اقبال نے ایک صدی قبل مسلمانوں سے شکایت کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
اقبال کہہ رہے تھے کہ مسلمانو تمہیں کتاب سے کوئی فیض پہنچنے والا نہیں کیوں کہ تم کتاب پڑھتے تو ہو اسے سمجھتے نہیں ہو۔ اس شعر کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اقبال مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں کتاب سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں کیوں کہ تم کتاب پڑھتے تو ہو مگر کتاب پڑھ کر ایک اور کتاب لکھنے کے قابل نہیں ہو۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے اقبال کا یہ شکوہ بہت پرانا ہوگیا ہے اس لیے کہ اب صورت حال یہ ہے کہ ہمارے یہاں کتاب لکھنے والے کیا کتاب پڑھنے والے بھی نایاب ہوگئے ہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہمارے درمیان اخبار اور رسالے پڑھنے والے بھی موجود نہیں۔ ہمارے ملک کی آبادی 22 کروڑ ہے مگر پاکستان میں شائع ہونے والے تمام اخبارات و رسائل کی مجموعی اشاعت بیس پچیس لاکھ سے زیادہ نہیں۔ جہاں تک کتابوں کی اشاعت کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں معروف شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی نے پچیس سال پہلے ایک ٹیلی وژن پروگرام میں عجیب واقعہ سنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ چینی ادیبوں کا ایک وفد احمد ندیم قاسمی سے ملنے آیا تو دوران گفتگو یہ سوال بھی اُٹھا کہ چین میں ایک کتاب کتنی تعداد میں شائع ہوتی ہے۔ چینی وفد کے سربراہ نے بتایا کہ ہمارے یہاں کوئی کتاب بھی 50 ہزار سے کم تعداد میں شائع نہیں ہوتی۔ چینی وفد کے سربراہ نے احمد ندیم قاسمی سے پوچھا کہ اور پاکستان میں ایک کتاب کتنی تعداد میں شائع ہوتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے بقول انہوں نے قومی عزت کے لیے چینی وفد سے جھوٹ بولا اور کہا کہ ہمارے یہاں ایک کتاب عموماً 5 ہزار کی تعداد میں شائع ہوتی ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ تھی کہ اس وقت ہمارے یہاں ایک کتاب ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہورہی تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اکثر کتابیں پانچ سو کی تعداد میں شائع ہورہی ہیں۔ یہی صورت حال رہی تو ایک وقت وہ آئے گا جب کتاب ڈھائی سو کی تعداد میں شائع ہوگی۔ شاید اس کے بعد وہ وقت بھی آئے کہ کتاب شائع ہونا بند ہوجائے۔
ہماری تہذیب میں ایک وقت وہ بھی تھا کہ کسی پڑھے لکھے مسلمان کے گھر کا تصور کتب خانے کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ ہر پڑھے لکھے مسلمان کے گھر میں ہزاروں کتابیں ہوتی تھیں۔ معاملہ یہ تھا کہ کسی گھر میں ہزاروں، کسی گھر میں سیکڑوں اور کسی گھر میں درجنوں کتابیں ہوتی تھیں مگر ہوتی ہر پڑھے لکھے شخص کے گھر میں تھیں۔ مگر اب ہمارا یہ حال ہے کہ ہم کروڑ، دو کروڑ، دس کروڑکا گھر بناتے ہیں۔ ان گھروں میں ایک دو، تین اور کہیں کہیں چار چار پانچ پانچ گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ اس گھر میں زندگی کی ہر آسائش موجود ہوتی ہے مگر اس گھر میں نہیں ہوتی تو لائبریری نہیں ہوتی۔ کتاب سے ہماری لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ ہم پانچ ہزار روپے کا جوتا خریدتے ہیں اور اسے سستا سمجھتے ہیں لیکن دو سو روپے کی کتاب خریدتے ہیں اور اسے مہنگا کہتے ہیں۔ ایک روز ہم اپنے ایک دوست سے ملنے گئے تو اخبار دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہم نے اخبار طلب کیا تو دوست نے بتایا کہ اس نے اخبار خریدنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے وجہ پوچھی تو اس نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اخراجات کو اس کا سبب بتایا۔ ہم اپنے دوست کے پاس ڈیڑھ دو گھنٹے بیٹھے۔ اس نے اس عرصے میں ہمیں پیٹیز کھلائے۔ چائے پلائی۔ پھر آئس کریم بھی کھلائی۔ ان تمام چیزوں پر اس نے بیٹھے بیٹھے تین چار سو روپے خرچ کردیے مگر یہ سب کرتے ہوئے اسے مہنگائی کا خیال نہ آیا۔ اسے مہنگائی کا خیال آیا تو اخبار کے سلسلے میں۔ اسے اخراجات میں کٹوتی کی ضرورت محسوس ہوئی تو نزلہ اخبار پر گرا۔ کہتے ہیں کہ نزلہ ہمیشہ عضو ضعیف پر گرتا ہے۔ ہمارا عضو ضعیف کتاب ہے۔ اخبار ہے۔ مطالعہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر ہم مطالعہ کیوں نہیں کرتے۔
