دنیا کے ہر ملک میں صحافت قومی بیانیے کے ساتھ چلتی ہے۔ امریکا نے افغانستان کے خلاف جارحیت کی تو اس کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ نائن الیون میں ملاعمر، طالبان یا افغانستان کا کوئی کردار ہے مگر امریکی صحافت امریکا کے قومی بیانے کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ امریکا نے عراق پر الزام لگایا کہ اس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ امریکا کے پاس اس بات کا بھی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا مگر امریکی صحافت نے جارج بش کی ہاں میں ہاں ملائی اور عراق پر امریکی حملے کی حمایت کی۔ ہندوستان میں کسی اخبار کی جرأت نہیں ہے کہ وہ بی جے پی کے ہندوتوا کے فلسفے کی مخالفت کرے۔ مگر پاکستان میں یہ منظر عام ہے کہ ہماری صحافت قومی بیانیے کے خلاف کھڑی ہوجاتی ہے۔ قومی بیانیے یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا لیکن ہمارے اخبارات میں تواتر کے ساتھ ایسے مضامین اور کالم شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں پاکستان کی بنیاد کو سیکولر باور کرایا جاتا ہے۔ ہمارا قومی بیانیہ یہ ہے کہ ہندوستان پاکستان کا دشمن نمبر ایک ہے مگر پاکستان کے بہت سے صحافی ہندوستان کی ساری پاکستان دشمنی کو نظر انداز کرکے قوم کو بتارہے ہوتے ہیں کہ ہندوستان سے پاکستان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایاز امیر نے اپنے ایک حالیہ کالم میں حد کردی۔ انہوں نے کیا لکھا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’تاریخ سے اتنے نابلد ہم کیوں ہیں؟ ہزار سال سے برصغیر کے علاقوں کو خطرہ مغرب سے رہا ہے۔ تمام جنگجو وہاں سے آئے، سکندر اعظم، ترک، افغان اور امیر تیمور، سب کے سب نے ہندو کش کے پہاڑ عبور کیے اور ہندوستان میں داخل ہوئے۔ جن علاقوں پہ پاکستان مشتمل ہے ان کو کبھی مشرق سے یعنی بھارت کے علاقوں سے خطرہ لاحق نہیں ہوا، لیکن ہماری دفاعی توپوں کا رخ مشرق کی طرف ہے کیوں کہ ہمارے فیصلہ سازوں نے شروع دن سے اپنے آپ کو اس بات پر قائل کرلیا تھا کہ ہندوستان کے عزائم خطرناک ہیں اور وہ ہمیں تباہ کرنا چاہتا ہے۔ ہندوستان پہ حملے مسلمانوں نے کیے۔ مسلمان بادشاہتیں آٹھ سو سال تک ہندوستان پہ قائم رہیں۔ ہندوستان کو تقسیم ہم نے کروایا اور برصغیر کی زمین پر ایک علٰیحدہ ریاست قائم کی لیکن خوف کی چادر اوڑھ لی کہ ہندو پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔
ہم اپنے آپ کو بہادر سمجھتے تھے اور ہندوئوں کو بزدل۔ 1965ء کی جنگ تک ہم اس بات پہ فخر کرتے تھے کہ ایک مسلمان دس ہندوئوں کے برابر ہے۔ 1947ء میں ہندوستان کی کل آبادی چالیس کروڑ تھی جس میں مسلمانوں کی آبادی دس کروڑ تھی، یعنی چار اور ایک کا تناسب تھا، ایک مسلمان کے مقابلے میں چار ہندو، لیکن تحریک پاکستان کی بنیاد اس خوف پر مبنی تھی کہ ہندوئوں کی اکثریت آئی تو مسلمان کچل دیے جائیں گے۔ دس کروڑ کی آبادی کو باور کرایا گیا کہ علٰیحدہ ریاست نہ بنی تو مسلمان تباہ ہوجائیں گے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان ان علاقوں پہ قائم ہوا جہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ان علاقوں میں تو ہندوئوں کے حوالے سے خوف کا سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ صوبہ سرحد میں پٹھان اکثریت میں تھے، بلوچستان میں بلوچ، سندھ میں سندھی مسلمان اور پنجاب اور بنگال میں مسلمان پنجابی اور بنگالی۔ خطرہ ہوسکتا تھا تو ان مسلمانوں کو جو ہندوئوں کے مقابلے میں اقلیت میں تھے۔ ان کو ہم نے ہندوستان میں ہی چھوڑ دیا اور ریاستی قلعہ وہاں بنا ڈالا جہاں کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جب علٰیحدہ ریاستی قلعہ بن گیا تو ہم نے یہ ڈھول پیٹنا شروع کردیا کہ اس قلعے کو ہندوستان سے خطرہ ہے۔ نتیجتاً ہم ایک ایسی اسلحے کی دوڑ میں پڑ گئے جو ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ایٹمی قوت بھی ہم بن گئے لیکن دل سے خوف نہ گیا۔ آنکھ بند کرکے کسی دفاعی تجزیہ کار پہ ہاتھ رکھیں تو وہ بڑبڑا اٹھے گا کہ ہمیں ہندوستان سے خطرہ ہے۔ بنگلادیش کے رہنے والے اکثریت میں مسلمان ہیں۔ ان کو ہندوستان سے کوئی ڈر نہیں، ہمارے یہاں کے باسیوں کو مگر ہندوستان سے ڈر لگا رہتا ہے‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 12 جنوری 2022ء)
