جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ 20 ویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ ٹامس مان کی یہ بات سو فیصد درست ثابت ہوئی۔ 20 ویں صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں، اور جنگ ایک سیاسی تصور ہے۔ 20 ویں صدی نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور درجنوں اقوام کی آزادی کی صدی تھی، اور نوآبادیاتی تجربہ اور آزادی ہمارے عہد میں سیاسی تصورات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 20 ویں صدی میں روس، چین اور ایران میں انقلابات آئے، اور انقلاب اپنی اصل میں ایک سیاسی تصور ہے۔ 20 ویں صدی میں جدید دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان وجود میں آئی۔ یہ ایک پُرامن سیاسی انقلاب تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاست کو انقلابی ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان کی تخلیق معجزاتی تھی، اس لیے پاکستان کی سیاست کو معجزاتی بھی ہونا چاہیے تھا۔ مگر پاکستان کی سیاست انقلابی ہے نہ معجزاتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی سیاست ہولناک معذوریوں کی سیاست ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاست بیساکھیوں کے سہارے چلنے والی سیاست ہے۔
پاکستانی سیاست کی سب سے بڑی معذوری یہ ہے کہ اس کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ نظریے نے ماضی ہی میں نہیں، عہدِ حاضر میں بھی کمالات دکھائے ہیں۔ سوشلزم ایک انسانی ساختہ نظریہ تھا مگر اِس کے باوجود اس نظریے نے روس میں انقلاب برپا کرکے دکھایا، اور اس نظریے کے غلبے نے روس کی سیاست، معیشت، سماجی اور علمی زندگی ہر چیز کو بدل ڈالا۔ نظریے کی قوت نے دیکھتے ہی دیکھتے روس کو وقت کی دو سپرپاورز میں سے ایک سپرپاور بنادیا۔ روس کے نظریے نے اپنا ادب، تاریخ، علوم اور اپنی سائنس پیدا کرکے دکھائی۔ روس کا ادب صرف ادب نہیں کہلاتا تھا، بلکہ سوشلسٹ، کمیونسٹ یا مارکس ادب کہلاتا تھا۔ روس سوویت یونین بن کر ابھرا تو اس کی سائنس کو صرف سائنس نہیں کہا گیا، بلکہ سوویت سائنس کہا گیا۔ روس کے سیاسی نظریے نے روس کو چند برسوں میں سو فیصد خواندہ بنادیا۔ روس سے غربت اور بے روزگاری کو ختم کردیا۔ روس کے ہر باشندے کو اخبار، رسالے اور کتاب پڑھنے والا بنادیا۔ روس میں تعلیم اور صحت کی ہر سہولت مفت تھی۔ چین میں بھی سوشلزم نے انقلاب برپا کیا۔ چینی قوم افیون کھانے والی قوم تھی۔ اس کا کوئی حال اور کوئی مستقبل نہیں تھا۔ مگر چین کے نظریے نے قوم کا حال بھی تخلیق کیا اور مستقبل بھی تعمیر کیا۔ یہ اسی نظریے کا کمال ہے کہ آج چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن کر ابھر چکا ہے۔ چین کے نظریے نے چین میں صرف معاشی انقلاب ہی برپا نہیں کیا بلکہ معاشرے کو ’’میرٹ‘‘ اور ’’علم دوستی‘‘ کے تحفے بھی دیے ہیں۔ چنانچہ اس وقت دنیا میں چین کے اسکالرز کے تحقیقی مقالوں کی گونج سنائی دے رہی ہے، اور چین سب سے زیادہ تحقیقی مقالے تخلیق کرنے والا ملک بن کر ابھرا ہے۔ چین کے رہنمائوں کی اہلیت و صلاحیت کا یہ حال ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم معین قریشی سے جب ایک بار پوچھا گیا کہ آپ دنیا کے کس ملک کے سفارت کاروں سے متاثر ہیں؟ تو انہوں نے چین کا نام لیا، اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ چین کے سفارت کار جب ملتے ہیں تو وہ پورا ہوم ورک کرکے آئے ہوتے ہیں۔
