وزیراعظم عمران خان نے ممتاز بین الاقوامی اسکالرز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے کو کرپشن اور جنسی جرائم سے نمٹنا ہوگا۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان سمیت زیادہ تر معاشروں کو دو اقسام کے جرائم کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک جرم بدعنوانی اور دوسرا جنسی جرائم کا پھیلائو ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جنسی جرائم میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم میں صرف ایک فیصد رپورٹ ہوپاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف ایک فیصد جرائم سے نمٹتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باقی 99 فیصد جرائم سے معاشرے کو نمٹنا ہوگا۔
وزیراعظم کے اس تجزیے کا بیشتر حصہ درست ہے، مگر انہوں نے 99 فیصد جرائم سے نمٹنے کا بار معاشرے کے کاندھے پر ڈال کر معاشرے کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اس طویل عرصے میں ریاست نے معاشرے کو مسلسل کمزور کیا ہے، اور اس نے سارے وسائل اپنے قبضے میں لے لیے ہیں۔ چنانچہ اصولی طور پر تمام مسائل کے حل کا بوجھ ریاست کو خود ہی اٹھانا چاہیے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ریاست اور معاشرے کے سارے وسائل اور قوت تو ریاست کے پاس ہو، مگرملک و قوم کے مسائل معاشرہ حل کرے!
تجزیہ کیا جائے تو جدید دنیا میں معاشرے اور ریاست کے تعلق کے دو ماڈل موجود رہے ہیں۔ ایک ماڈل کمیونسٹ معاشرے اور کمیونسٹ ریاست کا ہے۔ اس ماڈل کے دائرے میں ریاست اتنی طاقت ور تھی کہ معاشرے کی اس کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں رہی۔ دوسرا ماڈل لبرل معاشروں اور لبرل ریاست کا ہے۔ اس ماڈل میں فرد اور معاشرے کی آزادی اتنی اہم ہوگئی کہ خود ریاست بھی اس آزادی کی پاسدار اور پاسبان بن گئی۔
اسلامی تاریخ کے نمونے کو دیکھا جائے تو اس تاریخ میں ہمیں معاشرے اور ریاست کے درمیان کشمکش کے بجائے ہم آہنگی نظر آتی ہے۔ اس نمونے میں معاشرے کی طاقت ریاست کی قوت تھی، اور ریاست کی قوت معاشرے کی طاقت تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ریاست مدینہ کے سربراہ تھے مگر خاتم النبیین اور ریاست مدینہ کے سربراہ ہونے کے باوجود آپؐ نے قرآن کی روشنی میں معاشرے کے نمائندہ افراد کے ساتھ مشاورت کا ایک نظام قائم کررکھا تھا۔ مسئلہ جنگ کا ہو یا قیدیوں کی رہائی کا… آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے مشورہ ضرور فرماتے تھے۔
یہ ریاست کی جانب سے معاشرے کو اہمیت دینے اور اسے قوی بنانے کا عمل تھا۔ اسلامی تاریخ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے طاقت ور شخصیت حضرت عمر فاروقؓ کی تھی۔ آپؓ کے زمانے میں وقت کی دو سپرپاورز کو شکست ہوئی اور اسلام چار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ مگر حضرت عمرؓ کے انکسار کا یہ عالم تھا کہ ایک بار آپؓ نے مہر کی حد مقرر کرنے کا ارادہ کیا، اس لیے کہ آپؓ کے زمانے تک آتے آتے مسلمان خاصے مالدار ہوگئے تھے اور زیادہ سے زیادہ مہر مقرر کرنے کا رجحان فروغ پا چکا تھا۔
مہر کی حد مقرر کرنے کی بات معاشرے میں پھیلی تو ایک عام سی عورت نے حضرت عمرؓ کو ٹوک دیا۔ اُس نے کہا کہ جب قرآن مہر کی حد مقرر نہیں کرتا تو آپؓ مہر کی حد مقرر کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے یہ بات سنی تو عام مسلمان عورت کی بات نہ صرف یہ کہ تسلیم کی بلکہ عورت کے علم و فہم کی تعریف بھی کی۔ مغل بادشاہ جہانگیر کے زمانے میں حضرت مجدد الف ثانیؒ بیک وقت دین اور معاشرے کی قوت کے ترجمان بن کر ابھرے۔