ہندوازم کی تاریخ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر جذب کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہندوستان آریوں کا ملک نہیں تھا۔ آریہ وسطی ایشیا سے آئے تھے۔ ہندوستان کے مقامی باشندے دراوڑ تھے مگر ہندوازم انہیں کھا گیا۔ بدھ ازم برہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت تھا مگر ہندوازم نے بدھ ازم کی ساری انقلابیت ہوا کردی اور اسے ایسا بنادیا کہ آج بدھ ازم ہندوازم کی ایک شاخ محسوس ہوتا ہے۔ سکھ ازم ہندوازم سے مختلف تھا مگر ہندو ازم نے سکھوں کو اپنے اندر اس طرح جذب کرلیا کہ سکھ ہندوازم کا حصہ محسوس ہوتے ہیں۔ یہ صرف مسلمان ہیں جو ہندوازم سے اپنے تشخص کو بچانے میں کامیاب رہے مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کی۔ اقتدار کی طاقت ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے ہاتھ میں نہ ہوتی تو مسلمانوں کا حال بھی ویسا ہوتا جو دوسری اقوام کا ہوا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہندوازم ہر مذہب کے لیے ہمیشہ سے ایک خطرہ رہا ہے۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈپر موجود ہے کہ ہندو مسلم کشمکش نے مسلم برصغیر کی تین بڑی شخصیتوں کے خیالات میں انقلاب برپا کیا۔ سرسید ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں کہا کرتے تھے مگر جب سرسید نے دیکھا کہ ہندوئوں کی سیاسی قیادت فارسی اور اردو کی بیخ کنی کررہی ہے اور ہندی کو فروغ دے رہی ہے تو انہوں نے مسلمانوں کو کانگریس میں جانے سے روکا۔ اقبال کسی زمانے میں ایک قوم پرست شاعر تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں مہاتما بدھ کو سراہا ہے۔ شری کرشن کی تعریف کی ہے اور رام کو امام ہند کہا ہے مگر پھر اقبال کے خیالات میں انقلاب برپا ہوا اور وہ قوم پرست شاعر کے بجائے شاعر اسلام بن کر ابھرے۔ محمد علی جناح کبھی کانگریس کے رہنما تھا اور سروجنی نائیڈو انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہتی تھیں۔ مگر قائداعظم نے فرمایا ہے کہ 1930ء کی گول میز کانفرنس میں گاندھی اور نہرو کا رویہ دیکھ کر انہیں یقین ہوگیا کہ ہندو اور مسلمان ساتھ نہیں رہ سکتے۔ چناں چہ قائداعظم دیکھتے ہی دیکھتے ایک قومی نظریے کے بجائے دو قومی نظریے کے علمبردار بن کر ابھرے۔ قائداعظم نے تاریخ کے ایک مرحلے پر دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کے نام سے ایک الگ مملکت کا مطالبہ کیا۔
ہندوئوں کی پاکستان دشمنی مطالبۂ پاکستان کے ساتھ شروع ہوگئی۔ ہندو قیادت کو پاکستان ’’تصور‘‘ کی سطح پر بھی قابل قبول نہیں تھا۔ چناں چہ انہوں نے طویل عرصے تک قیام پاکستان کے مطالبے کو تسلیم نہ کیا۔ لیکن جب برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت مطالبہ پاکستان کی پشت پر کھڑی ہوگئی تو ہندو قیادت کو مطالبہ پاکستان تسلیم کرنا پڑا۔ مگر یہاں سے ہندوستان نے پاکستان کے خلاف نئی سازشوں کا آغاز کیا۔
حیدر آباد دکن کے نظام نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کردیا تھا اور ہندوستان کو اس اعلان کے سامنے سر تسلیم خم کردینا چاہیے تھا اس لیے کہ ہندوستان نے ہندوستان کی ریاستوں کو یہ حق دے دیا تھا کہ وہ چاہیں تو ہندوستان کے ساتھ الحاق کرلیں اور چاہیں تو پاکستان میں شامل ہوجائیں۔ لیکن ہندوستان نے حیدر آباد میں فوج کشی کردی اور اس پر بزور طاقت قبضہ کرلیا۔ جونا گڑھ بھی پاکستان کا حصہ تھا مگر ہندوستان نے وہاں بھی فوج داخل کردی۔ کشمیری پاکستان کا حصہ بننا چاہتے تھے مگر ہندوستان نے کشمیر پر بھی فوج کے ذریعے قبضہ کرلیا۔ ہندوستان تقسیم ہوا تو اس کے اثاثے بھی تقسیم ہوئے۔ پاکستان کو نقد رقم کی صورت میں 40 کروڑ 90 لاکھ روپے ملے مگر ہندو قیادت نے پاکستان کو اس کا حصہ دینے سے انکار کردیا۔ چناں چہ گاندھی کو اس سلسلے میں بھوک ہڑتال کرنی پڑی۔ ہندوئوں کی مسلم دشمنی کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ ایک انتہا پسند ہندو نتھورام گوڈسے نے جدید ہندوستان کے سب سے بڑے رہنما گاندھی کو اس لیے قتل کردیا کہ انہوں نے قیام پاکستان کے مطالبے کو قبول کرلیا۔
