معروف کالم نگار رئوف کلاسرا نے اپنے کالم میں کسی انعام رانا کے مضمون کا ذکر کیا ہے۔ یہ مضمون انعام رانا نے میاں نواز شریف سے لندن میں ملاقات کے بعد تحریر کیا ہے۔ انعام رانا کے بقول میاں نواز شریف نے ملاقات میں ان سے کہا کہ پاکستانی قوم ان کی توقعات پر پورا نہیں اُتری۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ عوام مشکلات کا شکار ہیں مگر اس کے باوجود وہ احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلتے۔ انعام رانا نے کہا کہ ہمارے خطے میں لوگ تاریخی طور پر کسی نجات دہندہ کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ خود سے کچھ نہیں کرتے۔ اس پر میاں نواز شریف نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی اگر پہلے کچھ نہ کیا گیا تو اب بھی کچھ نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ مجیب جب جیل میں تھے تو عوام نے جدوجہد کی۔ رئوف کلاسرا کے بقول انہوں نے 2005ء میں جدہ میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی تو تب بھی انہوں نے گلہ کیا کہ قوم نے ساتھ نہیں دیا۔ رئوف کلاسرا کے بقول میاں نواز شریف نے برطانیہ میں ایک جلسہ کیا تو لوگوں نے نعرہ لگایا قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ سن کر میاں نواز شریف نے کہا کہ 12 اکتوبر سے پہلے بھی عوام یہی کہتے تھے کہ میاں صاحب قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جب سے عوام کی باتوں میں آکر قدم بڑھایا اور مڑ کر پیچھے دیکھا تو پیچھے کوئی نہیں تھا اور میں جیل پہنچ چکا تھا۔
مذکورہ بالا حقائق بتارہے ہیں کہ میاں نواز شریف نہ کبھی رہنما تھے، نہ ہیں اور نہ کبھی ہوں گے۔ رہنما وہ ہوتا ہے جو عوام کو خواص میں ڈھالتا ہے، عوام ہمیشہ کسی نہ کسی رہنما کی تقلید کرتے ہیں اور رہنما ہمیشہ عوام کو اپنے پیچھے چلاتا ہے۔ لیکن میاں نواز شریف کا معاملہ ہی الگ ہے۔ وہ خود رہنمائی کرنے کے بجائے عوام سے رہنمائی کی توقع کرتے رہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ میاں نواز شریف عوام کو رہنما سمجھتے ہیں اور وہ خود عوام کی تقلید کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس تناطر میں دیکھا جائے تو میاں صاحب نے عوام اور رہنما کے تعلق کو الٹ دیا ہے۔ انہوں نے عوام کو رہنما بنادیا ہے اور وہ خود عوام بن کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رہنمائوں کی تین اقسام ہوتی ہیں۔
(1) کچھ رہنما ’’مشہور‘‘ ہوتے ہیں۔
(2) کچھ رہنما ’’مقبول‘‘ ہوتے ہیں۔
(3) کچھ رہنما ’’محبوب‘‘ ہوتے ہیں۔
تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ مشہور رہنمائوں کو عوام نوٹ اور ووٹ تو دے دیتے ہیں مگر وہ مشہور رہنمائوں کے لیے جیل جانے یا لاٹھیاں اور گولیاں کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ عوام مقبول رہنمائوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ان کے گن گاتے ہیں۔ گھروں میں ان کی تصاویر ٹانگتے ہیں مگر مقبول رہنما بھی عوام کے دل پر دستک نہیں دے پاتے۔ عوام کے اصل ہیرو ’’محبوب رہنما‘‘ ہوتے ہیں۔ انہیں عوام ووٹ بھی دیتے ہیں، نوٹ بھی دیتے ہیں، ان کے لیے جیل بھی جاتے ہیں، ان کے لیے لاٹھیاں بھی کھاتے ہیں، ان کے لیے اپنے سینے گولیوں کے لیے بھی پیش کرتے ہیں۔ دراصل محبوب رہنمائوں کی ایک اخلاقی ساکھ ہوتی ہے۔ ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا۔ انہیں دبایا جاسکتا ہے، نہ خریدا جاسکتا ہے، نہ ڈرایا جاسکتا ہے۔ وہ مرجاتے ہیں مگر اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ یہ اوصاف ان میں محبوبیت پیدا کردیتے ہیں۔ پھر عوام اور رہنما ہم معنی ہوجاتے ہیں۔ عوام کو رہنما کی زندگی اپنی زندگی اور اس کی موت اپنی موت نظر آنے لگتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کئی مشہور اور مقبول رہنما ہوئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو پورے ملک میں مشہور تھے، وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھے، وہ مجمع میں آگ لگادینے کی صلاحیت رکھتے تھے، وہ خود کو قائد عوام اور قائد ایشیا سمجھتے تھے۔ عرب دنیا میں بھی ان کی بڑی مان دان تھی۔ وہ لیبیا کے کرنل قذافی، فلسطین کے یاسر عرفات اور سعودی عرب کے شاہ فیصل کے دوست تھے۔ چناں چہ ان کا خیال تھا کہ اگر جنرل ضیا الحق نے ان کو مارنے کی کوشش کی تو ہمالہ روئے گا اور سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ مگر جب انہیں پھانسی دی گئی تو نہ ہمالہ رویا، نہ سندھ میں خون کی ندیاں بہیں۔ ان کی پھانسی کے خلاف کہیں عوامی مزاحمت سامنے نہ آئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ بھٹو صاحب صرف مشہور اور مقبول تھے، محبوب نہ تھے۔ ان کی کوئی اخلاقی ساکھ نہیں تھی، لوگ انہیں نوٹ دے سکتے تھے، ووٹ دے سکتے تھے مگر ان کے لیے جان قربان نہیں کرسکتے تھے۔
جنرل پرویز مشرف کی آمد سے پہلے میاں نواز شریف ملک کے مشہور اور مقبول رہنما تھے، ان کے پاس قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت تھی۔ چناں چہ ان کا خیال تھا کہ اب کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ میاں نواز شریف کا خیال تھا کہ جنرل پرویز بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے کیوں کہ وہ مہاجر ہیں اور فوج میں ان کی لابی نہیں ہے مگر جنرل پرویز مشرف نے پلک جھپکتے میں میاں نواز شریف کا دھڑن تختہ کردیا۔ میاں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت ان کے کچھ کام نہ آئی۔ میاں نواز شریف کی برطرفی کے بعد کہیں اور کیا لاہور تک میں سو لوگوں کا جلوس نہ نکلا۔ میاں صاحب کی برطرفی کے بعد مظاہرہ ہوا بھی تو کراچی میں مگر مظاہرہ ڈیڑھ درجن افراد پر مشتمل تھا اور اس کی قیادت مشاہد اللہ کررہے تھے۔ میاں صاحب کی لندن سے وطن واپسی پر بھی عجیب تماشا ہوا۔ میاں صاحب کا خیال تھا کہ ان کا جہاز لاہور میں لینڈ کرے گا تو لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے مگر وہ لاہور میں اترے تو کوئی اور کیا ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف بھی ہوائی اڈے پر نہ پہنچ سکے۔ نواز لیگ کے بڑے بڑے رہنما بھی شہر میں ادھر ادھر پھرتے رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ کی ہدایت ہی یہ تھی کہ ہوائی اڈے پر نہیں پہنچنا۔ اس صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میاں صاحب کی کوئی اخلاقی ساکھ ہی نہیں ہے۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر کرپشن کی ہے اور یہ بات ان کے حمایتی بھی جانتے ہیں اس لیے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ میاں صاحب کی ساکھ کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ وہ دوبار اسٹیبلشمنٹ سے سودے بازی کرکے ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔ پہلی بار وہ جنرل پرویز کے ساتھ سودے بازی کرکے سعودیہ عرب فرار ہوئے۔ دوسری بار وہ موجودہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے سودی بازی کرکے لندن فرار ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ جب رہنما مزاحمت نہیں کرے گا تو عوام کیوں مزاحمت کریں گے؟ جب رہنما قربانی نہیں دے گا تو عوام رہنما کے لیے کیوں دائو پر لگائیں گے؟۔
الطاف حسین مہاجروں کے بڑے رہنما تھے۔ وہ لاکھوں کے مجمعے میں ایک دو تین کہتے تو مجمعے کو سانپ سونگھ جاتا تھا۔ الطاف حسین جس کی طرف اشارہ کرتے اسے اٹھالیا جاتا۔ جس کی طرف اشارہ کرتے اسے مار دیا جاتا۔ کراچی تین کروڑ آبادی کا شہر تھا مگر الطاف حسین کے ایک اشارے پر ایک گھنٹے میں بند ہوجاتا۔ الطاف حسین کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ کروٹن کے پتوں پر ان کی تصاویر ظاہر ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ الطاف حسین کے خوف کا یہ عالم تھا کہ لوگ گھر کے دروازے بند کرکے ان کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ ان کی عوامی مقبولیت ان کی اس بات سے نمایاں تھی کہ ہم کارنر میٹنگ کرتے ہیں اور وہ جلسہ بن جاتی ہے اور ہمارے مخالف جلسہ کرتے ہیں اور وہ کارنر میٹنگ میں ڈھل جاتی ہے۔ چناں چہ جب ایم کیو ایم کے خلاف پہلا فوجی آپریشن شروع ہوا تو الطاف حسین کو توقع تھی کہ کراچی کی ایک ایک گلی ایک ایک کوچے میں فوج کی مزاحمت ہوگی۔ وہ آپریشن کے آغاز کے بعد ہر پانچ منٹ بعد فون کرکے پوچھ رہے تھے کہ کراچی میں کیا ہورہا ہے اور ہر بار انہیں بتایا جارہا تھا کہ کراچی میں کچھ بھی نہیں ہورہا۔ اس صورت حال کی وجہ یہ تھی کہ الطاف حسین کے پاس سب کچھ تھا اخلاقی ساکھ نہیں تھی۔
ان کا جابر اور ظالم ہونا سب پر عیاں تھا۔ ان کے پیدا کردہ بھتا خوری کے کلچر سے سب آگاہ تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ خود مزاحمت کے لیے ملک میں موجود نہ تھے۔ وہ خود ملک سے فرار ہو کر لندن گئے تھے۔
روس، چین اور ایران کے انقلابات کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ روس کے انقلاب میں 80 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ لیکن روس انقلاب کے قائد لینن کی ایک اخلاقی اور علمی ساکھ تھی۔ مارکس نے کہا تھا کہ فلسفیوں نے اب تک صرف زندگی کو سمجھا ہے حالاں کہ مسئلہ زندگی کو سمجھنے کا نہیں اسے بدلنے کا ہے۔ لینن زندگی کو سمجھنے نہیں اسے بدلنے نکلا تھا۔ اس جدوجہد میں اس کی جان بھی جاسکتی تھی مگر اس نے ہر خطرے کو انگیز کیا۔ چناں چہ روس میں انقلاب برپا ہو کر رہا۔ چین کے انقلاب میں تین کروڑ لوگ مارے گئے مگر مائو کی اخلاقی ساکھ بہترین تھی۔ مائو کا لانگ مارچ کئی سال پر محیط تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ مائو ایک ایسی قوم کی قیادت کررہا تھا جو افیون کھانے کی عادی تھی مگر مائو کی انقلابیت نے افیون کھانے والوں کو بھی انقلابی بنادیا۔ ایران کا انقلاب تو کل کی بات ہے۔ خمینی صاحب کو دو ہزار سال پرانی بادشاہت سے مقابلہ درپیش تھا۔ اس مقابلے میں ایک طرف ریاست کی بے پناہ طاقت تھی اور دوسری طرف خمینی کی انقلابی ساکھ۔ جدوجہد کے ایک مرحلے پر خمینی کو ملک بھی چھوڑنا پڑ گیا۔ لیکن انہوں نے عوام میں جو اخلاقی ساکھ پیدا کرلی تھی وہ ان کی عدم موجودگی میں بھی اپنا کام دکھاتی رہی۔ چناں چہ ایران میں انقلاب برپا ہو کر رہا۔
