کراچی کے ’’امتیازات اور فضیلتیں‘‘ بے شمار ہیں۔ کراچی شہر ِقائد ہے۔ کراچی ملک کا سابق دارالحکومت ہے۔ کراچی دنیا کے دس بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ کراچی منی پاکستان ہے۔ کراچی منی عالمِ اسلام ہے۔ کراچی ملک کی شہری آبادی کا 20 فیصد ہے۔ کراچی ملک کی مجموعی آبادی کا 10 فیصد ہے۔ کراچی ملک کے محصولات کا 70 فیصد فراہم کرتا ہے۔کراچی میں ملک کی 60 فیصد صنعتیں موجود ہیں۔ کراچی ملک کا سب سے تعلیم یافتہ شہر ہے۔ کراچی سندھ کا سیاسی مرکز ہے۔کراچی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے۔ کراچی ملک کی واحد بندرگاہ ہے۔ کراچی دنیاکے ڈیڑھ سو ملکوں سے بڑا ہے۔
کراچی سب کا ہے لیکن کراچی کا کوئی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کراچی 30 سال بدامنی کا شکار رہا۔ کراچی پر بھتہ خوروں کی گرفت رہی۔ کراچی گاڑیاں ‘ موٹر سائیکلیں اور موبائل فون چھینے والوں کی مٹھی میں رہا۔ کراچی اہدافی قاتلوں کی جنت رہا۔ کراچی ایم کیو ایم کی پُرتشدد ہڑتالوں کی آماجگاہ تھا۔ کراچی کے شہریوں کے لیے شہر کی ہر گلی دشمن کی گلی تھی۔ کراچی کے شہری صبح گھر سے نکلتے ہیں تو انہیں یقین نہیں ہوتا کہ شام ڈھلے وہ خیریت سے گھر کو لوٹیں گے۔ کراچی میں کوئی گھر ایسا نہیں جس کا کوئی شخص ہلاک نہ ہوا ہو۔ ہلاک نہیں ہوا ہوگا تو زخمی ہوا ہوگا۔ زخمی نہیں ہوا ہوگا تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں پریشان ہوا ہوگا۔ یہ بھی نہیں تو اس سے گاڑی یا موبائل فون ضرور چھن گیا ہوگا۔ دنیا میں بہت سے ایسے شہر ہیں جو شام ڈھلے غیر محفوظ ہوجاتے ہیں مگر کراچی دن دہاڑے بھی غیر محفوظ ہوتا تھا۔ موبائل چھیننے والے شہر کے ٹریفک سگنلز پر دن دہاڑے وارداتیں کرتے تھے اور ان کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ ایک وقت تھا کہ کراچی حالات کی خرابی کی وجہ سے ایک حادثہ محسوس ہوتا تھا، مگر حادثہ ،حادثہ نہ رہا سانحہ بن گیا۔ لیکن بات سانحے پر بھی ختم نہ ہوئی، کراچی میں زندگی کو اتنا دشوار بنادیا گیا ہے کہ شہر کے منظرنامے میں المیہ طلوع ہوتا نظر آتا ہے۔ اس المیے کے کئی ذمے دار ہیں۔ سول حکمران‘ فوجی حکمران‘ فوج‘ رینجرز‘ پولیس‘ ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، نواز لیگ۔ لیکن اس دعوے کی دلیل کیا ہے؟
کراچی 1980ء کی دہائی سے پہلے ایک پُرامن شہر تھا۔ شہر کے بہت سے مسائل تھے مگر کراچی قاتلوں اور مقتولوں کا شہر نہیں تھا۔ اس پر بھتہ خوروں اور اہدافی قاتلوں کا راج نہیں تھا۔ ان حالات میں جنرل ضیاء الحق کو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی اور کراچی میں جماعت اسلامی کو دیوار سے لگائیں۔ چنانچہ انہوں نے مہاجر پٹھان فسادات کی فضا میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو آگے بڑھایا۔ یہ کراچی کی جنت کو جہنم میں تبدیل کرنے کا عمل تھا۔
بلاشبہ الطاف حسین جنرل ضیاء الحق کی آمد سے پہلے بھی مہاجروں کی سیاست کررہے تھے لیکن اس سیاست کا کوئی مستقبل نہ تھا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے سیاسی مفادات نے ایم کیو ایم کی تخلیق اور اس کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا۔ بعض لوگ اس بات کو افسانہ سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی تخلیق جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ ہوئی۔ حالاں کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں ایم کیو ایم کی تخلیق کی ذمے داری قبول کرچکے ہیں۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ ایم کیو ایم کی مقبولیت میں کراچی میں ہونے والے مہاجر پٹھان فسادات نے مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ فسادات اس اعتبار سے ناقابل فہم تھے کہ شہری سندھ میں مہاجروں اور پٹھانوں کے مفادات کے ٹکراؤ کی کوئی صورت موجود نہ تھی۔ پٹھان کراچی میں ٹرانسپورٹ کے کاروبار پر چھائے ہوئے تھے اور اس شعبے میں مہاجروں کی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر تھی۔ پٹھان کراچی میں محنت مزدوری کررہے تھے اور اس دائرے میں بھی مہاجروں کو پٹھانوں کے ساتھ مقابلہ درپیش نہیں تھا۔ لیکن پٹھان مہاجر فسادات نے ایم کیو ایم کو راتوں رات مہاجروں کا ’’محافظ‘‘ اور ان کے مفادات کی علامت بنادیا۔
یہ کراچی کی جنت کو جہنم میں تبدیل کرنے کا عمل تھا۔ ایم کیو ایم مہاجروں کی جماعت تھی اور مہاجروں کا تشخص تہذیب‘ شائستگی‘ علم اور محنت سے وابستہ تھا، مگر ایم کیو ایم ان تمام تصورات کی ضد بن کر ابھری۔ اس نے تہذیب کی جگہ دہشت گردی اور اسلحہ کے استعمال کو عام کیا۔ شائستگی کی جگہ بدزبانی کو فروغ دیا۔ علم کی جگہ اس نے جہالت اور نقل کو لاکھڑا کیا اور محنت کو ہٹاکر اس نے بھتہ خوری کو پروان چڑھایا۔
ایم کیو ایم اگر صرف سیاسی قوت ہوتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ایم کیو ایم میں پہلے دن سے دہشت گردی اور بھتا خوری کے عناصر موجود تھے۔ چناں چہ اس نے کراچی کو سیاسی طور پر فتح کرنے سے زیادہ کراچی کو اغوا کے تجربے سے دوچار کردیا۔ کراچی کا یہ اغوا اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ شہر میں ایم کیو ایم کی طاقت کو اسٹیبلشمنٹ نے اس حد تک بڑھا دیا کہ نواز لیگ کے وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں انکشاف کیا کہ جب وہ کراچی میں رینجرز کے سربراہ کی حیثیت سے نائن زیرو جایا کرتے تھے تو ایم کیو ایم کے کارکنان ان کی بھی تلاشی لیا کرتے تھے۔ یہ ایم کیو ایم کو سر پر بٹھانے کی انتہا تھی اور اس میں ایم کیو ایم کے لیے پیغام تھا کہ اسے شہر میں کسی کے ساتھ کچھ بھی کرنے کی اجازت ہے۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے کراچی میں تیس سال کے دوران 92ہزار لاشیں گرائیں۔ اربوں روپے کا بھتا وصول کیا، سیکڑوں پُرتشدد ہڑتالیں کرائیں، لیکن اس کے باوجود ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کے سائے سے محروم نہ ہوئی۔
جنرل ضیاء الحق کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم ان کی تخلیق ہے اور وہ ان کے قابو میں رہے گی۔ لیکن سیاسی قوت بنتے ہی ایم کیو ایم نے پر پرزے نکالنے شروع کردیے۔ چنانچہ ضیاء الحق نے جنرل رحیم کو کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا کام سونپا، تاہم جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے نے اس آپریشن کو بروئے کار نہ آنے دیا۔
پھرایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی تعلقات میں باقاعدہ دراڑ میجر کلیم کے اغوا اور ان پر تشدد کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ جب اسٹیبلشمنٹ کو محسوس ہوا کہ ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں کررہی ہے تو پھر شہر میں ایم کیو ایم کے خلاف دو آپریشنز کی نوبت آئی مگر آپریشنز کی نوعیت ایسی تھی کہ ان سے ایم کیو ایم کو نقصان کے بجائے اُلٹا فائدہ ہوا۔ مثال کے طور پر پہلے فوجی آپریشن میں بریگیڈیئر ہارون نے الزام لگایا کہ نائن زیرو سے جناح پور کا نقشہ برآمد ہوا ہے۔ اگلے ہی دن اعلیٰ ترین سطح سے نہ صرف یہ کہ اس بیان کی تردید کردی گئی بلکہ بریگیڈیئر ہارون کا بھی تبادلہ کردیا گیا۔ اس سے ایم کیو ایم کو یہ کہنے کا موقع فراہم ہوا کہ ان کے خلاف تعصب کی بنیاد پر آپریشن ہوا ہے اور اس کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں۔ اس واقعے نے فوجی آپریشن کے تاثر کو مجروح کرکے رکھ دیا۔
