یہ واقعہ بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع بوندی کے ایک گائوں چھاڑی میں پیش آیا۔ اس واقعے کے تحت ہندوستان کے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے ایک دلت دولہا کی گھوڑے پر سواری کو بھیانک جرم بنادیا۔ اطلاعات کے مطابق اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کو جب اس بات کا علم ہوا کہ دلت نوجوان میگھاوال اپنی شادی میں گھوڑے پر سوار ہو کر آرہا ہے تو ان میں اشتعال پھیل گیا۔ انہوں نے دھمکی دی کہ اگر میگھاوال نے گھوڑے پر سواری کی تو باراتیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں گے۔ تاہم دولہا دھمکیوں کے باوجود گھوڑے پر بیٹھ کر ہی بارات لے کر گیا۔ لیکن اس سلسلے میں اسے پولیس کی مدد حاصل کرنی پڑی۔ وہ ایسا نہ کرتا تو سیکڑوں برہمن بندوقیں اور تلواریں لیے دولہا کو سبق سکھانے کے لیے موجود تھے۔ ایک مقامی صحافی کے بقول نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے دولہوں کو پورے بھارت میں کہیں بھی گھوڑے پر بارات لے جانے کی اجازت نہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق 2010ء سے اب تک دہلی، راجستھان، اترپردیش، مدھیہ پردیش، بہار، آندھرا پردیش اور کرناٹک میں 276 دلت دولہوں پر اس لیے قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں کہ انہوں نے گھوڑے پر بارات لے جانے کی جرأت کی۔ ان قاتلانہ حملوں میں کئی دولہا جان کی بازی ہار گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں اب تک اعلیٰ ذات کے کسی ہندو کو عدالت سے سزا نہیں ملی۔ اس صورت حال سے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور وہ نچلی ذات کے ہندو نوجوانوں کو گھوڑے پر بارات لے جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ تازہ ترین واقعے میں دولہا میگھاوال نے دھمکیوں کی پروا نہ کی۔ وہ 20 پولیس والوں اور ایک سب انسپکٹر کو بارات کا محافظ بنا کر لے گیا۔ میگھاوال نے اپنے شادی کارڈ پر یہ بات درج کرائی ہوئی تھی کہ وہ بارات گھوڑے پر ہی لے جائے گا۔ وہ اس سلسلے میں کار یا جیپ استعمال نہیں کرے گا۔ بھارت کے ایک جریدے کے مطابق بھارتی ریاست گجرات میں گزشتہ تین سال کے دوران دلت نوجوانوں کو بارات میں گھوڑے پر سوار ہونے سے روکنے کے سلسلے میں 76 مقدمات درج ہوئے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ نچلی ذات کے ہندو نوجوان گھوڑے پر بارات لے کر نہیں جاسکتے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے ڈر سے بڑی مونچھیں بھی نہیں رکھ سکتے۔ وہ بندوق کا لائسنس بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ وہ اعلیٰ ذات کے برہمنوں کے گھروں کے سامنے سے گزر بھی نہیں سکتے۔ اس صورت حال کا سبب یہ ہے کہ گھوڑے پر بارات شان و شوکت کی علامت ہے اور اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے شان و شوکت صرف اپنے ساتھ وابستہ کی ہوئی ہے۔ چناں چہ جیسے ہی کوئی نچلی ذات کا ہندو نوجوان گھوڑے پر بیٹھنے کی جرأت کرتا ہے اعلیٰ ذات کے برہمنوں کو اپنی شان و شوکت خطرے میں نظر آنے لگتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ دلت نوجوانوں نے ان کے حق پر ڈاکا ڈال دیا ہے۔ بڑی مونچھیں طاقت، تکبر اور بہادری کی علامت ہیں۔ چناں چہ بڑی مونچھیں صرف اعلیٰ ذات کے ہندو رکھ سکتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی نچلی ذات کا ہندو مونچھیں بڑھاتا ہے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کی برابری کی کوشش کررہا ہے۔ ہندوستانی فلموں میں بڑی مونچھیں صرف بڑے زمینداروں اور ٹھاکروں کے لیے زیبا ہوتی ہیں۔
