ہندوئوں نے بھارت میں ایک ایسی صورتِ حال پیدا کردی ہے کہ ہر مسلمان ’’مجرم‘‘ یا ’’ممکنہ مجرم‘‘ ہے
دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں مسلمان بدترین حالات کا شکار نہیں؟ فلسطین کے مسلمان 75 سال سے ابتلا کا شکار ہیں۔ روہنگیا کے مسلمانوں کو نسل کشی کا سامنا ہے۔ سنکیانگ کے مسلمان چینی جبر کے گھیرے میں ہیں۔ لیکن ان تمام علاقوں کے مسلمان ایک چھوٹی سی اقلیت ہیں۔ فلسطین کے مسلمانوں کی تعداد 40 لاکھ ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی آبادی دس سے بارہ لاکھ ہے۔ سنکیانگ کے مسلمانوں کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک بہت بڑی اقلیت ہیں۔ ان کی آبادی 20 کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ آبادی پندرہ عرب ممالک کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود ہندوستان کے مسلمان نسل کشی کی ہر صورت کی زد میں ہیں۔
بھارت امریکہ اور یورپ کا اتحادی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے لیے بھارت ایک بڑی منڈی بھی ہے اور چین کا حریف بھی۔ مغرب کو دونوں جگہوں پر بھارت کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں ہندو انتہا پسندی اور مسلمانوں کی نسل کُشی بہت کم رپورٹ ہوتی ہے۔ مغرب کے ذرائع ابلاغ بھارت کے ہر ظلم کو نظراندازکردیتے ہیں۔ لیکن بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم اتنا بڑھ گیا ہے کہ مغرب کے ذرائع ابلاغ بھی بھارت کے مظالم اور مسلمانوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کی زیادتیوں کا ذکر دبے الفاظ میں کرنے لگے ہیں۔
دی اکنامسٹ مغرب کا ممتاز ہفت روزہ ہے۔ اسے مغرب میں کئی اعتبار سے رائے ساز سمجھا جاتا ہے۔ دی اکنامسٹ کے مطابق بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے علاقے ہری دوار میں ہندوئوں کا تین روزہ ’’مذہبی اجتماع‘‘ منعقد ہوا۔ اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک ہندو رہنما نے ہندوئوں پر زور دیا کہ وہ ہتھیار اٹھا لیں، ’’صفائی کی مہم‘‘ پر نکل کھڑے ہوں۔ دوسرے مقرر نے کہا کہ اگر ہم میں سے دو سو افراد بھی سپاہی بن جائیں تو 20 لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا جا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ اگر ہم ایسا کر گزریں تو یہ ہماری کامیابی ہوگی۔ مقرر نے کہا کہ اگر اس عمل کی پاداش میں ہمیں جیل جانا پڑے تو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
دی اکنامسٹ کے مطابق دہلی کے قریب گڑ گائوں میں مسلمانوں کو کھلے میدان میں نمازِ جمعہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کہا گیا کہ اس سے ہندوئوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ دی اکنامسٹ نے اسرائیل کی ایک یونیورسٹی ’’بار ایلان‘‘ کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کی حالت سعودی عرب اور ایران میں مذہبی اقلیتوں کی حالت سے بھی زیادہ ابتر ہے۔ دی اکنامسٹ نے لکھا ہے کہ بھارتی ریاست یوپی کے وزیراعلیٰ ادتیہ ناتھ یوگی نے ایک تقریر میں کہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں 20 فیصد کا مقابلہ 80 فیصد سے ہوگا۔