پاکستان کا نظریہ انسانی ساختہ نہیں تھا۔ وہ الہامی تھا، اور اس کی قوت انسانی ساختہ نظریے سے لاکھوں گنا زیادہ تھی، چنانچہ پاکستان کا نظریہ پاکستان کو ایک سپرپاور بناکر ابھار سکتا تھا۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے پاکستان کے نظریے کو نظرانداز کیا اور اسے قومی زندگی پر اثرانداز ہی نہیں ہونے دیا۔ چنانچہ پاکستان کی سیاست بھی غیر نظریاتی ہوگئی۔ اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نواز لیگ ہے، میاں نوازشریف تین بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ مگر اُن کا اور اُن کی جماعت کا کوئی نظریہ ہی نہیں۔ کہنے کو تو میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ وہ ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے ہیں، مگر ہم کئی بار اپنے کالموں میں عرض کرچکے ہیں کہ میاں صاحب نظریاتی شخصیت نہیں بلکہ ’’نظرآتی شخصیت‘‘ ہیں۔ عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، اور اس سے ایسا تاثر پیدا ہوتا ہے جیسے ان کا کوئی نظریہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور اُن کی جماعت تحریک انصاف کا بھی کوئی نظریہ نہیں، نہ ہی عمران خان کسی نظریاتی ایجنڈے کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کی جماعت بھان متی کا کنبہ ہے۔ اس میں مذہبی عناصر بھی ہیں اور سیکولر اور لبرل عناصر بھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی جماعت کا کوئی نظریہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک زمانہ تھا کہ بھٹو صاحب اسلامی سوشلزم کی بات کرتے تھے، اور وہ خود کو ملک میں بائیں بازو کی سیاسی علامت بناکر پیش کرتے تھے، مگر سوشلزم بھٹو صاحب کا عشق نہیں تھا، وہ ان کا ’’فلرٹ‘‘ تھا۔ بھٹو صاحب اوّل و آخر ایک وڈیرے تھے اور وڈیروں کا کوئی نظریہ ہو نہیں سکتا۔ کہنے کو ملک میں مولانا فضل الرحمٰن بھی موجود ہیں مگر وہ ملک میں ’’مذہبی سیکولرازم‘‘ کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ وہ اوّل و آخر ایک دنیا پرست آدمی ہیں۔ انہیں دین کے غلبے کی جدوجہد سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ سیاست اور اقتدار اُن کے لیے عہدوں، مناصب اور مراعات کو ’’انجوائے‘‘ کرنے کا نام ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے مذہبی تشخص کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ’’دین کی عصبیت‘‘ کے بجائے صرف ایک ’’مسلک کی عصبیت‘‘ کے ترجمان ہیں۔ ملک پر چار فوجی آمروں نے حکومت کی ہے مگر ان میں سے تین یعنی جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز مشرف ملک کے نظریے کے بجائے سیکولرازم اور لبرل ازم کے علَم بردار تھے۔ جنرل ضیاء الحق بلاشبہ اسلام کی بات کرتے تھے، مگر اسلام ان کی ’’سیاسی ضرورت‘‘ تھا، وہ ان کا کوئی باطنی تقاضا نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے ملک میں صرف چند نمائشی اسلامی اقدامات کیے۔ ان اقدامات نے ملک کی سیاست کو نظریاتی بنانے میں کوئی کردار ادا نہ کیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف جماعت اسلامی ملک کی واحد نظریاتی جماعت ہے، اور اس نے ملک کو نظریاتی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور بڑے معرکے سر کیے ہیں۔ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے طلبہ کے محاذ پر سوشلسٹوں اور سیکولر اور لبرل عناصر کو پسپا کیا۔ جماعت کی مزدور انجمنوں نے محنت کشوں کے دائرے میں بائیں بازو کے عناصرکو کامیابی کے ساتھ چیلنج کیا۔ مگر اب جماعت اسلامی بھی عرصے سے نظریاتی سیاست کے تقاضے پورے نہیں کر رہی ہے، وہ اس حوالے سے صرف اپنے شاندار ماضی کی گونج بن کر رہ گئی ہے۔