انسانی تاریخ ظلم سے بھری ہوئی ہے۔ اس تاریخ میں جدید اور قدیم کی کوئی تخصیص نہیں۔ لیکن اس تاریخ کا یہ پہلو اہم ہے کہ انسانوں نے انسانوں پر ظلم کیا ہے تو انہیں ’’دوسرا‘‘ بنا کر۔ انبیا و مرسلین تاریخ میں حق کی علامت ہیں اور انہیں کافروں اور مشرکوں نے ہمیشہ ’’دوسرا‘‘ خیال کیا ہے۔ مکّے کے مشرک رسول اکرمؐ سے کہا کرتے تھے کہ آپؐ کی تعلیمات ہمارے آبائو اجداد کی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں۔ ہمارے آبائو اجداد کہتے تھے کہ خدا ایک سے زیادہ ہیں آپ کہتے ہیں کہ خدا صرف ایک ہے۔ ہمارے آبائو اجداد کہتے تھے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ چناں چہ کافر اور مشرک سب رسول اکرمؐ کے خلاف ہوگئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے رسول اکرمؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ صلیبی جنگیں ہیں۔ یہ جنگیں یورپ کے عیسائیوں نے 1099 میں شروع کیں اور یہ جنگ کم و بیش دو سو سال جاری رہیں۔ ان جنگوں کے آغاز میں مسلمانوں کا کوئی کردار نہ تھا۔ ان جنگوں کے آغاز کا بنیادی سبب یہ تھا کہ صلیبی طاقتیں مسلمانوں کو ’’دوسرا‘‘ یا ’’Other‘‘ سمجھتی تھیں۔ یہاں تک کہ اس وقت کے پوپ اربن دوم نے اسلام کو معاذاللہ شیطانی مذہب قرار دیا۔ آج بھی چرچ کی سرکاری پوزیشن یہ ہے کہ وہ رسول اکرمؐ کو تاریخ کی بڑی شخصیت تو مانتا ہے مگر انہیں رسول تسلیم نہیں کرتا۔
جدید تاریخ کا ریکارڈ ہمارے سامنے ہے۔ ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو اس لیے قتل کیا کہ وہ یہودیوں کو ’’دوسرا‘‘ یا ’’The Other‘‘ خیال کرتا تھا۔ بدقسمتی سے خود یہودیوں نے بھی خود کو جرمن قوم کا ’’دوسرا‘‘ باور کرایا۔ ہٹلر کو دوسری جنگ عظیم شروع کرنے کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی۔ سرمایہ بینکوں کے پاس تھا اور بینک یہودیوں کے قبضے میں تھے۔ ہٹلر نے یہودیوں سے جنگ کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کے لیے کہا مگر انہوں نے سرمایہ فراہم کرنے کے لیے بلند شرح سود کی شرط رکھ دی۔ ہٹلر اس شرط سے مشتعل ہوگیا۔ اس نے کہا ہماری بلی اور ہمیں ہی میائوں۔
سوشلسٹ انقلاب کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ کارل مارکس کی فکر میں اصل اہمیت غریبوں کو حاصل ہے۔ وہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو عوام کا دشمن قرار دیتا ہے۔ چناں چہ سوشلسٹ انقلاب نے ہر سرمایہ دار اور ہر زمیندار کو عوام یا پرولتاریوں کے لیے ’’دوسرا‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ روس اور چین کے انقلابات میں سوشلسٹ انقلابیوں نے دولت مند طبقے کے لوگوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا۔ 1994ء میں روانڈا میں ہونے والی خانہ جنگی میں ہوتو قبائل نے تتسی قبائل کے 10 لاکھ افراد کو ’’دوسرا‘‘ قرار دے کر مار ڈالا۔ مگر ہندوازم کی تاریخ ذرا مختلف ہے۔
