کسی مسلمان کے لیے اس سے زیادہ خوش بختی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ وہ سچا اور پکا مذہبی انسان بن جائے۔ وہ جو کچھ سوچے مذہب کی روشنی میں سوچے، وہ جو کچھ دیکھے مذہب کے حوالے سے دیکھے، وہ جو کچھ کرے مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے کرے۔ لیکن کیا مذہب صرف کسی ظاہری وضع قطع کا نام ہے؟ کیا مذہب اور اس کی اصل روح صرف وہی ہے جو میں سمجھتا ہوں؟ یہ سوالات اہم ہیں اور ان کا مسلمانوں اور خاص طور پر ہمارے معاشرے کی مجموعی صورتِ حال سے بہت گہرا تعلق ہے۔
اس تعلق کی ایک صورت یہ ہے کہ بظاہر ہمارے معاشرے میں ’’مذہبیت‘‘ بڑھ رہی ہے، مذہبی جذبات پروان چڑھ رہے ہیں، مذہبی خیالات پرورش پارہے ہیں، لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی ظاہری وضع قطع بدل رہی ہے، مساجد میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نظر آرہی ہے، حاجیوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے، دینی مدرسوں کی فہرست طویل ہورہی ہے، پردے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس منظرنامے کا تضاد بالعموم یہ پیش کیا جاتا ہے کہ مذہبیت بڑھ رہی ہے تو مذہب گریز رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ نوجوان مساجد کا رخ کررہے ہیں تو نوجوان پاپ کلچر پر بھی جان دے رہے ہیں۔ اس طرح کی مثالوں کی فہرست طویل ہے اور اسے طویل تر کیا جا سکتا ہے، لیکن سرِدست ہمارا مسئلہ یہ فہرست نہیں، ہمارا مسئلہ کچھ اور ہے۔
مذہب کا کام انسان کو بہتر انسان بنانا ہے۔ مذہبی اصطلاح استعمال کی جائے تو کہا جائے گا کہ مذہب کا مقصد انسان کو مثالی ’’عبد‘‘ بنانا ہے۔ اس تناظر میں ہمارا سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں مذہب انسان کو بہترین عبد، بہترین انسان کیوں نہیں بنا رہا؟ یا یہ کہ ہم مذہب کے زیراثر آنے کے بعد بہتر انسان کیوں نہیں بن رہے؟ ایسا کیوں ہے کہ فرقہ واریت بڑھ رہی ہے؟ ایک فرقہ دوسرے کا دشمن بنا ہوا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ ہمیں اپنی مذہبیت خالص، بہترین اور دین کے عین مطابق، اور دوسروں کی مذہبیت ملاوٹ والی، کمترین اور دین سے متصادم نظر آتی ہے؟ ہم ’’تمہارے لیے تمہارا دین اور ہمارے لیے ہمارا دین‘‘ کے اصول پر عمل کیوں نہیں کر پا رہے؟ کیا ہماری مذہبیت میں کوئی خامی ہے؟ خامی ہے تو ہم اس کا اعتراف کیوں نہیں کرتے؟ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہماری مذہبیت کے حوالے سے اٹھے ہوئے ہیں، اور ضرورت ہے کہ ہم ان سوالات پر سنجیدگی سے غور کریں۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنی مذہبیت اور اس کی نوعیت پر غور کرنا ہوگا۔
مذہبیت کا معاملہ عجیب ہے۔ انسان اپنی ہر چیز پر غور کرتا ہے اور کبھی نہ کبھی ان کا تنقیدی جائزہ لے لیتا ہے، لیکن مذہبیت پر غور نہیں کرتا، اس کا تنقیدی جائزہ نہیں لیتا۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ مذہبیت سے مراد کوئی خاص مذہب یا انسان کے مذہبی عقائد نہیں، کیونکہ مذہب کی نوعیت تقلیدی ہوتی ہے، اور بنیادی مذہبی عقائد انسان کو اتنے ہی فطری معلوم ہوتے ہیں جتنے کہ اس کی آنکھیں، ہاتھ اور سانس۔ دراصل یہاں مذہبیت سے مراد مخصوص مذہبی رویہ، مذہبی نوعیت کی طرزِ زندگی، ہماری وضع قطع، عبادات اور ان کا ادا کرنا اور مذہب کا فہم ہے۔ یہ ساری چیزیں بے شک مذہبی عقائد ہی سے برآمد ہوتی ہیں، لیکن بہرحال مذہبی عقائد کی نسبت ان کی نوعیت ثانوی ہوتی ہے، لیکن لوگ انہیں مذہبی عقائد ہی کے برابر درجہ دیتے ہیں، اور چونکہ وہ انہیں مذہبی عقائد ہی کے برابر سمجھتے ہیں، اس لیے ان میں بھی ازخود ایک ایسی تقدیس در آتی ہے جس پر غور کرنا اور جس کا تنقیدی جائزہ لینا دشوار بلکہ تقریباً ناممکن محسوس ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ انسان جو کچھ خود کرتا ہے، وہ اُسے درست دکھائی دیتا ہے، اور جو کچھ دوسرے کرتے ہیں، اس میں اُسے خامیاں، کمزوریاں اور انحرافات نظر آتے ہیں۔
خیر، یہاں تک عافیت ہی عافیت ہے۔ ہماری تاریخ میں اکابر کے درمیان کس کس مسئلے پر اختلاف نہیں ہوا؟ لیکن انہوں نے ایک دوسرے کو کافر، مرتد اور واجب القتل قرار نہیں دیا۔ ایک دوسرے کے ایمان کے ساقط ہوجانے کے بارے میں فتوے جاری نہیں کیے۔ یہ راہ ہمارے لیے بھی کھلی ہے اور سب کے لیے ہمیشہ کھلی رہے گی، لیکن اب مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ جو ہم میں سے نہیں وہ غلط ہے، اور چونکہ غلط ہے، اس لیے گویا اُسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ آخر یہ کیا مسئلہ ہے؟
دین کا مطالبہ یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی کو دین کے حوالے کردے تاکہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین کا اظہار اور اس کی توسیع بن جائے۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ دین ہماری اَنا، ہمارے امیج اور ہماری خواہشات کا اظہار اور ان کی توسیع کا بہت بڑا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔ گویا ہم نے صورتِ حال کو الٹ دیا ہے۔ ہمارے پُرتشدد خیالات، جذبات اور افعال کا بنیادی سبب یہی ہے، ہماری عدم برداشت اور عدم رواداری کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔
اَنا اور امیج کے مسائل بہت پیچیدہ مسائل ہیں اور انسانی نفسیات میں ان کی جڑیں بہت گہرائی تک اتری ہوئی ہوتی ہیں۔ دولت مند انسان کی دولت صرف اُس کا بینک بیلنس نہیں ہوتی بلکہ یہ اُس کے امیج کا بھی حصہ ہوتی ہے۔ کبھی وہ اس کی اَنا کی تسکین کا ذریعہ بنتی ہے اور کبھی امیج کی توسیع کے لیے بروئے کار آتی ہے۔ شہرت اور علم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ دولت کی طرح شہرت بھی بری چیز نہیں، لیکن جب شہرت انسان کے امیج کا حصہ بن جائے تو پھر وہ ایک خطرناک چیز بن جاتی ہے۔ پھر ایک انسان میں دو انسان وجود میں آجاتے ہیں، ایک حقیقی آدمی اور ایک وہ آدمی جو بہت مشہور ہو گیا ہے۔ اور عام تجربہ یہ ہے کہ مشہور آدمی اصل آدمی پر غالب آجاتا ہے، بلکہ اسے تقریباً مار ڈالتا ہے۔ علم سے بڑی دولت کیا ہوسکتی ہے؟ لیکن جو علم انسان کی اَنا کا آلہ کار بن جائے اور جو علم انسان کے امیج کا حصہ اور اس کی توسیع کا ذریعہ بن جائے، وہ علم انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ اکثر لوگ مذہب کو بھی اپنی اَنا کی توسیع کا ذریعہ اور اپنے امیج کا حصہ بنا لیتے ہیں… کیسے؟
