عربی کا مقولہ ہے کہ ’’عوام حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں‘‘۔ اور یہ بات سو فیصد سے زیادہ درست ہے۔ انسانی تاریخ میں عوام ہمیشہ طاقت پرست پائے گئے ہیں۔ بلکہ عوام کیا، خواص، یہاں تک کہ خواص الخواص کو بھی اسی مرض میں مبتلا دیکھا گیا ہے۔ ابنِ کثیر نے کہیں مؤرخین کے حوالے سے لکھا ہے کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کو تعمیرات کا شوق تھا، چنانچہ عوام و خواص کا رجحان بھی تعمیرات کی طرف ہوگیا تھا۔ وہ جب ایک دوسرے سے ملتے تو تعمیرات پر ہی گفتگو ہوتی۔ سلیمان بن عبدالملک کو شادیوں کا شوق تھا، چنانچہ لوگ ملتے تو شادیوں ہی کا تذکرہ کرتے۔ پھر جب خلیفۂ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا وقت آیا تو آپ کو چونکہ تلاوتِ قرآن اور عبادت کا بہت شوق تھا اس لیے لوگ ایک دوسرے سے ملتے تو پوچھتے کہ تمہارے اوراد و وظائف کا کیا حال ہے، تم روز کتنا قرآن پڑھتے ہو، کل کتنے نفل پڑھے تھے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سردار الانبیاء اور خاتم النبیین تھے، مگر آپؐ پر ایمان لانے والوں کی کوئی ایک قسم نہیں ہے۔ آپؐ پر ایمان لانے والوں میں چار طرح کے انسان شامل ہیں۔ انسانوں کی ایک قسم وہ ہے جو آپؐ کے قرابت دار تھے، جو آپؐ کو براہِ راست جانتے تھے، جو آپؐ کے عزیز اور رشتے دار تھے، جیسے حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیا اور حضرت خدیجہؓ اور حضرت علیؓ فوراً آپؐ پر ایمان لے آئے۔ انسانوں کی دوسری قسم وہ ہے جو براہِ راست رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسلک نہیں تھے۔ ان افراد کے لیے قرآن ہدایت کا سرچشمہ بن گیا۔ حضرت عمرؓ اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے تھے مگر جب انہوں نے اپنی بہن کے گھر میں قرآن کی چند آیات سنیں تو آپؓ پر حق آشکار ہوگیا، آپؓ کو معلوم ہوگیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واقعتاً اللہ کے نبی ہیں۔ چنانچہ آپؓ اسی وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ یہ دونوں طرح کے انسان انسانوں کی بہترین قسم تھے۔ ان کے لیے حق ہی سب کچھ تھا۔ ان کی نفسیات پر طاقت کا کوئی اثر نہ تھا۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کی تیسری قسم وہ تھی جس نے آپؐ سے معجزہ طلب کیا اور کہا کہ اگر آپؐ معجزہ دکھائیں گے تو ہم ایمان لائیں گے، نہیں دکھائیں گے تو ایمان نہیں لائیں گے۔ یہ طاقت پرستی ہی کی ایک صورت تھی۔ معجزہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کا ایک مظہر ہے، اور انسانوں کی ایک قسم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طاقت اور قدرت کے اظہار کا مطالبہ کیا۔ ان لوگوں کی بھی دو قسمیں تھیں۔ ایک قسم اُن لوگوں کی تھی جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا، معجزہ دیکھا اور ایمان لائے۔ دوسری قسم اُن لوگوں کی تھی جنہوں نے معجزہ طلب کیا، معجزہ دیکھا اور کہا کہ یہ جادو ہے۔ اور یہ کہہ کر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ انسانوں کی چوتھی قسم وہ تھی جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 13 سال مکے میں تبلیغ کی۔ آپؐ کی پوری سیرت لوگوں کے سامنے تھی۔ اہلِِ مکہ آپؐ کو صادق اور امین کہتے تھے، مگر اس کے باوجود اہلِ مکہ کی عظیم اکثریت آپؐ پر ایمان نہ لائی۔ لیکن جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کرلیا اور آپؐ کو سیاسی غلبہ حاصل ہوگیا اور سب پر واضح ہوگیا کہ اب مکے کے حکمران رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے اور اب ہر طرف اسلام ہی کا سکہ چلے گا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں پہنچ گئی۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مسلمان ہونے لگے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی تھی جو حق کے طاقتور ہونے کے بعد اس سے منسلک ہوئی۔ حق کو سیاسی، عسکری اور معاشی غلبہ حاصل نہ ہوتا تو ہزاروں لوگ حق سے دور کھڑے رہتے۔
یہ حقیقت راز نہیں کہ اقتدار کی کشمکش میں حضرت امام حسینؓ حق پر تھے، اور یزید ہی گمراہ تھا۔ لیکن یزید کے ہاتھ میں سیاسی اقتدار تھا۔ چنانچہ کوفے کے لوگوں نے حضرت امام حسینؓ کو خط لکھ کر کوفہ بلایا اور کہا کہ ہم آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے، لیکن جب حکومت کا دبائوآیا تو اہلِ کوفہ اپنے وعدے سے پھر گئے۔ انہوںنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کا ساتھ چھوڑ دیا۔ انہوں نے اہلِ بیت کو تنہا چھوڑ دیا۔ وہ طاقت کے آگے جھک گئے۔ ایسا نہ ہوتا تو کربلا کا سانحہ نہ ہوتا۔ انسانوں کی عظیم اکثریت کا معاملہ یہی ہے کہ انہیں حق اور طاقت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ حق کے بجائے طاقت کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ حق کے لیے جان کی بازی لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
ہندوستان میں بدھ ازم کی تاریخ عجیب ہے۔ بدھ ازم برہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت کا نام تھا، چنانچہ برہمنوں نے بدھ ازم کو ہندو ازم کے بڑے مراکز میں قدم نہ جمانے دیا۔ انہوں نے بدھ ازم کے پیروکاروں کو ہندوستان کے مضافات میں دھکیل دیا۔ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے گوتم بدھ کو اوتار تو مانا مگرانہیں ’’ملیچھ اوتار‘‘ یا ناپاک اوتار کہا ،کیونکہ گوتم بدھ برہمن نہیں تھے بلکہ شاید شتریہ بھی نہیں تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ برہمنوں نے بدھ ازم کو ہندوستان کے قلب میں قدم جمانے کا موقع نہ دیا، چنانچہ طویل عرصے تک بدھ ازم کے پیروکاروں کی تعداد چند ہزار پر مشتمل تھی۔ لیکن پھر ایک معجزہ ہوگیا۔ اشوک ہندوستان کا ایک بڑا حکمران تھا۔ وہ ہندو تھا، مگر میدانِ جنگ کی قتل و غارت گری اور خوں ریزی دیکھ کر اس کا دل بدل گیا اور اس نے بدھ ازم اختیار کرلیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ بدھ ازم میں انسانوں کو قتل کرنا بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اشوک کے بدھ ازم قبول کرنے کے بعد عوام میں بدھ ازم تیزی کے ساتھ پھیلا اور بدھسٹوں کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں ہوگئی۔ اشوک بدھ ازم قبول نہ کرتا تو بدھ ازم شاید کبھی بڑا مذہب بن کر نہ ابھرتا۔