پاکستان کی سیاست کی دوسری بڑی معذوری یہ ہے کہ پاکستان میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی جماعت بھی جمہوری نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کی عمر نصف صدی سے زیادہ ہے، مگر ان پچاس برسوں میں جمہوریت ایک بار بھی پیپلزپارٹی میں داخل نہیں ہوئی۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت اور جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ مگر وہ مزاجاً فسطائی تھے، انہوں نے کبھی پارٹی میں انتخابات نہ ہونے دیے۔ بے نظیر بھٹو مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی فارغ التحصیل تھیں اور وہ مغرب کی ’’ڈارلنگ‘‘ بھی تھیں، مگر وہ کبھی پیپلزپارٹی میں جمہوریت کو داخل نہ کر سکیں۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سے تو خیر یہ توقع ہی عبث ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کو جمہوری بنائیں گے۔ اس اعتبار سے پیپلزپارٹی بھٹو خاندان کی ’’باندی‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔
میاں نوازشریف نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بلند کررکھا ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ بڑے جمہوریت پسند ہیں۔ مگر میاں نوازشریف نے گزشتہ پچیس سال کے دوران کبھی پارٹی میں انتخابات نہیں کرائے۔ تیس سال سے وہ پارٹی کی قیادت کررہے ہیں، وہ نہیں ہوں گے تو اُن کی بیٹی مریم نواز پارٹی کی رہنما ہوں گی۔ وہ بھی نہیں ہوں گی تو میاں نوازشریف کے بھائی میاں شہبازشریف نواز لیگ کے سربراہ ہوں گے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو نواز لیگ شریف خاندان کی ایک سیاسی رکھیل ہے اور بس۔
عمران خان ’’تبدیلی‘‘ کی علامت بن کر سامنے آئے۔ انہوں نے ایک بار پارٹی میں انتخابات بھی کرائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جسٹس(ر) وجیہ کو نگران مقرر کیا۔ مگر ان انتخابات میں زبردست دھاندلی ہوئی۔ چنانچہ جسٹس (ر) وجیہ نے پارٹی میں دوبارہ انتخابات کرانے کی تجویز دی۔ بجائے اس کے کہ عمران خان جسٹس (ر) وجیہ کی بات مانتے، انہوں نے جسٹس (ر) وجیہ ہی کو پارٹی سے نکال دیا، اور اب وہ جسٹس (ر) وجیہ کو مسخرہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ صورتِ حال بتا رہی ہے کہ تحریک انصاف صرف عمران خان کی جاگیر ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے پیٹ میں بھی اکثر جمہوریت کا درد ہوتا رہتا ہے، مگر جمعیت علمائے اسلام بھی ایک خاندانی پارٹی ہے۔ مفتی محمود اس کے سربراہ تھے، اب مولانا فضل الرحمٰن اس کے قائد ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نہیں ہوں گے تو اُن کے فرزند یا بھائی جمعیت علمائے اسلام کے رہنما ہوں گے۔ مطلب یہ کہ جمعیت علمائے اسلام کی قیادت ہمیشہ ایک ہی خاندان میں رہے گی۔ ایم کیو ایم متوسط طبقے کی جماعت تھی، مگر اس میں بھی الطاف حسین نے کبھی انتخابات نہیں ہونے دیے۔ صرف جماعت اسلامی ہے جس میں وقتِ مقررہ پر انتخابات ہوتے ہیں اور قیادت ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی ہے۔ مولانا مودودیؒ چاہتے تو تاحیات پارٹی کے سربراہ رہ سکتے تھے، مگر مولانا نے خود کو قیادت کے منصب سے الگ کرلیا۔