یعنی 20فیصد مسلمان 80 فیصد ہندوئوں کے مقابل ہوں گے۔ دی اکنامسٹ نے لکھا ہے کہ یہ ایک احمقانہ خیال ہے کہ بھارت کی 30 کروڑ مذہبی اقلیتیں ایک ارب 10 کروڑ ہندوئوں کے لیے خطرہ ہیں۔ دی اکنامسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے پھیلائو کو روکے، قبل اس کے کہ یہ نفرت بڑے پُرتشدد واقعات کی بنیاد بن جائے۔ دی اکنامسٹ نے اپنی ایک اور رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں سے نفرت اتنی بڑھ گئی ہے کہ انتہا پسند ہندو مودی کو مسلمانوں کا ہمدرد قرار دینے لگے ہیں۔ وہ مودی کے لیے ’’مولانا‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے لگے ہیں۔ دی اکنامسٹ کے بقول بھارت میں سوشل میڈیا پر ایسے مناظر بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کی لاشوں پر پیشاب کررہے ہیں۔
وہ نازی ازم کی پیروی کرتے ہوئے ہندو عورتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ’’آریائی بچے‘‘ پیدا کریں۔ دی اکنامسٹ کے اعدادوشمار کے مطابق ہندوستان میں 2014ء سے اب تک مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر یا “Hate Speech” کے 348 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، ان میں سے 297 واقعات میں بے جے پی کے رہنما اور کارکن ملوث ہیں۔ دی اکنامسٹ کے مطابق اس وقت بھارت کی پانچ اہم ریاستوں میں جو انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے اس میں ایسے پوسٹر استعمال ہوئے ہیں جن میں مسلمانوں کو ’’دہشت گرد‘‘ بناکر پیش کیا گیا ہے۔ انتہا پسند ہندو تنظیمیں حریف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو مسلمانوں کے لباس میں پیش کررہی ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ 1994ء میں روانڈا میں ہونے والے نسل کُشی میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ اس نسل کُشی کی پیشگوئی کرنے والے ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن (Dr Gregory Stanton) نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارت روانڈا جیسی صورتِ حال کی جانب بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ارب 40 کروڑ کے ملک میں بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کی نسل کُشی کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر گریگوری نے اس سلسلے میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور شہریت کے ترمیمی ایکٹ کی مثالیں پیش کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایکٹ خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں مذہبی امتیاز کا نشانہ بننے والے ہندوئوں کو ہندوستان میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے مگر اس ایکٹ میں مسلمان شامل نہیں۔
ڈاکٹر گریگوری کے مطابق اس ایکٹ کے تحت 1971ء میں لاکھوں کی تعداد میں مشرقی پاکستان سے آکر آسام میں آباد ہونے والے مسلمانوں کو آسام سے بے دخل کرنا ہے۔ ڈاکٹر گریگوری کے مطابق بھارت آسام میں آکر آباد ہونے والے 30 لاکھ مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتا ہے جو میانمر کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوںکے ساتھ کیا ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ بھارت کی حکومت شہریت کے قانون کو صرف آسام تک محدود نہیں رکھے گی بلکہ اس کا اطلاق پورے بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں پر کرے گی۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کُشی کوئی نئی بات نہیں۔ قائداعظم سے ایک بار پوچھا گیا تھا کہ آپ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کس طرح کے تعلقات دیکھنا چاہتے ہیں؟ قائداعظم نے کہا: جیسے تعلقات امریکہ اور کینیڈا کے درمیان ہیں، یعنی پُرامن تعلقات۔ لیکن ہندوستان کی سیاسی قیادت نے تقسیمِ برصغیر کے وقت تشدد کی آگ کو بھڑکا دیا، چنانچہ ہندوئوں اور اُن کے بازوئے شمشیرزن سکھوں نے مل جل کر 10 لاکھ مسلمان مار ڈالے، اور 80 ہزار مسلم خواتین کو اغوا کرلیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تصنیف India Wins Freedom کے 30 سال بعد سامنے آنے والے حصے میں لکھا ہے کہ دلی میں مسلم کُش فسادات شروع ہوئے تو بااثر مسلمان بھی ان کی زد میں آنے لگے، مولانا کے بقول انہیں جگہ جگہ سے فون آنے لگے کہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ کروں۔
