اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا:
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
اکبر کے زمانے تک اس شعر کا اکبر ایک فرد تھا، اب تمام مسلمان ہیں۔ غزہ کے مسلمان، مقبوضہ کشمیر کے مسلمان، امریکہ کے مسلمان، فرانس کے مسلمان، میانمار کے مسلمان اور ہندوستان کے بے مثال مسلمان۔ اکبر خوش قسمت تھے کہ اُن کے رقیب اُن کے خلاف تھانے میں صرف رپٹ درج کراتے تھے۔ اب تو رقیب میزائلوں اور ڈرونز سے حملے کرتے ہیں۔ گوانتاناموبے میں قید کردیتے ہیں۔ مسلمانوں کو زندہ جلا دیتے ہیں۔ قصور تمام مسلمانوں کا ایک ہی ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ وہ اِس زمانے میں اللہ اور رسولؐ کا نام لیتے ہیں، اپنے دین سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، اور اس دین کو غالب کرنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ اکبر جس ہندوستان میں تھے اُس ہندوستان کے مسلمانوں کا حال اتنا پتلا ہے کہ ہندوستان مسلمانوں کا جہنم محسوس ہوتا ہے۔ کئی سال پہلے ایک امریکی صحافی نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے لکھا تھا کہ وہ غزہ محسوس ہونے لگا ہے۔ مگر اب تو پورے ہندوستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ غزہ محسوس ہونے لگا ہے۔ اس صورت حال کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ غزہ کی آبادی صرف 15 لاکھ ہے، جبکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی آبادی 25 کروڑ ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ نائن الیون کے بعد مغربی دنیا کے رہنما یہ تاثر دیا کرتے تھے کہ وہ اسلام یا مسلمانوں کے خلاف تھوڑی ہیں، وہ تو صرف اسامہ بن لادن اور ملّا عمر جیسے لوگوں کے خلاف ہیں جو اُن کے بقول خود بھی دہشت گرد ہیں اور دہشت گردوں کے پشت پناہ بھی ہیں۔ اُس وقت ہم نے ان کالموں میں عرض کیا تھا کہ مغرب کے رہنما جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کا اصل مسئلہ اسلام ہے۔ آج وہ ’’انقلابی اسلام‘‘ کے خلاف ہیں۔ کل انہیں معلوم ہوگیا کہ نماز مسلمانوں کو بہتر مسلمان بناتی ہے تو وہ نماز کی بھی مخالفت کریں گے اور اُسے بھی جہاد کے ہم پلہ بنادیں گے۔ بدقسمتی سے اِس وقت ہندوستان میں اذان اور نماز دونوں کے خلاف آوازیں بلند ہورہی ہیں، اور آوازیں بلند کرنے والے عام ہندو نہیں ہیں۔ بھوپال سے تعلق رکھنے والی بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ مادھوی پرگیہ نے صاف کہا ہے کہ اذان سے سادھو سنتوں کی پوجا میں خلل پڑتا ہے اور لوگوں کی نیند خراب ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اذان دینے والے مریضوں تک کا خیال نہیں رکھتے۔ ہندوئوں کی ایک تنظیم ’’ہندو سنگھرش سمیتی‘‘ نمازِ جمعہ کے اجتماعات پر پابندی کے لیے مسلسل کوششیں کررہی ہے۔ اس تنظیم کے رہنمائوں کا اصرار ہے کہ مسلمان دہلی کے قریب گڑ گائوں میں کھلے میدان نمازِ جمعہ کے لیے استعمال کررہے ہیں اور وہ دراصل نماز ادا نہیں کررہے بلکہ میدانوں پر قبضے کے لیے کام کررہے ہیں۔ یہ تنظیم گڑگائوں میں بعض مقامات پر نمازِ جمعہ کے اجتماع کو روک چکی ہے۔ اس تنظیم کے لوگوں نے نمازِ جمعہ کے اجتماع کو ناممکن بناکر مسلمان مخالف نعرے لگائے۔ اس سلسلے میں علاقے کی پولیس ہندو تنظیم کی سرپرستی کررہی ہے اور اُس نے گڑگائوں کے علاقے میں 37 میں سے 8 مقامات پر نمازِ جمعہ ناممکن بنا دی ہے۔ پولیس نے نمازِ جمعہ کے سلسلے میں جاری کیے گئے اجازت نامے واپس لے کر مسلمانوں کی اجتماعی عبادت کے خلاف سازش کرڈالی ہے۔ اذان دہشت گردی ہے نہ نمازِ جمعہ دہشت گردی ہے، مگر آج کا ہندوستان اس کے باوجود ان پر پابندی لگانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسئلہ مسلمان نہیں بلکہ اسلام ہے۔ مسئلہ ’’دہشت گرد‘‘ مسلمانوں کا نہیں، تمام مسلمانوں کا ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے لیے ہندوستان کے جہنم بننے کا عمل بی جے پی اور اس کی انتہا پسندی نے شروع کیا ہے۔ مگر یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ گاندھی تو مہاتما تھے، اور وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک قوم سمجھتے تھے، مگر اُن کا اسلام، مسلمانوں اور اُن کی تہذیب سے تعصب ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ ہم نے 1930ء میں کی جانے والی مولانا محمد علی جوہر کی ایک تقریر دیکھی ہے، اس تقریر میں مولانا کہہ رہے تھے کہ ہندو شدھی کی تحریک کے تحت مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنا رہے ہیں، یہ سب کچھ گاندھی کے سامنے ہورہا ہے، مگر وہ ہندوئوں کو شدھی کی تحریک سے باز رہنے کا حکم نہیں دیتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گاندھی خود شدھی کی تحریک کے حامی تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ جو ہندو مسلمان ہوگئے ہیں انہیں دوبارہ ہندو ازم کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ گاندھی ہندوستان کو سیکولر ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے، بلکہ وہ ہندوستان کو ہندو ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وہ ہندوستان میں ’’رام راج‘‘ کی بات کرتے تھے، یعنی وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان میں چھے ہزار سال پرانے رام راج کا احیاء ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ایک جانب ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک قوم قرار دیتے تھے اور دوسری جانب رام راج کی بات کرتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان رام راج کو کیسے قبول کرسکتے تھے؟ کیونکہ رام راج تو ہندوازم کی بالادستی کی علامت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو گاندھی کی قوم پرستی جھوٹی اور جعلی تھی، اور وہ ہندوستان پر صرف ہندوئوں کو بالادست دیکھنا چاہتے تھے۔ ہندوئوں کے مفکرین یہ کہتے رہے ہیں کہ مسلمانوں کی کوئی چیز بھی مقامی نہیں۔ ان کا مکہ یہاں ہے نہ مدینہ یہاں ہے۔ لیکن یہ بات محض ایک پردہ ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوئوں کو مسلمانوں کی ’’مقامیت‘‘ سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اردو نہ مکہ سے آئی ہے نہ مدینہ سے آئی ہے۔ وہ نہ ایرانی ہے، نہ تورانی ہے۔ اردو ہندوستان کی خاک سے اٹھی ہے۔ اس کا چالیس فیصد حصہ ہندی سے آیا ہے، مگر گاندھی نے اردو کو ’’مقامی زبان‘‘ کے بجائے مسلمانوں کی زبان باور کرایا، اوراردو کو پس منظر میں دھکیل کر ہندی کو فروغ دیا۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر ہی سرسید نے مسلمانوں کو کانگریس سے دور رہنے کی تلقین کی۔ گاندھی ایک جانب ہندو مسلم اتحاد اور ایک قومی نظریے کا پرچار کرتے تھے مگر دوسری جانب جب نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کی تو گاندھی سخت برہم ہوئے۔ انہوں نے وجے لکشمی پنڈت کو بلایا اور کہا کہ تمہیں کروڑوں ہندوئوں میں سے ایک ہندو بھی ایسا فراہم نہیں ہوسکا جس سے تم شادی کرسکو! انہوں نے وجے لکشمی پنڈت کو سخت سست کہا اور ان کی شادی ختم کراکے دم لیا۔ ہم بھارت کی اسلام اور مسلمان دشمنی کے سلسلے میں سارا بوجھ بی جے پی پر ڈالتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کا مطالبہ لال کرشن ایڈوانی یا نریندر مودی کے زمانے میں نہیں بلکہ گاندھی اور نہرو کے زمانے میں سامنے آیا۔ قیام پاکستان کے بعد جو مسلم کُش فسادات ہوئے وہ گاندھی اور نہرو کے دور میں ہوئے، ایڈوانی اور مودی کے زمانے میں نہیں۔ بابری مسجد بھی بی جے پی کے عہدِ اقتدار میں نہیں بلکہ کانگریس کے دورِِ اقتدار میں شہید ہوئی۔ مولانا آزاد نے اپنی مشہور کتاب ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ میں لکھا ہے کہ جب قیامِ پاکستان کے وقت دہلی میں مسلم کُش فسادات شروع ہوئے تو مسلم اشرافیہ کے گھروں پر بھی حملے ہونے لگے۔ چنانچہ مسلمانوں نے تحفظ کے لیے مولانا آزاد سے رجوع کیا۔ مولانا نے نہرو سے کہا کہ وہ فسادات بند کرانے کے لیے کچھ کریں، مگر نہرو نے صاف کہہ دیا کہ میں تو سردار پٹیل سے کہہ رہا ہوں کہ وہ فسادات بند کرائیں مگر وہ میری بات نہیں سنتے۔ سردار پٹیل بھارت کے وزیرداخلہ تھے۔ نہرو بھارت کے وزیراعظم تھے اور مقبول وزیراعظم تھے۔ وہ کانگریس میں گاندھی کے بعد دوسرے اہم شخص تھے، اور یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ وزیرداخلہ کو کوئی حکم دیں اور وہ ماننے سے انکار کردے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نہرو بھی چاہتے تھے کہ مسلم کُش فسادات جاری رہیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ بھارت کی ہندو قیادت نے بھارت میں مسلم کش فسادات کوایک انڈسٹری بنادیا۔ یہ انڈسٹری ہر دور میں پھلی پھولی اور 74 سال میں ہونے والے پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات اس انڈسٹری کی ’’ترقی‘‘ کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔
مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔ ایک ہزار سال کا اقتدار معمولی چیز نہیں ہے۔ اتنا طویل اقتدار کسی بھی انسانی گروہ کو معاشی اعتبار سے محفوظ اور توانا کردیتا ہے، مگر ہندو قیادت نے بھارت کے مسلمانوں کو 74 سال میں معاشی اعتبار سے بھارت کے ’’نئے شودر‘‘ بناکر کھڑا کردیا ہے۔ مسلمان جس علاقے میں ترقی کرتے ہیں، ہندو وہاں فسادات کرواکے مسلمانوں کا کاروبار تباہ کردیتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ بھارت کی پولیس میں مسلمانوں کی موجودگی دس سے بارہ فیصد تھی جو اَب گھٹ کر ایک سے دو فیصد کے درمیان رہ گئی ہے۔ ریلوے میں مسلمانوں کی موجودگی پندرہ فیصد تک تھی، مگر اب یہاں مسلمانوں کی موجودگی ایک فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔
ہندوستان مسلمانوں کے لیے اس لیے بھی جہنم بن چکا ہے کہ ہندو قیادت کا تصورِ مسلمان مسلسل زوال پذیر ہے۔ گاندھی اور نہرو کے زمانے میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری تھے، مگر مودی مسلمانوں کو کتا سمجھتا ہے۔ اُس سے ایک بار پوچھا گیا کہ کیا آپ کو مسلمانوں کے مرنے پر دکھ نہیں ہوتا؟ تو مودی نے کہا: آپ کی کار کے نیچے اگر کتے کا پِلّا آجائے گا تو آپ کو دکھ تو ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مودی کے نزدیک مسلمان کتّے کے پلّے ہیں، دوسرے درجے کے شہری نہیں۔ یوپی میں یوپی کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کی موجودگی میں بی جے پی کے ایک مقامی رہنما نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں مسلمان خواتین کو قبروں سے نکال کر ریپ کرنا پڑے تو ہمیں یہ کر گزرنا چاہیے۔ اس سے معلوم ہواکہ اب ہندوستان میں مسلمان مُردے کی حیثیت سے بھی محترم نہیں۔ اب ہندوستان میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انہیں گائے کا گوشت رکھنے کے الزام کے تحت نشانے پر رکھ لیا جائے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ بھارت کا صرف عام مسلمان دیوار سے لگا کھڑا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بالی وڈ کی بڑی بڑی مسلمان شخصیتیں بھی دیوار سے لگا دی گئی ہیں۔ بھارت کے ممتاز فلم نگار اور شاعر جاوید اختر اور ان کی اہلیہ شبانہ اعظمی طویل عرصے تک ہندو علاقوں میں گھر تلاش کرتے رہے مگر انہیں کسی نے گھر نہ لینے دیا۔ شاہ رخ خان بالی وڈ کا بادشاہ ہے، مگر اس کے بیٹے آریان کو منشیات کے ایک مقدمے میں گھسیٹ لیا گیا اور اسے 20 دن تک جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس ظلم پر پورا بالی وڈ خاموش رہا اور کسی نے بھی شاہ رخ کے حق میں آواز بلند نہیں کی۔
ہم نے بھارت کے مسلمانوں کو ’’بے مثال‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کا زیرِ بحث موضوع سے گہرا تعلق ہے۔ انسانی تاریخ میں اپنے لیے تو درجنوں گروہوں نے جدوجہد کی ہے، مگر بھارت کے مسلمان وہ گروہ ہیں جنہوں نے اُس پاکستان کے لیے جدوجہد کی جس میں وہ آباد ہونے والے نہیں تھے، لیکن چونکہ ایک اسلامی ریاست بھارتی مسلمانوں کا خواب تھی اس
لیے انہوں نے قیامِ پاکستان کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دی۔ پاکستان پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان اور بنگال میں بن رہا تھا اور اس کے لیے دہلی، یوپی اور سی پی کے لوگ جدوجہد کررہے تھے۔ یہ قربانی اور بے لوثی کی ایسی مثال ہے جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ لیکن آج بھارت کے بے مثال مسلمان ہندوستان کے جہنم میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ قائداعظم ہندوستان کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے تاریخ ساز کردار اور ان کی اہمیت کے قائل تھے۔ چنانچہ انہوں نے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو ’’مینارۂ نور‘‘ کہا ہے، اور فرمایا ہے کہ اگر بھارت کی قیادت نے مسلم اقلیت کو نقصان پہنچایا تو پاکستان خاموش تماشائی نہیں بنا رہے گا، وہ مداخلت کرے گا۔ اور ظاہر ہے کہ مداخلت فوجی اعتبار سے کی جاتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان نے بھارت کے مسلمانوں کو تنہا چھوڑ رکھا ہے۔ قائداعظم بھارت کے مسلمانوں سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اُن سے جب ایک اجلاس میں کہا گیا کہ کیا آپ بھارت کے قیادت سے محروم مسلمانوں کی قیادت کریں گے؟ تو قائداعظم نے فرمایا: اگر یہ اجلاس ایک قرارداد منظور کرلے تو وہ بھارت میں جاکر آباد ہونے اور مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مگر پاکستان قائداعظم کے ان افکار کو فراموش کرچکا ہے۔ بلاشبہ پاکستان اگر مضبوط اور توانا ہوتا تو بھارت کبھی بھی مسلمانوں کے لیے جہنم نہیں بن سکتا تھا۔