ایم کیو ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو الطاف حسین سے اصل شکایت یہ نہیں ہے کہ انہوں نے ہزاروں لوگوں کو کیوں قتل کرایا؟ شہر میں بھتا خوری کا کلچر کیوں پیدا کیا؟ بوری بند لاشوں کی وبا کو کیوں عام کیا؟ ڈاکے اور رہزنی کو کیوں فروغ دیا؟۔ اسٹیبلشمنٹ کی اصل شکایت یہ ہے کہ الطاف حسین اس کی گود چھوڑ کر ایم آئی سکس اور ’’را‘‘ کی گود میں کیوں جا بیٹھے؟ الطاف حسین اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھے رہتے اور کراچی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہتا تو اسٹیبلشمنٹ کو الطاف حسین پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔
ایم کیو ایم کے خلاف پہلے جودو آپریشن ہوئے اس میں آپریشن کرنے والوں کی نیت اور اہداف دونوں کو مشتبہ بنادیا۔ پہلے آپریشن سے قبل الطاف حسین پاکستان میں تھے لیکن آپریشن سے ذرا پہلے انہیں خوفزدہ کرکے ملک سے فرار کرادیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر جنرل آصف نواز واقعتا ایم کیو ایم کا زور توڑنا چاہتے تھے تو انہوں نے الطاف حسین کو ملک سے کیوں فرار ہونے دیا؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ الطاف حسین ملک سے فرار ہوئے تو ملک کا ایک خفیہ ادارہ اُن کے تعاقب میں تھا اور دوسرا خفیہ ادارہ انہیں ملک سے فرار ہونے کے لیے اپنے سائے میں لیے ہوئے تھا۔ جنرل(ر) نصیراللہ بابر کے فوجی آپریشن کا نقصان یہ تھا کہ وہ طاقت کا مقابلہ صرف طاقت سے کررہے تھے اور ان کے آپریشن کی کوئی سیاسی جہت نہ تھی۔ چنانچہ ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے اس آپریشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایم کیو ایم ظالم سے مظلوم بن گئی۔
پھرایک دور وہ بھی آیا کہ ملک کی تمام بڑی اور اہم جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ وہ اگر اقتدار میں آئیں گی تو ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ شریکِ اقتدار نہیں کریں گی۔ لیکن پیپلزپارٹی نے اقتدار میں آتے ہی ایم کیو ایم کو صوبے کے اقتدار میں شریک کرلیا۔ کراچی اور ایم کیو ایم کے سلسلے میں میاں نوازشریف کی فکر اور کردار کو دیکھنا ہو تو اُن کے دو اس دور کے بیانات کو پڑھ لینا کافی ہے ۔ روزنامہ جسارت 31 جنوری 2015ء کے روز شائع ہونے والے ایک بیان میں میاں نوازشریف نے فرمایا تھا کہ متحدہ اور پیپلزپارٹی کا اتحاد ہوجائے تو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ختم ہوسکتی ہے۔ میاں صاحب نے کہا تھا کہ کراچی میں امن و امان کی بہتر ہوتی ہوئی صورت حال کا کریڈٹ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو جاتا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کے قتل کا نوٹس لیا ۔ میاں صاحب نے کراچی کے حوالے سے صرف اتنا کہنے پر اکتفا نہیں کیا۔ روزنامہ جسارت کی خبر کے مطابق انہوں نے یکم فروری 2015ء کو فرمایا تھا کہ آرمی چیف کے ساتھ جاکر جلد ہی کراچی سے دہشت گردوں کا خاتمہ کردوں گا۔ میاں صاحب کے ان بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ملک کے اہم ترین افراد کراچی اور اہلِ کراچی کے ساتھ سنگین مذاق کررہے تھے ۔ مثلاً میاں صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا اتحاد ہوجائے تو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ رک سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شریک تھی تو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کیوں ہورہی تھی؟ اس سلسلے میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا ایک سبب ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا عدم اتحاد ہے تو فریقین میں سے کون ٹارگٹ کلنگ کرا رہا تھا؟ آخر میاں نوازشریف اس سلسلے میں اصل ذمے دار کا نام کیوں نہیں لیتے؟ عجیب بات یہ ہے کہ ایک جانب تو میاں صاحب کہہ رہے تھے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی میں اتحاد کرا دیا جائے، اور دوسری جانب وہ کہہ رہے تھے کہ کراچی میں حالات بہتر ہورہے ہیں اور حالات کی بہتری کا سہرا سندھ کے وزیراعلیٰ کے سر ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے کوئی ایک بات ہی درست ہوسکتی تھی ۔ یا تو کراچی کے حالات بہتر ہوگئے تھے اور ٹارگٹ کلنگ رک گئی تھی یا پھر ٹارگٹ کلنگ جاری ہے اور حالات بہتر نہیں ہوسکے ۔اس وقت میاں صاحب نے قوم کو یہ مژدہ بھی سنایا تھا کہ شہر کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کے قتل کا نوٹس لے لیا ہے۔ میاں صاحب نے ایسا کیا تو بڑا اچھا کیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کراچی میں جب جماعت اسلامی‘ پیپلزپارٹی‘ اے این پی‘ ایم کیو ایم حقیقی اور سنی تحریک کے کارکن مارے جاتے ہیں تو میاں نوازشریف ان کا نوٹس کیوں نہیں لیتےتھے ؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنان انسان ہیں اور دوسری جماعتوں کے کارکنان انسان نہیں تھے ؟ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کا قتل‘ قتل اور باقی جماعتوں کے کارکنوں کا قتل‘ قتل نہیں ؟ میاں صاحب کا یہ بیان بھی خوب ہے کہ میں آرمی چیف کے ساتھ جاکر کراچی سے دہشت گردوں کا خاتمہ کردوں گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسئلہ اتنا ہی آسان تھا تو میاں صاحب پہلی فرصت میں آرمی چیف کے ساتھ کراچی کیوں تشریف نہیں لے گئے ؟ یہاں سوال تو یہ بھی بنتا تھا کہ جب ایم کیو ایم کراچی میں پورے انتخابی عمل کو اغوا کرتی ہے اور جب کراچی میں ذرا ذرا سی بات پر پُرتشدد ہڑتال کراتی ہے تو ملک کے سیاسی اور فوجی حکمران اس کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑتے تھے ؟ کیا ایم کیو ایم جب انتخابی عمل کو اغوا کرتی تھی اور کراچی میں (باقی صفحہ نمبر ؟؟)
پُرتشدد ہڑتال کراتی تھی تو اُس وقت وزیراعظم‘ آرمی چیف اور ملک کے خفیہ ادارے ملک سے باہر ہوتے تھے ؟ یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم 30 سال سے کراچی میں جو کچھ کررہی تھی اس کا عشر عشیر بھی کسی اور نے کیا ہوتا تو کیا ہوتا؟
لوگ کہہ رہے ہیں کہ الطاف حسین کی…… ملک دشمن تقریر کے بعد سب کچھ بدل چکا ہے، لیکن اس ’’بدلے ہوئے منظر‘‘ میں بہت کچھ پہلے جیسا ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو الگ کردیا ہے۔ حالاں کہ ایم کیو ایم کا ایک ایک رہنما، ایک ایک سیکٹر انچارج، ایک ایک یونٹ کا نگراں اور ایک ایک متحرک کارکن الطاف حسین کے جرم میں برابر کا شریک ہے۔ چناں چہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی ’’دوئی‘‘ تخلیق کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں۔ اگر ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفی کمال، وسیم اختر اور انیس قائم خانی بھی ’’معصومین‘‘ میں شامل ہیں تو پھر پاکستان میں کوئی شخص جرائم پیشہ نہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ ان لوگوں کو ’’اصلاح‘‘ کا موقع فراہم کررہی ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تمام جیلوں میں قید مجرموں کو بھی ’’اصلاح‘‘ کا موقع ملنا چاہیے۔
حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا تھا جو شخص تلوار کے سہارے زندہ رہے گا وہ تلوار ہی سے مارا جائے گا۔ اس اصول کا اطلاق ایم کیو ایم پر بھی ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں پروان چڑھی اور اسی کے ہاتھوں ماری گئی۔ اس وقت بھی ایم کیو ایم کے جتنے دھڑے ہیں وہ سب کے سب اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