مولانا کے بقول انہوں نے نہرو سے کئی بار مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ کرنے کو کہا، مگر نہرو نے ہر بار ایک ہی جواب دیا کہ میں وزیرداخلہ سردار پٹیل سے کہہ چکا ہوں کہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ کرو مگر وہ کچھ کرتے ہی نہیں۔ نہرو گاندھی کے بعد ہندوستان کے سب سے اہم رہنما تھے۔ سردار پٹیل کی یہ جرأت نہیں تھی کہ نہرو اُن سے کچھ کرنے کے لیے کہتے اور وہ اسے نظرانداز کردیتے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ خود نہرو بھی مسلمانوں کی نسل کُشی چاہتے تھے۔ مسلمانوں کے قتلِ عام کا سلسلہ 1947ء تک محدود نہ رہا۔ ہندوئوں نے گزشتہ 74 سال میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کُش فسادات کرائے ہیں، جن میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے ہیں۔ اب بھارت میں وہ وقت آگیا ہے کہ انتہا پسند ہندو بین الاقوامی برادری سے کوئی خوف محسوس کیے بغیر کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ہندو اٹھیں اور لاکھوں مسلمانوں کو مار ڈالیں۔
ہندوستان نے صرف مسلمانوں کی نسل کُشی ایجاد نہیں کی۔ اُس نے مسلمانوں کی ’’معاشی نسل کُشی‘‘ بھی ایجاد کی۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ انہوں نے جاگیرداری ختم کرکے ہندوستان کو حقیقی معنوں میں ’’جمہوری‘‘ بنانے کی کوشش کی۔ مگر پنڈت نہرو کا مسئلہ جمہوریت نہیں، ہندوستان کے مسلمانوں کی معاشی نسل کُشی یا معاشی تباہی تھی۔ نہرو کو معلوم تھا کہ بھارت میں لاکھوں مسلمانوں کے پاس بڑی بڑی زمینیں ہیں، اور ان زمینوں کی وجہ سے بھارت کے مسلمان معاشی اعتبار سے طاقت ور ہیں۔ چنانچہ نہرو نے مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے لیے جاگیرداری کو ختم کیا۔ تقسیم سے پہلے یہ صورتِ حال تھی کہ مسلمان بھارتی پولیس میں بارہ سے پندرہ فیصد تھے، مگر اب ان کی تعداد کم ہوکر ایک فیصد رہ گئی ہے۔
مسلمان ریلوے میں دس سے بارہ فیصد تھے، مگر اب ان کی تعداد ایک فیصد سے یا اس سے بھی کم ہے۔ اس وقت بھارت میں صورتِ حال یہ ہے کہ ایم اے اور پی ایچ ڈی مسلمان نوجوانوں کو بھی ملازمت نہیں ملتی۔ ہندو جب فسادات کراتے ہیں تو اس امر کا اہتمام کرتے ہیں کہ اُن علاقوں کو خاص طور پر نشانہ بنائیں جہاں مسلمانوں نے چھوٹی صنعتوں اور دستکاری میں اہم مقام حاصل کیا ہوا ہے۔
ہندوستان کے انتہا پسند ہندوئوں نے کروڑوں مسلمانوں کو نفسیاتی اور سماجی نسل کُشی کا بھی شکار کیا ہوا ہے۔ ہندوئوں نے بھارت میں ایک ایسی صورتِ حال پیدا کردی ہے کہ ہر مسلمان ’’مجرم‘‘ یا ’’ممکنہ مجرم‘‘ ہے۔ انڈین پالیٹکس اینڈ سائیکالوجی کے پروفیسر کرسٹوفر جفرسیٹ کا تعلق فرانس سے ہے۔ ان کے جمع کیے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں مسلمان مجموعی آبادی کا 14.9 فیصد ہیں، لیکن ان مسلمانوں کا تناسب 22.5 فیصد ہے جو جیلوں میں ہیں یا جن پر کسی نہ کسی طرح کے مقدمے چل رہے ہیں۔
