ہم دنیا کی دوسری اقوام اور پاکستانی قوم کو دیکھتے ہیں تو یہ شعر زبان پر آجاتا ہے:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
دنیا میں کتنے ہی ملک ہیں جن میں ایک قوم آباد ہے۔ امریکہ میں امریکی قوم آباد ہے۔ فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہے۔ ہندوستان ہندو قوم کا مسکن ہے۔ چین میں چینی قوم کا بسیرا ہے۔ جاپان میں جاپانی قوم بستی ہے۔ اسرائیل میں یہودی قوم کا ڈیرا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایک قوم کو تلاش کرنا دشوار ہے۔ اس لیے کہ پاکستان میں پنجابی، سندھی، مہاجر، پشتون، بلوچی اور سرائیکی تو پائے جاتے ہیں البتہ ’’پاکستانی قوم‘‘ نام کی کوئی شے موجود نہیں۔ ہمارے یہاں ’’تقسیم‘‘ کی یہ واحد صورت نہیں۔ ملک میں مذہبی سطح پر شیعہ سنی کی تفریق موجود ہے۔ دیوبندی اوربریلوی کی تفریق موجود ہے۔ قوم فوجی اور غیر فوجی کی تفریق کا شکار ہے۔ مذہبی اور سیکولر کی تفریق میں مبتلا ہے۔ اقتصادی اعتبار سے بھی قوم تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہے۔ ایک طرف بالائی طبقہ ہے، دوسری طرف متوسط طبقہ ہے، تیسری طرف زیریں متوسط طبقہ ہے، چوتھی طرف انتہائی غریب طبقہ ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی بیک وقت کئی قومیں پیدا کررہا ہے۔ ایک جانب مدارس کے طلبہ ہیں، دوسری جانب کیمبرج سسٹم کے طلبہ ہیں، تیسری جانب انگریزی میڈیم اسکولوں کے طلبہ ہیں۔ اس منظرنامے میں ایک قوم کو تلاش کرنا دشوار ہے۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ بھی تقسیم در تقسیم کا شکار تھی، مگر پاکستان کے نظریے اور قائداعظم کی قیادت نے ایک بھیڑ کو ایک قوم بنادیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کے پاس ملک نہیں تھا صرف ملک کا تصور تھا، مگر اس تصور میں اتنی جان تھی کہ اس نے ہماری شناخت کے تمام ذیلی تصورات کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ پھر کسی کو یہ یاد نہ رہا کہ وہ بنگالی ہے، پنجابی، سندھی یا پشتون، بلوچی ہے یا سرائیکی۔ شیعہ ہے یا سنی، دیوبندی ہے یا بریلوی۔ امیر ہے یا غریب۔ پاکستان کے نظریے اور قائداعظم کی قیادت نے صرف ایک تصور کو مستحکم کیا، اور وہ یہ کہ ہم ایک قوم ہیں، ہمارا مذہب ایک ہے، ہماری تہذیب ایک ہے، ہماری تاریخ ایک ہے، ہمارا ماضی ایک ہے، ہمارا حال ایک ہے، ہمارا مستقبل ایک ہے۔ چنانچہ ہماری تقدیر بھی ایک ہے۔ اگر ڈوبیں گے تو سب ڈوبیں گے، اور اگر نیّا پار ہوگئی تو سب کی نیّا پار ہوگی۔ پاکستان کے نظریے یعنی اسلام، اور قائداعظم کی قیادت نے کثرت میں وحدت کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ میں مشکل ہی سے ملے گی۔ لیکن قائداعظم کے انتقال اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد صورتِ حال یکسر تبدیل ہوتی چلی گئی۔ ہم قوم سے دوبارہ ایک بھیڑ بنتے چلے گئے۔ اس حوالے سے اب ہم اپنے ماضی کا سایہ بھی نہیں ہیں۔
دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ دنیا کی کئی اقوام نے خود کو قوم بنانے کے لیے اپنی طاقت کیا، اپنی کمزوریوں کو بھی استعمال کرکے دکھایا ہے۔ ہندوازم کے دائرے میں وحدت ایک خواب کی طرح ہے، اس لیے کہ ہندوازم ذات پات کے نظام پر کھڑا ہوا ہے۔ اس میں ایک طرف برہمن ہیں، دوسری طرف شتریہ ہیں، تیسری جانب ویش ہیں، چوتھی جانب شودر ہیں، پانچویں جانب دلت ہیں۔ ہندوستان میں 25 سے زیادہ بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہندوستان میں اتنا لسانی تنوع ہے کہ ہر پندرہ کلومیٹر کے بعد زبان نہ بھی بدلے تو اس کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ ہندوستان تاریخ میں کبھی سیاسی وحدت کا حامل نہیں رہا۔ اکھنڈ بھارت کا تصور محض ایک خواب ہے، اس کی کوئی تاریخی حقیقت نہیں۔ ان تمام ہولناک تضادات کے باوجود ہندوستان کی سیاسی قیادت نے ایک قوم پیدا کرکے دکھائی ہے۔ ہندوستان کی سیاسی قیادت نے ہندوئوں میں اس خیال کو راسخ کردیا کہ ہندوستان ہمیشہ سے ایک عظیم ملک تھا اور وہ آئندہ بھی ایک عظیم طاقت بن کر ابھرے گا۔ آپ بھارت کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں، آپ کو اس خیال کے حامل کروڑوں لوگ مل جائیں گے۔ ان لوگوں کو اپنے انفرادی مستقبل پر شبہ ہوسکتا ہے مگر ہندوستان کے شاندار مستقبل کے بارے میں ان کے اندر کوئی شبہ نہیں پایا جاتا۔ اس طرح ہندوستان کی سیاسی قیادت نے ہندوستان کی عظمت کے خیال کو قومی وحدت پیدا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔ جمہوریت کے ناقدین کہتے ہیں کہ جمہوریت تقسیم کرتی ہے، اور یہ بات ایک حد تک درست ہے۔ مگر ہندوستان میں جمہوریت نے ایک قوم کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بلاشبہ ہندوستان کی جمہوریت ایک دھوکہ ہے، اس لیے کہ اس جمہوریت کے ذریعے ہزاروں مجرم منتخب ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے قتل، زنا بالجبر اور ڈاکے جیسے جرائم کیے ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی سیاست میں کرپٹ لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ اس کے باوجود ہندوستان کی جمہوریت پورے ہندوستان کو متحد کرتی ہے۔ یہ جمہوریت کروڑوں ہندوستانیوں کو یقین دلاتی ہے کہ وہ اپنی تقدیر کے خود مالک ہیں اور یہ کہ ان کی تقدیر مشترک ہے۔ ساری دنیا میں فلمیں صرف تفریح کا ذریعہ ہیں، لیکن ہندوستان نے اپنی فلم انڈسٹری کو قومی وحدت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ہندوستان کے چالیس، پچاس کروڑ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان بالی وڈ ہے اور بالی وڈ ہندوستان ہے۔ ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے ابھرنے والا ہیرو پورے ملک کا ہیرو ہوتا ہے۔ اس انڈسٹری سے برآمد ہونے والے گیت پوری قوم کا شعری حافظہ ہوتے ہیں۔ اس انڈسٹری کا فیشن پوری قوم کا فیشن ہوتا ہے۔ اس انڈسٹری کی کہانیاں پوری قوم کی کہانیاں ہوتی ہیں، اور ہندوستان کی فلموں کے خواب پورے ہندوستان کے خواب ہوتے ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہندوستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی ہندوستانیوں کو ایک قوم بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کانگریس نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو کی قیادت میں چالیس سال تک ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کو ایک قوم ہونے کے تجربے سے روشناس کراتی رہی ہے۔ اب یہی کام بی جے پی کررہی ہے۔ بھارت آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولر ازم نے 50 سال تک قومی وحدت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب بی جے پی مذہب کی سیاست کر رہی ہے اور ہندو ازم بھارتیوں کو ایک قوم بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بھارت میں ہندی کبھی ’’ہندی بیلٹ‘‘ کی زبان تھی، مگر بی جے پی ہندی زبان کو ملک گیر زبان بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
اسرائیل ایک ناجائز سیاسی بچہ ہے مگر اسرائیل کی قیادت نے اسرائیل میں تمام یہودیوں کو ایک قوم بنا کر دکھا دیا ہے۔ فلسطین میں حضرت سلیمانؑ کی ریاست ڈھائی ہزار سال پہلے موجود تھی اور عہدِ جدید میں اس ریاست کی بحالی کا کوئی امکان نہ تھا، مگر یہودیوں نے اپنے تاریخی تجربے کو اسرائیل کی صورت میں زندہ کر دکھایا۔ اسرائیل آئینی اعتبار سے سیکولر ریاست ہے، مگر اسرائیل کی قیادت نے یہودیت کو ایک قوم کی تشکیل کے لیے بروئے کار لا کر اسرائیل میں فکری وحدت پیدا کی۔ عبرانی ایک مُردہ زبان تھی، جس طرح ہندوستان میں سنسکرت ایک مُردہ زبان ہے، مگر اسرائیل کی سیاسی قیادت نے ایک مُردہ زبان کو زندہ کر کے دکھایا، اور آج عبرانی اسرائیل کی فکری، مذہبی، سیاسی، ثقافتی اور لسانی وحدت کی ایک توانا علامت ہے۔