پاکستان کی سیاست کی تیسری بڑی معذوری یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کا غلبہ ہے۔ جرنیلوں کا جب دل چاہتا ہے وہ اقتدار پر قبضہ کرلیتے ہیں، لیکن جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے تب بھی پردے کے پیچھے سے ڈوریاں ہلاتے رہتے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ملک کے بڑے بڑے سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کی نرسری سے برآمد ہوئے ہیں۔ بھٹو صاحب جنرل ایوب کی کابینہ کا حصہ تھے اور وہ جنرل ایوب کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ میاں نوازشریف جنرل ضیاء اور جنرل جیلانی کی ’’سیاسی کاشت کاری‘‘ کا حاصل تھے اور وہ ایک زمانے تک جنرل ضیاء الحق کو اپنا روحانی باپ کہا کرتے تھے۔ الطاف حسین بھی جنرل ضیاء الحق کی ایجاد تھے۔ عمران خان کے اندر یہ صلاحیت تھی کہ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرسکتے تھے، مگر انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے جرنیلوں کے سائے میں پناہ لی۔ کہنے کو میاں نوازشریف مزاحمت کی سیاست کررہے ہیں، مگر اصل میں ان کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کی سیاست ہے۔ میاں صاحب اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرکے ہی ملک سے باہر گئے، اور اب بھی وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کے ذریعے ایک نئی ڈیل کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ ملک آئیں گے تو کسی ڈیل ہی کے تحت۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری سیاست ’’ڈیلز اور ڈیلرز‘‘ کی سیاست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست کا کوئی وقار ہی نہیں، اور یہ سیاست ملک و قوم کو عروج کی طرف لے جا ہی نہیں سکتی۔
پاکستانی سیاست کی ایک معذوری یہ ہے کہ وہ ’’امریکہ مرکز‘‘ یا America Centric ہے۔ امریکہ چاہتا ہے تو ملک میں مارشل لا لگ جاتا ہے، امریکہ چاہتا ہے تو جمہوریت بحال ہوجاتی ہے۔ میاں صاحب جنرل پرویز کے دور میں سعودی عرب فرار ہوئے تو جنرل حمیدگل نے فرمایا کہ امریکہ اپنے آدمی کو نکال کر لے گیا۔ جنرل پرویز اور بے نظیر بھٹو کو این آر او کی ضرورت پڑی تو امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈو لیزا رائس اس سلسلے میں بروئے کار آئیں۔
پاکستان کی سیاست ہی نہیں بلکہ معیشت بھی امریکہ مرکز ہے۔ آئی ایم ایف امریکہ کا ادارہ ہے۔ آئی ایم ایف ہمارا بجٹ بناتا ہے، وہی ہمیں اسٹیٹ بینک کا گورنر مہیا کرتا ہے، آئی ایم ایف ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ ملک کا وزیرخزانہ کون ہوگا۔ اس صورتِ حال نے ہماری آزادی اور اقتدارِ اعلیٰ کو ایک مذاق بنادیا ہے۔
پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی رہنمائوں کی اخلاقی ساکھ ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ ایک بار قائداعظم انگریزی میں تقریر کررہے تھے۔ ایک صاحب جنہیں انگریزی نہیں آتی تھی وہ قائداعظم کی تقریر پر واہ، واہ کررہے تھے۔ کسی نے پوچھا: تمہیں انگریزی تو آتی نہیں۔ واہ واہ کرنے والے نے کہا: مگرمجھے اتنا معلوم ہے کہ قائداعظم جو کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی قائدین کی کوئی اخلاقی ساکھ ہی نہیں۔ میاں نوازشریف ملک لوٹے تو اُن کا خیال تھا کہ لاہور میں لاکھوں لوگ اُن کے استقبال کے لیے موجود ہوں گے، مگر لاکھوں لوگ کیا، میاں شہبازشریف اور نواز لیگ کے دوسرے رہنما بھی ہوائی اڈے نہ پہنچے۔ اس سے ثابت ہوا کہ لوگ نوازشریف کو نوٹ دے سکتے ہیں، ووٹ دے سکتے ہیں، مگران کے لیے جیل نہیں جا سکتے، ان کے لیے لاٹھیاں نہیں کھا سکتے، ان کے لیے جان تو ہرگز بھی نہیں دے سکتے۔ بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ ان کو مار دیا گیا تو ہمالیہ روئے گا اور سندھ میں طوفان برپا ہوجائے گا۔ مگر نہ ہمالیہ رویا، نہ سندھ میں طوفان اٹھا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف جب فوجی آپریشن شروع ہوا تو الطاف حسین کو توقع تھی کہ لاکھوں لوگ فوجی آپریشن کی مزاحمت کریں گے۔ وہ ہر پانچ منٹ بعد فون
کرکے معلوم کرتے رہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ ہر بار انہیں بتایا جاتا کہ ہر طرف سناٹے کا راج ہے۔ لوگ الطاف حسین کو بھی ووٹ دے سکتے تھے، نوٹ دے سکتے تھے، مگر ان کے لیے گولیاں نہیں کھا سکتے تھے۔ اخلاقی ساکھ ہے تو رجب طیب اردوان کی۔ اُن کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی تو انہوں نے موبائل کے ذریعے لوگوں سے فوجی بغاوت کی مزاحمت کی اپیل کی۔ اس اپیل کو سنتے ہی ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، وہ ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے، انہوں نے سینے پر گولیاں کھائیں مگر فوجی بغاوت کو ناکام بنایا۔ پاکستانی سیاست دان ایسی اخلاقی ساکھ کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔
پاکستان ایک نظریے کا حاصل ہے۔ چنانچہ پاکستان کی سیاست کو اسلامی اور قومی ہونا چاہیے تھا۔ مگر پاکستان کی سیاست میں پنجابیت، سندھیت، مہاجریت، پشتونیت اور بلوچیت کا کھیل چل رہا ہے۔ مذہبی دائرے میں فرقوں اور مسالک کی سیاست چل رہی ہے۔ میاں نوازشریف خود کو پورے ملک کا رہنما سمجھتے ہیں، مگر اُن کا پاکستان پنجاب سے شروع ہوکر پنجاب پر ختم ہوجاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کبھی ایک وفاقی جماعت تھی مگر اب وہ صرف ایک سندھی جماعت ہے اور سندھ میں کھل کر لسانی سیاست کررہی ہے۔ تحریک انصاف پورے ملک سے فتح یاب ہوئی تھی مگر اس نے خود کو وفاق کی علامت ثابت نہیں کیا۔
ہماری تہذیب اور تاریخ میں سیاست اپنی ملّت اور قوم کی خدمت کا دوسرا نام ہے، مگر ہماری بڑی سیاسی جماعتیں صرف اقتدار میں آکر ملک و قوم کی خدمت کرتی ہیں۔ صرف جماعت اسلامی وہ جماعت ہے جو اقتدار میں آئے بغیر ملک و قوم کی خدمت کا شاندار ریکارڈ رکھتی ہے۔ ملک میں زلزلہ آئے تو جماعت اسلامی ریاست بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ سندھ میں سیلاب آئے تو جماعت اسلامی متاثرین کی امداد کو پہنچتی ہے۔ یتیموں کی کفالت کا مسئلہ کھڑا ہو تو جماعت اسلامی آگے بڑھ کر مسئلہ حل کرنے کے لیے کوشاں ہوجاتی ہے۔ نواز لیگ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے مگر اس کے جذبۂ خدمت کا یہ حال ہے کہ اس کا کوئی شعبۂ خدمتِ خلق ہی نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کا بھی کوئی شعبۂ خدمتِ خلق نہیں ہے۔ تحریک انصاف بھی ایک پارٹی کی حیثیت سے خدمت ِ خلق کی کوئی تاریخ نہیں رکھتی۔ اس صورتِ حال نے سیاست جیسے مقدس کام کو گالی بناکر رکھ دیا ہے۔