دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ قوم کی ’’طاقت‘‘ ہوتی ہے مگر پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ قوم کی ’’کمزوری‘‘ بن گئی ہے۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ قوم کا ’’حصار‘‘ ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ قوم کا ’’محاصرہ‘‘ بن گئی ہے۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ قوم کی ’’نمو‘‘ ہوتی ہے مگر پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ قوم کا ’’انجماد‘‘ بن گئی ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کا منظر ایسا ہے کہ اسے دیکھ کر ہمیں اکثر میر کا شعر یاد آجاتا ہے۔ میر نے کہا ہے۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
پاکستان کا جتنا عالم ہے اس پر اسٹیبلشمنٹ پوری طرح چھائی ہوئی ہے اور پاکستان میں صرف اسٹیبلشمنٹ کی بات مستند ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے بکواس ہے، کاٹھ کباڑ ہے۔
دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے قومی زندگی میں مرکزیت اپنے کردار کی بنیاد ہے حاصل کی۔ روس کی اسٹیبلشمنٹ نے انقلاب برپا کیا تھا۔ اس نے روس کو سوویت یونین میں ڈھالا تھا۔ اس نے سوویت یونین کو عالمی طاقت میں تبدیل کیا تھا۔ اس لیے سوویت یونین کی اسٹیبلشمنٹ کو مرکزیت حاصل تھی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی بھی چین میں انقلاب برپا کرنے والی قوت تھی۔ اس نے افیون کھانے والی قوم کو انقلابی بنایا تھا۔ اس نے اقبال کے الفاظ میں نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کر کے دکھائے تھے۔ اس اسٹیبلشمنٹ نے اب چین کو دنیا کی دوسری بڑی طاقت بنایا ہے۔ چنانچہ چین میں اسٹیلبشمنٹ کو غلبہ حاصل ہے تو اس کا جواز ہے۔ ترکی کی اسٹیبلشمنٹ نے جنگ آزادی لڑ کر دکھائی اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی۔ اس نے جدید ترکی کی بنیاد رکھی چنانچہ ترکی میں اسٹیبلشمنٹ غالب قوت ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا نہ تحریک پاکستان میں کوئی کردار تھا۔ نہ قیام پاکستان کے سلسلے میں اس کی خدمات تھیں۔ اس نے کشمیر بھی بھارت سے چھین کر نہیں دکھایا۔ بلکہ اس کے برعکس 1971ء میں اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کے عرصے میں پاکستان آدھا رہ گیا۔ اس کے باوجود بھی اسٹیبلشمنٹ کو قوم کی زندگی میں مرکزیت اور بالادستی حاصل ہے۔ یہ بات حیرت انگیز اور ناقابلِ فہم ہے۔ دیکھا جائے تو اس صورت حال کا ایک ہی مفہوم ہے اور وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس طاقت ہے اور وہ اپنی طاقت کو اپنی بالادستی اور غلبے کے لیے بروئے کار لا رہی ہے۔
دنیا میں نظریاتی کی ریاستوں کی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ریاست کے نظریے کی علمبردار اور اس کی محافظ رہی ہے۔ ٹروئسکی روسی انقلاب کا اہم کردار ہے۔ اس کا دانش ورانہ مرتبہ کسی بھی طرح لینن سے کم نہیں تھا مگر مارکسزم کی تشریح و تعبیر کے حوالے سے اس کا لینن سے اختلاف ہو گیا۔ ٹروٹسکی کا خیال تھا کہ لینن مارکسزم سے انحراف کر رہا ہے اور لینن کا خیال تھا کہ ٹروٹسکی کا خیال تھا کہ لینن مارکسزم سے انحراف کر رہا ہے اور لینن کا خیال تھا کہ ٹروٹسکی اصل مارکسزم سے انحراف کر رہا ہے۔ چنانچہ لینن نے ٹروٹسکی کو انقلاب دشمن قرار دے دیا اور ایک وقت وہ آیا جب ٹروٹسکی کو روس چھوڑنا پڑ گیا۔ مگر روس کی اسٹیبلشمنٹ نے ٹروٹسکی کو دیار غیر میں چن سے نہ رہنے دیا۔ اس نے ٹروٹسکی کا پتا لگایا اور اسے قتل کرا دیا۔ یہ قتل کسی ذاتی دشمنی کا نتیجہ نہیں تھا۔ اس قتل کی پشت پر غلط یا صحیح روس کے نظریاتی تشخص کے دفاع کا جذبہ موجود تھا۔ چین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ جدید چین کے بانی ڈینگ ژیائو پنگ انقلابی تھے اور چین کے انقلاب میں انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا تھا مگر انہیں ماضی کے ثقافتی انقلاب سے اختلاف ہو گیا چنانچہ مائو نے ڈینگ ژیائو پنگ کو جیل میں ڈال دیا۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ چین نے سرمایہ داری کا معاشی ماڈل پوری طرح قبول کر لیا ہے مگر اس کے باوجود چین کی اسٹیبلشمنٹ ملک کے نظریے کی محافظ ہے اور وہ اس کے فروغ کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ ترکی ایک مسلم ملک ہے۔ وہ چھے سو سال تک خلافت عثمانیہ کا مرکز رہا ہے مگر کمال اتاترک نے اسے سیکولر ملک بنا کر کھڑا کر دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ترکی کی اسٹیبلشمنٹ سیکولرازم کی ترجمان اور اس کی محافظ ہے۔ طیب ایردوان ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ انہوں نے ترکی کی معیشت کو دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل کیا ہے مگر اس کے باوجود وہ ترکی کے سیکولر تشخص کو بدل نہیں سکے۔ وہ ایسا کریں گے تو ریاست کے تمام اہم ادارے ان کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔ پاکستان جب محض ایک سیاسی مطالبہ تھا تب بھی پاکستان ایک نظریاتی ریاست تھا اور پاکستان جب حقیقت بن کر ابھرا تب بھی وہ ایک نظریاتی ریاست تھا مگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کبھی ملک کے نظریے اور اس کے نظریاتی تشخص کے دفاع اور فروغ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ پاکستان کا کوئی شہری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دو باتیں کبھی کر دیتا ہے تو وہ ’’لاپتا‘‘ ہو جاتا ہے۔ مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر پاکستان کے نظریاتی تشخص پر حملے کرتے رہتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے کان پر جوں تک رینگ کر نہیں دیتی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے خود پاکستان کے نظریاتی تشخص کو مجروح کیا ہے۔ جنرل ایوب سیکولر ازم کے علمبردار تھے۔ یہ ایک نظریاتی بغاوت تھی۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کا کوئی آرمی چیف اور صدر سیکولر نہیں ہو سکتا۔ مگر جنرل ایوب نے نہ صرف یہ کہ سیکولر طرز فکر کو اختیار کیا بلکہ اسے فروغ دیا۔ انہوں نے سود کو حلال بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ انہوںنے عائلی قوانین کے ذریعہ ملک کے مذہبی تشخص پر حملہ کیا۔ جنرل یحیٰی بھی ایک سیکولر شخص تھے۔ وہ عورت اور شراب کے رسیا تھے۔ 1971ء میں جب ملک دولخت ہونے کے خطرے سے دوچار تھا ایک سینئر فوجی اہلکار جنرل یحیٰی سے ملنے پہنچا۔ اس نے جنرل یحیٰی کو ملک کے نازک حالات سے آگاہ کیا۔ مگر جنرل یحیٰی نے کچھ بھی سننے سے انکار کر دیا۔ وہ اس وقت ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوںنے اعلیٰ فوجی اہلکار سے کہا ذرا ٹھیرو ٹی وی پر گلوکارہ نورجہاں کا گیت آنے ہی والا ہے۔ جنرل پرویز مشرف بھی ایک سیکولر اور لبرل شخص تھے۔ انہوں نے ملک کے نظریاتی تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ بلاشبہ جنرل ضیاء الحق ذاتی زندگی میں ایک مذہبی انسان تھے۔ وہ نماز روزے کے پابند تھے۔ مگر بدقسمتی سے اسلام ان کے لیے محض ایک سیاسی نعرہ تھا۔ اسلام ان کے لیے نظریاتی معاملہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ ان کے لیے زندگی اور موت کا سوال تھا۔ چنانچہ ان کے دور میں جو اسلام پھیلا وہ سرسری اور سطحی تھا اور وہ نعرے سے آگے مشکل ہی سے مار کرتا تھا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں پیپلزپارتی خود کو سیکولر جماعت کہتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ ایک اسلامی ریاست میں ایم کیو ایم بھی خود کو سیکولر باور کراتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو اس بات سے کوئی مسئلہ لاحق نہیں ہوتا۔