بعض لوگوں کے لیے مذہب معاشرے میں دوسروں سے بہتر اور برتر بننے کا آسان ترین ذریعہ اور طریقہ ثابت ہوتا ہے۔ دولت کمانا دشوار نہ سہی، لیکن آسان بھی نہیں۔ چنانچہ انسان کو دولت مند بننے کے لیے خاصی جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور اس میں بڑا وقت صرف ہوتا ہے، تب کہیں جاکر وہ دولت کی بنیاد پر دوسرے بہت سے لوگوں سے بہتر اور برتر بن پاتا ہے۔ شہرت بھی ہر ایک کو آسانی سے نہیں مل جاتی۔ علم کی راہ تو اور بھی دشوار ہے۔ انسان ایک عمر بسر کرتا ہے تب کہیں علم اپنی ایک آدھ جھلک دکھاتا ہے۔ لیکن مذہب کا معاملہ یہ ہے کہ چونکہ ہم نے اسے ظاہری وضع قطع اور ایسے ہی دیگر امور تک محدود کرلیا ہے، اس لیے مذہبی انسان بن جانا بہت آسان ہوگیا ہے۔ اقبال نے کہا ہے ؎
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کو کافی سمجھتے ہیں، شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنے کا کام ہم کسی اور کے سپرد تصور کرلیتے ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ بہتر اور برتر انسان یہاں مابعد الطبیعاتی اور اخلاقی معنوں میں بہتر اور برتر انسان نہیں، بلکہ اس سے مراد نفسیاتی اور سماجی طور پر خود کو دوسروں سے بہتر اور برتر سمجھنا ہے۔ تو کیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس مذہبیت کی ہم بات کررہے ہیں، وہ نفسیاتی اور سماجی نوعیت کی حامل ہے، یا یہ کہ اس کی جڑیں مذہب کے بجائے نفسیات اور سماجیات میں پیوست ہیں؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کوئی نہیں کرتا۔ ہر شخص کا دعویٰ یہی ہے کہ وہ مذہب کی بنیاد پر، مذہب کے بارے میں، مذہبی اصطلاحوں میں کلام کررہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذہبی اصطلاحیں تو محض پردہ ہیں۔ پردے کے پیچھے کچھ اور ہی ہے… کیا؟ ہماری اَنا، ہمارا امیج، ہماری نفسیات، ہماری سماجیات، ہماری خواہشیں، ہمارے جذبات۔ تو کیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب ہماری نفسیات اور ہماری سماجیات بدل جائیں گی تو پھر ہماری مذہبیت بھی تبدیلی سے ہمکنار ہوگی؟ غالباً ایسا ہی ہوگا۔ تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ مذہب اور مذہبیت سماجیات اور نفسیات پر منحصر ہوتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ مذہب اور مذہبیت، نفسیات اور سماجیات پر منحصر نہیں ہوتے، لیکن کچھ لوگوں کا مذہب اور ان کی مذہبیت، سماجیات اور نفسیات پر منحصر ہوتے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔
اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ بعض لوگوں کی مذہبیت کی جڑیں ان کی نفسیات، ان کی سماجیات اور ان کے امیج میں پیوست ہوتی ہیں یا ہوسکتی ہیں تو پھر اس بات کی وضاحت ازخود ہوجاتی ہے کہ ایک انسان مذہبی ہونے کے باوجود پُرتشدد خیالات و جذبات کا حامل کیوں ہوتا ہے، یا کیوں ہوسکتا ہے؟ سماجیات اور نفسیات کا تعلق بہرحال مسائل و مفادات سے ہوتا ہے، خواہ مسائل و مفادات کی نوعیت ذاتی ہو یا اجتماعی۔ ظاہر ہے کہ جہاں مفادات ہوں گے، وہاں مفادات کا ٹکرائو ہوگا۔ جہاں مفادات کا ٹکرائو ہوگا، وہاں افراط و تفریط ہوگی۔ جہاں افراط و تفریط ہوگی، وہاں حدود سے تجاوز ہوگا، اور تجاوز کا ایک مفہوم ظلم ہے، اور مذہب اور ظلم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی ذی روح پر ظلم نہیں کرتا اور وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
