بحث کا ایک تاریخی اور علمی پس منظر ہے۔ اصل میں پاکستان کا سیکولر، لبرل اور مغرب زدہ طبقہ یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنے۔ چناں چہ یہ طبقہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں یہ کہتا رہتا ہے کہ قائداعظم مذہبی انسان نہیں تھے۔ وہ سیکولر تھے اور وہ پاکستان کو بھی سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ لیکن ہم نے اپنی آنکھوں سے قائداعظم کی ایسی سو سے زیادہ تقاریر، بیانات اور انٹرویوز دیکھے ہیں جس میں انہوں نے اسلام، قرآن، سیرت طیبہ، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ پر کلام کیا ہے اور کسی ابہام کے بغیر تواتر سے یہ کہا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا۔ پاکستان میں اسلام غالب ہوگا۔ مگر پاکستان کا سیکولر، لبرل اور مغرب زدہ طبقہ ان تمام چیزوں کو نظر انداز انداز کرکے قائداعظم کی 11 اگست 1948ء کی تقریر کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ اس تقریر میں قائداعظم نے فرمایا ہے کہ ’’پاکستان بن گیا ہے، اور اب مسلمان اپنی مساجد، ہندو اپنے مندروں اور عیسائی اپنے گرجوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ قائداعظم کے سوانح نگار ہیکٹر بولیتھو نے اپنی کتاب میں قائداعظم کی اس تقریر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس تقریر میں الفاظ تو جناح ہی کے ہیں مگر اس تقریر کی روح رسول اکرمؐ کے خطبہ حجتہ الوداع سے ماخوذ ہے۔ کمال ہے ایک مغربی انسان کو اس تقریر کی روح مذہبی نظر آتی ہے اور پاکستان کے سیکولر، لبرل اور مغرب زدہ طبقات کو قائداعظم کی اس تقریر میں سیکولر ازم کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ خیر یہ تو ایک طویل جملہ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ خورشید ندیم نے مذہبی ریاست اور اسلامی ریاست میں فرق کرکے بدنیتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں تھیوکریسی اور اسلامی ریاست میں فرق کیا ہے۔ حالاں کہ اصل بات یہ ہے کہ Theo کا مطلب خدا ہے۔ چناں چہ تھیوکریسی کا اصل مفہوم ایسی حکومت ہے جو خدا کے احکامات کے تحت چلائی جاتی ہو۔ تاہم خورشید ندیم کا کہنا ہے کہ تھیوکریسی کی اصطلاح مغرب سے آئی ہے اور مغرب میں تھیوکریسی کا مطلب پاپائیت اور اسلامی تناظر میں اس کے معنی ’’علما کی حکومت‘‘ ہے۔ خورشید ندیم کے مطابق اسلام میں علما کی حکومت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ خورشید ندیم نے اپنے کالم میں دعویٰ کیا ہے کہ مولانا مودودی بھی تھیوکریسی کے قائل نہ تھے۔
تجزیہ کیا جائے تو کسی بھی مسلم ریاست کے حوالے سے اصل سوال یہ نہیں ہے کہ اس پر علما کی حکومت ہوگی یا عنان اقتدار عام لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی بلکہ مسلم ریاست کے حوالے سے اصل سوال یہ ہے کہ وہاں اسلام غالب ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اگر مسلم ریاست میں اسلام غالب ہوگا تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مسلم ریاست میں علما حکمران ہوں گے یا عام پڑھے لکھے لوگ اقتدار کے مالک ہوں گے۔ جہاں تک قائداعظم کا تعلق ہے تو وہ پاکستان پر صرف اسلام ہی کو غالب دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ پاکستان پر سیکولرازم، لبرل ازم یا سوشلزم کی حکمرانی نہیں چاہتے تھے مگر خورشید ندیم اتنی بڑی اور واضح بات کا ذکر نہیں کرتے، وہ الفاظ سے کھیلتے ہوئے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستان مذہبی ریاست ہے یا اسلامی ریاست؟ وہ اس بات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالنا نہیں بھولتے کہ قائداعظم تھیوکریسی یا علما کی حکومت کے خلاف تھے۔ ہم عرض کرچکے کہ اس تناظر میں تھیوکریسی کا اصل مفہوم علما کی حکومت نہیں بلکہ خدائی احکامات کی حکومت ہے۔ اور قائداعظم جب اسلام کے غلبے کی بات کرتے تھے تو وہ دوسرے الفاظ میں خدائی احکامات کی بالادستی کی ہی بات کرتے تھے۔ چناں چہ قائداعظم بھی دراصل تھیوکریسی کے قائل تھے۔ البتہ وہ عیسائیت کی تاریخ کے تناظر میں تھیوکریسی کو کسی مذہبی طبقے کی بالادستی کے مترادف سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اسلامی ریاست کا مطلب احکامات خداوندی یا دوسرے الفاظ میں قرآن و سنت کی بالادستی ہے، کسی مذہبی طبقے کے بالادستی نہیں۔ چناں چہ اصولی اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام میں مذہبی ریاست اور اسلامی ریاست ہم معنی اصطلاحیں ہیں اور ان میں سے ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ویسے پوری انسانیت کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اقتدار ہمیشہ کسی نہ کسی طبقے کی بالادستی کی علامت رہا ہے۔ بادشاہت کے ادارے نے ہزاروں سال حکومت کی ہے اور بادشاہت ایک خاندان اور اس خاندان سے وابستہ افراد کی بالادستی کے سوا کچھ نہیں تھی۔ بادشاہ جب تک زندہ رہتا حکومت کرتا رہتا، بادشاہ مرجاتا تو اس کا بیٹا، بیٹی یا بھائی اس کی جگہ لے لیتا۔ ہندوازم کی چھے ہزار سالہ تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اس تاریخ میں ہمیشہ برہمن اور شتریوں کے طبقات بالادست رہے۔ آج بھی ہندوستان کی سیاست پر اعلیٰ ذات کے ہندو غالب ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہندوستان میں ’’جمہوریت‘‘ نہیں ’’تھیوکریسی‘‘ بالادست ہے۔ جمہوریت ہندوستان کی سیاست کا صرف ’’ظاہر‘‘ ہے۔ ہندوستان کی سیاست کا باطن ’’تھیوکریسی‘‘ ہے۔ ہندوستان میں تھیوکریسی کا تصور اس لیے بھی اہم ہوگیا ہے کہ اب بی جے پی بھارت کو ایک ’’ہندو ریاست‘‘ بنانے کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے لیے ہندوستان کا سیکولر آئین ایک بوجھ ہے اور وہ اس بوجھ کو جلد از جلد اپنے سر سے اُتار پھینکنا چاہتی ہے۔ سوویت یونین اور چین کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ سوویت یونین اور چین کا ’’تھیو‘‘ سوشلزم تھا اور ہے۔ سوویت یونین جب تک تحلیل نہیں ہوا اس پر صرف کمیونسٹ پارٹی حکومت کرتی رہی۔ یہ ایک طبقے کی بالادستی تھی۔ چین معیشت کی حد تک سرمایہ دار بن چکا ہے مگر چین پر آج بھی کمیونسٹ پارٹی کا غلبہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے غلبے ہی نے سوویت یونین کو سپرپاور بنایا تھا اور کمیونسٹ پارٹی کے غلبے ہی نے چین کو سپر پاور بنایا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس طبقے کی بالادستی نہ صرف یہ کہ عالمی سیاست کی ایک ’’نارمل بات‘‘ ہے بلکہ ایک طبقے کی بالادستی ریاست کو سپر پاور بھی بنا سکتی ہے۔
خورشید ندیم مغربی جمہوریت کے عاشق ہیں اور اسے مذہب سے زیادہ یا کم از کم اس کے برابر اہمیت دیتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کی جمہوریت بھی جمہوریت کہاں ہے وہ بھی تھیوکریسی یا ایک طبقے کی حکومت ہے۔ امریکا کی سیاست پر سی آئی اے اور پینٹاگون کا غلبہ ہے۔ اس سے نیچے امریکا کی سیاست سرمایہ داروں کی مٹھی میں ہے۔ مغرب کی بڑی کارپوریشنیں امریکی سیاست میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ خالص سیاسی سطح پر بھی امریکی سیاست بالادست طبقات کی نمائندہ ہے۔ یہی معاملہ مغرب کے دیگر بڑے ملکوں کا ہے۔ اس لیے اقبال نے مغربی جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا ہے۔دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
اقبال نے ایک اور شعر میں مغرب کی جمہوریت پر ابلیس کے ذریعے حملہ کرایا ہے۔ اقبال نے ابلیس کی زبان میں فرمایا ہے۔