ہندوستان میں مسلمان ہندوئوں کے ’’دوسرے‘‘ ہیں یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر شودر اور دلت تو ہندوئوں کے ’’اپنے‘‘ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے شودروں اور دلتوں کو ’’دوسرا‘‘ بنا کر کھڑا کیا ہوا ہے۔ دنیا سمجھتی ہے ہندوازم میں ذات پات کا نظام کوئی ’’نسلی چیز‘‘ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہندوازم میں برہمن یا شتریہ، ویش اور شودر ہونے کا مطلب ایک ’’روحانی مرتبے‘‘ یا ’’نفسیاتی قسم‘‘ کا حامل ہونا ہے۔ اوریجنل ہندوازم میں برہمن وہ شخص ہے جو ’’خدا مرکز‘‘ زندگی بسر کرتا ہے۔ جو ہندوازم کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا شخص ہے۔ ہندوازم میں شتریہ ریاست کا محافظ ہے۔ ویش تاجروں کا طبقہ ہے اور شودر وہ لوگ ہیں جن میں کوئی روحانی یا علمی اہلیت نہیں ہوتی جو صرف جسمانی مشقت کرسکتے ہیں۔ اسی لیے ہندوئوں کی مقدس کتاب مہا بھارت میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ایک برہمن کے گھر شودر اور شودر کے گھر برہمن پیدا ہوسکتا ہے۔ مگر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے چالاکی کرتے ہوئے برہمنوں، شتریوں، ویشوں اور شودروں کو ایک ’’نسلی حقیت‘‘ بناکر کھڑا کردیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لیے خود ہندوازم کو مسخ کردیا ہے۔
ہندوازم کی تاریخ چھے ہزار سال پرانی ہے۔ ان برسوں میں اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے نچلی ذات کے ہندوئوں کے ساتھ جانوروں سے بھی زیادہ بدتر سلوک کیا ہے۔ گاندھی نے شودروں اور دلتوں کے روحانی اور تہذیبی مرتبے کو بلند کرنے کے لیے انہیں ’’ہری جن‘‘ یا خدا کا بندہ قرار دیا۔ مگر اس سے شودروں اور دلتوں کے مرتبے میں کوئی بہتری نہ آسکی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گاندھی خود نسل پرست تھے۔ بھارت کی ممتاز دانش ور ارون دھتی رائے نے اپنی کتاب آزادی تاریخی شہادتوں کی بنیاد پر لکھا ہے کہ گاندھی جنوبی افریقا میں قیام کے دوران اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کو نچلی ذات کے ہندوئوں سے الگ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور وہ نچلی ذات کے ہندوئوں کو ’’کافر‘‘ اور وحشی قرار دیا کرتے تھے۔ اروندھتی رائے کے مطابق انہوں نے 1894 میں نٹال کی قانون ساز اسمبلی کو کھلا خط لکھا اور کہا کہ ہندوستانی اور انگریز ایک ہی نسلی سلسلے سے پھوٹے ہیں۔ یعنی ’’انڈوآریائی‘‘ سلسلے سے۔
بھارت میں نچلی ذات کے ہندوئوں کے سب سے بڑے رہنما امبیدکر تھے۔ امبیدکر اتنے بڑے دانش ور تھے کہ انہوں نے بھارت کا آئین مرتب کیا مگر جب ہالی وڈ نے گاندھی پر فلم بنائی تو بھارت نے اس فلم میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی مگر اس فلم میں امبیدکر کا ذکر بھی موجود نہیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ امبیدکر ہندوازم سے سخت نالاں تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنی پیدائش پرتو قادرہ نہیں تھا چناں چہ میں پیدائشی طور پر نچلی ذات کا ہندو ہوں مگر مرنا میرے بس میں ہے۔ چناں چہ انہوں نے مرنے سے قبل اپنا مذہب چھوڑ دیا اور بدھ ازم میں داخل ہوگئے۔ بھارت میں شودر اور دلت خواتین کی زندگی جہنم سے بھی بدتر ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال بھارت میں ایک لاکھ شودر خواتین اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں۔