اس کا ایک سبب ہماری ناخواندگی ہے۔ اس وقت ملک میں خواندگی کی شرح 55 فی صد بتائی جاتی ہے مگر ایک تو یہ شرح مبالغہ آمیز ہے۔ دوسرے یہ کہ ہم ان لوگوں کو بھی خواندہ سمجھتے ہیں جو صرف دستخط کرسکتے ہیں۔ ہم 1992ء میں ہندوستان گئے تو ہم نے دیکھا کہ ریلوے اسٹیشن پر ایک بھنگی آیا اور جھاڑو دینے لگا۔ اپنا کام مکمل کرکے وہ ایک بینچ پر بیٹھ گیا اور اس نے بینچ کے نیچے سے ہندی کا ایک اخبار نکالا اور پڑھنے لگا۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ بھارت میں خواندگی کی جو شرح بیان کی جاتی ہے وہ ہرگز مبالغہ آمیز نہیں ہے اور یہ کہ بھارت کی خواندگی حقیقی خواندگی ہے۔ حقیقی خواندگی یہ نہیں ہے کہ معاشرے کے بالائی طبقات اس کا اظہار کریں۔ حقیقی خواندگی یہ ہے کہ معاشرے کے نچلے طبقات کے لوگ بھی اس کا مظہر نظر آئیں۔ ہمیں مطالعے کو عام کرنا ہے تو ہمیں پورے معاشرے کو حقیقی خواندگی سے ہمکنار کرنا ہوگا۔
مطالعے کے سلسلے میں بنیادی ماحول بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بچوں میں اپنے بڑوں کی نقل کا رجحان موجود ہوتا ہے۔ کوئی بچہ اپنے والد کی نقل کرتا ہے۔ کوئی اپنی والدہ کی کاپی کرتا ہے۔ کوئی اپنے ماموں، چچا اور بڑے بھائی جیسا بننا چاہتا ہے۔ مگر ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمارے بنیادی ماحول یعنی ہمارے گھروں میں مطالعہ بچوں کی عظیم اکثریت کا مشاہدہ، تجربہ اور علم نہیں ہوتا۔ وہ نہ اپنے والدین کو کچھ پڑھتے دیکھتے ہیں نہ اپنے بڑوں کو مطالعے میں مصروف دیکھتے ہیں۔ چناں چہ بچوں کی عظیم اکثریت مطالعے کی عادی کیا اس کی طرف مائل بھی نہیں ہوپاتی۔ ایک زمانہ تھا کہ گھروں میں بچوں کو کہانی سنانے کا کلچر موجود تھا۔ کہانی سننے کا یہ تجربہ بڑا قیمتی تھا۔ اس سے بچوں کے اندر پانچ چھے سال کی عمر سے زبان و بیان کا فہم پیدا ہونا شروع ہوجاتا تھا۔ کہانیاں بچوں کے اندر حیرت کے عنصر کو بیدار کردیتی تھیں۔ کہانیاں بچوں کے تخیل کو پرواز سکھا دیتی تھیں۔ کہانیاں سننے کا عمل اگرچہ ایک سمعی تجربہ ہوتا تھا مگر یہ سمعی تجربہ ہی انہیں آگے چل کر اخبار اور کتاب کے مطالعے تک لے جاتا تھا۔ مگر اب ہماری معاشرت میں کہانیاں سننے اور سنانے کا عمل موجود نہیں۔ اکثر والدین اور بڑی عمر کے لوگوں کو نہ کہانیاں سنانے کی اہمیت کا اندازہ ہے نہ ان کے پاس اتنی فرصت ہے کہ وہ روز بچوں کو ایک ڈیڑھ گھنٹے اپنے ساتھ لے کر بیٹھیں اور انہیں کہانیاں سنائیں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں مغربی دنیا کا حال بھی خراب ہے۔ مگر وہاں اسکول، کالج اور جامعات میں عمدہ کتب خانے موجود ہیں۔ مغربی معاشروں کے اسکولوں میں لائبریریوں کا ایک پیریڈ لازماً موجود ہوتا ہے۔ چناں چہ بچے بہت ابتدائی عمر سے کتاب پڑھنے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے اکثر اسکول، کالج اور جامعات طالب علموں کو کتاب اور لائبریری کے تجربے سے ہمکنار نہیں کرتے۔ ہمارے اسکول، ہمارے کالج اور ہماری جامعات طالب علموں سے کچھ اور کیا نصابی کتب تک نہیں پڑھوا پارہے۔