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کی سیاست پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ ہے۔ چناں چہ پاکستان کی جمہوریت ہمیشہ ہر حال میں ’’تھیوکریسی‘‘ یا ایک طبقے کی حکومت ہوتی ہے۔ خورشید ندیم کے سامنے ہے کہ نواز لیگ پر شریف خاندان کا قبضہ ہے۔ پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کی مٹھی میں ہے۔ تحریک انصاف عمران خان کی جیب میں پڑی ہوئی ہے۔ چناں چہ میاں نواز شریف جب بھی اقتدار میں آتے ہیں وہ تھیوکریسی کی علامت کی حیثیت سے ابھرتے ہیں۔ یہی معاملہ بھٹو خاندان کا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ہمیشہ ایک طبقے کی بالادستی کی علامت ثابت ہوئی ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ اگر اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان پر علما کی حکومت ہوجائے گی تو ایسا کون سا غضب ہوجائے گا؟
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ اسلام میں تقوے اور علم کی اہمیت بنیادی، اساسی اور غیر معمولی ہے۔ اسلام میں انسان کی فضیلت نہ نسل میں ہے۔ نہ رنگ میں ہے۔ نہ جغرافیے میں ہے۔ نہ زبان میں ہے۔ نہ سرمائے میں ہے، بلکہ اسلام میں انسان کی فضیلت یا تو تقوے میں ہے یا علم میں ہے۔ اسلام میں علم کی اہمیت یہ ہے کہ قرآن میں ایمان کے بعد سب سے زیادہ زور علم پر دیا گیا ہے۔ کبھی یہ کہہ کر کہ تم تفکر سے کام کیوں نہیں لیتے۔ کبھی یہ فرماکر کہ تم تدبر سے کام کیوں نہیں لیتے۔ کبھی یہ کہہ کر کہ علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا علم مومن کی گمشدہ میراث ہے، جہاں سے ملے حاصل کرو۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ جب اہل دنیا، دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ جاتے ہیں۔ وہی ان کے ورثا میں تقسیم ہوتا ہے۔ مگر جب کوئی نبی دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ ورثے کے طور پر علم چھوڑ کر جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام میں علم رسول اکرمؐ کا ورثہ ہے۔ چناں چہ جو شخص اس ورثے کو اختیار کرتا ہے وہ رسول اکرمؐ کے نقش قدم پر چلتا ہے۔ ان حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست میں علما کی اہمیت کسی بھی طبقے سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے کہ وہ بیک وقت تقوے اور علم کا نمونہ ہوتے ہیں۔ چناں چہ اسلامی ریاست میں حکمرانی کا جیسا حق علما کا ہے معاشرے کے کسی اور طبقے کا نہیں ہے۔ یہ علما کا طبقہ ہی ہے جس نے دین کو زندہ رکھا ہے۔ رسول اکرمؐ کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمر فاروقؓ، سیدنا عثمان غنیؓ اور سیدنا علیؓ ریاست کے سربراہ بنے اور ان کے سربراہ بننے کی وجہ ان کا تقویٰ اور ان کا علم تھا۔ امام غزالیؒ ایک فرد تھے مگر عالم دین تھے۔ انہوں نے تن تنہا یونانی فلسفے کے چیلنج کا مقابلہ کیا۔ شاہ ولی اللہ ایک فرد تھے مگر عالم تھے۔ انہوں نے تن تنہا برصغیر میں قرآن و حدیث کے علم کو زندہ کیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک فرد تھے مگر عالم تھے اور انہوں نے تن تنہا دین کے احیا کے لیے تحریک برپا کی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم معاشرے میں علما سے بڑھ کر اقتدار اعلیٰ کی علامت کوئی نہیں ہوسکتی۔ بلاشبہ ہمارے زمانے تک آتے آتے علما کے طبقے میں کمزوریاں در آئی ہیں۔ اب علما میں تقوے اور علم کا وہ معیار نہیں رہا جو کسی زمانے میں تھا۔ اب علما میں دنیا پرستی در آئی ہے۔ لیکن علما کا حال آج بھی نواز شریف، بلاول زرداری اور عمران خان سے بہتر ہے۔ چناں چہ علما اب بھی اقتدار کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