امریکہ میں اتنے تضادات ہیں کہ امریکی قوم کو ایک قوم کہنا ہی دشوار ہے۔ امریکہ طویل عرصے تک خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔ امریکہ میں سفید فام اور سیاہ فام کی تفریق موجود ہے۔ مگر امریکہ کی سیاسی قیادت نے امریکہ کی عظمت، جمہوریت، معاشی قوت اور انگریزی زبان کی بنیاد پر ایک قوم پیدا کرکے دکھا دی ہے۔ امریکہ کی عظمت کا احساس امریکہ کے لیے اتنا اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے نعرے کی بنیاد پر ملک کے صدر بنے، اور وہ اسی بنیاد پر دوبارہ بھی امریکہ کے صدر بن سکتے ہیں۔ جاپان دوسری جنگِ عظیم میں تباہ بھی ہوگیا اور غلام بھی بن گیا تھا، مگر جاپان کی سیاسی قیادت نے جمہوریت، ایک زبان اور تعلیمی نظام کی بنیاد پر جاپانیوں کو دنیا کی ایک توانا قوم بناکر کھڑا کردیا۔ چین آج دنیا کی دو سپرپاورز میں سے ایک ہے۔ اس تجربے کی پشت پر کمیونسٹ پارٹی، ایک زبان اور چین کی تاریخی عظمت کا احساس موجود ہے۔ اس کے بغیر چینی قوم ایک عظیم قوم بن کر نہیں ابھر سکتی تھی۔
پاکستان نظریاتی اور تاریخی شعور کے حوالے سے بہت مال دار تھا۔ پاکستان کا نظریہ ایسا تھا کہ اس نے ایک بھیڑ کو ایک قوم بنایا تھا، محمد علی جناح کو قائداعظم میں ڈھالا تھا۔ افراد کے وکیل کو ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بناکر کھڑا کیا تھا، اور مُردہ جغرافیے کو ایک ریاست کی صورت دی تھی۔ یہ سب کچھ ’’معجزاتی‘‘ تھا، مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے ’’معجزے‘‘ کو ’’لطیفہ‘‘ بناکر رکھ دیا۔ اس نے ملک کے نظریے کو اٹھاکر ایک طرف رکھ دیا۔ اس نے نظریے کو اپنے لیے خطرہ سمجھا، اس لیے ملک میں وہ نظامِ انصاف وجود میں نہ آسکا جو معاشرے کی وحدت کا ضامن ہوتا ہے۔ چنانچہ مشرقی پاکستان میں مرکز گریز رجحانات پیدا ہوئے۔ ہماری فوجی اور سیاسی قیادت نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کی جائز شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے اُن کے خلاف فوج کشی کی۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی شکایت بغاوت میں ڈھل گئی اور بالآخر آدھا پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت اسلام کو ایک متحد کرنے والی قوت کے طور پر استعمال کرتی تو ہمارے تمام فرقہ وارانہ، مسلکی، صوبائی اور لسانی تعصبات ختم ہوسکتے تھے۔ لیکن پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت کے لیے اسلام ترجیح اوّل ہے ہی نہیں۔ جنرل باجوہ نے ایک بار فرمایا تھا کہ کرکٹ ہمیں متحد کرسکتی ہے۔ اُن کی بات غلط نہیں ہے، لیکن اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہمیں کرکٹ متحد کرسکتی ہے تو اسلام کتنا متحد کرسکتا ہے۔ مگر قوم کی بدقسمتی دیکھیے کہ ہماری فوجی اور سیاسی قیادت نے جو قومی سلامتی پالیسی تشکیل دی ہے اُس میں معیشت کو تو اہم سمجھا گیا ہے مگر مذہب کو قومی سلامتی کے سلسلے میں معیشت جتنی اہمیت بھی نہیں دی گئی۔