پاکستان کا کوئی باشعور شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کو امریکہ مرکز، یا American Centric فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بنایا۔ پاکستان بنا تھا تو وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست تھا اور قائداعظم نہ مغرب کی سرمایہ داری سے خوش تھے نہ روس اور چین کے سوشلزم سے مطمئن تھے۔ وہ پاکستان کو ایک آزاد اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے وقت کی واحد سپرپاور سلطنت برطانیہ اور ہندو اکثریت سے لڑ کر پاکستان حاصل کیا تھا لیکن پاکستان کے جرنیلوں نے پاکستان کو امریکہ کی باج گزار ریاست بنا دیا۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا لیکن وہ 1954ء سے امریکہ کے ساتھ خفیہ تعلقات کو استوار کیے ہوئے تھے وہ خفیہ مراسلوں کے ذریعہ جو اب شائع ہو چکے ہیں امریکہ کو یہ باور کرا رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک کو تباہ کرنے کے در پر ہیں۔ وہ امریکہ کو بتا رہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ پاکستان کے سیاست دان ملک تباہ کر رہے تھے اور جنرل ایوب کو مارشل لا لگانا تھا تو وہ زور لگاتے مگر اس سلسلے میں امریکیوں کے جوتے چاٹنے کی ضرورت نہ تھی۔ پاکستان کے مارشل لا کو ہر صورت میں ’’مقامی‘‘ ہونا چاہیے تھا مگر جنرل ایوب کا مارشل لا پر Made in America لکھا ہوا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے مزید غضب یہ کیا کہ انہوں نے سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اختیار کر کے امریکہ کے پروں میں سر چھپا لیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے صرف مارشل لا کو ’’امریکی ساختہ‘‘ نہیں بنایا۔ انہوںنے پاکستان کی معیشت بھی امریکہ اور یورپ کے اداروں یعنی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے حوالے کر دی۔ ہر باشعور شخص جانتا ہے کہ امریکہ اور یورپ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کمزور قوموں کو مضبوط بنانے کے یے قائم نہیں کیے بلکہ وہ انہوںنے یہ ادارے قوموں کو اپنا معاشی غلام بنانے کے لیے قائم کیے تھے اور آج پاکستان سیاسی طور پر امریکہ اور معاشی طور پر آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا غلام ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے دفاع کو بھی ’’امریکہ مرکز‘‘ بنا دیا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ 1965ء کی جنگ میں ہمیں اسلحے کی ضرورت پڑی تو امریکہ نے اسلحہ فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ 1971ء میں ہم نے امریکہ سے مدد مانگی تو امریکہ نے اپنا ساتواں بحری بیڑا مشرقی پاکستان روانہ کرنے کا وعدہ کیا مگر یہ بیڑا کبھی مشرقی پاکستان نہ پہنچ سکا اس لیے کہ یہ بیڑا کبھی مشرقی پاکستان کے لیے روانہ ہی نہیں ہوا تھا۔ بدقسمتی سے جرنیلوں نے پاکستان کی جمہوریت کو بھی امریکی ساختہ بنا ڈالا۔ پاکستان میں جمہوریت آتی ہے تو امریکہ کی خواہش اور دبائو پر۔