اخلاقی ساکھ کی فتوحات کی داستان طویل ہے۔ خود پاکستان کی تخلیق پاکستان کے نظریے کے بعد قائداعظم کی اخلاقی ساکھ کا حاصل ہے۔ آپ قائداعظم سے اختلاف کرسکتے تھے مگر یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ انہیں انگریز یا ہندو ڈرا دیں گے۔ انہیں انگریز یا ہندو خرید لیں گے۔ قائداعظم کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ قائداعظم انگریزی میں تقریر کررہے تھے اور ایک شخص ان کی تقریر پر سر دھن رہا تھا۔ دوسرے صاحب نے یہ دیکھا تو کہا تمہیں تو انگریزی ہی نہیں آتی تو پھر تم کس بات پر سر دھن رہے ہو۔ ان صاحب نے کہا کہ مجھے قائداعظم کی تقریر تو سمجھ میں نہیں آرہی مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔ قائداعظم کی اسی اخلاقی ساکھ نے تخلیق پاکستان کے ناممکن کام کو ممکن بنادیا۔
مصر کی تاریخ کا یہ واقعہ ہمارے سامنے رونما ہوا کہ مصر کے صدر مرسی کو برطرف کیا گیا تو اخوان المسلمون نے عوامی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ قاہرہ میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ مصر کی ناپاک فوج نے مزاحمت کرنے والوں پر ٹینک چڑھا دیے۔ مصر کی فوج نے احتجاج کرنے والوں کے سروں اور سینوں پر گولیوں ماریں مگر اس کے باوجود احتجاج کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ بلاشبہ اخوان جنرل سیسی کا راستہ نہ روک سکے مگر انہوں نے مزاحمت کا حق ادا کردیا۔ جدوجہد میں اصل چیز نتیجہ ہوتا اصل چیز جدو جہد کا حق ادا کرنا ہوتا ہے۔ نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ غزوہ احد میں رسول اکرمؐ کی موجودگی کے باوجود مسلمانوں کو شکست ہوگئی تھی۔
اس سلسلے میں ترکی اور اس کے صدر رجب طیب اردوان کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ ترکی کی فوج نے طیب اردوان کے خلاف بغاوت کی مگر طیب اردوان نے قوم سے مزاحمت کی اپیل کی۔ چناں چہ ہزاروں لوگ رات گئے سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ انہوں نے گن شپ ہیلی کاپٹروں سے ہونے والی فائرنگ کو سہا۔ اس مزاحمت نے ترکی کی فوجی بغاوت کو ناکام بنادیا۔ ترکی کے لوگوں کی اس مزاحمت کی ایک ہی وجہ تھی۔ طیب اردوان کی اخلاقی ساکھ۔
میاں نواز شریف کو مسلمانوں کی تاریخ کی ایک اور بات معلوم نہیں اور وہ یہ کہ مسلمان تاریخ میں ہمیشہ اپنے مذہب سے تحریک پا کر مزاحمت پر آمادہ ہوتے رہے ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی پشت پر مذہبی جذبہ موجود تھا۔ خلافت تحریک مذہبی جذبے کا نتیجہ تھی۔ تحریک پاکستان کی پشت پر اگر اسلام نہ ہوتا تو تحریک پاکستان کبھی تحریک پاکستان نہیں بن سکتی تھی۔ پی این اے کی تحریک جب تک صرف سیاسی تحریک رہی اس میں جان نہ پڑ سکی لیکن اس نے جیسے ہی تحریک نظام مصطفی کا نام اختیار کیا اس میں جان پڑ گئی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے اکثر سیاسی رہنمائوں اور جماعتوں کی نہ کوئی اخلاقی ساکھ ہے اور نہ ان کی جدوجہد کبھی مذہب کے زیر اثر رہی ہے۔ میاں نواز شریف کی اخلاقی ساکھ ہوتی اور ان کی جدوجہد کی نوعیت مذہبی ہوتی تو لوگ ان کے لیے سڑکوں پر بھی نکلتے، جیل بھی جاتے اور سینوں پر گولیاں بھی کھاتے۔