مذہبی انسان بننا ایک بہترین بات ہے، لیکن بہرحال اس سوال کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی انسان مذہب کی طرف کیوں گیا ہے؟ ممکن ہے بعض لوگوں کے لیے یہ حقیقت تلخ ہو اور وہ اسے قبول نہ کرسکیں، لیکن اسے بیان کیے بغیر بھی چارہ نہیں۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگوں کے لیے مذہبیت اختیار کرنا انتخاب کا نہیں، مجبوری کا مسئلہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ کسی کی مجبوری کچھ ہے اور کسی کی کچھ اور ہے۔ مجبوری کی نوعیت کہیں نفسیاتی ہے، کہیں سماجی اور کہیں اقتصادی۔ ان باتوں کی ذرا سی وضاحت ضروری ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم ہوتا ہے کہ کسی شخص میں اپنے گناہوں، غلط کاریوں اور غلط روش کا احساس پیدا ہوجائے اور وہ توبہ کرکے اپنے ظاہر و باطن کو بدلنے کی کوشش کرے۔ لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے گناہوں اور غلط کاریوں کے شدید احساس سے اچانک پچک جاتے ہیں، جس سے ان کے شعور اور شخصیت میں ایک گہرا عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ اس صورتِ حال کے دو اہم اور نمایاں مظاہر سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے پہلے جیسے دنیا کو اوڑھا ہوا ہوتا ہے، اسی طرح مذہب کو بھی اوڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسرا مظہر یہ سامنے آتا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا بنانے پر تل جاتے ہیں۔ دراصل دوسروں کو بدلنا اصل مقصد نہیں ہوتا، بلکہ دوسروں کو بدلتے دیکھ کر وہ اپنی مذہبیت کے اثرات اور اس کے کھرے پن کا یقین حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک سماجی اور معاشی مجبوری کی بات ہے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے معاشرے کی مجموعی ساخت نے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے کہ وہ ایک ایسی زندگی اختیار کریں جسے عرفِ عام میں مذہبی زندگی کہا جاتا ہے۔ یہ کوئی اعتراض یا طنز نہیں، محض امرِ واقع کا بیان ہے۔ مجبوری کی ایمان داری کی طرح مجبوری کی مذہبیت بھی سطحی ہوتی ہے، اور وہ بھی مجبوری ہی کی اسیر ہوجاتی ہے۔ یہ کوئی کلیہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ مذہب کی جانب کسی مجبوری کے سبب جاتے ہیں لیکن وہ بالآخر مجبوری سے بلند ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ مگر ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔
مجبوری کی نفسیات ٹکڑوں میں بٹی ہوئی نفسیات ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ کوئی اتفاقی امر نہیں ہے کہ مختلف طبقے، فرقے اور افراد مذہب کے کسی ایک یا دو اجزا کو لے بیٹھے ہیں اور انہی کو پورا مذہب سمجھ رہے ہیں، یا یہ کہ وہ ان اجزا پر اتنا اصرار کررہے ہیں جس سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ جیسے سارا مذہب انہی اجزا میں منحصر ہے۔ طبقوں، فرقوں اور مسائل کی بات تو رہنے دیجیے، یہاں تو یہ صورتِ حال پیدا ہوچکی ہے کہ اگر کوئی نماز پڑھتا ہے، یا یہ کہ اُسے نماز پڑھنے کی عادت پڑگئی ہے اور اس میں اُسے آسانی ہونے لگی ہے تو وہ اپنے اس فعل کو پورا دین سمجھتا اور باور کراتا ہے۔ کچھ لوگ ہیں جنہیں غریبوں اور مجبوروں کی مدد میں آسانی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ سارا اسلام بس یہی ہے۔ کچھ عرصہ گزرا ہے ایک اداکارہ نے فرمایا تھاکہ روزہ افطار کرانا روزہ رکھنے سے بہتر ہے۔ غالباً یہ انتہا نہیں ہے، بات اس سے آگے جاسکتی ہے۔ یہ صورتِ حال اس امر کی غماز ہے کہ دین کی کلیّت کا تصور بہت سے لوگوں کے ذہن سے محو ہوگیا ہے، اور انہوں نے اپنے مزاج، پسند اور سہولت کے مطابق اسلام کا اپنا اپنا تصور گھڑلیا ہے۔
بعض لوگ اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ایک طبقہ یا فرقہ چند سال پہلے سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے ہزاروں افراد کی حمایت حاصل ہوگئی۔ وہ اس صورتِ حال کو طبقے کی حکمتِ عملی کی کامیابی سمجھتے ہیں، لیکن یہ صورتِ حال کسی خاص حکمتِ عملی کی کامیابی کا نتیجہ نہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ معاشرے کی موجودہ نفسیاتی فضا میں اسلام کے ہر اُس تصور کی کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں جو ایک یا چند اجزا پر منحصر ہو، یا ان پر اصرار کرتا ہو۔ ایسا ہر تصور لوگوں کو اپنے دل کی آواز محسوس ہوتا ہے، کیوں کہ ان کی داخلی صورتِ حال بھی ایسی ہی ہے۔ پھر یہ ہے کہ ایسے تصورات پر عمل درآمد میں آسانی بھی بہت ہے۔
انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ایک صاحب کا قصہ ہے کہ وہ دنیا کے خلاف تقریر کررہے تھے۔ کسی بزرگ نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ صاحب! ایسی بھی کیا دنیا کی مخالفت کہ انسان کو دنیا کے سوا کچھ نظر ہی نہ آئے! دنیا انسان کے اندر رچ بس جائے تو وہ کبھی کبھی اپنی مخالفت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ ہماری مذہبیت کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ جتنا مذہب مذہب کرتے ہیں وہ اتنا ہی مذہب کی روح سے دور ہوتے ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر ہمارے مذہبی طبقے کے ایک بڑے حصے کا احساس یہ ہے کہ اُس نے دین کی محبت میں دنیا ترک کردی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ترک تو وہی کرتا ہے جس کے پاس کچھ ہو… جس کے پاس کچھ نہ ہو، اس کا ترک کیا اور اختیارکیا؟
انسان کو بدلنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے، خاص طور پر ایسے انسان کو جس کا اپنے بارے میں یہ خیال ہوکہ وہ حقیقی معنوں میں ایک مذہبی انسان ہے، لیکن درحقیقت وہ مذہبی انسان نہ ہو۔ مذہب کے تصور کے زیراثر اُسے یہ احساس مشکل ہی سے ہوتا ہے کہ وہ بھی غلط ہوسکتا ہے، اس کی طرزِعمل میں بھی خرابی ہوسکتی ہے، اس کی رائے بھی خام ہوسکتی ہے، اس کا استدلال بھی غلط ہوسکتا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو جس چیز کو مذہب کا حکم کہہ رہا ہے، عین ممکن ہے وہ اس کی اپنی رائے ہو، اس کے فرقے یا اس کے طبقے کی رائے ہو۔