جمہوریت پوری دنیا میں قوم کو متحد کرتی ہے، مگر ہماری تاریخ یہ ہے کہ ہم نے 1970ء میں پہلی بار بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرائے اور ملک ٹوٹ گیا۔ اس لیے کہ ہم نے جمہوری تجربے کی تکریم نہیں کی۔ ہم نے اکثریت کے اصول کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ تسلیم کرتے تو شیخ مجیب الرحمٰن متحدہ پاکستان کے وزیراعظم ہوتے۔ مگر ہماری فوجی اور سیاسی قیادت نے شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ فوجی قیادت نے شیخ مجیب کی جمہوری فتح کا جواب فوجی آپریشن سے دیا۔ بھٹو صاحب نے اس موقع پر اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگادیا۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی قوم کو قوم بنانے والی نہیں ہیں۔ بلاشبہ میاں نوازشریف کی نواز لیگ ملک کی بڑی پارٹی ہے، مگر میاں نوازشریف کا پاکستان پنجاب سے شروع ہوتا ہے، پنجاب میں آگے بڑھتا ہے، اور پنجاب میں ختم ہوجاتا ہے۔ پیپلزپارٹی ایک عرصے تک وفاقی جماعت رہی، مگر اب وہ صرف سندھی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ ایم کیو ایم متوسط طبقے کی پارٹی تھی، مگر وہ کبھی ’’مہاجریت‘‘ سے بلند نہ ہوسکی۔ جماعت اسلامی حقیقی معنوں میں پورے ملک کی ترجمان ہے، مگر اس کی عوامی بنیاد محدود ہے۔ تحریک انصاف ایک وفاقی جماعت ہے مگر اسے اپنی اس اہمیت کا ادراک ہی نہیں۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اگر اسلام نہ ہوتا تو پاکستان نہ ہوتا۔ اسی طرح اگر اردو نہ ہوتی تو بھی پاکستان نہ ہوتا۔ مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے اردو کی اس اہمیت کو کبھی سمجھ کر نہ دیا۔ اردو کی اہمیت یہ ہے کہ وہ عربی اور فارسی کے بعد ہماری سب سے بڑی مذہبی زبان ہے۔ اردو کی شاعری کا سرمایہ غیر معمولی ہے۔ اردو نے صرف ڈھائی تین سو سال میں میر، غالب اور اقبال جیسے شاعر پیدا کیے ہیں۔ اردو نے قرۃ العین حیدر جیسی ناول نگار پیدا کی ہے۔ اردو نے محمد حسن عسکری، سلیم احمد اور شمس الرحمٰن جیسے نقاد دنیا کو دیے ہیں۔ اردو نے منشی پریم چند، بیدی، منٹو، غلام عباس اور انتظار حسین جیسے افسانہ نگار پیدا کرکے دکھائے ہیں۔ اگر برصغیر نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمال کیا ہوتا تو اردو سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان بھی ہوتی۔ اردو کی ایک اہمیت یہ ہے کہ وہ ہمارے مشترک تاریخی تجربے کو بیان کرنے والی واحد زبان ہے۔ اردو پاکستان ہی نہیں پورے برصغیر میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ قائداعظم کی مادری زبان گجراتی اور تعلیمی زبان انگریزی تھی، وہ اردو لکھ اور پڑھ نہیں سکتے تھے، مگر اس کے باوجود انہوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔ مگر پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے آج تک اردو کی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا، قوموں کی وحدت کی تشکیل میں اُن کی تاریخی عظمت کے شعور کا بھی کردار ہوتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک برصغیر پر حکومت کی ہے۔ انہوں نے کروڑوں ہندوئوں کو مسلمان بنایا ہے۔ انہوں نے تاج محل، اور اردو جیسی زبان تخلیق کی ہے۔ مگر ہماری فوجی اور سیاسی قیادت نے کبھی ہماری تاریخی عظمت کے احساس کو ہماری قوم کے شعور کا حصہ نہیں بنایا۔ اس وقت ہمارا تصورِ ذات یہ ہے کہ ہم قائداعظم کا آدھا پاکستان کھو چکے ہیں۔ باقی پاکستان انتشار اور افتراق کا شکار ہے۔ ہم سیاسی اعتبار سے امریکہ کے غلام ہیں۔ ہماری معیشت آئی ایم ایف کی مٹھی میں ہے۔ ہمارے پاسپورٹ کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں ہے۔ ہمارا یہ تصورِ ذات ہماری اجتماعی شخصیت کی نشوونما میں ایک رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران طبقے نے قوم کے سامنے کبھی کوئی بڑا ہدف ہی نہیں رکھا۔ اصول ہے: بڑا سوچو اور بڑے بن جائو۔ ہماری فوجی اور سیاسی قیادت خود جتنی چھوٹی ہے، اُس نے قوم کو بھی اتنا ہی چھوٹا بنا دیا ہے۔