آسام میں مسلمان آبادی کا 34 فیصد ہیں لیکن وہاں مسلمان قیدیوں کی شرح 47 فیصد ہے۔ گجرات میں مسلمان 10 فیصد ہیں مگر وہاں کی جیلوں میں ان کی تعداد 27 فیصد ہے۔ کرناٹک میں مسلمانوں کی آبادی 13 فیصد ہے لیکن کرناٹک کی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد 27 فیصد ہے۔ کیرالہ میں مسلمانوں کی آبادی 26 فیصد ہے لیکن وہاں مسلمان قیدیوں کی شرح 30 فیصد ہے۔ مدھیہ پردیش میں مسلمان آبادی کا صرف ساڑھے چھے فیصد ہیں لیکن جیلوں میں ان کی موجودگی 15 فیصد ہے۔ مہاراشٹر میں مسلمان ساڑھے گیارہ فیصد ہیں لیکن جیلوں میں ان کی شرح اب 36 فیصد ہے۔ راجستھان میں مسلمانوں کی آبادی 9 فیصد ہے مگر جیلوں میں ان کی تعداد 23 فیصد ہے۔ تامل ناڈو میں مسلمانوں کی آبادی مجموعی آبادی کا 6 فیصد ہے مگرجیلوں میں مسلمانوں کی آبادی 11فیصد ہے۔
یوپی میں مسلمانوں کی آبادی 19 فیصد ہے لیکن جیلوں میں موجود مسلمانوں کی شرح 29 فیصد ہے۔ بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 26 فیصد ہے مگر جیلوں میں مسلمانوں کی موجودگی 35 فیصد ہے۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو بھارت کے انتہا پسندوں نے بھارتی مسلمانوں کو ایک جرائم پیشہ قوم بنا کر کھڑا کردیا ہے۔
ایک وقت تھا کہ بھارت کے مسلمان انتخابات میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔ مسلمان مجموعی طور پر جس پارٹی کو ووٹ دیتے تھے وہی مرکز اور کئی صوبوں کا اقتدار سنبھال لیتی تھی۔ مگر بی جے پی نے بھارتی مسلمانوں کو سیاسی نسل کُشی کے عمل سے گزار دیا ہے۔ اس نے بھارت میں ایسی مسلمان مخالف فضا پیدا کردی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت نہ مسلمانوں کے لیے آواز اٹھاتی ہے نہ انہیں انتخابی ٹکٹ دیتی ہے۔ چنانچہ بھارت کی لوک سبھا اور ریاستی ایوانوں میں مسلمانوں کی نمائندگی 15 فیصد سے ایک، دو فیصد پرآگئی ہے۔ بی جے پی نے اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی میں ہندوئوں کے اُس طبقے کو بھی سیاسی طور پر متحرک کردیا ہے جو پہلے کسی بھی جماعت کو ووٹ نہیں دیتا تھا۔ چنانچہ بی جے پی ہو یا دوسری جماعتیں… وہ مسلمانوں کے ووٹ سے بے نیاز ہوگئی ہیں۔
ہندو انتہا پسند بھارت کے مسلمانوں پر الزام لگاتے ہیں کہ ان کی ہر چیز بھارت سے باہر ہے۔ ان کا مکہ اور مدینہ سعودی عرب میں ہے۔ ان کی عربی عرب دنیا سے آئی ہے۔ ان کی فارسی ایران کی عطا ہے۔ چنانچہ مسلمان کبھی بھارت کے ہو ہی نہیں سکتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اردو تو خالصتاً ہندوستان کی پیداوار ہے۔ اردو کی لغت کا 30 فیصد ہندی سے آیا ہے، لیکن اس کے باوجود ہندوستان نے مسلمانوں کی لسانی نسل کُشی کی راہ ہموار کرتے ہوئے اردو کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ بدقسمتی سے اس عمل کی ابتدا سو سال پہلے گاندھی کے زمانے میں ہی ہوگئی تھی۔
سرسید ہندو اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں کہا کرتے تھے، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ کانگریس فارسی اور اردو کو پس منظر میں دھکیل رہی ہے اور ہندی کو آگے بڑھا رہی ہے تو انہوں نے مسلمانوں کو کانگریس سے بچنے کا مشورہ دیا۔ منشی پریم چند اردو افسانے کے باوا آدم یا بنیاد گزار ہیں، مگر گاندھی کے زیراثر ایک ایسا وقت آیا کہ انہوں نے اردو کے بجائے ہندی میں لکھنا شروع کردیا۔ آج ہندوستان میں اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان باور کرایا جارہا ہے۔ اردو الفاظ محکمۂ پولیس کی زبان و بیان سے نکالے جارہے ہیں۔ ایک کمپنی نے رواج کے لفظ کو اپنے اشتہار میں استعمال کیا تو ہندوئوں نے ہنگامہ کردیا اور کمپنی کو اپنا اشتہار واپس لینا پڑا۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی نئی نسل اردو سے واقف ہی نہیں، وہ صرف ہندی جانتی ہے۔