عیسائیت کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ عیسائیت کے اوّلین پیروکار اتنے کمزور تھے کہ وہ نہ حضرت عیسیٰؑ کی حفاظت کرسکے، نہ انجیل کی حفاظت کو یقینی بنا سکے، یہاں تک کہ وہ انجیل کو اس کی اصل زبان میں بھی محفوظ نہ رکھ سکے۔ مگر پھر یہ ہوا کہ رومن سلطنت کے حکمرانوں نے عیسائیت قبول کرلی۔ اس کے بعد عیسائیت ایک بڑا اور طاقت ور مذہب بن کر ابھری۔ اس کے مزاج کی مقامیت کمزور پڑی اور اس میں بین الاقوامیت داخل ہوئی۔
خود اسلام کے مذاہب کی تاریخ بڑی حد تک یہ ہے کہ جہاں کے حکمرانوں نے فقہ حنفی قبول کیا وہاں ’’حنفیت‘‘ پھیل گئی۔ جہاں کے حکمرانوں نے شافعیت کو اختیار کیا وہاں ’’شافعیت‘‘ کا غلبہ ہوگیا۔ جہاں کے حکمرانوں نے امام مالک کو رہنما تسلیم وہاں ’’مالکیت‘‘ کا دور دورہ ہوگیا۔ جہاں کے حکمرانوں نے امام حنبل کو امام مانا وہاں کے لوگوں نے ’’حنبلیت‘‘ کو سینے سے لگا لیا۔
اسی سلسلے میں عہدِ حاضر کی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈال لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ روس ایک عیسائی ملک تھا، لیکن چونکہ 1917ء میں وہاں کمیونسٹ انقلاب آگیا اور اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آگیا جو خدا اور مذہب کے دشمن تھے، اس لیے عوام کی عظیم اکثریت تیزی کے ساتھ کمیونسٹ ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ ایک وقت وہ آیا جب روس میں خدا اور حضرت عیسیٰؑ کا نام لینے والا کوئی نہ رہا۔ روس میں انجیل نایاب ہوگئی اور کلیسائوں پر تالے پڑ گئے۔ چین کی مذہبی روایت تائوازم اور کنفیوشزم پر کھڑی تھی۔ تائوازم چینی مذہب کی ’’طریقت‘‘ تھی، اور کنفیوشرم چینی مذہب کی ’’شریعت‘‘ تھی، لیکن مائو کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد چین کے عوام اور خواص کی عظیم اکثریت نے تائوازم اور کنفیوشرم دونوں سے توبہ کرلی اور پورا چین بے خدا اور لامذہب ہوگیا۔ روس میں تو کمیونزم کے زوال کے بعد عیسائیت بحال ہوگئی ہے، مگر چین میں چونکہ ابھی تک حکمران کمیونسٹ ہیں، سیاسی اقتدار کمیونسٹ ہے، اس لیے عوام بھی ابھی تک کمیونسٹ ہیں۔
ترکی سلطنتِ عثمانیہ کا مرکز تھا۔ اس کی مذہبیت بڑی قوی تھی۔ مگر سلطنتِ عثمانیہ زوال پذیر ہوگئی اور کمال اتاترک نئے ترکی کا حکمران بن کر ابھرا۔ کمال اتاترک سیکولر تھا، اس نے قرآن کی تعلیم و تدریس پر پابندی لگادی۔ عربی میں اذان ممنوع قرار پائی۔ کمال اتاترک نے ترکی کا عربی رسم الخط ختم کردیا اور روسی رسم الخط کو اختیار کرلیا۔ ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترکی کے لوگوں کی بڑی تعداد سیکولر ہوتی چلی گئی۔ ترکی کا آئین سیکولر ہے، ترکی کے ذرائع ابلاغ سیکولر ہیں، ترکی کی معیشت سود پر کھڑی ہے، ترکی میں شراب عام ہے، ترکی میں جسم فروشی قانونی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فضا میں رجب طیب ایردوان کا ظہور ہوا۔ طیب ایردوان راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ چنانچہ ان کے اقتدار میں آتے ہی عوام کی مذہیبت انگڑائیاں لے کر بیدار ہوگئی، ترکی کی مساجد میں رش بڑھ گیا، ترکی میں پردہ کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، ترکی میں ترکی کے مذہبی پس منظر کو نمایاں کرنے والے ڈرامے بننے لگے ہیں اور ترک اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