بچوں اور نوجوانوں کے لیے کرداری نمونوں یا ’’رول ماڈلز‘‘ کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ بچے اور نوجوان کرداری نمونوں سے گہرا اثر قبول کرتے ہیں۔ بچے اور نوجوان کرداری نمونوں کی نقل کرتے ہیں۔ وہ ان کی طرح بننا چاہتے ہیں، ایک وقت تھا کہ ہمارے معاشرے کے کرداری نمونے، رول ماڈلز یا ہیروز والدین تھے، اساتذہ تھے، علما تھے، شاعر تھے، ادیب تھے، دانش ور تھے، فاتحین تھے، سیاسی رہنما تھا۔ یہ تمام وہ لوگ تھے جن کی پہچان علم و ادب تھا، تخلیق کا عمل تھا، کتاب تھی، اخبار تھا، رسالہ تھا۔ چناں چہ ان سے متاثر ہونے والا بھی علم کی طرف جاتا تھا۔ ادب اور شاعری کو اہم سمجھتا تھا، کتاب، رسالے اور اخبار سے اپنا رشتہ جوڑتا تھا۔ بدقسمتی سے اب ہمارے معاشرے کے ہیروز اداکار ہیں، گلوکار ہیں، کھلاڑی ہیں، ماڈل گرلز ہیں، گھٹیا سیاست دان ہیں۔ دلیپ کمار ہندوستان کیا برصغیر کے سب سے بڑے اداکار تھے۔ ایک بار ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی بے مثال اداکاری کا راز کیا ہے۔ تو انہوں نے کہا۔ ’’شعروسخن‘‘۔ لیکن پاکستان میں شاید ہی کوئی اداکار علم و ادب کی علامت ہو۔ اداکار کیا ہمارے سیاست دان تک علم و ادب کی علامت نہیں ہیں۔ میاں نواز شریف نے زندگی میں شاید ایک کتاب بھی نہیں پڑھی ہوگی۔ آصف زرداری نے شاید کبھی کتاب کو چھوا بھی نہیں ہوگا۔ عمران خان کا حال نواز شریف اور زرداری سے بہتر ہے مگر مطالعے کی علامت وہ بھی نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں اساتذہ اور صحافی تک کتاب اور اس کے مطالعے سے وابستہ نہیں ہیں۔ ہم جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم تھے۔ اس دوران ہمیں جامعہ کراچی کے مرکزی کتب خانے پر ایک تحقیقی خبر بنانے کا شرف حاصل ہوا۔ ہم نے جامعہ کراچی کے مرکزی کتب خانے کے نگران سے پوچھا کہ یہ بتائیے جامعہ کراچی کے کتنے اساتذہ کتب خانے سے استعفادہ کرتے ہیں۔ کہنے لگے جامعہ کراچی کے اساتذہ کی اکثریت کتب خانے تک آتی ہی نہیں۔ بیس پچیس فی صد اساتذہ لائبریری آتے ہیں اور دو چار کتابیں لے کر چلے جاتے ہیں مگر وہ کئی کئی سال تک یہ کتابیں واپس نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کئی کئی برسوں میں بھی دو تین کتابیں نہیں پڑھ پاتے۔ انہوں نے کہا کہ البتہ جامعہ کے پانچ سے سات فی صد اساتذہ ایسے ہیں جو پابندی سے کتب خانے آتے ہیں اور اس سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔
ہم 32 سال کے صحافتی مشاہدے اور تجربے سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صحافیوں کی عظیم اکثریت کچھ اور کیا اپنا اخبار بھی پورا نہیں پڑھتی۔ ہم گزشتہ 40 سال میں ایسے متعدد نوجوان شاعروں سے ملے ہیں جو صرف شاعری پڑھتے ہیں نثر نہیں پڑھتے۔ ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ہم نثر پڑھیں گے تو شاعری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
ہمارے یہاں مطالعے کا رجحان اس لیے بھی کم ہے کہ معاشرے کی 99 فی صد آبادی کو مطالعے کے فوائد کا علم ہی نہیں۔ ہمارا معاشرہ علم کے قحط میں مبتلا ہے اس قحط کا ایک ہی علاج ہے اور وہ مطالعہ ہے۔ مطالعہ انسان کی معلومات کو بڑھاتا ہے، معلومات کو علم میں ڈھالتا ہے، علم کو تناظر مہیا کرتا ہے، ان چیزوں کے ذریعے انسان انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی کا ادراک حاصل کرتا ہے۔ وہ حیوانیت کی سطح سے بلند ہوتا ہے اور شرف انسانی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ فرشتوں پر انسان کی ایک فضیلت اس کے علم کی وجہ سے بھی ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک ہولناک المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کی مادری زبان اردو ہے ان کو اردو نہیں آتی۔ جن کی مادری زبان سندھی اور پنجابی ہے انہیں سندھی اور پنجابی نہیں آتی اور جو بچے انگریزی اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں ان کی اکثریت کو انگریزی نہیں آتی۔ ماہرین نے زبان کے آنے کا معیار یہ مقرر کیا ہے کہ زبان اس کو آتی ہے جو اپنی زبان کی شاعری پڑھ سکتا ہو، سمجھ سکتا ہو اور اس سے لطف اندوز ہوسکتا ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے طلبہ کی عظیم اکثریت میر، غالب، اقبال، شاہ لطیف اور بابا فرید اور بلھے شاہ کی شاعری کو نہ سمجھ سکتی ہے نہ اس سے لطف اندوز ہوسکتی ہے۔ اتفاق سے زبان سیکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ مطالعہ ہے۔ ہمہ جہت مطالعہ۔