ہندو قیادت پاکستان کے قیام کو تو نہ روک سکی مگر اس نے تقسیم کے وقت مسلم کش فسادات کرکے دس لاکھ مسلمانوں کو شہید کرادیا اور پاکستان کی قیمت کو بہت بڑھادیا۔ ہندو خود بزدل تھے وہ مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ انہوں نے مسلمانوں کے قتل عام کے سلسلے میں سکھوں کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ قائداعظم پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات کو امریکا اور کینیڈا کے تعلقات کی طرح استوار کرنا چاہتے تھے مگر ہندو قیادت نے دس لاکھ مسلمانوں کو قتل کرکے پاکستان کی آزادی کو خون سے سرخ کردیا۔ ہندو قیادت ہزار کوشش کے باوجود قیام پاکستان کا راستہ نہ روک سکی مگر اب اس کو توقع تھی کہ قائداعظم پاکستان کو چلا نہیں سکیں گے اور چھے آٹھ ماہ بعد آکر ہندو قیادت سے کہیں گے کہ ہمیں ایک بار پھر ہندوستان کا حصہ بنالو۔ لیکن بدترین حالات کے باوجود پاکستان قائم رہا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں قائداعظم یا لیاقت علی خان لے کر نہیں گئے تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو تھے جو کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے۔ اقوام متحدہ نے نہ صرف یہ کہ کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا بلکہ حق خودارادی کی بنیاد پر اس کے حل کی بھی نشاندہی کی۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہو جاتا تو پاک بھارت تعلقات ’’نارمل‘‘ ہوجاتے مگر ہندوستان اپنے وعدوں سے مکر گیا اور وہ آج تک کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادی دینے پر آمادہ نہیں۔ وہ کشمیر میں اب تک ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کرچکا ہے۔ کشمیر میں دس ہزار سے زیادہ کشمیری خواتین کی عصمتیں تار تار ہوچکی ہیں۔ ہزاروں لوگ لاپتا ہیں۔ ہزاروں جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہندوستان نے کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ہی ختم کردیا ہے۔
سقوط ڈھاکا مغربی پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت کے شرمناک کردار کا نتیجہ تھا مگر مشرقی پاکستان کی صورت حال سے بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بھارت نہ ہوتا تو مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ ہوتا نہ ہمارے 90 ہزار فوجی بے شرمی کے ساتھ بھارت کے آگے ہتھیار ڈالتے۔ سقوط ڈھاکا پاکستان کے لیے ایک بہت بڑی ہزیمت تھی مگر ہندو قیادت اس ہزیمت پر مطمئن نہ رہی۔ چناں چہ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی پاکستان میں ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا گیا ہے اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا گیا ہے۔ دو قومی نظریہ اسلام تھا۔ چناں چہ اندرا گاندھی نے دو قومی نظریے کی آڑ میں اسلام کو خلیج بنگال میں غرق کرنے کی بات کی۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ سیاچن پر بھارت نے قبضہ کیا۔ یہ قبضہ پاکستان کے کسی اشتعال کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ قبضہ بھارت کی پاکستان دشمنی کا حصہ تھا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ کراچی میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را نے ایم کیو ایم کی پشت پناہی کی۔ اس نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو تربیت دی۔ ایم کیو ایم کو اسلحہ دیا۔ پیسے دیے اور کراچی کو بدامنی کی نذر کیا۔ 1990ء کی دہائی میں صورت حال یہ تھی کہ کراچی کے حالات کو کشمیر کی صورت حال سے منسلک کیا جاتا تھا۔ یہ بھارت ہے جس نے بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ بھارت کا جاسوس کلبھوشن یادو تسلیم کرچکا ہے کہ بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ یہ بھارت ہی ہے جس نے کئی دریائوں میں پانی روک کر پاکستان کو بنجر کرنے کی سازش رچائی ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان پر جو پابندیاں لگائی ہیں ان کی پشت پر امریکا اور یورپ کے علاوہ بھارت بھی ہے۔ فلموں کو تفریح کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے مگر بھارت نے اپنی فلموں کو پاکستان فتح کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے اس حوالے سے ایک موقعے پر کہا تھا کہ ہمیں پاکستان پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ہماری فلمیں پہلے ہی پاکستان کو فتح کرچکی ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود ایاز امیر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ ایاز امیر کو معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت کی کئی ریاستوں کے تعلیمی اداروں میں ایسا نصاب پڑھایا جارہا ہے جس میں پاکستان ہی نہیں بنگلادیش کو بھی اکھنڈ بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