اس ضمن میں ایران کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ رضا شاہ پہلوی کا ایران سیکولر ایران تھا۔ ایران میں عریانی و فحاشی کا سیلاب آیا ہوا تھا، جسم فروشی عام تھی، تعلیمی اداروں تک میں شراب خانے موجود تھے۔ دین داری نایاب تھی۔ خواتین پردے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ حکمران سیکولر تھے تو ایران بھی سیکولر تھا۔ حکمران مغرب زدہ تھے تو ایران بھی مغرب زدہ تھا۔ مگر پھر 1979ء میں ایران کے اندر اسلامی انقلاب آگیا۔ انقلاب کے قائد خمینی صاحب تھے۔ وہ آیت اللہ تھے۔ ان کے لیے مذہب ہی سب کچھ تھا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ایران مذہبی ہوگیا۔ مساجد اور مدارس آباد ہوگئے، مردوں نے داڑھیاں رکھنی شروع کردیں، عورتوں نے سخت پردے کو اختیار کرلیا۔ ایران کو مذہبی حکمران فراہم ہوگئے تو ایران سیکولر سے مذہبی ہوگیا۔
پاکستان میں بھٹو صاحب کا نعرہ تھا ’’اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘۔ مگر بھٹو صاحب کی شخصیت اور اقدامات کا مجموعی تاثر یہ تھا کہ وہ ایک سیکولر انسان ہیں، چنانچہ معاشرے کی تمام سیکولر قوتیں ان کے ساتھ تھیں۔ ذرائع ابلاغ میں عریانی اور فحاشی کا سیلاب آیا ہوا تھا، شراب عام تھی، جوئے کا بازار گرم تھا۔ بھٹو صاحب اینٹی انڈیا تھے، چنانچہ عوام میں بھی بھارت کے خلاف سخت جذبات پائے جاتے تھے۔ بھٹو صاحب نے شلوار قمیص اختیار کی، تو شلوار قمیص کی توقیر بڑھ گئی اور اسے اعلیٰ طبقات کے لوگ بھی زیب تن کرنے لگے۔ بھٹو صاحب نے کہا تھا: ہم گھاس کھائیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔ عوام کی اکثریت بھی ایٹم بم کے لیے گھاس کھانے پر تیار تھی۔
جنرل ضیا الحق فوجی آمر تھے مگر وہ ایک مذہبی انسان تھے۔ چنانچہ ان کے دور میں ہر طرف اسلام کا بول بالا ہوا۔ ان کے دور میں نماز، روزے کا رجحان بڑھا، پردہ کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ بہت سے ترقی پسند شعرا کو ان کے دور میں نعت کہتے ہوئے پایا گیا۔ ذرائع ابلاغ میں اسلام کا ذکر بڑھا اور عریانی و فحاشی کا بازار مندی کا شکار ہوا۔ جہادِ افغانستان میں پاکستان کے کردار کی وجہ سے معاشرے میں جہادی روح بیدار ہوئی اور پاکستان کے ہزاروں نوجوانوں نے افغانستان میں جاکر شوقِ جہاد کو پورا کیا۔ جنرل ضیا الحق کے اثر سے کشمیر کی مزاحمتی تحریک کا رنگ مذہبی ہوتا چلا گیا۔
پاکستان کے مہاجروں کی اجتماعی شخصیت مذہبی تھی۔ مہاجر تہذیب کا استعارہ تھے، شعور کی علامت تھے، علم کے امین تھے۔ مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی طاقت نے انہیں دیکھتے ہی دیکھتے اپنے اصل تشخص سے دور کردیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے زیراثر کراچی دہشت گردی، بھتہ خوری، بوری بند لاشوں، پُرتشدد ہڑتالوں اور سیکولر طرزِ فکر کی علامت بن کر ابھرا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا سحر ٹوٹا ہے تو کراچی ایک بار پھر اپنی اصل سے رجوع کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