انہوں نے ریاست کو چیلنج کیا اور اسے دین کے اصولوں کی پیروی پر مجبور کردیا۔ برصغیر میں دین کے تحفظ سے ریاست کی لاپروائی کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے زمانے تک آتے آتے معاشرے سے قرآن و حدیث کا علم تقریباً اٹھ چکا تھا، مگر معاشرے میں زندگی موجود تھی، چنانچہ شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے نے قرآن و حدیث کے علم کو دیکھتے ہی دیکھتے زندہ کردیا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر کے جس معاشرے کو زوال آمادہ کہا جاتا ہے اسی معاشرے نے 1857ء کی جنگِ آزادی برپا کی، اسی معاشرے نے دیوبند اور بریلی میں مدارس کو جنم دیا، اسی معاشرے نے ندوۃ العلماء کی بنیاد رکھی، اسی معاشرے نے علی گڑھ کے تعلیمی ادارے کو جنم دیا، اسی معاشرے نے اپنے عہدِ زوال میں اردو جیسی غیر معمولی زبان پیدا کرکے دکھائی، اسی معاشرے نے میر، غالب اور اقبال جیسے شاعر پیدا کیے، اسی معاشرے نے مولانا مودودیؒ اور ان کی تحریک برپا کی، اسی معاشرے نے پاکستان کا خواب دیکھا، اور اسی معاشرے نے تحریکِ پاکستان برپا کرکے قائداعظم کی قیادت میں پاکستان کے خواب کو حقیقت بناکر دکھایا۔
معاشرہ زندہ اور پُرقوت نہ ہوتا تو اِن میں سے کوئی بھی کام ممکن نہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستان کی باگ ڈور جن حکمرانوں کے ہاتھ میں آئی انہوں نے معاشرے اور ریاست کو ایک دوسرے کا حلیف بنانے کے بجائے ایک دوسرے کا حریف بناکر کھڑا کردیا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے معاشرے کی قوت اور توانائی کو اپنے لیے خطرہ سمجھا، اور وہ معاشرے کی قوت کو فنا کرنے پر تل گئے۔
پاکستان اور اس کے معاشرے کی سب سے بڑی قوت اور سب سے بڑا جمال اس کا نظریہ یعنی اسلام تھا۔ اس نظریے نے پاکستان کو عدم سے وجود میں لاکر دکھایا تھا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اگر نظریہ طاقت ور ہوجاتا تو پھر پاکستان کے فوجی اور سول آمر کہاں جاتے؟ چنانچہ پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستان کے نظریے کو پس منظر میں دھکیلنے کا عمل شروع کیا۔
ہندوستان نے آزادی کے فوراً بعد آئین بناکر ریاست کے نظریے کو عیاں کردیا تھا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے آزادی کے 9 سال بعد تک ملک کو آئین ہی فراہم نہ ہونے دیا۔ 1956ء میں ملک کو پہلا آئین فراہم ہوا، مگر 1958ء میں جنرل ایوب نے مارشل لا لگاکر آئین کو معطل کرکے پاکستان کو ایک بار پھر ریاستِ بے آئین بنادیا۔ 1962ء میں ملک کو دوسرا آئین فراہم ہوا، مگر یہ اسلامی آئین نہیں تھا۔
جنرل ایوب خود سیکولر تھے اور وہ ملک کو سیکولر بنانا چاہتے تھے۔ یہ ’’نظریاتی غداری‘‘ کی ایک بدترین مثال تھی، اور حکمرانوں کی نظریاتی غداری ہمیشہ معاشرے اور ریاست دونوں کو کمزور کرتی ہے۔ جنرل ایوب کے مارشل لا کے بارے میں عام خیال تھا کہ وہ پہلا اور آخری مارشل لا ہے۔ لیکن یہ خیال جتنا عام تھا اس سے زیادہ غلط تھا۔ ملک کی تخلیق میں جرنیلوں کا کوئی کردار نہ تھا۔
تحریکِ پاکستان اوّل و آخر ایک عوامی، قومی اور ملّی جدوجہد تھی، مگر بدقسمتی سے جرنیلوں نے خود کو ملک کا مالک بنا لیا، اور انہوں نے فوج کو ریاست کا ایک ادارہ نہ رہنے دیا بلکہ اسے پوری ریاست میں ڈھال دیا۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر امریکہ کی خفیہ دستاویزات کے مطابق وہ 1954ء سے امریکہ کے ساتھ رابطے میں تھے۔ وہ امریکیوں کو خفیہ پیغامات کے ذریعے باور کرا رہے تھے کہ سیاست دان پاکستان کو تباہ کررہے ہیں اور فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔
پاکستان جرنیلوں کو جہیز میں نہیں ملا تھا، مگر وہ 1958ء کے بعد اس کے مالک بن کر بیٹھ گئے اور سیاست میں فوج کی مداخلت ایک مستقل روش بن کر رہ گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کی ساری طاقت ایک ادارے میں مرتکز ہوکر رہ گئی، اور فوج کے غلبے نے ایک عقیدے کی حیثیت اختیار کرلی۔ جامعہ کراچی میں ہمارے ایک استاد متین الرحمٰن مرتضیٰ تھے۔ وہ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو صرف فوج نے متحد رکھا ہوا ہے۔ فوج نہ ہو تو ملک بھی نہ ہو۔
انہوں نے جب کئی بار ہم سے یہ بات کہی تو ایک روز ہم نے اُن سے عرض کیا کہ یہ جو آپ فوج کی طاقت کا اشتہار دیتے ہیں ،یہ پاکستان کی قوت کا نہیں اس کی کمزوری کا اشتہار ہے۔ آپ دراصل کہتے یہ ہیں کہ پاکستان کی قوت نہ اس کا نظریہ ہے، نہ اس کی تاریخ ہے، نہ قوم ہے، نہ قوم کا اتحاد ہے۔ اگر یہی حقیقت ہے تو یہ تو پاکستان کے بارے میں بڑی ہولناک بات ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہیں تو انہیں صرف فوج کو کمزور کرنا ہو گا۔
ہمارے استاد ہماری بات سن کر سناٹے میں آگئے اور انہیں کوئی جواب نہ سوجھا۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو سقوطِ ڈھاکا اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ ملک کا دفاع صرف فوج نہیں کرسکتی۔ کر سکتی ہوتی تو سقوطِ ڈھاکا نہ ہوتا۔ سوویت یونین تحلیل نہ ہوا ہوتا۔ افغانستان میں افغان معاشرے نے امریکہ سمیت 48 ملکوں کی فوج کو شکست نہ دی ہوتی۔
یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ 60 سال سے ہماری ہر اہم چیز امریکہ مرکز یا American Centric ہے۔ ہماری جمہوریت امریکہ مرکز ہے، ہمارا مارشل لا امریکہ مرکز ہے، ہماری معیشت امریکہ مرکز ہے، ہمارا دفاع امریکہ مرکز ہے، ہماری خارجہ پالیسی امریکہ مرکز ہے۔ یہ قوم کی آزادی اور قومی وقار کے ملیامیٹ ہونے کا منظر ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ معاشرے کا ’’سرینڈر‘‘ نہیں ہے، یہ ریاست کا ’’سرینڈر‘‘ ہے۔ یہ معاشرے کی ناکامی نہیں، یہ ریاست کی ناکامی ہے۔ یہ معاشرہ چلانے والوں کی غداری نہیں، یہ ریاست چلانے والوں کی غداری ہے۔ غور کیا جائے تو سقوطِ ڈھاکہ نے اعلان کردیا تھا کہ ریاست کے مالکان ریاست کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جان و مال کا تحفظ ریاست کی اوّلین ذمے داری ہے، مگر پاکستان میں ریاست کے مالکان عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں بھی بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عمل میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے۔ نائن الیون کے بعد ملک میں جو خانہ جنگی برپا ہوئی اُس میں 75 ہزار افراد مارے گئے۔ سندھ رینجرز کے سابق سربراہ میجر جنرل محمد سعید نے اے آر وائی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں گزشتہ 35 سال کے دوران 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا فاشزم 35 سال تک کراچی کو روندتا رہا اور ریاست تماشا دیکھتی رہی۔