دنیا بھر میں آئین قوم کی آرزوئوں اور تمنائوں کا اظہار اور محور ہوتا ہے۔ اس لیے آئین کو ایک مقدس دستاویز کی حیثیت حاصل ہوتی ہے مگر پاکستان کے جرنیلوں نے کبھی آئین کی تکریم نہیں کی۔ انہوں نے آئین کو چند صفحے کی دستاویز سمجھا اور جب جی چاہا اسے روند ڈالا یا اسے عضو معطل بنا کر رکھ دیا۔ چنانچہ ہماری قومی زندگی میں آئین کو کوئی اہمیت ہی نہیں۔ بھارت ہمارے ساتھ 1947ء میں آزاد ہوا اور اس نے ایک سال میں آئین بنا کر رکھ دیا مگر ہم 9 سال تک آئین ہی نہ بنا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئین بن جاتا تو حکمران طبقے میں اس کی پاسداری کے لیے دبائو بڑھ جاتا۔ 1956ء میں ملک کو آئین ملا مگر جنرل ایوب نے 1958ء میں مارشل لا لگا کر اسے ایک طرف پھینک دیا۔ 1962ء میں آئین بنا مگر یہ آئین بھی نہ چل سکا۔ چنانچہ 1973ء میں ایک اور آئین بنا مگرجنرل ضیاء الحق نے اس آئین کو بھی طویل عرصے تک معطل رکھا۔ اس وقت بھی یہ صورت حال ہے۔ آئین قوم کی زندگی میں فیصلہ کن اہمیت نہیں رکھتا۔ اصل اہمیت اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات ہے۔ یہی خواہشات ہماراآئین ہیں۔
جمہوری نظام میں طاقت ور سیاسی جماعتوں کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سیاسی شخصیات اور سیاسی جماعتوں کی نرسری بھی ہوتی ہے۔ بھٹو صاحب اس نرسری سے نمودار ہوئے۔ میاں نواز شریف کو جرنیلوں نے ہی لیڈر بنایا۔ الطاف حسین جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی کے بغیر وہ نہیں ہو سکتے تھے جو کہ وہ تھے۔ جنرل ایوب سیاسی جماعتوں کے سخت خلاف تھے مگر جب انہیں ضرورت پڑی تو انہوں نے کنونشن لیگ بنا ڈالی۔ جنرل ضیاء الحق کو بھی سیاسی جماعتیں زہر لگتی تھیں وہ انہیں خلاف اسلام سمجھتے تھے مگر جب انہیں ضرورت پڑی تو انہوں نے جونیجو لیگ کھڑی کر دی۔ جنرل پرویز نے ق لیگ کو جنم دیا۔ اس صورت حال نے سیاسی جماتوں اور سیاسی رہنمائوں کی کوئی ساکھ ہی نہ رہنے دی۔ میاں نواز شریف بڑے انقلابی بن کر ابھرے تھے مگر بالآخر معلوم ہوا کہ وہ اپنی انقلابیت کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے ایک بہتر ’’ڈیل‘‘ چاہتے ہیں اور بس۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے بغیر اپنا سیاسی کیرئیر بنا سکتے تھے مگر وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا پورا سیاسی نظام ایک مذاق اور ایک ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ملک و قوم کا ایک بڑا نقصان ہے مگر سیاسی رہنمائوں کو اس کا شعور ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اسے ایک بڑا قومی نقصان سمجھتی ہے۔ اقبال کو ہم مصور پاکستان کہتے ہیں اور اقبال نے اپنی شاعری میں آزادی کے ترانے گاتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے:
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ملک میں ہمیشہ آزادی کی بیخ کنی ہے اور جبر کو پروان چڑھاتا ہے۔ اقبال نے آزاد انسان کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے:
غلاموں کی بصیرت پر بھروسہ کر نہیں سکتے
کے دنیا میں فقط مردان حُر کی آنکھ ہے بینا
مگر اسٹیبلشمنٹ پاکستانی معاشرے کو ؟؟؟ بنائوں کا معاشرہ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ چاہتے ہے کہ سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں نابینا ہوں۔ علماء نابینا ہوں۔ دانش ور نابینا ہوں۔ صحافی نابینا ہوں۔ ہمارے جرنیل خود تو امریکہ کے غلام ہیں اور وہ قوم کو اپنا غلام دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال نے پاکستانی قوم کے فکری اور جذباتی ارتقا کو روک دیا ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اسے دیوزاد پیدا کرنے تھے مگرپاکستان ہر شعبۂ حیات میں بونے پیدا کر رہا ہے۔ بونے سیاست دان، بونے علماء، بونے دانش ور، بونے صحافی۔