اُس نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن بھی کیا تو اس سے ایم کیو ایم ’’ظالم‘‘ سے ’’مظلوم‘‘ بن گئی۔ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی بھی ریاست کا کام ہے، مگر پاکستان میں ریاست نے عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کروڑوں لوگوں کے لیے تعلیم اور صحت ایک خواب بن کر رہ گئی ہیں۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو معاشرہ اپنے شعور سے پہچانا جاتا ہے، مگر پاکستان کا حکمران طبقہ شعور کو اپنے خلاف سب سے بڑی سازش سمجھتا ہے۔ چنانچہ پاکستان کی صحافت مدتوں سے ’’پابند صحافت‘‘ بنی ہوئی ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیمیں اور طلبہ انجمنیں پابندِ سلاسل ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقے کو خوف ہے کہ کہیں پاکستان کے تعلیم یافتہ نوجوان سوچنے نہ لگ جائیں۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن ایک بات تواتر کے ساتھ کہاکرتے تھے۔ وہ کہتے تھے پاکستان میں ہر چیز پرائیویٹ سیکٹر میں ہورہی ہے۔ سید منور حسن کی یہ بات سو فیصد درست تھی۔ جہاد ریاست کی ذمے داری ہے، مگر کشمیر اور افغانستان میں جہاد ریاست نے نہیں بلکہ معاشرے نے کیا۔ چنانچہ دونوں محاذوں کے شہدا بھی ریاست سے نہیں آئے، معاشرے سے آئے۔ ہمیں یاد ہے کہ 2005ء میں زلزلہ آیا تو زلزلے سے متاثرہ کسی علاقے میں ڈھونڈے سے بھی ریاست کی موجودگی کا سراغ نہ ملا، البتہ معاشرہ ہر جگہ موجود تھا۔ جماعت اسلامی عوامی پذیرائی کے اعتبار سے ’’چھوٹی جماعت‘‘ کہلاتی ہے، مگر زلزلے کے بعد جماعت اسلامی ریاست بن کر کھڑی ہوگئی۔
اس نے نقد اور اشیاء کی صورت میں پانچ ارب روپے سے زیادہ صرف کیے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی محنت اور خدمت کی قیمت کو بھی شامل کرلیا جائے تو جماعت اسلامی نے زلزلے سے متاثرہ افراد کی خدمت پر 20 ارب روپے صرف کیے۔ زلزلے کے 17 دن بعد ہم مظفرآباد پہنچے تو دیکھا کہ کمبائنڈ ملٹری اسپتال کا ملبہ ہٹایا جارہا ہے۔ البتہ جماعت اسلامی مظفر آباد میں جو اسپتال چلا رہی تھی وہاں 17 دنوں میں 20 ہزار سے زیادہ افراد کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جا چکی تھیں۔ آپ ذرا غور تو کیجیے کہ اگر ہم اپنی قومی زندگی سے الخدمت، اخوت، ایدھی، سیلانی، چھیپا اور ان جیسے دوسرے اداروں کو نکال دیں تو پاکستان میں کروڑوں غریبوں اور ناداروں کا کیا حال ہوگا! حقیقت یہ ہے کہ یہ ادارے کروڑوں افراد کے لیے ریاست بنے ہوئے ہیں، حالانکہ یہ ادارے ریاست کی نہیں، معاشرے کی علامت ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق معاشرہ ہر سال فلاحی اداروں کو 300 ارب روپے سے زیادہ فراہم کرتا ہے۔ عمران خان نے دو شوکت خانم کینسر اسپتال بنائے ہیں اور تیسرا اسپتال وہ کراچی میں بنا رہے ہیں۔ یہ کارنامہ معاشرے کی مدد سے انجام پایا ہے۔ یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں 30 لاکھ سے زیادہ طلبہ زیرتعلیم ہیں، اور ان تمام طلبہ کا مالی بوجھ معاشرہ اٹھا رہا ہے۔
معاشرہ یہ بوجھ نہ اٹھاتا تو یہ 30 لاکھ طلبہ بھی معاشرے میں بے یارومددگار گھوم رہے ہوتے۔ ہمیں یاد ہے کہ سندھ میں سیلاب آیا تو وہاں کے لوگوںنے صحافیوں کوبتایا کہ ان کی مدد کو صرف دو ادارے آئے: جماعت اسلامی اور فوج۔ یہ صورتِ حال بتا رہی ہے کہ اپنی تمام تر خرابیوں کے باجود پاکستانی معاشرے میں زندگی موجود ہے اور وہ عوامی خدمت کے میدان میں پوری طرح متحرک ہے۔
یہ صورتِ حال اس کے باوجود ہے کہ ریاست اور اسے چلانے والوں نے معاشرے کو مضبوط اور توانا بنانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ پاکستانی ریاست معاشرے کے ساتھ مثبت تعلق کی صورت پیدا کر لے تو معاشرہ اجتماعی زندگی کو معنویت اورجہت کو بہت بڑھا سکتا ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو بڑے بڑے چیلنج نظر آرہے ہیں تو وہ ریاست سے امید وابستہ کرنے کے بجائے معاشرے کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